Express News:
2025-09-18@23:27:41 GMT

جب پانی موت کا پیغام بن جائے

اشاعت کی تاریخ: 1st, September 2025 GMT

بونیر کے علاقے قدر نگر میں 25 سالہ نور محمد اپنے حجرے میں خاموش بیٹھا ہے۔ فلاحی تنظیموں کے رضاکار اور مقامی افراد اسے گھیرے ہوئے ہیں۔ نمازِ جنازہ کے بعد امدادی تنظیمیں راشن تقسیم کر رہی ہیں، جبکہ کمیونٹی کے افراد غمزدہ نوجوان کو تسلی دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ہر آنے والا ایک ہی دکھ بھری بات کہتا ہے ’’ بونیر میں آنے والے تباہ کن سیلاب نے خوشی سے بھرپور شادی کی تقریب کو ماتم اور سانحے میں بدل دیا۔‘‘

نور محمد بتاتا ہے کہ سیلاب سے ایک دن قبل اس کی شادی کی تیاریاں زور و شور سے جاری تھیں۔ گھر کی عورتیں دلہن کو گھر لانے کے لیے بے تاب تھیں۔ لیکن 15 اگست کو آنے والے مہلک سیلابی ریلے نے اس کے تمام خواب اور خوشیاں بہا دیں۔نور محمد کئی سال سے ملائیشیا میں مزدوری کر رہا تھا اور اپنی شادی کے لیے وطن واپس آیا تھا۔ تاہم اس کی پرواز میں تاخیر ہوئی اور وہ ایک دن بعد پہنچا۔ وہ نئی زندگی کے خواب لے کر آیا تھا، مگر واپسی پر اسے یہ المناک خبر ملی کہ بے رحم سیلاب نے اس کے پورے خاندان کو نگل لیا ہے۔

یہ سانحہ نور محمد کے دل و دماغ پر گہرا زخم چھوڑ گیا ہے۔ گفتگو کے دوران وہ بار بار خاموش ہو جاتا ہے۔ کئی دن کے طویل غم کے بعد اس کی آنکھوں کے آنسو خشک ہو چکے ۔ اپنے حجرے کے ایک کمرے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے وہ کہتا ہے "یہ کمرہ میرے لیے سجایا جا رہا تھا لیکن اب یہاں صرف سیلاب کے نشانات دیواروں پر باقی رہ گئے ہیں۔" وہ رک جاتا اور گہرا سانس لیتا ہے۔ اس کا کزن اسے زور سے گلے لگا کر تسّلی دینے کی کوشش کرتا ہے۔

نور محمد کے تباہ شدہ گھر کے سامنے، پتھروں کے پار ایک اور متاثرہ شخص ،عبداللہ کا گھر ہے۔ یہاں بھی تعزیت کے لیے لوگ جمع ہیں۔ ہولناک سیلاب نے عبداللہ کی بیوی اور اس کے چار چھوٹے بچوں کو نگل لیا۔جسمانی طور پر کمزور اور جذباتی طور پر ٹوٹا ہوا عبداللہ حال ہی میں سعودی عرب سے چھٹیوں پر واپس آیا تھا۔ اس کے گھر ایک کمرے میں اب بھی کیچڑ اور ملبہ بھرا ہوا ہے۔جگہ جگہ جوتیاں اور گھریلو اشیا بکھری ہیں۔ آج عبداللہ بے گھر ہو چکا اور دنیا میں تنہا رہ گیا ہے۔

بونیر میں حالیہ سیلاب نے درجنوں خاندانوں کو تباہ کر دیا ۔ زندہ بچ جانے والے شدید مایوسی کی حالت میں اپنے پیاروں کی خبر ملنے کے منتظر رہے۔ کئی لاشیں تاحال لاپتا ہیں اور زندہ بچ جانے والوں کی اُمیدیں تقریباً ختم ہو چکی ہیں۔صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے مطابق اب تک بونیر سے 217 سے زائد لاشیں نکالی جا چکی ہیں جبکہ مزید لاشوں کی تلاش اور امدادی کارروائیاں جاری ہیں۔

عزیز احمد نے، جو بونیر میں ایک مقامی اسکول ٹیچر ہیں، بتایا کہ حالیہ طوفانی بارشوں کے دوران گرج اتنی زور دار تھی کہ انہیں لگا،دنیا کا خاتمہ ہو گیا ہے۔ پانی، چٹانیں اور درخت پہاڑوں سے بہہ کر نیچے آ گئے اور اپنے راستے میں آنے والے لوگوں اور گھروں کو دفن کر دیا۔’’آپ کہہ سکتے ہیں کہ جو لوگ بچ گئے، وہ پاگل ہو گئے ہیں۔‘‘ احمد ایک گھر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں جہاں اب صرف ایک فرد باقی ہے۔

حکام کے مطابق بونیر میں "بادل پھٹنے" کا واقعہ پیش آیا، جو ایک نایاب مظہر ہے ۔اس میں ایک گھنٹے کے دوران محدود علاقے میں 100 ملی میٹر سے زائد بارش ہوتی ہے۔ بونیر میں15  اگست کی صبح ایک گھنٹے میں 150 ملی میٹر سے زیادہ بارش ہوئی۔

