دریا کی گزرگاہوں کو خالی نہ کیا تو ہمیشہ نقصان اٹھاتے رہیں گے، ڈی جی پی ڈی ایم اے
اشاعت کی تاریخ: 29th, August 2025 GMT
لاہور:
صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (پی ڈی ایم اے) کے ڈائریکٹر جنرل عرفان علی کاٹھیا کا کہنا ہے کہ اگر دریا کی گزرگاہوں کو خالی نہ کیا تو ہم ہمیشہ اسی طرح نقصان اٹھاتے رہیں گے۔
پریس کانفرنس میں بریفنگ دیتے ہوئے ڈی جی پی ڈی ایم اے نے کہا کہ فلڈ پلان ایکٹ کے تحت اب آبی گزرگاہوں میں موجود تمام غیرقانونی تعمیرات کو خالی کرایا جائے گا تاکہ مستقبل میں بڑے نقصانات سے بچا جاسکے۔
پی ڈی ایم اے کے ڈائریکٹر جنرل عرفان علی کاٹھیا نے کہا ہے کہ لاہور میں دریائے راوی کے مقام شاہدرہ سے گزرنے والا دو لاکھ 20 ہزار کیوسک کا ریلا 1988 کے بعد سب سے بڑا تھا، تاہم خوش قسمتی سے شہر میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ ان کے مطابق اب شاہدرہ کے مقام پر پانی کی سطح بتدریج کم ہورہی ہے اور آئندہ چند گھنٹوں میں مزید کمی متوقع ہے۔
ڈی جی پی ڈی ایم اے نے بتایا کہ لاہور میں سیلابی پانی نو مقامات پر داخل ہوا، جہاں متاثرہ افراد کو بروقت ریسکیو کر لیا گیا۔ اس وقت بلوکی کے مقام پر ایک لاکھ سینتالیس ہزار کیوسک پانی گزر رہا ہے اور یہ پانی ڈاؤن سٹریم سے آگے دریائے راوی میں شامل ہوگا۔ حکومت نے دریا کی گزرگاہوں میں بسنے والے لوگوں کو سختی سے انخلا کا حکم دیا ہے اور بعض مقامات پر طاقت کا استعمال کرکے بھی انخلا کرایا گیا ہے۔
عرفان کاٹھیا نے کہا کہ انڈیا کی جانب سے مادھوپور ہیڈ ورکس سے مسلسل اسی ہزار کیوسک پانی آرہا ہے، جو لاہور شاہدرہ سے گزر کر آگے چنیوٹ اور پھر ریواز برج تک پہنچے گا۔ ان کے بقول ریواز برج اس وقت حکومت کے لیے سب سے بڑی تشویش ہے اور اس مقام پر بند توڑنے کے بارے میں غور کیا جارہا ہے تاکہ جھنگ کو محفوظ رکھا جاسکے۔ اسی طرح تریمیمو کے بعد پانی ہیڈ محمد والا اور پھر ملتان کے نظام میں شامل ہوگا۔
ڈی جی پی ڈی ایم اے کے مطابق پچھلے چار روز سے قصور کے قریب دریائے ستلج میں دو لاکھ سے زائد کیوسک پانی کا بہاؤ جاری ہے، جس کے باعث سلیمانکی کے مقام پر صورتحال خطرناک ہوتی جارہی ہے۔ صوبے میں اب تک ایک ہزار سات سو انہتر مواضعات زیر آب آچکے ہیں، چودہ ہزار سے زائد افراد براہِ راست متاثر ہوئے ہیں جبکہ چار ہزار سے زیادہ لوگ کیمپوں میں موجود ہیں۔ مجموعی طور پر اب تک چار لاکھ سے زائد افراد کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا گیا ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ پنجاب میں سیلاب کے باعث اب تک 20 اموات ہوچکی ہیں اور خدشہ ہے کہ متاثرین کی تعداد میں مزید اضافہ ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ جب تک یہ پانی سندھ میں داخل نہیں ہوتا پنجاب ہائی الرٹ پر ہے اور سندھ حکومت کو پہلے ہی آگاہ کر دیا گیا ہے۔
عرفان علی کاٹھیا نے بتایا کہ کوہ سلیمان پر بارشوں کا نیا سلسلہ شروع ہورہا ہے جس سے رود کوہیوں میں پانی کا بہاؤ بڑھے گا۔ ان کے مطابق بھارت نے پانی کے اخراج کے بارے میں بروقت معلومات فراہم نہیں کیں جس سے نقصان میں اضافہ ہوا، اور اسی تاخیر پر بین الاقوامی میڈیا نے بھی بھارت پر تنقید کی ہے۔
