دشمن کی حقیقت اور ہمارا مضبوط دفاع
اشاعت کی تاریخ: 1st, October 2025 GMT
پاک بھارت تعلقات کا ہر باب تاریخ کے دردناک نقوش سے عبارت ہے۔ تقسیم ہند کے دن سے لے کر آج تک وہ تلخ یادیں، دھوکے اور تنازعات ہمارے زخموں کی یاد تازہ کرتے رہتے ہیں ۔ ہندوستان کا رویّہ ہمیشہ سے دشمنی پر مبنی رہا ہے۔ اس کی قیادت نے بٹوارے کی حقیقت کو تسلیم نہیں کیا۔ جنگی محاذ ہو یا کھیل کا میدان، بھارت نے ہمیشہ پاکستان کے ساتھ دشمنی کا رویہ رکھا ہے۔
چند ماہ قبل ہماری افواج نے بھارت کوجو سخت جواب دیا،اس کا اثر عارضی نہیں تھا۔ ہماری مسلح افواج، خصوصاً فضائیہ نے جس بہادری اور حکمت عملی سے کارروائی انجام دی، اس کی گونج بین الاقوامی سطح پر بھی سنی گئی۔ دشمن کو جو کاری ضرب لگی، اس کی ٹیس کم نہیں ہو پائی۔ تاریخ بتاتی ہے کہ طاقت اور عزم ہی وہ واحد راستہ ہیں جو دشمن کو کوئی وار کرنے سے روکتے ہیں ۔
کاش یہ سوچنے کا موقع ملے کہ ہمیں یہ طاقت کیوں درکار ہے؟ جواب سادہ ہے۔ دفاع صرف بارودی سرنگیں یا میزائل نہیں، دفاع قومی عزم، سائنس و تکنیک، اقتصادی استحکام اور سیاسی یک جہتی کا مجموعہ ہے۔ ڈاکٹر عبد القدیر خان اور ان کی ٹیم نے جو دفاعی ہتھیار ہم کو دیے ہیں وہ محض عسکری طاقت نہیں بلکہ ایک نفسیاتی توازن بھی ہے۔ ایک حد بندی ہے جو دشمن کو جارحیت سے روکتی ہے۔
اسی لیے کہتے ہیں کہ ایٹمی صلاحیت کسی ملک کی حفاظت اور سالمیت کی ضمانت ہے۔لیکن اس دفاعی قوت کے باوجود یہ ماننا بھی ضروری ہے کہ دشمن کا رویّہ تبدیل نہیں ہوتا۔ ایشیا کپ کے تازہ واقعات نے یہی دکھایا ۔ ہاتھ نہ ملانا اور بھارتی کھلاڑیوں کے نامناسب طرز عمل نے کرکٹ ورلڈ میں بھارت کے امیج کو نہ صرف متاثر کیا بلکہ اس کی مذمت بھی کی گئی۔ یہ ایک ایسا نقصان ہے جو بھارت کے بدنما چہرے پر طویل مدتی اثرات مرتب کرتا رہے گا۔
ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم کیا کریں؟ کیا بس دفاعی قوت بڑھاتے رہیں یا دشمنی کے تسلسل کو منہ توڑ جواب دیں؟ یا پھر دونوں راستے ضروری ہیں۔ مضبوط دفاع او مدبرانہ دفاع میں مضبوطی لازمی ہے تاکہ دشمن کو بار بار حملے کی جرات نہ ہو ، ہم اس دفاع کو صرف ہتھیاروں تک محدود نہ رکھیں۔
ہمارے اندرونی استحکام، معاشی خودکفالت، علمی ترقی اور سیاسی یک جہتی وہ ستون ہیں جو ہمیں مستقل طور پر محفوظ رکھتے ہیں۔ جب عوامی امنگیں مضبوط ہوں، معیشت مستحکم ہو اور قیادت متحد ہو تو دشمن کی سازشیں ناکام ہونے کے سوا اور کیا رہ جاتی ہیں؟ ہمیں اپنے اندر موجود بھارت نواز حلقوں کو بھی حقیقت کا ادراک دلانے کی ضرورت ہے۔
یہ وہ لوگ ہیں جو ذاتی تعلقات یا تجارتی مفادات کے باعث بھارت کو ایک دوست ملک سمجھنے کے قائل رہتے ہیں۔ بین الاقوامی تعلقات میں سفارتکاری اور تجارتی میل جول اہم ہیں مگر جب سامنے کا ملک آپ کی بقا سے ہی انکاری ہو تو یہ اعتماد خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔ عہدوں پر براجمان افراد کو اس ادراک کے ساتھ رہنا چاہیے کہ وہ کسی ایسے ملک کے مفادات کو مقدم نہ رکھیں جو بسا اوقات ہمارے وجود کو چیلنج کرتا ہے۔ حب الوطنی، قومی مفاد اور سلامتی کو ترجیح دینا کسی ذاتی تعلق سے زیادہ اہم ہے۔