سید محمد طیب شاہ صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی میں خطرات کی تشخیص کے سربراہ ہیں،کہتے ہیں کہ گلوبل وارمنگ نے سالانہ مون سون کا نظام بدل دیا ہے جس سے وہ اپنے معمول کے راستے سے تقریباً 100 کلومیٹر مغرب کی طرف منتقل ہو چکا ۔

٭٭

آٹھ سالہ لورین مزے سے آرام و سکون کی نیند لے رہی تھی۔وہ آج ہی ’’کیمپ مائسٹیک ‘‘(Camp Mystic  )نامی سمر کیمپ میں ڈیرھ دو ماہ قیام کرنے آئی تھی۔امریکی ریاست ٹیکساس کے وسط میں واقع یہ کیمپنگ سائٹ ایک امریکی فٹ بال کھلاڑی نے تقریباً صدی قبل دریائے گوادلوپ کے کنارے 300ہیکٹر رقبے پر تعمیر کی تھی۔مقصد یہ تھا کہ سات تا سترہ سالہ لڑکیاں موسم گرما کی چھٹیاں ایک دوسرے کی سنگت میں ہنستے کھیلتے گذاریں۔ہمہ اقسام کے کھیل کھیلیں۔مل جل کر ہم نصابی سرگرمیاں انجام دیں۔یوں انھیں نت نئی کام سیکھنے کا سنہرا موقع ملے گا اور اعلی انسانی اقدار سے شناسائی بھی ہو گی۔

لورین 3 جولائی 25ء کی صبح والدین کے ہمراہ کیمپ مائسٹیک پہنچی تھی۔دن بھر وہ متنوع سرگرمیوں میں محو رہی۔کبھی دریا کے کنارے مچھلیاں پکڑیں۔ کبھی دریا میں کشتی چلائی۔ اردگرد سیر کر کے نباتات کا مطالعہ کیا۔پھر ہم جولیوں کے ساتھ مختلف کھیل کھیلے۔تب تک کیمپ مائسٹیک میں 750 لڑکیاں جمع ہو چکی تھیں۔

دن بھر موسم خوشگوار رہا تھا۔ہوا میں خنکی تھی جس نے گرمی کو مار بھگایا۔دن بھر مصروف رہنے نے لورین کو تھکا دیا تھا۔ یہ خوبصورت سی معصوم بچی اب کیمپ مائسٹیک کی دریا کنارے بنی ایک عمارت کے آرام دہ کمرے میں چین کی نیند سو رہی تھی۔ افسوس، ننھی نہیں جانتی تھی کہ اس کی زندگی برقرار رکھنے کے لیے آب حیات جیسی حیثیت رکھتا پانی عنقریب اْسے موت کے منہ میں پہنچا دے گا۔

ہوا یہ کہ تاریکی چھاتے ہی وسطی ٹیکساس میں بادل بننے لگے۔ بحراوقیانوس سے آتی آبی بخارات سے لدی پھندی ہواؤں نے انھیں خوب نمی فراہم کی۔ جلد موسلادھار بارش شروع ہو گئی اور جھکڑ چلنے لگے۔ کیمپ مائسٹیک کی انتظامیہ جانتی تھی کہ موسم گرما میں وقتاً فوقتاً طوفانی بارشیں ہوتی ہیں۔ اس لیے وہ زیادہ پریشان نہ ہوئی۔پھر اس نے حفاظتی اقدامات بھی کر رکھے تھے۔اس کے وہم وگمان میں نہ تھا کہ بادل پھٹنے سے پیدا شدہ یہ طوفانی بارش پچھلی نصف صدی میں اندرون امریکہ جنم لینے والے خوفناک ترین سیلاب کو جنم دے ڈالے گی۔

چار گھنٹے جاری رہنے والی بارش نے علاقے میں اتنا زیادہ پانی انڈیل ڈالا جو عموماً ’’چار ماہ ‘‘کی بارشوں سے آتا تھا۔ اس تباہ کن بارش نے دیکھتے ہی دیکھتے دریائے گوادلوپ کی سطح صرف پینتالیس منٹ میں 10 فٹ سے30 فٹ بلند کر دی۔ یوں دریا میں تیزرفتار سیلابی ریلے ( flood flash ) نے جنم لیا جو اپنی راہ میں آتی ہر شے کو خس وخاشاک کی طرح ملیامیٹ بڑھنے لگا۔

سیلابی ریلے نے دفعتہً کیمپ مائسٹیک کی عمارتوں کو جا لیا اور وہاں خوابیدہ کئی لڑکیوں کو بہا لے گیا۔ ان میں سے اکثر کنارے پر لگے درختوں سے لپٹ کر زندہ بچ گئیں مگر کیمپ میں مقیم 27 لوگ بدقسمت رہے۔پانی میں ڈوب کر اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔انہی میں لورین بھی شامل تھی جو دنیا میں محض سات برس گذار چکی اور پیاروں کو روتا چھوڑ کر واپس اپنے رب کے پاس چلی گئی۔

