ایس سی او کا خصوصی افراد کو خود مختار بنانے کا مشن؛ مظفرآباد کی عجوہ کی عزم و حوصلے کی داستاں
اشاعت کی تاریخ: 11th, August 2025 GMT
مظفرآباد:
اسپیشل کمیونیکیشن آرگنائزیشن (ایس سی او) نے معذور افراد کی فلاح کے لیے انقلابی قدم اٹھاتے ہوئے مظفرآباد میں جدید فری لانسنگ حب قائم کیا۔
ایس سی او خصوصی افراد کو ڈیجیٹل مہارتیں سکھا کر روزگار کے نئے دروازے کھول رہا ہے جبکہ ایس سی او ہنر کے ساتھ خود اعتمادی اور امید کی بحالی کا بھی ضامن ہے۔
مظفرآباد کی عجوہ، عزم کی وہ کہانی جسے ایس سی او نے خواب دیکھنے کے لیے نئی آنکھیں دیں۔
عجوہ کے والد نے بیٹی کے عزم و ہمت کی کہانی سناتے ہوئے کہا: کہ میرا نام سید ابرار حسین شاہ ہے اور میں مظفرآباد آزاد کشمیر کا رہائشی ہوں، میری ایک بیٹی عجوہ ہے جو پیدائشی طور پر بالکل ٹھیک تھی۔
سید ابرار حسین شاہ نے کہا کہ جب آٹھویں کلاس میں پہنچی تو اس کی نظر کا اچانک مسئلہ ہوا، ڈاکٹر کے معائنے کے بعد بتایا گیا کہ اب یہ زندگی بھر نہیں دیکھ سکے گی اور اس لمحے بحیثیت باپ میں اندر سے بالکل ٹوٹ گیا، یوں محسوس ہوا سانسیں تو چل رہی ہیں مگر زندگی رک گئی ہے۔
عجوہ کے والد نے بتایا کہ بحیثیت باپ مجھے اس پر فخر تھا، مگر بینائی کھونے کے بعد وہ شدید ذہنی دباؤ اور نفسیاتی مشکلات کا شکار ہوتی جا رہی تھی پھر ایک دن کسی نے اطلاع دی کہ اسپیشل کمیونیکیشن آرگنائزیشن نے مظفرآباد میں معذور افراد کے لیے کمپیوٹر سینٹر قائم کیا ہے، میں بیٹی کو وہاں لے گیا اور اسی دن سے اس کی زندگی بدل گئی۔
سید ابرار حسین شاہ نے مزید بتایا کہ عجوہ نے وہاں نہ صرف کمپیوٹر چلانا سیکھا بلکہ جینے کا حوصلہ اور خود پر یقین بھی پیدا کیا، اب محسوس ہوتا ہے کہ میری بینائی سے محروم بیٹی روشنی سے بھر چکی ہے۔ ایس سی او کے سینٹر سے کمپیوٹر کورس مکمل کرنے کے بعد میری بیٹی اب یونیورسٹی جانا چاہتی ہے۔
بیٹی کے والد کا کہنا تھا کہ ہم ایس سی او کے شکر گزار ہیں کہ انہوں نے معذور بچوں کے لیے جدید کمپیوٹر سینٹر قائم کیا، عجوہ جیسے لوگ نہ صرف آگے بڑھتے ہیں بلکہ دوسروں کے لیے روشنی کا چراغ بن جاتے ہیں۔
ایس سی او نہ صرف معذور افراد کو ہنر سکھا رہا ہے بلکہ انہیں خود اعتمادی اور زندگی کی نئی امیدیں بھی دے رہا ہے، عجوہ کی طرح ہزاروں معذور افراد ایس سی او کے تعاون سے اپنے خوابوں کو حقیقت میں بدل رہے ہیں۔
آئیں ہم سب مل کر ایسے اداروں کی حمایت کریں جو معذور افراد کے لیے روشنی کا ذریعہ بنتے ہیں۔
Tagsپاکستان.