شہریوں سے اپیل ہے کہ وہ فوری طور پر دریا کے راستوں کو خالی کردیں تاکہ ریسکیو اور ریلیف کے اقدامات موثر انداز میں جاری رکھے جا سکیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ڈی جی پی ڈی ایم اے کو خالی کے مقام ہے اور
پڑھیں:
خوف اور حزن
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
خوف کے معنی ہیں ڈر یا اندیشہ کہ کچھ ہو جائے گا‘ جو ملنے والا ہے وہ نہیں ملے گا‘ یا کوئی ایسی چیز مل جائے گی جو ناخوش گوار اور ناقابل برداشت ہو گی اور نقصان کا باعث ہوگی۔
حزن سے مراد اس بات کا غم کہ کچھ چھن گیا یا نقصان ہوگیا‘ کوئی ضرب پڑگئی‘ کوئی چیز ملنا چاہیے تھی نہ ملی اور جو چیز نہ ملنا چاہیے تھی وہ مل گئی۔ غم کی اس کیفیت کو حزن وملال کہا جاتا ہے۔
دراصل نفس کے اندر کی یہ وہ کیفیات ہیں جن سے اصل رکاوٹیں پیدا ہوتی ہیں۔ اگر آدمی خوف اور اندیشوں پر پہلے سے قابو نہ پائے تو جن چیزوں کا خوف و اندیشہ اس کو لاحق رہتا ہے وہ اس پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ یہ خدشات کہ اگر میں نے ایسا کیا تو یہ ہوجائے گا‘ ایک چیز جو ہاتھ لگنے والی ہے اگر ہاتھ نہ لگی تو یہ بڑا نقصان ہو جائے گا‘ میری عزت کو‘ میری دولت کو‘ معاشرے میں میرے مقام ومرتبے کو نقصان پہنچ سکتا ہے‘ سیاسی‘ مادی‘ مالی یا جو کچھ بھی حیثیت ہے‘ ہاتھ سے نکل جائے گی ۔۔۔ یہ خوف وخدشات جب آدمی کے اوپر طاری ہوتے ہیں‘ تو پھر بالآخر وہ ان کے ڈر سے ہتھیار ڈال دیتا ہے۔
دوسرا پہلو غم اور حزن کا ہے‘ یعنی یہ کہ جو چیز حاصل تھی وہ ہاتھ سے نکل گئی‘ کوئی مرگیا یا مال کا نقصان ہوگیا‘ یا کسی نے عزت کے اوپر حملہ کردیا‘ گالی دے دی وغیرہ۔ جب کوئی نقصان ہوجاتاہے یا عزت تک ہاتھ سے نکل جاتی ہے تو آدمی کو اس کا غم ہوتا ہے۔ غم ہو تو پھر غصہ بھی آتا ہے۔ غم وغصہ کا لفظ تو ہماری زبان میں‘ اردو ادب میں استعمال ہوتا ہے۔ جہاں غم پیدا ہوتا ہے وہاں غصہ بھی لازماً آتا ہے‘ کہ یہ چیز کیوں ہمارے ہاتھ سے نکل گئی‘ میری عزت پہ یہ حملہ کیوں ہو گیا‘ جو چیز مجھے ملنے والی تھی وہ کیوں کوئی چھین کے لے گیا۔ اس طرح ایک طرف تو غم ہوتا ہے جو غصے کے اندر تبدیل ہو جاتا ہے‘ اور پھر غصہ بالآخر اشتعال دلاتا ہے اور اس اقدام پر مجبور کرتا ہے جو صبر کے منافی ہو۔
یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید میں جہاں نیک بندوں کا ذکر کیا گیا ہے وہاں ان کی اس صفت کا بھی ذکر کیا ہے کہ وہ نہ خوف اور اندیشے کا شکار ہوں گے اور نہ کسی غم کے اندر مبتلا ہوں گے۔ جنت کے بارے میں بھی یہی کہا گیا ہے کہ جنت کی زندگی کی بھی یہی خصوصیت ہے کہ وہاں نہ مستقبل کا اندیشہ ہو گا اور نہ کسی چیز کے چھننے کا خدشہ ہوگا (البقرۃ: 38)۔ کوئی مصیبت پڑنے کا خوف بھی دل کے اوپر طاری نہیں ہوگا‘ اور نہ کوئی چیز ہاتھ سے نکل جانے کا غم وغصہ ہوگا بلکہ اطمینان ہوگا کہ صحیح زندگی گزار آئے اور صلہ پالیا۔ کوئی حسرت نہیں ہوگی کہ یہ کام کیوں نہیں کیا اور اگر یہ کرتے تو یہ پیش نہ آتا۔ اگر غور کیا جائے تو دراصل یہی دو چیزیں ہیں جو صبر کے سرچشمے کو اپنے اندر سمیٹ لیتی ہیں‘ اور صبر کے راستے میں جو چیزیں رکاوٹ بنتی ہیں ان کا اظہار بھی انھی دو باتوں سے ہوتا ہے‘ یعنی خوف اور حزن۔