ماہرین کے مطابق یہ خوفناک بارش ’’عالمی گرماؤ ‘‘یا گلوبل وارمنگ کے عجوبے سے پیدا ہوتی عالمگیر آب و ہوائی اور موسمیاتی تبدیلیوں کا نتیجہ تھی۔ طرفہ تماشا یہ کہ امریکہ کے موجودہ صدر، ڈونالڈ ٹرمپ کا دعوی ہے، عالمی گرماؤ کوئی وجود نہیں رکھتا ، یہ صرف سائنس دانوں کا ڈراما ہے۔ مگر وسطی ٹیکساس میں بادل پھٹنے سے جنم لینے والی خوفناک بارش اور پھر اس سے پیدا شدہ زبردست سیلابی ریلے نے ثابت کر دیا کہ عالمی گرماؤ تصّوراتی تباہی نہیں، ایک حقیقت ہے۔ یہ سیلابی ریلا کل 135 افراد کو نگل گیا، آٹھ اب تک لاپتا ہیں۔

مہلک سیلاب

اقوام متحدہ کی عالمی موسمیاتی تنظیم (ڈبلیو ایم او) کا کہنا ہے ، دنیا بھر میں آنے والے مہلک سیلاب اشارہ کرتے ہیں کہ اب ان کی فوری خبر دینے والا وسیع تر انتباہی نظام وجود میں لایا جائے۔ اس سال پاکستان و بھارت سے لے کر دیہی ٹیکساس تک آنے والے مہلک سیلابوں نے نہ صرف سینکڑوں افراد ہلاک کیے بلکہ ابتدائی انتباہی نظام میں موجود خطرناک خلابھی بے نقاب کر ڈالے۔

سیلابی ریلے جنم لینے کی وجہ یہ ہے کہ عالمی گرماؤ کی وجہ سے بڑھتا درجہ حرارت سمندروں، دریاؤں، جھیلوں وغیرہ سے زیادہ نمی فضا میں پہنچا رہا۔ ماہرین کی رو سے گرمی کا ہر اضافی ڈگری درجہ ہوا میں تقریباً 7 فیصد زیادہ پانی کے بخارات شامل کر دیتا ہے۔ چناں چہ بادل آبی بخارات سے لد جاتے ہیں۔ اور جب  بارش ہو تو وہ اتنی زوردار اور خوفناک ہوتی ہے کہ پانی کی زیادتی اس جگہ سیلابی ریلا پیدا کر ڈالتی ہے۔اس لیے شدید بارشیں اور گلیشیئر پھٹنے والے سیلاب تیزی سے بڑھ رہے۔ان کے باعث انسانی بستیاں تباہی کے گھیرے میں آ رہی ہیں۔

عالمی موسمیاتی تنظیم سے منسلک موسمیاتی سائنس داں، اسٹیفن اوہلن بروک کہتے ہیں’’ سیلابی ریلے جنم لینا کوئی نئی بات نہیں لیکن ان کی تعداد اور شدت بہت سے خطّوں میں شہری کاری، زمین کے استعمال میں تبدیلی اور بدلتی آب و ہوا کی وجہ سے بڑھ رہی ہے۔‘‘

سیلابوں کے باعث ہر سال ہزاروں انسانی جانیں ضائع ہوتی ہیں اور کثیر مالی نقصان ہوتا ہے۔ اس سال بھی یہ حملہ جاری ہے۔ صرف حالیہ مون سون میں جنوبی ایشیا، مشرقی ایشیا اور ریاستہائے متحدہ امریکہ میں مون سونی بارشوں سے لے کر برفانی جھیلوں کے پھٹنے اور اچانک آنے والے سیلابوں سے مہلک واقعات کا سلسلہ دیکھا گیا۔ بھارت اور پاکستان میں مون سون کی شدید بارشوں نے ٹرانسپورٹ روابط منقطع کر دیے، مکانات بہہ گئے اور لینڈ سلائیڈنگ شروع ہو گئی۔ پاکستان نے سب سے زیادہ متاثرہ علاقوں میں ہنگامی حالت کا اعلان کر دیا۔ امدادی مشنوں کے لیے فوجی ہیلی کاپٹر تعینات کیے گئے۔

جمہوریہ کوریا کو 16 تا 17 جولائی کے درمیان ریکارڈ توڑ بارشوں کا سامنا کرنا پڑا، کچھ مقامات پر 115 ملی میٹر فی گھنٹہ سے زیادہ بارش ہوئی۔ کم از کم 18 افراد ہلاک ہوئے اور تیرہ ہزار سے زائد افراد کو نقل مکانی کرائی گئی۔جنوبی چین میں حکام نے 12 جولائی کو سیلاب اور لینڈ سلائیڈنگ الرٹ جاری کیا۔ ٹائفون وِفا نے ہانگ کانگ تباہ کر ڈالا۔

