اگست کا مہینہ پاکستان کی تاریخ میں نہایت اہمیت کا حامل ہے کہ یہ وطن عزیز کی صبح آزادی کا گواہ اور شاہد ہے جب برصغیر کے مسلمانوں نے اپنے عظیم رہنما و قائد محمد علی جناح کی قیادت میں انگریزوں کی غلامی سے آزادی حاصل کرنے اور ہندوؤں کے متعصبانہ نظریے اور دوغلے رویوں سے نجات کی خاطر اپنی جان مال، عزت و آبرو کو قربان کرکے ایک آزاد وطن حاصل کیا۔
پاکستان کے قیام کا ایک ہی نعرہ گونجا تھا ’’پاکستان کا مطلب کیا لاالہ الا اللہ‘‘ یعنی یہ وطن پاک اسلام کے نام پر قائم ہوا تھا۔ جہاں مسلمان ہندوؤں کے جبر و ستم سے آزاد ہو کر اپنے عقیدے اور دین اسلام کے مطابق زندگی بسر کر سکیں گے۔ نہ تعصب ہوگا، نہ لڑائی ہوگی، نہ غداری ہوگی، نہ بے ایمانی، نہ تفرقہ بازی، نہ فرقہ واریت، نہ صوبائی و لسانی تفریق اور نہ ہی دھوکا، فریب، چالبازیاں بھاری ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہوں گی بلکہ تمام اہل وطن کو آگے بڑھنے ترقی کرنے اور مستقبل کو تابناک بنانے کی مکمل آزادی ہوگی۔
ایک دوسرے کے حقوق کا خیال رکھا جائے گا، استحصالی نظام سے نجات اور سب کو قابلیت و صلاحیت کی بنیاد پر یکساں مواقع میسر آئیں گے۔ آئین و قانون کی بالادستی ہوگی، قائد اعظم نے واضح طور پر کہا تھا کہ ’’قیام پاکستان کے بعد مساوات اور انصاف پر مبنی معاشرے کا قیام عمل میں لایا جائے گا اور پاکستان میں تمام شہریوں کو بلاتفریق مذہب، ذات اور رنگ کے مساوی حقوق حاصل ہوں گے۔‘‘ قائد اعظم نے ہمیشہ قانون اور جمہوریت پر زور دیا اور اپنے خطابات میں بارہا واضح کیا کہ پاکستان ایک خالصتاً جمہوری ریاست ہوگی، جہاں قانون کی حکمرانی ہوگی اور کسی کو بھی قانون سے بالاتر نہیں سمجھا جائے گا۔ قائد اعظم برصغیر کے ایک سچے، قول کے پکے، بے باک اور اصول پسند رہنما تھے۔ برصغیر کے مسلمانوں کو ان کے ایک ایک قول پر کامل یقین اور ان کی قیادت پر مکمل بھروسہ تھا ۔
ایسے ہی حسین خواب اپنی آنکھوں میں سجا کر لہو لہان اور لٹے پٹے قافلوں نے پاکستان کی سرزمین پر قدم رکھا تھا کہ یہاں ان کے خوابوں کو تعبیر ملے گی۔
حنیف اسعدی نے کیا خوب کہا تھا کہ:
وفا کے خوگر وفا کریں گے، یہ طے ہوا تھا
وطن کی خاطر جئے مریں گے، یہ طے ہوا تھا
بوقت ہجرت قدم اٹھیں گے جو سوئے منزل
تو بیچ رستے میں دم نہ لیں گے، یہ طے ہوا تھا
چہار جانب بہار آئی ہوئی تھی لیکن
بہار کو اعتبار دیں گے، یہ طے ہوا تھا
تمام دیرینہ نسبتوں سے گریز کرکے
نئے وطن کو وطن کہیں گے، یہ طے ہوا تھا
خدا کے بندے خدا کی بستی بسانے والے
خدا کے احکام پر چلیں گے یہ طے ہوا تھا
بغیر تخصیص پست و بالا ہر اک مکاں میں
دیے مساوات کے جلیں گے، یہ طے ہوا تھا
کسی بھی الجھن میں رہبروں کی رضا سے پہلے
