لانڈھی کا دلخراش سانحہ؛ 7 سالہ سعد علی کی المناک داستان نے دل دہلا دیے
اشاعت کی تاریخ: 23rd, September 2025 GMT
کراچی کے علاقے لانڈھی سے پانچ روز قبل لاپتہ ہونے والے سات سالہ بچے سعد علی کی لاش بوری میں بند حالت میں ملی ہے۔ افسوسناک واقعہ اس وقت منظرِ عام پر آیا جب لانڈھی کے علاقے 36 بی کی کچرا کنڈی سے بدبو آنے پر مقامی افراد نے پولیس کو اطلاع دی۔ پولیس اور چھیپا کے رضاکار موقع پر پہنچے تو بوری سے ایک کمسن بچے کی سڑتی ہوئی لاش برآمد ہوئی۔پولیس کے مطابق بچے کی شناخت سات سالہ سعد علی ولد سلمان کے نام سے ہوئی جو 18 ستمبر کو گھر کے باہر سے لاپتہ ہوا تھا۔ اس کے اغوا کا مقدمہ لانڈھی تھانے میں درج کیا گیا تھا اور بچے کی تلاش کے لیے پمفلٹ بھی تقسیم کیے گئے تھے۔پوسٹ مارٹم رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ مقتول بچے کے ساتھ زیادتی کی گئی تھی اور موت کی وجہ سر پر وزنی چیز لگنے سے ہونے والی چوٹ بتائی گئی ہے۔ پولیس سرجن ڈاکٹر سمیعہ طارق کے مطابق بچے کے جسم سے حاصل کیے گئے مختلف نمونے کیمیکل تجزیے کے لیے بھجوا دیے گئے ہیں۔واقعے کے بعد مقتول کے گھر میں کہرام مچ گیا۔ اہلِ علاقہ کی بڑی تعداد غمزدہ خاندان کے ساتھ تعزیت کے لیے پہنچ گئی اور پولیس پر غفلت برتنے کا الزام لگاتے ہوئے شدید احتجاج کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ بچے کی گمشدگی کے باوجود پانچ دن تک کوئی ٹھوس کارروائی نہیں کی گئی۔علاقہ مکینوں اور متاثرہ خاندان نے حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سے مطالبہ کیا ہے کہ معصوم بچے کے ساتھ درندگی کرنے والے مجرموں کو فوری طور پر گرفتار کر کے قرار واقعی سزا دی جائے۔پولیس کی جانب سے تحقیقات جاری ہیں اور مقتول بچے کے اہلِ خانہ کا کہنا ہے کہ ان کی کسی سے کوئی ذاتی دشمنی نہیں اس لیے یہ واقعہ پوری برادری کے لیے صدمہ اور خوف کی علامت بن گیا ہے۔ بچے کی نمازِ جنازہ اور تدفین ظہر کے بعد ادا کی گئی۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
کلیدی لفظ: بچے کی کے لیے بچے کے
پڑھیں:
سانحہ شب عاشور کے متاثرین آج بھی انصاف کے منتظر ہیں، علامہ مقصود ڈومکی
جیکب آباد میں سانحہ شب عاشور کے شہداء کے مزارات پر حاضری دیتے ہوئے علامہ مقصود ڈومکی نے کہا کہ ان شہداء نے حسینیت کی راہ میں اپنے لہو کا نذرانہ پیش کیا۔ اسلام ٹائمز۔ مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی رہنماء علامہ مقصود علی ڈومکی نے سانحہ شب عاشور کے شہداء کی دسویں برسی کے موقع پر شہدائے راہِ حق کے مزارات پر حاضری دی اور فاتحہ خوانی کی۔ اس موقع پر انہوں نے شہداء کے ورثاء سے ملاقات بھی کی اور ان سے اظہار یکجہتی کیا۔ علامہ مقصود علی ڈومکی نے کہا کہ سانحہ شب عاشور کے شہداء نے حسینیت کی راہ میں اپنے لہو کا نذرانہ پیش کیا۔ یہ عظیم قربانیاں ہمارے لیے مشعل راہ ہیں، ان شہداء کا مشن حسینیت کی سربلندی تھا شہداء کے مقدس مشن کو ہر حال میں آگے بڑھایا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ دس سال کا طویل عرصہ گزر جانے کے باوجود آج بھی 29 مظلوم شہداء کے ورثاء انصاف کے منتظر ہیں۔ بدقسمتی سے سانحہ میں ملوث تمام دہشت گردوں کو بری کر دیا گیا اور شہداء کا مقدس خون آج بھی انصاف کا منتظر ہے۔ انہوں نے کہا کہ یزید وقت یہ سمجھتا تھا کہ بم دھماکے اور دہشت گردی کے ذریعے حسینیت کی آواز کو دبایا جا سکتا ہے، مگر تاریخ نے ثابت کیا کہ شہداء کا لہو رائیگاں نہیں جاتا۔ آج دس سال گزرنے کے باوجود حسینیت کی صدا اور شہداء کا مشن مزید قوت و توانائی کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے۔ علامہ مقصود علی ڈومکی نے کہا کہ دہشت گرد اپنے مکروہ عزائم میں ناکام ہو گئے جبکہ شہداء راہِ حق کا پیغام اور مقصد آج بھی زندہ و تابندہ ہے۔ انہوں نے حکومت اور عدلیہ سے مطالبہ کیا کہ شہداء کے مقدس خون کا انصاف کیا جائے اور قاتل دہشت گردوں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