اس سال تمام سیلاب بارشوں کی وجہ سے نہیں آئے۔ نیپال کے راسووا ضلع میں 7 جولائی کو ایک سپرگلیشیل جھیل جو گلیشیئر کی سطح پر بنی تھی، اچانک پھٹنے سے ہائیڈرو پاور پلانٹس، ایک بڑا پل اور تجارتی راستے بہہ گئے۔ کم از کم گیارہ افراد ہلاک اور ایک درجن سے زائد لاپتا ہیں۔عالمی تنظیم، انٹرنیشنل سینٹر فار انٹیگریٹڈ ماونٹین ڈیولپمنٹ (ICIMOD) کے سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ ہندوکش۔ہمالیہ کے علاقے میں برفانی نژاد سیلاب دو دہائیوں پہلے کے مقابلے میں کہیں زیادہ آ رہے ہیں۔اب ہر پانچ سے دس سال بعد ایک بڑا حملہ ہو سکتا ہے۔ صرف مئی اور جون 2025ء میں تین برفانی طوفانوں نے نیپال، افغانستان اور پاکستان کو متاثر کیا۔7 جولائی کو نیپال میں مزید دو سیلاب آئے۔ اگر گرمی بڑھتی رہی تو صدی کے اختتام تک اس طرح کے سیلاب آنے کا خطرہ تین گنا بڑھ سکتا ہے۔

وطن عزیزکو درپیش چیلنج

پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جو عالمی گرماؤ سے جنم لیتی تبدیلیوں سے براہ راست متاثر ہو رہے۔ ستم ظریفی یہ کہ امریکہ اور دیگر امیر و بڑے ملکوں میں جنم لیتی انسانی سرگرمیوں نے ہی اس بین الاقوامی عجوبے کو جنم دیا مگر ان کے بد اثرات کا نشانہ پاکستان جیسے غریب و ترقی پذیر ملک بنے ہوئے ہیں۔

عالمی گرماؤ اب ایک بڑھتا ہوا خطرہ نہیں رہا بلکہ "خوفناک حقیقت" بن چکا جو پاکستان جیسی کمزور قوموں کو شدید متاثر کرنے لگا ہے۔ یہ ملک کی ماحولیات اور معیشت پر منفی اثرات مرتب کرے گا۔ حقیقتاً آب و ہوائی تبدیلیاں انسانیت کے مستقبل کے لیے سنگین خطرہ بن چکیں۔ اکیسویں صدی شروع ہوتے ہی پاکستان میں ہر چند سال بعد خوفناک سیلاب آنے لگے ہیں جن سے ملک کا کثیر حصہ ڈوب جاتا ہے۔لاکھوں انسان بے گھر ہوتے ہیں۔ مویشی مارے جاتے ہیں اور اربوں ڈالر کا نقصان ہوتا ہے۔ سیلاب عالمی گرماؤ کے خطرات کی واضح مثال بن چکے۔

یہ یاد رہے، پاکستان،سات ہزار سے زیادہ گلیشیئرز کا گھر ہے اور یہ عالمی گرماؤ کی وجہ سے ماضی کی نسبت زیادہ تیزی سے پگھلنے لگے ہیں۔ اس غیر قدرتی عمل سے دریائے سندھ کے نظام کو براہ راست خطرہ لاحق ہو چکا جو پاکستان کی 90 فیصد زرعی پیداوار کے لیے پانی فراہم کرتا ہے۔ گویا ہماری غذائی تحفظ کی بنیاد ہی خطرے میں ہے۔

 ترقی یافتہ ممالک نے وعدہ کیا ہے، وہ عالمی گرماؤ سے متاثرہ ممالک کی مدد کے لیے سالانہ 100 ارب ڈالر کی امداد دیں گے۔ متاثرہ ترقی پذیر ممالک اس امداد کو خیرات نہیں بلکہ عالمی مساوات کے حصول کی جانب ایک ضروری قدم سمجھتے ہیں۔معنی یہ کہ یہ کوئی احسان نہیں، ماحولیاتی انصاف کا تقاضا ہے۔ امیر و بڑے ممالک کے فطرت دشمن اقدامات کی وجہ سے ہی غریب ملک سیلابوں، قحط اور دیگر قدرتی آفات کا نشانہ بنے ہیں۔

غربت میں اضافہ

حکومت پاکستان نے عالمی گرماؤ کے خطرے سے نمٹنے کی خاطر پالیسیاں بنائی ہیں مگر اصل بات یہ ہے ، ان پر عمل درآمد بھی کیا جائے۔ یہ خطرہ خاص طور پر ترقی پذیر ممالک میں بستے نچلے و متوسط طبقوں کے اربوں انسانوں کو زیادہ نقصان پہنچا سکتا ہے۔ عالمی بینک کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق آب و ہوائی اور موسمیاتی تبدیلیاں دنیا بھر میں غربت بڑھا رہی ہیں۔ ان کی وجہ سے 2050ء تک سوا چار کروڑ اضافی انسان انتہائی غربت کی طرف دھکیل سکتے ہیں۔ تخمینوں سے پتا چلتا ہے کہ تب دنیا بھر انتہائی غریبوں کی تعداد پندرہ کروڑ تک بڑھ سکتی ہے۔ جنوبی ایشیا میں 2030ء تک ان کی تعداد پانچ کروڑ تک پہنچنے کا امکان ہے۔ یہ تبدیلیاں صحارا افریقہ، جنوبی ایشیا،لاطینی امریکہ اور کیریبین میں زیادہ منفی اثرات ڈالیں گی جہاں حکومتی انتظامی نظام کمزور ہے۔