ذریعہ: Al Qamar Online
کلیدی لفظ: پاکستان معذور افراد ایس سی او کے لیے
پڑھیں:
انا پرستی… رشتوں کے لیے زہرِ قاتل
’’ہم یہاں اپنی بیٹی کا رشتہ کسی صورت میں بھی نہیں دیں گے، کیا وہ اپنا رویہ بھول گئے ہیں؟‘‘ بڑے بھیّا نے اماں، ابا کو صاف صاف کہہ دیا۔
’’ہاں بالکل! انھوں نے بھی اپنی چھوٹی والی (بیٹی) کا رشتہ ہمیں نہیں دیا تھا اور کس طرح منھہ بھر کے انکار کر دیا تھا۔ بھابھی نے جلے دل کے پھپھولے پھوڑنا شروع کر دیے۔ امی، ابا کی کیا مجال تھی کہ بڑے بیٹے یا بہو کے سامنے کسی بات سے انکار کر جائیں۔ حالاں کہ وہ چاہتے کہ بچی کا رشتہ ان کے بھائی کے گھر ہو جائے۔
لڑکا بھی اچھا تھا۔ اپنا کاروبار تھا۔ ہر لحاظ سے انھیں بہتر لگا تھا، لیکن اب کیا کریں۔ بیٹا ہی راضی نہیں تھا۔ منجھلے بیٹے کے لیے جب وہ بھائی کے گھر ان کی سب سے چھوٹی بیٹی کا رشتہ لینے گئے تھے، تو انھوں نے انکار کر دیا تھا، لیکن کافی سال گزرنے جانے کے بعد وہ یہ بات نہیں بھولی تھیں اور اب جب وہ رشتہ لینے کے لیے ان کے گھر آئے تو بیٹے، بہو پہلے تو طنز کے تیر چلائے، پھر سوچنے کے لیے وقت لیا، لیکن پھر جلد ہی رشتے سے انکار کر دیا۔ یہ معاملات صرف ایک گھر کے نہیں ہیں بلکہ ہر گھر میں خاندانی رشتوں میں انا کی دراڑیں پڑی ہوتی ہیں۔ سب اپنے اپنے خول میں بند ہوتے ہیں اور ان کے تلخ رویے دوسروں کی بھی زندگی اجیرن کر دیتے ہیں۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ ماں باپ حیات ہیں، تو پہلا حق ان کا ہے کہ وہ اپنے بچوں کے زندگی کے فیصلے کریں۔ بڑے بیٹے، بیٹی کی بات کو بھی اہم گردانا جائے، ان کی بات سنی جائے لیکن اگر وہ حق پر نہیں ہیں اور اپنی محرومیوں کا بدلہ چھوٹے بہن،بھائی سے لے رہے ہیں، تو انھیں فیصلے کا بالکل حق نہ دیا جائے۔ رشتے آسمانوں پر بنتے ہیں اور یہ ضروری نہیں کہ انھوں نے آپ کو اپنی بیٹی کا رشتہ نہیں دیا تو آپ اسی بات کو دل میں لیے بیٹھی رہیں اور نسلوں تک یہی رویہ منتقل کریں۔ اگر آپ کے کسی بہن، بھائی نے آپ کے کسی بیٹے، بیٹی کے لیے رشتہ منظور نہیں کیا، تو ضروری نہیں کہ آپ بھی ویسا ہی رویہ رکھیں۔
آپ کو چاہیے کہ اس انا پرستی کی دیوار کو گرا دیں اور فراخ دلی سے سوچیں کہ اگر وہ آپ کے حق میں بہتر ہے، تو اسے قبول کرنے میں دیر نہ لگائیں۔ یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ اس کے بعد کئی سالوں تک اچھا رشتہ نہ ملے اور زندگی کی پریشانیاں بڑھتی جائیں۔ کسی نے بہو کو طلاق دے دی، تو سب انھیں مشکوک نظروں سے دیکھتے ہیں کہ یہ ہماری بیٹی کے ساتھ بھی ایسا ہی کریں گے۔ یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ میاں بیوی نے ایک دوسرے کا ساتھ نہ نبھایا ہو۔
