اسلام آباد:

وزیراعلیٰ کے پی علی امین گنڈاپور نے کہا ہے کہ ملک میں عدلیہ آزاد نہیں ہے عمران خان کے کیسز کے ساتھ جو ہورہا ہے یہ سب پلان کے مطابق ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے باہر گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آپ سب کو علم ہے ایک ڈرامہ چل رہا ہے، عمران خان کے ساتھ کیسز کے ساتھ جو کچھ کیا جارہا ہے یہ سب پری پلان منصوبے کے مطابق کیا جارہا ہے، جب تک ایک کیس میں سزا نہیں ہوتی دوسرا کیس بنا دیتے ہیں ایک کے بعد ایک کیس بنایا جارہا ہے، ملک میں عدلیہ آزاد نہیں ہے عدلیہ آزادی سے اپنے فیصلے نہیں کرپا رہی۔

انہوں ںے کہا کہ ہمیں امید ہے سپریم کورٹ کا ایک فورم باقی ہے، ہماری گزارش ہے 25 کروڑ عوام انصاف کے لیے آپ کی طرف دیکھتے ہیں، آپ کو انصاف دینا ہے آپ کے اوپر کیسز کا دباؤ ہے، آپ اپنی پوزیشن پر بیٹھ کر فیصلے کیوں نہیں کر پارہے؟ آپ کو ایک دن مرنا بھی ہے اور اللہ پاک کو بھی جواب دینا ہے، قرآن کی تفسیر پڑھیں اور جواب دیں، آپ کھل کر دلائل کی بنیاد پر فیصلے کریں۔

وزیراعلیٰ کے پی نے کہا کہ کیا پاکستان میں مستقبل میں انسانی حقوق ملیں گے؟ حقیقی آزادی اور انصاف ہوگا؟ آپ انصاف دینے میں ناکام ہورہے ہیں، اس طرح نظام نہیں چل سکتا، عمران خان کی ایک برداشت ہے، آپ نے تمام ادارے مفلوج کردیے ہیں۔

علی امین گنڈاپور نے مزید کہا کہ بانی پی ٹی آئی عمران خان قوم اور ہمارے بچوں کی جنگ لڑ رہا ہے، بانی پی ٹی آئی کی خواہش پر جلسہ ہوگا اور بھرپور جلسہ ہوگا۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: کہا کہ

پڑھیں:

اعلیٰ عدلیہ کا جج اپنے ہی جج کے خلاف رٹ یا توہینِ عدالت کارروائی نہیں کر سکتا، سپریم کورٹ

سپریم کورٹ نے قرار دیا ہے کہ اعلیٰ عدلیہ کا کوئی جج اپنی ہی عدالت کے دوسرے جج کے خلاف نہ تو رٹ جاری کر سکتا ہے اور نہ ہی توہینِ عدالت کی کارروائی کرسکتا ہے۔ یہ اصول آئین اور عدالتی نظائر کے مطابق طے شدہ ہے۔

نذر عباس توہین عدالت کیس میں سابق ڈپٹی رجسٹرار کی انٹراکورٹ اپیل پر تفصیلی فیصلہ جاری کیا گیا ہے جو 11 صفحات پر مشتمل ہے اور جسٹس جمال خان مندوخیل نے تحریر کیا۔

فیصلے میں کہا گیا کہ بنیادی سوال یہ ہے کہ آیا آئینی اور ریگولر کمیٹی میں شامل ججز کے خلاف توہینِ عدالت کارروائی ممکن ہے یا نہیں۔

مزید پڑھیں: اسلام آباد ہائیکورٹ: جسٹس سردار اعجاز اسحاق نے وفاقی کابینہ کو توہینِ عدالت کا شوکاز نوٹس کردیا

عدالت نے قرار دیا کہ آئین کے آرٹیکل 199 کے تحت سپریم کورٹ اور ہائیکورٹ کے ججز کو انتظامی امور میں استثنیٰ حاصل ہے اور انہیں اندرونی و بیرونی مداخلت سے تحفظ دیا گیا ہے۔

فیصلے کے مطابق ’یہ بات طے ہے کہ سپریم کورٹ یا ہائیکورٹ کا جج اسی عدالت کے دوسرے جج کے سامنے جوابدہ نہیں۔‘

فیصلے میں کہا گیا کہ محمد اکرام چوہدری کیس کے نظیر فیصلے کے مطابق ججز کے خلاف کارروائی ممکن نہیں، اور آرٹیکل 209 کے تحت سپریم جوڈیشل کونسل کے علاوہ کسی اور فورم پر جج کے خلاف کارروائی نہیں کی جاسکتی۔

مزید پڑھیں: توہینِ عدالت کی کارروائی ہوئی تو بابر اعوان، فیصل چوہدری کیخلاف ہو گی: سپریم کورٹ

سپریم کورٹ نے مزید کہا کہ عدلیہ جمہوری ریاست میں قانون کی حکمرانی کے محافظ کے طور پر بنیادی ستون ہے، اس لیے ججز کو اپنے فرائض کی انجام دہی میں آزاد اور غیر جانبدار رہنے کے لیے مکمل تحفظ دیا جانا ضروری ہے۔

فیصلے میں یہ بھی کہا گیا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر اور آئینی بنچ کمیٹی کے ارکان کو توہینِ عدالت کا نوٹس برقرار نہیں رہ سکتا۔

یاد رہے کہ جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں بینچ نے عدالتی حکم کے باوجود کیس مقرر نہ کرنے پر توہین عدالت کارروائی شروع کی تھی، جس کے خلاف سابق ڈپٹی رجسٹرار نے انٹراکورٹ اپیل دائر کی تھی۔ اس اپیل پر 6 رکنی بینچ نے توہینِ عدالت کارروائی ختم کر دی تھی، اور اب تفصیلی فیصلہ جاری کیا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

توہین عدالت جسٹس منصور علی شاہ سپریم کورٹ محمد اکرام چوہدری کیس نذر عباس توہین عدالت کیس

متعلقہ مضامین

  • بی جے پی کی حکومت نہ بنانے کیوجہ سے ریاست کا درجہ بحال نہیں ہورہا ہے، عمر عبداللہ
  • گوگل نے پاکستان میں اے آئی پلس پلان لانچ کردیا
  • اعلیٰ عدلیہ کا جج اپنے ہی جج کے خلاف رٹ یا توہینِ عدالت کارروائی نہیں کر سکتا، سپریم کورٹ
  • اسلام آباد اور راولپنڈی میں ڈینگی کے کیسز میں اضافہ، مزید 55 افراد وائرس کا شکار
  • وزیر اعلی خیبر پختونخواہ نے تاریخ کا سب سے بڑا جلسہ کرنے کا خواب سجا لیا
  • آزاد کشمیر میں مزید 44 مریضوں میں ڈینگی وائرس کی تصدیق
  • حیدرآباد سے پولیو وائرس کے  نئے کیس کی تصدیق 
  • ۔23 ستمبر یوم قتل انصاف؛ وزیر اعظم اور عدلیہ عافیہ کو انصاف دلائیں؟