بنی نوع انسان کی ناکامی

افسوس ناک امر یہ کہ عالمی گرماؤ کی منفی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے بہت کم حکومتیں سنجیدہ ہیں۔ حکمرانوں کی بیشتر توانائی اپنی کرسیاں بچانے پر صرف ہو جاتی ہیں، عوام دوست منصوبے کم ہی بنتے ہیں۔ سالانہ عالمی موسمیاتی تبدیلی کانفرنس (COP30) چند ماہ کی دوری پر ہے۔ اقوام متحدہ سے تعلق رکھنے والے تمام 197 ممالک نے اس سال فروری تک اقوام متحدہ کو تازہ ترین آب و ہوا کے قومی منصوبے جمع کرانے تھے۔ یہ منصوبے اس بات کا خاکہ پیش کرتے ہیں کہ بین الاقوامی پیرس معاہدے کے مطابق ہر ملک قانونی طور پر پابندہے، گرین ہاوس گیسوں کا اپنا اخراج وہ کس طرح کم کرے گا۔ یہ معاہدہ تمام دستخط کنندگان کو محدود کرتا ہے:’’ وہ ایسے اقدام کریں کہ صنعتی انقلاب کے بعد زمین کے درجہ حرارت میں زیادہ سے زیادہ ایک اعشاریہ پانچ ڈگری سینٹی گریڈ اضافہ ہوسکے۔‘‘

 حکومتوں کو اپنے نئے اپڈیٹ شدہ آب و ہوا کے قومی ایکشن پلان بھی عالمی موسمیاتی تبدیلی کانفرنس میں پیش کرنے ہیں۔نیز بتانا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کے منفی اثرات کیسے ختم کیے جائیں گے لیکن اب تک صرف 25 ممالک نے ، جو سبز مکانی گیسوں کے تقریباً 20 فیصد عالمی اخراج کا احاطہ کرتے ہیں، اپنے منصوبے پیش کیے ہیں اور جنہیں قومی طور پر ’’طے شدہ شراکت‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔

گرین ہاوس گیسوں کے اخراج کی مسلسل بلند سطح نے کاربن ڈائی آکسائیڈ، میتھین اور نائٹرس آکسائیڈ کی فضا میں مقدار بڑھا دی ہے۔ نتیجہ بڑھتا ہوا درجہ حرارت ہے جو تیزی سے ممالک کا کاربن بجٹ کھا رہا ہے۔ جیسا کہ بتایا گیا، بنی نوع انسان نے سابقہ کانفرنسوں میں طے کیا تھا کہ زمین کا درجہ حرارت ایک اعشاریہ پانچ ڈگری سینٹی گریڈ سے زیادہ نہیں بڑھے گا مگر یہ منصوبہ ناکام ہوچکا۔ انسانی سرگرمیوں کی موجودہ رفتار سے عالمی درجہ حرارت کہیں زیادہ بڑھ جائے گا۔ شاید ہم مستقبل میں ایک اعشاریہ پانچ ڈگری سینٹی گریڈ کی حد واپس لا سکیں مگر یہ ایک طویل اور مشکل راستہ ہو گا۔

مہنگی ہوتی خوراک

اسی دوران بارسلونا سپر کمپیوٹنگ سینٹر، اسپین کی ایک نئی تحقیق سے پتا چلا ہے ، عالمی گرماؤ کے نتیجے میں جنم لیتی موسمیاتی تبدیلیاں دنیا بھر میں خوراک کی قیمتوں میں تیزی سے اضافہ کر رہی ہیں جس سے غذائی تحفظ اور صحت عامہ کوخطرات لاحق ہو چکے۔ سپر کمپیوٹنگ سینٹر کے محقق، میکسیملین کوٹز کی سربراہی میں ایک تحقیقی ٹیم نے 2022 ء اور 2024ء کے درمیان اٹھارہ ممالک کے ڈیٹا کا تجزیہ کیا۔ سائنسدانوں نے خوراک کی قیمتوں پر سیلاب، خشک سالی اور گرمی کی لہروں کے اثرات کو دیکھا۔ نتائج سے انکشاف ہوا، عالمی گرماؤ کی تبدیلیاں خوراک کی قیمتوں میں اضافے کی بڑی وجہ بن چکیں۔

صرف برطانیہ میں 2024ء کے اوائل میں ریکارڈ بارش کے بعد آلو کی قیمتوں میں 22 فیصد اضافہ ہوا۔ ریاستہائے متحدہ امریکہ کی کیلیفورنیا اور اریزونا ریاستوں میں خشک سالی کی وجہ سے سبزیوں کی قیمتوں میں 80 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ یورپ کو بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ سپین میں خشک موسم کی وجہ سے زیتون کے تیل کی قیمتوں میں 50 فیصد اضافہ ہوا۔