عوام سے اذنِ عام لیں گے، یہ طے ہوا تھا
تمام تر حل طلب مسائل کو حل کریں گے
جو طے نہیں ہے، وہ طے کریں گے، یہ طے ہوا تھا
ہمارے بزرگوں اور آبا و اجداد نے نئے آزاد وطن میں خوبصورت زندگی گزارنے کا خواب دیکھا تھا اس کی بنیاد علامہ اقبال نے رکھی تھی، جنھوں نے 29 دسمبر 1930 کو آل انڈیا مسلم لیگ منعقدہ الہ آ باد کے سالانہ جلسے میں خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’جہاں تک مسلمانوں کا تعلق ہے، مجھے یہ اعلان کرنے میں مطلق تامل نہیں کہ اگر فرقہ وارانہ امور کے ایک مستقل اور پائیدار تصفیے کے اس بنیادی اصول کو تسلیم کر لیا جائے کہ مسلمانان ہندوستان کو اپنی روایات و تمدن کے ماتحت اس ملک میں آزادانہ نشو و نما کا حق حاصل ہے تو وہ اپنے وطن کی آزادی کے لیے بڑی سے بڑی قربانی سے بھی دریغ نہیں کریں گے‘‘ اور عملاً ایسا ہی ہوا۔
دو دن بعد پوری قوم 78 واں جشن آزادی منا رہی ہے، یہ اپنے آبا و اجداد کی قربانیوں کو یاد کرنے کا دن ہے، اپنے رہنماؤں کی جدوجہد کو خراج تحسین پیش کرنے کا دن ہے، اپنے اعمال اور 78 سالہ کارگزاریوں کے اعادے کا دن ہے کہ کیا ہم نے واقعی آزادی کے حقیقی مقاصد اور ثمرات حاصل کر لیے ہیں؟ قائد اعظم کے بقول کیا اس ملک کا آئین قرآن و سنت کے مطابق بنایا گیا ہے؟ کیا ہمارے اکابرین، رہنما و قائدین نے اپنے دعوؤں کے مطابق قائد اعظم کے نظریات، اصولوں اور فرمودات کے مطابق وطن میں جمہوریت، آئین اور قانون کی حکمرانی قائم کی ہے؟ افسوس کہ ان سوالوں کا جواب نفی میں ہے، ہم آج بھی ذہنی غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں، ہمارے ارباب اختیار کے اعمال کا نتیجہ کہ ملک دولخت ہو گیا، جمہوریت تماشا اور آئین کھلونا بن گیا، آئین و قانون کی حکمرانی کا خواب ریزہ ریزہ ہو گیا، لیکن کسی کو ہوش نہ آیا، نہیں معلوم ہم کب جاگیں گے، جو طے ہوا تھا اس پر کب عمل کریں گے؟
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: یہ طے ہوا تھا کے مطابق قانون کی کریں گے تھا کہ کے ایک
پڑھیں:
دور ہوتی خوابوں کی سرزمین
امریکا جسے برسوں سے لوگ خوابوں کی سرزمین کہتے ہیں، اس سرزمین پر ایک نیا حکم جاری ہوا ہے، ایچ ون بی ویزا جو برسوں سے لاکھوں نوجوانوں کے خوابوں کی ڈور بنا ہوا تھا، اب ایک نئی شرط کے ساتھ مشروط کردیا گیا ہے۔ یہ کہا گیا ہے کہ ہر نئی درخواست کے ساتھ کمپنیوں کو ایک لاکھ ڈالر جمع کرانا ہوگا۔
بعد میں وضاحت آئی کہ یہ صرف نئی درخواستوں پر لاگو ہوگا مگر خبرکا صدمہ اتنا بڑا تھا کہ ہزاروں گھروں میں بیٹھے طلبہ ان کے والدین اور وہ ادارے جو اس ویزے پر انحصارکرتے ہیں، سب کو ایک لمحے کے لیے لگا جیسے مستقبل تاریک ہوگیا ہو، جیسے خواب ٹوٹ گئے ہوں۔