ہمیں اپنے دفاعی محاذ پرمحسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور ان کی ٹیم کو بھی نہیں بھولنا چاہیے ۔ ان کی کوششوں نے ہمیں ایک ایسا دفاعی نظام فراہم کردیا جس سے دشمن کو ہم پر حاوی ہونا آسان نہیں رہا۔ قومی قائدین کو چاہیے کہ وہ دفاعی، اقتصادی اور سیاسی پالیسیوں میں اس حقیقت کو مدنظر رکھیں اور عوام کو بھی یہ شعور دیں کہ تحفظ محض سرکاری معاملہ نہیں، عوامی ذمے داری بھی ہے۔اِسی بات کی تجدید کے طور پر ہم یہ بھی دیکھیں کہ ہمارا ردعمل کس طرح کا ہونا چاہیے۔
جارحیت پر اگر مناسب مگر محدود جواب دیا جائے تو دشمن کو سبق ملتا ہے، مگر انتہا پسندی یا غیر ضروری زہریلا معیار اختیار کرنا کارگر نہیںہوتا۔ عقل مندی یہی کہتی ہے کہ حکمت کے ساتھ طاقت دکھائی جائے۔ قلیل مدت میں جارحیت کا جواب ضروری ہے، مگر طویل مدت میں معاشی، دینی، تعلیمی اور سماجی قوتیں ہی مستقل تحفظ دیتی ہیں۔ ہمارے نوجوانوں کو باعلم، باہمت اور خود اعتماد بنانا، ہماری صنعتوں کو مضبوط بنانا اور بین الاقوامی سطح پر اپنے موقف کو منطقی انداز میں پیش کرنا یہ سب اسی امنگ کا حصہ ہیں جو ہمیں محض ردعمل کی حالت سے نکال کر مثبت قومی ترقی کی راہ پر گامزن کریں گے۔
یہ کہنا ناگزیر ہے کہ دشمنی کے باوجود امن کا راستہ مکمل طور پر بند نہیں ہونا چاہیے۔ سیاست اور سفارتکاری میں مواقع بدلتے رہتے ہیں مگر جب تک دشمنی کا طرزِ عمل برقرار رہے گا ہمیں چوکنّا رہنا ہوگا۔ ذاتی تعلقات، تجارتی مفادات یا وقتی فلاح کے عوض قومی سلامتی کو داؤ پر لگانے کے بجائے ایک متوازن، مضبوط اور دور اندیش حکمتِ عملی اپنانی ہوگی۔ ہماری افواج نے جو بلند ہمت اور قربانی دکھائی ہے وہ قوم کا فخر ہے اور اسی فخر کے ساتھ ہمیں اپنی قومی سلامتی کو محفوظ رکھنے کے لیے ہر میدان میں پختہ رہنا ہوگا۔ اور وہی راستہ اختیار کیا جائے جو ملک کی بقا، وقار اور سلامتی کو مستحکم کرے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: سلامتی کو کے ساتھ دشمن کو ہیں جو
پڑھیں:
پروپیگنڈے میں نہ آئیں، دوست اور دشمن کو پہچانیں، پنجاب سے احساس محرومی ختم کردوں گی، مریم نواز
لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک)وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے کہا ہے کہ لوگ پروپیگنڈے میں نہ آئیں، دوست اور دشمن کو پہچانیں، پنجاب سے احساس محرومی ختم کردوں گی۔