2024ء میں ایشیا کو بھی شدید نقصان پہنچا۔ جنوبی کوریا میں گوبھی کی قیمتوں میں 70 فیصد، جاپان میں چاول کی قیمتوں میں48 فیصد اور چین میں سبزیوں کی قیمتوں میں 30 فیصد اضافہ ہوا۔ ایتھوپیا میں طویل خشک سالی کے بعد خوراک کی قیمتوں میں 40 فیصد اضافہ ہو گیا۔

محققین نے یہ بھی پایا کہ ایک خطے میں موسمیاتی جھٹکے دنیا بھر میں خوراک کی قیمتوں کو متاثر کر سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر گھانا اور آئیوری کوسٹ میں شدید گرمی اور خشک سالی کے بعد کوکو کی قیمتیں تین گنا بڑھ گئیں۔ برازیل اور ویتنام میں بھی ایک جیسے موسمی حالات کے بعد کافی کی قیمتوں میں اضافہ ہوا۔ اسی طرح بعض ممالک میں دودھ کی پیدوار میں بھی کمی دیکھی گئی۔

میکسیملین کوٹز کہتے ہیں ’’جب تک ہم سبز مکانی گیسوں کا اخراج کم نہیں کرتے، موسم مزید خراب ہونے لگیں گے۔ لیکن یہ پہلے ہی فصلوں کو نقصان پہنچا رہے اور پوری دنیا میں خوراک کی قیمتوں میں اضافہ کر چکے۔ لوگ دیکھ رہے ہیں،عالمی گرماؤ کے منفی اثرات میں شدید گرمی کے بعد خوراک کی قیمتوں میں اضافہ ہی ان کی زندگیوں کو متاثر کرنے لگا ہے۔‘‘

تحقیق کرتے ماہرین نے خبردار کیا کہ اگر حکومتوں نے عالمی گرماؤ سے نمٹنے کے لیے ٹھوس اقدامات نہ کیے تو اس عجوبے کے بطن سے جنم لیتے منفی واقعات زیادہ عام اور شدید ہو سکتے ہیں۔ خاص طور پر کم آمدنی والے خاندانوں کو نقصان پہنچے گا کیونکہ خوراک تک ان کی رسائی کم ہو گی۔ نتیجے میں غذائی قلت اور بیماری کا خطرہ بڑھے گا۔

مثبت طرز ِفکر

اس ماہ قوم آزادی ِ پاکستان کی 78 ویں سالگرہ منا رہی ہے۔ عالمی گرماؤ کے حوالے سے دیکھا جائے تو وطن عزیز مشکلات کا شکار ہے۔ اس کو بڑھتے درجہ حرارت، بے ترتیب بارشوں، سیلابوں اور خشک سالی جیسے زیادہ شدید موسمی واقعات کا سامنا ہے۔ یہ تبدیلیاں ملکی معیشت، غذائی تحفظ اور صحت عامہ کے لیے اہم خطرے بن رہی ہیں۔

عالمی سائنسی تنظیموں کے مطابق پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں اور قدرتی آفات سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے دس ممالک میں شامل ہے۔ درجہ حرارت میں اضافے اور زراعت جیسے حساس شعبوں پر انحصار کی وجہ سے خطرات میں اضافے کا امکان ہے۔ آب و ہوا کی تبدیلیاں ’’خطرہ بڑھاؤ‘‘ کے طور پر کام کرتی اور پانی کی کمی، خوراک کے عدم تحفظ اور سیاسی عدم استحکام جیسے موجودہ چیلنجوں کو بڑھاتی ہیں۔

یہ وقت کی پکار ہے کہ مستقبل کے خطرات کا بخوبی مقابلہ کرنے کے لیے پوری قوم متحد ہو جائے اور فروعی و وقت ضائع کرتے اختلافات سے چھٹکارا پائے۔ یہ وطن ہی ہماری پہچان و جائے پناہ ہے جس کا قیام ہمارے بزرگوں نے بے پناہ قربانیاں دے کر ممکن بنایا۔ بھارتی مسلمانوں کی حالت زار دیکھیے جن سے اکثریتی ہندو غلاموں سے بھی بدتر سلوک کرنے لگے ہیں۔پاکستانی قوم کی ذہن سازی نفرت کی بنیاد نہیں اس نہج پر ہونی چاہیے کہ بقول شاعر:

اک شجر ایسا محبت کا لگایا جائے

جس کا ہمسائے کے آنگن میں بھی سایا جائے

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: خوراک کی قیمتوں میں موسمیاتی تبدیلی عالمی موسمیاتی عالمی گرماؤ کی عالمی گرماؤ کے فیصد اضافہ ہو کیمپ مائسٹیک دنیا بھر میں سیلابی ریلے منفی اثرات اضافہ ہوا ممالک میں میں اضافہ ا نے والے کی وجہ سے خشک سالی ا ب و ہوا سکتے ہیں کے مطابق کہتے ہیں سے زیادہ سیلاب نے کہ عالمی سیلاب ا میں ایک بارش ہو تیزی سے ہیں اور رہی ہیں کر دیا اس سال کے بعد کی طرف کے لیے نے لگے ہیں کہ

پڑھیں:

