کینیڈا سے درآمد شدہ کینولا سیڈ کی ڈمپنگ ہوئی ہے، چینی وزارت تجارت
اشاعت کی تاریخ: 12th, August 2025 GMT
بیجنگ :چین کی وزارت تجارت نے کینیڈا میں پیدا ہونے والے درآمد شدہ کینولا سیڈ کی اینٹی ڈمپنگ تحقیقات پر ابتدائی فیصلے کا اعلان کیا ۔چینی تفتیشی ایجنسی کے مطابق کینیڈا سے درآمد شدہ کینولا سیڈ کی ڈمپنگ ہوئی ہے۔ منگل کے روز وزارت تجارت نے کینیڈا، جاپان اور بھارت سے درآمد شدہ ہیلوجنیٹڈ بیوٹیل ربڑ کی اینٹی ڈمپنگ تحقیقات پر ابتدائی فیصلے بھی سنائے، جن کے مطابق کینیڈا اور جاپان سے درآمد شدہ مصنوعات کی ڈمپنگ ہوئی ہے جبکہ اسی عرصے میں بھارت سے درآمد کی جانے والی تحقیقاتی مصنوعات کا چین کی درآمد کی جانے والی ہیلوجنیٹڈ بیوٹیل ربڑ کی کل مقدار میں تناسب 3 فیصد سے بھی کم ثابت ہوئی اور یوں اینٹی ڈمپنگ تحقیقات کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ چین میں اینٹی ڈمپنگ ریگولیشنز کے آرٹیکل 28 اور 29 کے مطابق تحقیقاتی ادارے نے سیکیورٹی ڈپازٹس کی شکل میں عارضی اینٹی ڈمپنگ اقدامات نافذ کرنے کا فیصلہ کیا۔اسی روز ، چینی وزارت تجارت نے کینیڈا میں پیدا ہونے والے درآمد شدہ مٹر اسٹارچ کے خلاف اینٹی ڈمپنگ تحقیقات شروع کرنے کا بھی اعلان کیا۔
Post Views: 2.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: اینٹی ڈمپنگ تحقیقات
پڑھیں:
وزیرخزانہ کا شوگر سیکٹر کو مکمل ڈی ریگولیٹ کرنے کا اعلان
وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے ملک میں بار بار پیدا ہونے والے چینی بحران کی وجوہات کا جائزہ لینے کے بعد شوگر سیکٹر کو مکمل طور پر ڈی ریگولیٹ کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ اس فیصلے کا مقصد چینی کے کاروبار میں شفافیت لانا اور ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھ کر بہتر پالیسی سازی کو یقینی بنانا ہے۔
یہ اعلان وزیر خزانہ کی زیر صدارت ہونے والے ایک اہم اجلاس کے دوران کیا گیا، جہاں چیئرمین مسابقتی کمیشن آف پاکستان (سی سی پی) ڈاکٹر کبیر سدھو نے چینی بحران پر تفصیلی بریفنگ دی۔ انہوں نے بتایا کہ گزشتہ برس حکومت کو شوگر ایڈوائزی بورڈ کی جانب سے گنے کی پیداوار، دستیاب ذخائر اور چینی کی ممکنہ پیداوار سے متعلق غلط تخمینے فراہم کیے گئے تھے۔
ان ہی تخمینوں کی بنیاد پر چینی کی برآمد کی اجازت دی گئی، جس کے نتیجے میں ملک میں چینی کی قلت پیدا ہوئی اور قیمتوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا۔
غلط ڈیٹا، محدود سپلائی، اور کارٹلائزیشن
اجلاس میں اس بات پر زور دیا گیا کہ پالیسی سازی کا انحصار شوگر ملز ایسوسی ایشن جیسے اسٹیک ہولڈرز کے فراہم کردہ ڈیٹا پر نہیں ہونا چاہیے۔ فیصلے **آزاد اور شفاف ڈیٹا** کی بنیاد پر ہونے چاہییں تاکہ قومی مفادات کا تحفظ کیا جا سکے۔
ڈاکٹر کبیر سدھو نے مزید بتایا کہ مسابقتی کمیشن ، شوگر سیکٹر میں اصلاحات کے لیے حکومت کے ساتھ مکمل تعاون کر رہا ہے اور ریفارم کمیٹی کو تجاویز بھی دے رہا ہے۔
ماضی کے بحران، آج بھی جاری اثرات
بریفنگ کے دوران 2008-09، 2015-16، اور 2019-20 کے چینی بحرانوں کا جائزہ بھی پیش کیا گیا۔ کمیشن نے واضح کیا کہ ماضی میں بھی چینی کی **مصنوعی قلت** پیدا کر کے برآمدات سے فائدہ اٹھانے کی کوششیں کی گئیں، جو درحقیقت کارٹل کا نتیجہ تھیں۔
یہ بھی انکشاف کیا گیا کہ 2009-10 کی شوگر انکوائری میں کارٹلائزیشن کے واضح شواہد ملے تھے، لیکن 2010 کا اہم فیصلہ آج تک منظرِ عام پر نہیں آ سکا۔ قانونی پیچیدگیوں اور عدالتوں کے اسٹے آرڈرز کے باعث یہ کیس ابھی بھی سپریم کورٹ میں زیر التوا ہے۔
ڈی ریگولیشن کے بعد کیا ہوگا؟
وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے دوٹوک الفاظ میں کہا کہ شوگر سیکٹر کو اب مکمل طور پر ڈی ریگولیٹ کر دیا جائے گا۔ اس کے بعد پالیسی سازی، قیمتوں کے تعین اور برآمدات کے فیصلے مارکیٹ کے اصولوں پر ہوں گے، اور حکومت صرف نگرانی اور ضابطہ کاری کے کردار میں ہوگی۔
انہوں نے واضح کیا کہ ڈی ریگولیشن کے بعد مسابقتی کمیشن کا کردار مزید بڑھ جائے گا، اور تحقیقات کو مؤثر بنانے کے لیے تمام متعلقہ اداروں سے ڈیٹا کی فراہمی کو لازمی بنایا جائے گا۔