کسی نے بڑی بہو کو الگ کر دیا، تب بھی رشتے کے لیے آنے والوں کا عجیب سا رویہ ہوتا ہے کہ ایسا کیوں ہوا ہے؟ ضرور دال میں کچھ کالا ہے۔ بہن سے رشتہ مانگا اس نے نہیں دیا، تو سالوں ایک دوسرے کا منھہ نہیں دیکھا جاتا، خوشی، غمی میں بھی شریک نہیں ہوا جاتا۔ یہ نہیں سوچا جاتا کہ شاید قسمت میں ایسے ہی لکھا ہوا تھا اور پھر ہمیں تو ان سے بھی زیادہ اچھا رشتہ مل گیا تھا۔ بیٹی، بیٹا اپنے گھروں میں خوش تھے، لیکن ماں،باپ اپنے دلوں سے کدورتیں ہی ختم نہیں کرتے اور زندگی کی حقیقی خوشیوں سے سکون ہی حاصل نہیں کرتے ۔ اسی طرح دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں۔
چچا زاد بھائی سے چھوٹی بیٹی کا رشتہ مانگا، انھوں نے بڑی کے لیے کہا تو بس وہیں سے رشتے میں دارڑ پڑ گئی، رشتہ تو لینا دور، ملنا جلنا ہی چھوڑ دیا اور رشتے داروں کے سامنے الگ بے عزت کیا کہ ’’بڑی والی ہمارے سر زبردستی تھوپ رہے تھے۔‘‘ وہیں سے لڑائی جھگڑے اور کدورتیں بڑھتی چلی گئیں۔ یہاں کہنے کا مطلب ہے کہ اپنے رویوں کو بدلیں، دل کو وسیع کریں، اپنی انا کی جنگ ختم کریں۔ زندگی بہت مختصر ہے، نہ جانے کب ختم ہو جائے، جو رشتے آپ کے پاس موجود ہیں ان کی قدر کریں۔ فراخ دلی سے رشتوں کو عزت دیں، نہ کہ سارے رشتے داروں کے سامنے انھیں بے عزت کریں۔ رشتے نہیں لیے، نہیں دیے کوئی بات نہیں، لیکن ان سے پہلے کا اور خونی تعلق ہر گز نہ توڑیں، بلکہ کسی نہ کسی طرح جوڑے رکھیں، تاکہ آپ کے بچے بھی تعلق جوڑنے والے بنیں اور ان کے اپنے دور نزدیک کے سبھی رشتے داروں سے اچھے تعلقات ہوں۔ مثبت رویوں سے زندگیاں سنور جاتی ہیں اور غلط رویے نسلیں تباہ کر دیتے ہیں۔ بچوں کے ذہنوں میں کبھی یہ مت ڈالیں کہ فلاں رشتے دار سے ہم نے فلاں چیز مانگی تھی، لیکن اس نے نہیں دی۔ ورنہ بچے خود ہی ایسے رویے پہچان لیتے ہیں۔
اس لیے بہتر ہے کہ بچوں کے درمیان ایسی طنزیہ انداز اور لب و لہجہ اختیار نہ کریں۔ آپ کو سمجھانے کا مقصد یہی ہے کہ جو کچھ آپ کے ساتھ ہوا ضروری نہیں کہ آپ کے بچوں کے ساتھ بھی وہی کچھ ہو۔ ابھی وقت ہے بہت کچھ بدلا جا سکتا ہے۔ انا کی جنگ میں ہار جیت چلتی رہتی ہے، لیکن دل کے رشتے دوبارہ نہیں ملتے اور اپنے رویوں سے اپنے سگے اور خونی رشتوں کو دور نہ کریں۔