موقع پرست اور سیلاب کی تباہی

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

250919-03-4

 

غزالہ عزیز

پاکستان وہ خوش نصیب ملک ہے جو ہر طرح کی معدنیات کے علاوہ ہر طرح کے خطہ زمین کی دولت سے مالا مال ہے۔ دریائوں کے پانچ بڑے سلسلے جو ملک کے پہاڑی سلسلوں سے ہنستے گنگناتے اُترتے ہیں اور پورے ملک سے گزرتے ہوئے سیراب کرتے سمندر کا رُخ کرتے ہیں لیکن مون سون کے موسم میں جب یہ دریا بپھرتے ہیں اور بھارت اپنا سیلابی پانی مزید ان دریائوں میں ڈال دیتا ہے تو خطرناک سیلاب آجاتا ہے۔ یہ سیلابی پانی گھروں اور بستیوں کو بہا کر لے جاتا ہے، کھڑی فصلوں کو تباہ کرتا ہے، مویشیوں کو دیتا ہے۔ اس وقت ملک عزیز میں جو سیلاب آیا اس نے 33 لاکھ سے زیادہ افراد کو متاثر کیا، سیکڑوں بستیاں ڈھے گئیں، باقی میں چھتوں تک پانی کھڑا ہے، سڑکیں پانی میں ڈوبی ہیں، کھیت کھلیان تالاب بن گئے ہیں، لوگ باگ گھروں سے کشتیوں کے ذریعے جان بچا کر نکلے ہیں اور خیموں میں پناہ لی ہے، ان کے مویشی اور گھروں کا سامان تباہ ہوگیا ہے۔ اگرچہ رضا کار لوگوں کی جانیں اور ان کا مال مویشی بچانے کے لیے کشتیوں کے ذریعے پہنچے ہیں لیکن ان کی نگاہیں حسرت سے اپنی برباد فصلوں کو دیکھ رہی ہیں۔

یہ سیلاب کی صورت حال کوئی نئی نہیں پہلے بھی آتے رہے ہیں لیکن انتہائی غفلت کی بات ہے کہ ایک طرف پاکستان دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جہاں خطرناک حد تک پانی کی قلت ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ 2040ء تک پاکستان خطے کا پانی کی قلت سے دوچار سب سے زیادہ متاثر ملک بن سکتا ہے۔ ابھی حال ہی میں حکومت کے کرتا دھرتا کہہ رہے تھے کہ بھارت پاکستان جانے والے دریائوں کا پانی روک کر آبی جارحیت کررہا ہے۔ لیجیے اب اس نے دریائوں میں پانی چھوڑ دیا اور ہم واویلا کرنے لگے کہ اب وہ پانی چھوڑ کر پاکستان کو سیلاب کی صورت حال سے دوچار کررہا ہے۔بھارت پانی کو اپنی مرضی سے روک اور چھوڑ سکتا ہے تو کیوں؟ اس سوال پر پاکستانی کرتا دھرتا غور کریں۔ ظاہر ہے اس نے اپنے ڈیم بنائے ہیں، اپنی زراعت کے لیے پانی کو استعمال کرنے کے لیے، لیکن ہم نے اپنی اسمبلیوں میں ڈیم نہ بنانے کے لیے قراردادیں منظور کی ہیں، کیوں کہ ہمیں اپنے بینک بیلنس بڑھانے ہیں، غریب عوام جائیں سیلاب میں ڈوبیں، اپنی جمع پونجی کو روئیں ہمیں پروا نہیں ہے۔ دنیا ڈیم بنا کر میٹھے پانی کو استعمال کررہی ہے اور ہم میٹھے پانی کو سمندر برد کرتے ہیں بلکہ دعائیں کرتے ہیں کہ یہ پانی جلد از جلد سمندر تک پہنچے۔ بھارت ڈیم بنانے والے ملکوں میں امریکا، جاپان، برازیل کے ساتھ سب سے آگے کی صف میں ہے۔ عالمی کمیشن بتاتا ہے کہ بڑا ڈیم وہ ہوتا ہے جو 15 میٹر سے زیادہ بلند ہو یعنی چار منزلہ عمارت کے برابر اونچا ہو، ایسے بڑے ڈیم بھارت میں 5100 ہیں۔ جبکہ پاکستان میں مشکل سے 164 ہیں۔

