طالبان نے بگرام ایئر بیس واپس لینے کے امریکی امکان کو سختی سے مسترد کردیا
اشاعت کی تاریخ: 19th, September 2025 GMT
طالبان کے وزارتِ خارجہ کے عہدیدار ذاکر جلال نے سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس بیان کو مسترد کر دیا ہے جس میں انہوں نے افغانستان کا بگرام ایئر بیس واپس لینے کی خواہش ظاہر کی تھی۔
رائٹرز کے مطابق طالبان عہدیدار نے کہا کہ افغانستان میں کسی بھی غیر ملکی فوجی موجودگی کا امکان دوحا معاہدے میں مکمل طور پر رد کر دیا گیا تھا۔
مزید پڑھیں: طالبان سے بگرام ایئربیس واپس لینے کی کوشش کر رہے ہیں، صدر ٹرمپ
ڈونلڈ ٹرمپ نے برطانیہ میں پریس کانفرنس کے دوران کہا تھا کہ بگرام بیس اس لیے اہم ہے کیونکہ یہ چین کے ایٹمی تنصیبات کے قریب واقع ہے۔ تاہم طالبان اور چین دونوں اس دعوے کو مسترد کر چکے ہیں۔
بگرام ایئر بیس کو 2 دہائیوں تک نیٹو فورسز کے مرکز کے طور پر استعمال کیا گیا تھا اور طالبان کے اقتدار میں واپسی سے قبل افغان فوج کے حوالے کیا گیا تھا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
برطانیہ بگرام ایئر بیس چین دوحا ذاکر جلال ڈونلڈ ٹرمپ طالبان.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: برطانیہ بگرام ایئر بیس چین ذاکر جلال ڈونلڈ ٹرمپ طالبان بگرام ایئر بیس
پڑھیں:
افغان عوام نے کبھی غیر ملکی فوجی موجودگی قبول نہیں کی، افغان وزارت خارجہ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کابل: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے افغانستان میں بگرام ایئربیس واپس لینے کے اعلان پر افغان وزارت خارجہ کے سیکنڈ پولیٹیکل ڈائریکٹر ذاکر جلالی نے ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ افغان عوام اپنی سرزمین پر کسی غیر ملکی فوجی موجودگی کو قبول نہیں کریں گے۔
عالمی میڈیا رپورٹس کے مطابق افغان حکومت کے وزارت خارجہ کے سیکنڈ پولیٹیکل ڈائریکٹر ذاکر جلالی نے ڈونلڈ ٹرمپ کے بلگرام بیان پر ردعمل دیتے ہوئے کہاکہ ڈونلڈ ٹرمپ ایک کامیاب تاجر اور مذاکرات کار کی حیثیت سے معاہدے کے ذریعے ایئربیس واپس لینے کی بات کر رہے ہیں، افغانستان اور امریکا کو اپنے تعلقات صرف فوجی موجودگی تک محدود رکھنے کے بجائے باہمی احترام اور مشترکہ مفادات پر مبنی اقتصادی اور سیاسی بنیادوں پر استوار کرنے چاہئیں۔
ذاکر جلالی نے واضح کیا کہ افغان عوام نے تاریخ میں کبھی بھی اپنی سرزمین پر غیر ملکی افواج کی موجودگی کو قبول نہیں کیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ اگر امریکا افغانستان کے ساتھ مضبوط تعلقات چاہتا ہے تو اس کی بنیاد عسکری نہیں بلکہ سیاسی، اقتصادی اور سفارتی تعاون ہونا چاہیے، بگرام ایئربیس کے حوالے سے کسی بھی قسم کی یکطرفہ کارروائی افغان عوام کے جذبات اور خودمختاری کے منافی ہوگی۔
واضح رہے کہ دوحہ معاہدے کے دوران بھی اس امکان کو یکسر مسترد کر دیا گیا تھا اور یہ بات ایک بار پھر دہرانا ضروری ہے کہ افغانستان کے مستقبل کا فیصلہ افغان عوام خود کریں گے۔
خیال رہےکہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ ہم نے طالبان کو بگرام ایئربیس مفت میں دے دی لیکن اب ہم اسے واپس لینے کی کوشش کر رہے ہیں، یہ شاید ایک بریکنگ نیوز ہو لیکن حقیقت یہی ہے کہ ہم اس بیس کو دوبارہ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
ٹرمپ نے مزید کہا تھا کہ بگرام ایئربیس کی اہمیت اس لیے بھی بڑھ جاتی ہے کیونکہ یہ اس مقام سے صرف ایک گھنٹے کے فاصلے پر ہے جہاں چین اپنے جوہری ہتھیار تیار کرتا ہے۔