قومی اسمبلی اجلاس سے پاکستان پیپلز پارٹی کا واک آؤٹ، پنجاب حکومت کے رویے پر تحفظات
اشاعت کی تاریخ: 30th, September 2025 GMT
حکومتی اتحاد کی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) نے پنجاب حکومت کے رویے کے خلاف احتجاجاً قومی اسمبلی اجلاس سے واک آؤٹ کر دیا۔
یہ بھی پڑھیں: ایوان کے باہر اپنی اسمبلی لگائیں گے، پی ٹی آئی کا قومی اسمبلی اجلاس کے بائیکاٹ کا اعلان
پیپلز پارٹی کے سینیئر رہنما نوید قمر نے سخت مؤقف اپناتے ہوئے کہا کہ موجودہ حالات میں حکومتی بینچز پر بیٹھنا ان کے لیے مشکل ہوتا جا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم طعنے سن رہے ہیں، حکومت کو کندھا دے رہے ہیں۔
نوید قمر نے پارلیمنٹ میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ یہ کوئی پارٹنرشپ نہیں ہے، نہ ہمیں کوئی عہدے یا کرسیاں چاہئیں، ہمیں صرف عزت چاہئے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہم حکومت کو کندھا دے رہے ہیں لیکن اس کے بدلے ہمیں طعنے سننے کو مل رہے ہیں۔
مزید پڑھیے: ہر چیز کا علاج بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام نہیں، اپنے مشورے اپنے پاس رکھیں، وزیراعلیٰ مریم نواز
نوید قمر نے واضح کیا کہ پیپلز پارٹی کو اتحادی ہونے کے باوجود نظر انداز کیا جا رہا ہے جس سے مایوسی بڑھ رہی ہے۔
وفاقی وزیر قانون کی معذرتپیپلز پارٹی کے سخت مؤقف پر وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے ایوان میں کھڑے ہو کر معذرت کی۔
مزید پڑھیں: ہم پر تنقید اس لیے ہو رہی ہے کیونکہ پنجاب کام کر رہا ہے، وزیراعلیٰ مریم نواز
ان کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی ہماری اہم اتحادی ہے، ہم ان کے گلے شکوے دور کریں گے اور معاملے کو سلجھانے کی کوشش کریں گے۔
اجلاس ملتویپیپلز پارٹی کے واک آؤٹ کے بعد قومی اسمبلی کا اجلاس 3 اکتوبر تک ملتوی کر دیا گیا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
پیپلز پارٹی پیپلز پارٹی کا واک آؤٹ قومی اسمبلی نوید قمر.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: پیپلز پارٹی پیپلز پارٹی کا واک ا ؤٹ قومی اسمبلی نوید قمر قومی اسمبلی پیپلز پارٹی نوید قمر رہے ہیں کہا کہ
پڑھیں:
قومی اسمبلی اجلاس؛ نیشنل پریس کلب پر پولیس دھاوے کیخلاف صحافیوں کا بائیکاٹ
اسلام آباد:نیشنل پریس کلب میں پولیس دھاوے کے خلاف صحافیوں کی جانب سے قومی اسمبلی اجلاس کا بائیکاٹ کرتے ہوئے واک آؤٹ کردیا گیا۔
قومی اسمبلی کا اجلاس اسپیکر سردار ایاز صادق کی صدارت میں شروع ہوا، جس میں صحافیوں نے کارروائی کا بائیکاٹ کرتے ہوئے واک آؤٹ کیا۔ صحافیوں نے پریس گیلری سے واک آؤٹ کرتے ہوئے سیاہ پٹیاں باندھ کر احتجاج کیا۔
اس موقع پر اسپیکر قومی اسمبلی نے تین رکنی حکومتی وفد صحافیوں سے مذاکرات کے لیے بھیجا۔
سید نوید قمر نے اس موقع پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے واک آؤٹ کیا، احتجاج کیا ، ہمیں کچھ یقین دہانیاں کرائی گئیں مگر گراؤنڈ پر ابھی تک وہی صورتحال ہے۔ ہم ایوان سے واک آؤٹ کرتے ہیں ۔ اس موقع پر پاکستان پیپلز پارٹی نے ایوان سے واک آؤٹ کر دیا۔
اسد قیصر نے ایوان میں کہا کہ غزہ سے متعلق 20 نکات تیار کیے گئے ہیں۔ امریکی صدر سے پہلے ہمارے وزیراعظم نے ٹویٹ کیا، کیا انہوں نے فلسطین سے بھی پوچھا کہ وہ کیا چاہتے ہیں ؟۔ ہمیں ایوان میں آ کر اس پر بریفنگ دی جائے۔
بعد ازاں وزیر مملکت داخلہ طلال چوہدری بھی قومی اسمبلی پریس لاؤنج پہنچ گئے، جہاں انہوں نے کہا کہ پریس کلب واقعے کےبعد خود وہاں گیااورغیر مشروط معافی مانگی۔ اس معاملے پر جو بھی مطالبہ ہوا، اس کو پورا کریں گے۔ صحافیوں کے تمام مطالبات کو پورا کیا جائے گا۔
طلال چوہدری کا کہنا تھا کہ ہم آپ کے ساتھ رابطے میں ہیں، میں ایک بار پھر معافی بھی مانگتا ہوں اور افسوس کا اظہار کرتا ہوں ۔ مظاہرین اور پولیس کی ہاتھا پائی کی وجہ سے پولیس پریس کلب میں گئی ، جہاں انہیں نہیں جانا چاہیے تھا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کا جمہوری اور آئینی نظام پریس کے بغیر نا مکمل ہے۔ اس واقعے کا آزادی اظہار رائے پر قدغن سے کوئی تعلق نہیں ۔ یہ واقعہ اچانک پیش آیا، وزیراعظم اور وزیر داخلہ اس کا نوٹس لیں گے۔ ہمیں شرمندگی ہے اور معذرت کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں۔
پارلیمانی رپورٹرز ایسوسی ایشن کا احتجاج اور واک آؤٹ
دریں اثنا پارلیمانی رپورٹرز ایسوسی ایشن (پی آر اے پاکستان) نے قومی اسمبلی اجلاس کے دوران پریس گیلری سے واک آؤٹ کیا۔ اس موقع پر کہا گیا کہ پی آر اے پاکستان نیشنل پریس کلب اسلام آباد پر پولیس کے حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتی ہے۔ صدر پی آر اے پاکستان ایم بی سومرو اور سیکرٹری نوید اکبر کی قیادت میں واک آؤٹ جاری ہے۔ نیشنل پریس کلب صحافیوں کا گھر ہے، جس پر اسلام آباد پولیس نے گزشتہ روز حملہ کیا ہے۔
پی آر اے پاکستان کے مطابق نیشنل پریس کلب پورے ملک کا نمائندہ قومی پریس کلب ہے۔ صحافیوں پر تشدد اور آئے روز ایسے واقعات معمول بنتے جارہے ہیں۔ پی آر اے پاکستان ایسے واقعات کو غیر جمہوری سوچ کی عکاسی سمجھی ہے۔ قابل مذمت اقدام کی بھرپور مذمت کرتے ہیں۔