ہیومینائیڈ روبوٹس: سائنس فکشن سے حقیقت کی دنیا تک، مواقع اور خطرات پر نئی بحث
اشاعت کی تاریخ: 26th, September 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
نیو یارک : سائنس فکشن فلموں میں دکھائے جانے والے ہیومینائیڈ روبوٹس اب تیزی سے حقیقت کا روپ دھار رہے ہیں۔
بین الاقوامی میڈیا رپورٹس کےمطابق سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ 2035 تک لاکھوں ہیومینائیڈز گھروں اور دفاتر کا حصہ بن جائیں گے جبکہ 2050 تک ان کی تعداد تقریباً ایک ارب تک پہنچ سکتی ہے، یعنی دنیا میں ہر دس افراد کے مقابلے میں ایک روبوٹ، عالمی سطح پر اس صنعت کی مالیت 5 ٹریلین ڈالر سے تجاوز کرنے کا امکان ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ روبوٹس بڑھتی ہوئی مزدوروں کی کمی پوری کریں گے، بوڑھی ہوتی آبادی کی دیکھ بھال کریں گے اور گھریلو کاموں میں مدد فراہم کریں گے،روبوٹس خطرناک اور دہرائے جانے والے کاموں کو انجام دے کر انسانوں کو تخلیقی اور ذاتی مصروفیات کے لیے وقت دیں گے۔
سائنسی ماہرین نے کہا کہ ان روبوٹس کے بے قابو استعمال سے پرائیویسی، سکیورٹی اور اخلاقی مسائل پیدا ہو سکتے ہیں، اگر کوئی روبوٹ مریض کی دیکھ بھال میں ناکام ہو جائے یا حساس فیصلے میں غلطی کرے تو اس کا ذمہ دار کون ہوگا؟
جرمنی کی کمپنی Neura Robotics کے بانی ڈیوڈ ریگر کا کہنا ہے کہ ہیومینائیڈ روبوٹس خاص طور پر عمر رسیدہ معاشروں کے لیے ناگزیر ہیں، کمپنی نے گھریلو معاون “MiPA” اور جدید روبوٹ “4NE1” تیار کیے ہیں جو 360 ڈگری وژن اور حقیقی حرکات کے ساتھ فیکٹری اور گھریلو ماحول میں کام کرسکتے ہیں۔
ڈیوڈر یگر نے کہاکہ یہ روبوٹ وہ کام کرتے ہیں جو انسان نہیں کرنا چاہتے، جیسے کچرا اٹھانا یا برتن دھونا، اس سے انسانوں کے پاس تخلیقی کاموں جیسے موسیقی، مصوری اور تحریر کے لیے زیادہ وقت ہوگا۔
خیال رہے کہ امریکی کمپنی Realbotix نے ایسے ہیومینائیڈز تیار کیے ہیں جو انسانی چہرے کے تاثرات، جذبات اور زبان کو پہچان کر جواب دے سکتے ہیں، ان کا روبوٹ “Aria” شاپنگ مالز، ہوٹل ریسپشن اور اسپتالوں میں معاونت فراہم کرتا ہے۔
کمپنی کے سی ای او اینڈریو کیگیول نے کہاکہ ہم نے روبوٹس کو اس طرح ڈیزائن کیا ہے کہ وہ جذباتی اور ذہنی سطح پر لوگوں سے بات چیت کرسکیں۔ اگلی نسل کے روبوٹس چہرے کے تاثرات دیکھ کر مذاق کریں گے، مسکرائیں گے اور انسان کے جذبات کے مطابق ردعمل دیں گے۔
او اینڈریو کیگیول کا کہنا ہے کہ روبوٹس معمر مریضوں کو وقت پر دوا یاد دلا سکتے ہیں، ایمرجنسی میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں اور لوگوں کی تنہائی کم کر سکتے ہیں، تنہائی ایک عالمی وبا ہے جو ڈپریشن اور کئی بیماریوں کو جنم دیتی ہے، اگر روبوٹ روزمرہ گفتگو کو یاد رکھے اور آپ کا دوست بن سکے تو یہ معاشرے کے لیے ایک قیمتی سہولت ہے۔
واضح رہے کہ ان روبوٹس کی قیمت 1 لاکھ 75 ہزار ڈالر ہے، تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ 2050 تک یہ لاگت صرف 50 ہزار ڈالر تک گر سکتی ہے، جبکہ چینی سپلائی چین تک رسائی رکھنے والے ممالک میں یہ قیمت 15 ہزار ڈالر تک بھی آ سکتی ہے۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: کا کہنا ہے کہ سکتے ہیں کریں گے کے لیے
پڑھیں:
کیا جاپان نے بھی امریکا کی طرح غیرملکیوں کو ملک بدر کررہا ہے، حقیقت کیا؟
حال ہی سوشل میڈیا پر ایسی خبریں گردش کررہی ہیں کہ جاپان نے بھی امریکا کی طرح جرائم کی روک تھام کیلئے غیرملکیوں کو وسیع پیمانے پر ملک بدر کرنا شروع کردیا ہے۔
پوسٹ میں بتایا گیا کہ سانائے تاکائیچی نے بطور وزیر اعظم حلف اٹھایا اور فوری طور پر بڑے پیمانے پر غیر ملکیوں کی ملک بدری کا فیصلہ کیا گیا۔
جب سخت گیر قدامت پسند سانائے تاکائیچی 21 اکتوبر کو نئے حکومتی اتحاد کے قیام کے بعد ملک کی پہلی خاتون وزیر اعظم بنیں تو ایک پوسٹ فیس بُک اور ایکس پر شیئر کی گئی جو بین الاقوامی سطح پر توجہ کا مرکز بن گئی جس میں دعویٰ کیا گیا کہ جاپان کی نئے وزیر اعظم نے فوری طور پر بڑے پیمانے پر ملک بدری کا آغاز کردیا ہے۔
تاہم جاپان کی حکومت نے اس فیک نیوز کی تردید کردی ہے اور کہا ہے کہ اگرچہ وہ غیر ملکیوں کے جرائم اور غلط رویے کے خلاف سخت رویہ اختیار کرنا چاہتی ہے تاہم وہ سوشل پر شیئر کی جانے والی آن لائن پوسٹس کے برعکس وسیع پیمانے پر ملک بدری نہیں چاہتی۔
یہ پوسٹ ایکس پر بھی شیئر کی گئی جس پر 95 لاکھ کمنٹس موصول ہوئے۔ برطانیہ میں جاپان کے سفارت خانے کے ترجمان نے بھی ایک ای میل میں کہا کہ یہ کہنا غلط ہے کہ ملک کی نئی وزیرِ اعظم نے بڑے پیمانے پر ملک بدری شروع کر دی ہے اور اس مقصد کے لیے ایک نئی وزارت بھی تشکیل دی گئی ہے۔