تعلیمی بورڈز کے پوزیشن ہولڈرز طلبہ کے اعزاز میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے کہا کہ صوبے میں 50 ہزار اسکولوں میں کروڑوں بچے تعلیم حاصل کررہے ہیں، حکومت ہونہار طلبہ کو لیپ ٹاپ فراہم کررہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ کمشنرز، ڈپٹی کمشنرز سمیت ہر افسر کی تعیناتی سے قبل وہ خود انٹرویو لیتی ہیں۔ پنجاب میں وزیرِ تعلیم کا بیٹا بھی سرکاری اسکول میں پڑھتا ہے۔ جس ملک میں اتنے ٹاپرز ہوں، وہ کبھی زوال کا شکار نہیں ہوسکتا۔ پنجاب میں 80 ہزار طلبہ اسکالرشپ پر اعلیٰ تعلیم حاصل کررہے ہیں جبکہ حکومت نے فوڈ سکیورٹی کے بعد اب ایجوکیشن سکیورٹی پر بھی خصوصی توجہ دی ہے۔
وزیراعلیٰ پنجاب نے کہا کہ سرکاری اور نجی اسکولوں میں معیارِ تعلیم کا فرق مٹانے کا تہیہ کر رکھا ہے۔
انہوں نے کہا کہ صوبے میں گوگل اور اے آئی کلاس رومز بنائے جارہے ہیں، بچوں کو کروم بکس دیے جارہے ہیں اور گرین و الیکٹرک بسوں میں طلبہ کے لیے سو فیصد مفت سفر کی سہولت فراہم کی گئی ہے، جن میں وائی فائی اور سی سی ٹی وی کی سہولت بھی موجود ہے۔
مریم نواز کا کہنا تھا کہ پنجاب میں سفارش اور دھاندلی کا خاتمہ کردیا گیا ہے، خواتین کی ہراسمنٹ پر چوبیس گھنٹے کے اندر کارروائی ہوتی ہے، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ صوبے کے کئی شہروں میں اب کئی ہفتوں سے کوئی کرائم رپورٹ نہیں ہوا۔
وزیراعلیٰ نے کہا کہ پنجاب میں اسکولوں میں پنکھوں، پانی اور باتھ رومز سمیت تمام سہولیات کی فراہمی کے لیے 80 ارب روپے جاری کیے جاچکے ہیں۔ کتاب اور پینسل کے ساتھ اب ٹیکنالوجی ناگزیر ہو چکی ہے۔ ہم نے گھوسٹ اسکولوں اور گھوسٹ طلبہ کا خاتمہ کیا، ڈیڑھ سال میں کہیں بھی اساتذہ کی کمی نہیں رہی اور اب مضامین کے ماہرین بھرتی کیے جارہے ہیں۔
مریم نواز نے بتایا کہ پنجاب میں میٹرک ٹیک متعارف کرایا گیا ہے جہاں 60 ہزار بچے تعلیم حاصل کررہے ہیں، جبکہ 8 ارب روپے سے مفت یونیفارم اسکیم بھی شروع کی جارہی ہے تاکہ والدین پر بوجھ کم ہو۔ انہوں نے کہا کہ پنجاب کے تمام وسائل عوام کے ہیں، جنہیں ان کے حقوق دینے سے پہلے والی حکومتیں محروم رکھتی رہیں۔
وزیراعلیٰ پنجاب نے کہا کہ ریاست ماں ہوتی ہے، جو اپنے بچوں کے ساتھ سوتیلوں جیسا سلوک نہیں کرتی۔ انہوں نے والدین سے اپیل کی کہ اپنی بچیوں کو تعلیم حاصل کرنے اور ملک کی ترقی میں حصہ لینے کا موقع دیں۔ سوشل میڈیا پر پھیلنے والی جھوٹی خبروں اور پروپیگنڈے پر اندھا یقین نہ کریں، کیونکہ یہ عوام کو گمراہ کرنے کے لیے ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ جو لوگ نوجوانوں کو جلاؤ گھیراؤ پر اکساتے ہیں، وہ ان کے دشمن ہیں، دوست نہیں۔ مریم نواز نے 9 مئی کے واقعات کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ جنہوں نے ملک جلا دیا، ان کے کہے میں آنے والے آج جیلوں میں ہیں، جبکہ خود ان کے بچے باہر محفوظ ہیں۔
وزیراعلیٰ نے کہا کہ شہباز شریف کو خالی خزانہ ملا، لیکن آج ملک ڈیفالٹ سے نکل کر ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ آج پنجاب میں 13 روپے کی روٹی دستیاب ہے جب کہ دیگر صوبوں میں 20 روپے کی ہے۔ مریم نواز نے وعدہ کیا کہ اگر اللہ نے 5 سال دیے تو پنجاب کو ایسا ترقی یافتہ صوبہ بناؤں گی جسے دیکھنے لوگ آئیں گے۔