چین کی شمالی کوریا اور روس کے ساتھ ملکر امریکا کےخلاف سازش کی تردید
اشاعت کی تاریخ: 4th, September 2025 GMT
چین نے روسی صدر ولادیمیر پیوٹن اور شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ اُن کو دوسری جنگِ عظیم کی 80ویں سالگرہ کی یادگاری تقریبات میں شرکت کی دعوت دینے کے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے امریکی سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی تنقید کو مسترد کر دیا ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے کے مطابق، ڈونلڈ ٹرمپ نے ’ٹروتھ سوشل‘ پر ایک تند و تیز پوسٹ میں چینی صدر شی جن پنگ کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا کہ میری طرف سے پیوٹن اور کم جونگ اُن کو گرم جوشی سے سلام کہہ دیجیے، جب آپ امریکا کے خلاف سازش میں مصروف ہوں۔
اس بیان پر ردعمل دیتے ہوئے چین کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان گو جیاکن نے واضح کیا کہ پیوٹن اور کم کو مدعو کرنے کا مقصد “امن دوست اقوام کے ساتھ مل کر تاریخ کو یاد کرنا، شہدا کو خراجِ عقیدت پیش کرنا اور مشترکہ مستقبل کے لیے کام کرنا ہے۔” ان کا کہنا تھا کہ یہ اقدام کسی بھی تیسرے ملک کے خلاف نہیں ہے۔
ترجمان گو جیاکن نے کہا کہ چین کے دنیا کے ممالک سے تعلقات کی بنیاد تعاون اور احترام پر ہے، اور چین کی خارجہ پالیسی محاذ آرائی کے بجائے شراکت داری پر یقین رکھتی ہے۔
دوسری جانب، یورپی یونین کی اعلیٰ سفارتکار کاجا کالاس نے دعویٰ کیا کہ پیوٹن، کم جونگ اُن اور شی جن پنگ کا ایک ساتھ آنا “مغرب مخالف نئے عالمی نظام کی تشکیل” کا عندیہ ہے، جو موجودہ عالمی اصولوں کے لیے خطرہ ہے۔
اس پر چین نے زیادہ سخت مؤقف اپنایا۔ گو جیاکن نے کاجا کالاس کے بیان کو “نظریاتی تعصب سے بھرا ہوا، تاریخی شعور سے خالی اور اشتعال انگیز” قرار دیا۔
کے مینڈک نہ بنیں” چینی ترجمان نے کہاکہ ہم امید کرتے ہیں کہ بعض یورپی رہنما تعصب اور تکبر کو ترک کریں گے، اور ایسے اقدامات سے گریز کریں گے جو دنیا میں تناؤ کے بجائے امن اور تعاون کو فروغ دیں۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
روس کے یوکرین سے سخت مطالبات، پیوٹن ،ٹرمپ ملاقات منسوخ کردی گئی
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
واشنگٹن:۔ امریکا نے روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان مجوزہ بوڈاپسٹ سربراہی اجلاس منسوخ کر دیا ہے۔ یہ فیصلہ روس کی جانب سے یوکرین سے متعلق سخت مطالبات پر قائم رہنے کے بعد کیا گیا۔
برطانوی جریدے کی رپورٹ کے مطابق یہ فیصلہ دونوں ممالک کے اعلیٰ سفارت کاروں کے درمیان کشیدہ ٹیلی فونک گفتگو کے بعد سامنے آیا ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ روس نے جنگ بندی کے بدلے میں یوکرین سے مزید علاقہ چھوڑنے، مسلح افواج میں نمایاں کمی اور نیٹو میں شمولیت سے مستقل انکار جیسے مطالبات دہرائے، جسے امریکا نے ناقابلِ قبول قرار دیا۔
جریدے کے مطابق، وزیر خارجہ سرگئی لاوروف اور امریکی ہم منصب مارکو روبیو کے درمیان ہونے والی گفتگو کے بعد صدر ٹرمپ کو آگاہ کیا گیا کہ روس مذاکرات کے لیے کوئی لچک دکھانے کو تیار نہیں۔ اس کے بعد امریکہ نے اجلاس منسوخ کرنے کا فیصلہ کیا۔
صدر ٹرمپ پہلے ہی یوکرین کی موجودہ جنگ بندی لائن پر فوری فائر بندی کی حمایت کر چکے ہیں۔دوسری جانب، یوکرینی صدر ولودیمیر زیلنسکی نے واضح کیا ہے کہ ان کا ملک امن مذاکرات کے لیے تیار ہے، لیکن وہ روسی دبا ﺅ کے تحت مزید علاقہ چھوڑنے پر آمادہ نہیں۔