امریکا کی طاقت اس کی فوجی برتری یا اسلحہ خانوں میں نہیں بلکہ ان یونیورسٹیوں اور تحقیقی اداروں میں ہے جنھوں نے دنیا کے ذہین ترین دماغوں کو اپنی طرف کھینچا۔ ایک پاکستانی نوجوان، ایک بھارتی انجینئر، ایک ایرانی سائنسدان یا ایک افریقی ڈاکٹر یہ سب امریکا کی لیبارٹریوں اور کمپنیوں میں اپنے خوابوں کو حقیقت کا رنگ دیتے رہے۔ یہ ایک ایسی گردش تھی جسے دنیا نے برین ڈرین کہا اور امریکا نے اس ڈرین کو اپنی طاقت میں بدل لیا۔ مگر آج جب ٹرمپ جیسے حکمران امریکی نوکریاں صرف امریکیوں کے لیے کا نعرہ لگاتے ہیں تو یہ سوچنا بھول جاتے ہیں کہ ان نوکریوں کو پیدا کرنے والے دماغ کہاں سے آتے ہیں۔
یہ فیصلہ محض ایک ویزا پالیسی نہیں بلکہ ایک بڑا اور اہم سوال ہے۔ کیا امریکا اپنے گرد حصار اونچے کر کے خود کو محفوظ کر لے گا یا اپنی کھڑکیاں بند کر کے خود اپنا دم گھونٹ دے گا؟ جب عالمی طلبہ امریکا کا رُخ کم کریں گے، جب یونیورسٹیوں کی کلاسیں خالی ہونے لگیں گی اور جب ریسرچ پروجیکٹس فنڈنگ کے بوجھ تلے دبیں گے تو نقصان صرف ان نوجوانوں کو نہیں ہوگا، جو امریکا کا خواب دیکھتے ہیں بلکہ خود امریکا کے لیے یہ ایک پیچھے کی سمت کا سفر ہوگا۔
ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ امریکی یونیورسٹیاں صرف تعلیم کا مرکز نہیں بلکہ ایک بڑی صنعت بھی ہیں۔ نجی یونیورسٹیاں لاکھوں ڈالر کی فیسوں پر چلتی ہیں، اگر بین الاقوامی طلبہ کا رخ مڑ جائے اگر ان کے والدین یہ سوچنے لگیں کہ اتنی بھاری فیسیں دے کر بھی نوکری نہیں ملے گی تو ان اداروں کے مالی ڈھانچے لرزنے لگیں گے اور یہاں میرا دل یہ سوچ کر لرزتا ہے کہ جس طرح ہمارے ہاں کئی تعلیمی ادارے یا کارخانے وقت کے ساتھ ہاؤسنگ سوسائٹیز میں بدل گئے کہیں امریکا میں بھی ایسا نہ ہو۔ کہیں یہ علمی مراکز جو انسانیت کی سب سے بڑی کامیابی ہیں، سرمایہ دارانہ لالچ کے ہاتھوں صرف زمین اور کنکریٹ کی سوداگر منڈیوں میں نہ بدل جائیں۔
سرمایہ داری کا یہ جبر نیا نہیں، وہ ہر بحران کو موقع بنا لیتی ہے یہاں بھی یہی ہوگا، ایک طرف حکومت کہے گی کہ امریکیوں کے لیے نوکریاں بچا رہے ہیں اور دوسری طرف کارپوریٹ کمپنیاں نئے ماڈلز تلاش کریں گی۔ وہ اپنے منافع کو بچانے کے لیے نئی راہیں نکالیں گی، چاہے اس کے لیے ریسرچ کے منصوبے کاٹنے پڑیں یا سستی محنت والے ممالک میں پورے پورے شعبے منتقل کرنے پڑیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جس نوکری کے تحفظ کے نام پر یہ پالیسی لائی گئی ہے وہی نوکریاں دراصل غائب ہونا شروع ہو جائیں گی۔