پاکستان میں پانی کی قلت کا یہ حال ہے کہ 44 فی صد سے زیادہ لوگ پینے کے صاف پانی سے محروم ہیں، دیہی علاقوں میں یہ تعداد 90 فی صد تک پہنچ جاتی ہے جس کے باعث بڑے اور بچے بیماریوں کا شکار ہوتے ہیں۔ صرف اسہال سے پاکستان میں ہر سال 2 لاکھ بچے انتقال کرجاتے ہیں اور ہمارے ہاں حکومت پولیو کے علاوہ دوسری بیماریوں کو اہمیت دینے کے لیے ہی تیار نہیں۔ پانی زندگی ہے آنے والے وقت میں پانی پر ہونے والی جنگوں کا ہی سوچ کر ہمیں اپنے لوگوں کے لیے سیلابی پانی کو ذخیرہ کرنے کے لیے سوچنا چاہیے۔ موجودہ سیلاب نے صورت حال کو اچانک انتہائی تیزی سے بدلا، پانی چند گھنٹوں میں اس قدر بڑھا کہ لوگوں کو صرف اپنی جانیں بچا کر نکلنے کا موقع ملا، بہت سے ایسے تھے کہ جنہوں نے گھر چھوڑ کر نکلنے سے انکار کردیا وہ اس امید پر وہاں ٹھیرنا چاہتے تھے کہ شاید پانی جلد ہی اُتر جائے گا۔ لیکن پانی بڑھ گیا اور اتنا بڑھا کہ رضا کاروں کے لیے بھی ان تک پہنچنا مشکل ہوگیا۔ وہ بتارہے ہیں کہ پانی کے نیچے کہیں پلیاں بنی ہوئی ہیں جو نظر نہیں آتیں اور کشتیوں کے اُلٹنے کا خطرہ ہے پھر کیونکہ پانی کے نیچے کھڑی فصلیں موجود ہیں جو کشتیوں کے پنکھوں میں پھنس جاتی ہیں  اور کشتیوں کے لیے حرکت کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ دوسری طرف بھارت کی طرف سے ایک کے بعد ایک بڑا پانی کا ریلہ چھوڑا جارہا ہے جس سے پانی کی سطح اور بہائو میں تیزی آرہی ہے، ایسے میں ابھی کچھ لوگ ڈگمگاتے گھروں کی چھتوں پر موجود ہیں، بہت سے مقامات پر پانی کی سطح آٹھ اور دس فٹ بلند بتائی جارہی ہے جہاں کشتیاں ایسے چل رہی ہیں جیسے دریائوں میں چلتی ہیں۔ لوگ بتارہے ہیں کہ پچھلے سیلابوں میں بھی دریا نے جب بہنا شروع کیا تو گھروں کو گرا کر اس جگہ کو نگل گیا جو اصل میں اس کی ہی تھی۔ خواجہ آصف بھی خوب ہیں، وزیر دفاع کے ساتھ وزیر اطلاعات کی ذمے داری اٹھالیتے ہیں، حکومتوں میں رہتے ہوئے بیان ایسے دیتے ہیں جیسے اپوزیشن میں ہی زندگی گزاری ہے۔ وہ اطلاع دے رہے ہیں کہ سیالکوٹ میں نالوں کی زمین لوگوں کو بیچی گئی، دریا کے راستے میں آبادیاں ہیں، گزرگاہوں پر قبضہ ہوچکا ہے، ہم دریا کے راستوں پر گھر اور ہوٹل بنا لیتے ہیں، دریا ردعمل تو دیتے ہیں، لہٰذا سیلاب کی تباہی ہمارے اپنے کرتوتوں سے ہے۔ تو جناب حکومت میں تو آپ رہے ہیں اور ہیں یہ سب ہورہا تھا تو آپ کیا کررہے تھے؟ عوام سے کہہ رہے ہیں کہ موقع پرستوں کو سسٹم میں لائیں گے تو نقصان ہوگا، جناب جو دو پارٹیاں حکومت میں پچھلے ستر سال سے ہیں وہ ن لیگ اور پی پی ہی ہے اور ٹھیک کہا کہ سب کے سب موقع پرست ہیں جن میں آپ بھی شامل ہیں۔ یہ لاکھوں کیوسک پانی جو ملک کے مختلف صوبوں میں تباہی مچاتا سمندر میں گرے گا کیا اس پانی کو سنبھالنے کے لیے کوئی نظام نہیں بنایا جاسکتا؟ یقینا بنایا جاسکتا ہے لیکن اس کے لیے دیانت دار حکمران ہونے چاہئیں، موقع پرست نہیں۔ افسوس ہماری ترجیحات ہی کچھ اور ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • موقع پرست اور سیلاب کی تباہی
  • پاکستان میں بارشوں اور سیلاب کے باعث 60 لاکھ افراد متاثر ،25لاکھ بے گھر ہوگئے، عالمی برادری امداد فراہم کرے.اقوام متحدہ کی اپیل
  • سیلاب زدہ علاقوں میں شدید انسانی بحران، عالمی برادری امداد دے: اقوام متحدہ
  • پاکستان کے سیلاب زدہ علاقوں میں’ شدید انسانی بحران’ ہے، عالمی برادری امداد فراہم کرے، اقوام متحدہ
  • کسانوں کے نقصان کا ازالہ نہ کیا تو فوڈ سکیورٹی خطرے میں پڑ جائے گی، وزیراعلیٰ سندھ
  • جموں وکشمیر دنیا کا سب سے زیادہ عسکری علاقہ بن چکا ہے، الطاف وانی
  • دریائے ستلج کے سیلاب میں کمی
  • سیلاب
  • سیلاب سے نقصانات کا تخمینہ لگانے کیلئے عالمی اداروں کو شامل کرنے کا فیصلہ
  • سکول وینز اور رکشوں میں بچوں کو حد سے زیادہ بٹھانے پر سی ٹی او کا سخت ایکشن