سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ چیف جسٹس کی پنشن اور مراعات میں کتنا اضافہ ہوا؟
اشاعت کی تاریخ: 12th, August 2025 GMT
اسلام آباد: وزارت قانون و انصاف نے سینیٹ میں ریٹائرمنٹ کے بعد چیف جسٹس آف پاکستان کو دی جانے والی پنشن اور مراعات کی تفصیلات پیش کر دیں، جس میں سال 2010 سے 2024 تک پنشن میں مسلسل اضافے کا ریکارڈ شامل ہے۔
دستاویزات کے مطابق:
2010 میں چیف جسٹس کی ماہانہ پنشن 5 لاکھ 60 ہزار روپے تھی
2024 تک یہ بڑھ کر 23 لاکھ 90 ہزار روپے تک پہنچ چکی ہے
سال بہ سال اضافے کی تفصیل کچھ یوں ہے:
| سال | پنشن (روپے میں) |
| —- | ————— |
| 2011 | 6,44,000 |
| 2012 | 7,73,000 |
| 2013 | 8,50,000 |
| 2014 | 9,35,000 |
| 2015 | 10,05,000 |
| 2016 | 11,05,000 |
| 2017 | 12,17,000 |
| 2018 | 13,38,000 |
| 2021 | 14,52,000 |
| 2023 | 16,57,000 |
| 2024 | 23,90,000 |
جج صاحبان کی بیواؤں کے لیے بھی مراعات
وزارت قانون کے مطابق، ریٹائرڈ جج کی وفات کے بعد ان کی بیوہ کو بھی کئی سرکاری سہولیات فراہم کی جاتی ہیں، جن میں شامل ہیں:
ڈرائیور اور اردلی کی سہولت
2,000 یونٹ بجلی اور مفت پانی
ماہانہ 300 لیٹر پیٹرول
انکم ٹیکس سے مکمل استثنیٰ
یہ تمام معلومات سینیٹ میں وقفہ سوالات کے دوران تحریری جواب کی صورت میں پیش کی گئیں۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
سپریم کورٹ، ملزم کو سزا چرس برآمدگی پر نہیں بیوقوفی پر ہوئی، ججز کا دلچسپ مکالمہ
سپریم کورٹ میں دوران سماعت مجرم کے وکیل کا کہنا تھا کہ مؤکل سے چرس بر آمد کرنے والا پولیس افسر ہی تفتیشی افسر بھی بن گیا تھا، تفتیشی افسر ہی چرس لے کر فارنزک کروانے گیا، سارے کیس میں چرس پکڑنے والا پولیس آفیسر ہی سب کچھ ہے، عدالتی فیصلہ ہے جو منشیات بر آمد کرے گا وہ خود تفتیش نہیں کرے گا۔ اسلام ٹائمز۔ سپریم کورٹ نے منشیات اسمگلنگ کیس میں 2017ء سے گرفتار سزا یافتہ مجرم ظفر اللہ کاکڑ کی عمر قید کیخلاف اپیل پر فیصلہ محفوظ کرلیا، ظفراللہ کی قومیت کاکڑ ہونے پر ججز کے درمیان ہلکے پھلکے ریمارکس کا تبادلہ ہوا۔ سپریم کورٹ میں منشیات سمگلنگ کیس کی سماعت کے دوران جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس دیے کہ سخی سرور کا علاقہ خیبرپختونخوا میں آتا ہوگا، جسٹس اشتیاق ابراہیم نے ریمارکس دیے کہ ملزم کاکڑ ہے، بلوچستان کا رہائشی ہے، جس پر جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا کہ ملزم کاکڑ ہے تو کیا ہے، ملزم میرا کون سا واقف ہے۔
سرکاری وکیل نے کہا کہ ملزم سے 12 کلو چرس بر آمد ہوئی تھی، جس پر جسٹس ہاشم کاکڑ نے استفسار کیا کہ کیا ملزم چرس گاڑی میں لے کر جا رہا تھا۔؟ سرکاری وکیل نے کہا کہ ملزم چرس پیدل لے جا رہا تھا، جس پر جسٹس ہاشم کاکڑ نے قہقہ لگاتے ہوئے کہا کہ ملزم کو سزا چرس برآمدگی پر نہیں، بیوقوفی پر ہوئی۔ مجرم ظفر اللہ کاکڑ کے وکیل قمر سبزواری نے کہا کہ مؤکل سے چرس بر آمد کرنے والا پولیس افسر ہی تفتیشی افسر بھی بن گیا تھا، تفتیشی افسر ہی چرس لے کر فارنزک کروانے گیا، سارے کیس میں چرس پکڑنے والا پولیس آفیسر ہی سب کچھ ہے، عدالتی فیصلہ ہے جو منشیات بر آمد کرے گا وہ خود تفتیش نہیں کرے گا۔
جسٹس اشتیاق ابراہیم نے کہا کہ پولیس والے کے ہاتھ ایک کاکڑ آگیا، جس پر جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا کہ پولیس والا ملزم کے خلاف ون مین شو بن گیا، جسٹس اشتیاق ابراہیم نے کہا کہ ریکارڈ کے مطابق پولیس سٹیشن میں 2 مزید انسپکٹر موجود تھے۔ اپیل کنندہ کے وکیل نے کہا کہ اس کیس میں پولیس انسپکٹر شکایت کنندہ بھی ہے اور تفتیشی بھی وہی ہے، بعد ازاں عدالت نے فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے کیس پر مزید سماعت ملتوی کر دی۔