ہماری دنیا کی خوبصورتی اس میں ہے کہ علم اور ہنر کی کوئی سرحد نہیں ہوتی۔ جب سرحدیں اونچی ہو جاتی ہیں تو علم کے دریا اپنا رُخ بدل لیتے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ آج کئی ممالک جو کبھی صرف امریکا کو دیکھتے تھے اب یورپ، کینیڈا یا ایشیائی مراکز کی طرف متوجہ ہیں۔ یہ وہ لمحہ ہے جب برین ڈرین کا رُخ پلٹ سکتا ہے۔ امریکا جس نے برسوں تک دنیا کے بہترین دماغوں کو اپنی طرف کھینچا وہ خود اپنے ہاتھوں سے ان کو واپس دھکیل سکتا ہے۔
پاکستان جیسے ملکوں کے لیے یہ صورتحال ایک دوہرا امتحان ہے۔ یہاں لاکھوں نوجوان دن رات یہ سوچتے ہیں کہ اگر امریکا کی کسی یونیورسٹی میں داخلہ مل جائے تو ان کی زندگی بدل جائے گی۔ وہ اپنے والدین کا سہارا بن سکیں گے ، اپنے سماج کو بہتر بنانے کے خواب دیکھ سکیں گے۔ مگر جب خبر آتی ہے کہ لاکھ ڈالرکی شرط لگا دی گئی ہے تو یہ خواب ایک لمحے میں چکناچور ہو جاتے ہیں۔ ان گھروں میں مایوسی اترتی ہے جہاں والدین نے زیور بیچ کر بچوں کی فیس جمع کی ہوتی ہے۔ ان گلیوں میں خاموشی پھیلتی ہے جہاں نوجوان اپنے سفری کاغذات کے انتظار میں بیٹھے ہوتے ہیں۔
یہ صرف امریکا کا امتحان نہیں بلکہ ہماری دنیا کے نوجوانوں کا بھی ہے۔ یہ نوجوان اپنی محنت اپنی ذہانت اور اپنے خوابوں کو بیچنے نہیں بلکہ بانٹنے کے لیے نکلتے ہیں۔ مگر جب ان کے راستے بند کردیے جائیں تو وہ مجبور ہو جاتے ہیں کہ اپنے ہی ملک میں رہ کر کسی اور راستے کی تلاش کریں۔
یہ وہ لمحہ ہے جب ہمیں اپنے اندر جھانک کر دیکھنا ہوگا ہم کب تک اپنے بہترین دماغوں کو اس امید پر پالیں گے کہ وہ ایک دن کسی اور ملک کے لیے روشنی بنیں گے؟ اور جب وہ راستہ بند ہو جائے تو کیا ہم اپنے ملک میں ان کے خوابوں کے لیے جگہ بنا سکیں گے؟
یہی وہ سوال ہے جو ہر ترقی پذیر ملک کے دروازے پر دستک دیتا ہے۔ امریکا نے اپنی پالیسی سے ہمارے نوجوانوں کو ایک پیغام دیا ہے ’’ہمیں تمہاری محنت نہیں چاہیے۔‘‘ اب یہ ہمارے اوپر ہے کہ ہم انھیں یہ پیغام دیں ہمیں تمہاری محنت تمہارا خواب اور تمہارا مستقبل سب چاہیے، اگر ہم یہ موقع نہ لیں تو یہ نوجوان نہ امریکا کے رہیں گے اور نہ اپنے۔
آخر میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ اصل طاقت دیواریں نہیں بلکہ انسانوں کے درمیان پُل ہیں۔ ٹرمپ کے اس نئے حکم نے شاید وقتی طور پر ایک طبقے کو خوش کر دیا ہو مگر یہ خوشی عارضی ہے۔ آنے والے برسوں میں جب امریکا کی یونیورسٹیاں اپنا بین الاقوامی رنگ کھو دیں گی اور جب امریکی کمپنیاں اپنے منصوبے سست روی کا شکار دیکھیں گی تو تب سمجھ میں آئے گا کہ ایک لاکھ ڈالرکا یہ مطالبہ کتنا مہنگا ثابت ہوا۔ علم، تحقیق اور خواب یہ وہ چیزیں ہیں جو کبھی پیسوں سے نہیں تولی جا سکتیں اور جب کوئی قوم انھیں پیسے سے تولتی ہے تو وہ دراصل اپنے مستقبل پر قفل ڈالتی ہے۔