Express News:
2025-11-19@06:14:37 GMT

ہم قناعت سے کیوں محروم ہیں!

اشاعت کی تاریخ: 1st, October 2025 GMT

ہم قناعت کے وصف سے محروم ہیں اور ناشکرے بن چکے ہیں۔ یہ خیال کرکے بھی کہ ہم مظلومینِ غزہ کی طرح تاریخ کی بدترین درندگی کا شکار نہیں ہیںاور ملک میں سیلاب کی تباہیوں سے بھی محفوظ ہیں۔ ہم مالک کائنات کا شکر کیوں نہیں ادا کرتے۔ ہم اس قدر نا شکرے کیوں بن چکے ہیں؟ میرے تجربے اور مشاہدے کے مطابق وہ نادار لوگ جو مادی وسائل سے محروم ہیں یا جن کے پاس دنیاوی نعمتیں کم ہیں، انھیں خالق ومالک نے اطمینانِ قلب کی دولت بڑی وافر عطا کی ہے۔

اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ امراء کے مقابلے میں نادار افراد کے پاس قناعت کی دولت زیادہ ہوتی ہے۔ اپنے گاؤں جب بھی جاتا ہوں تو وہاں اپنے ہاتھوں سے رزقِ حلال کمانے والے افراد سے، جو ہزار بارہ سو روپے دیہاڑی لیتے ہیں جب کہ مہینے میں چار پانچ روز ان کا ناغہ بھی ہوجاتا ہے یعنی مہینے کے بیس بائیس ہزار روپے کمانے والوں سے جب حال احوال پوچھتا ہوں تو ان کا جواب ہوتا ہے ’’اﷲ کا بڑا فضل ہے۔

شکر ہے رب کا‘‘ اور جب کسی کاروباری یا صنعتکار دوست سے ملاقات پر خیریّت دریافت کرتا ہوں تو وہ ہزار شکوے شکایتیں کرنے لگتا ہے جس میں کچھ حکومت سے ہوتی ہیں اور کچھ سسٹم سے اور کچھ ایف بی آر وغیرہ سے ہوتی ہیں۔ لگتا ہے بہت زیادہ دولت ملنے کے بعد اکثر لوگ قناعت سے محروم ہوجاتے ہیں۔

قناعت سے محرومی کا خیال مظلومینِ غزہ پر ٹوٹنے والی قیامت کے احوال سن کر زیادہ آنے لگا ہے۔ پوری دنیا جانتی ہے کہ غزہ میں رہنے والے انسانوں کے ساتھ جس ظلم اور درندگی کا مظاہرہ پچھلے دو سالوں سے کیا جارہا ہے اس کی مثال پوری انسانی تاریخ میں نہیں ملتی۔ ایسے دلدوز مناظر انسانی آنکھوں نے پہلے کبھی نہیں دیکھے ہوں گے۔ ایک ننھی بچی، جس کی ماں، باپ اور چار بہن بھائی اسرائیلی بمباری سے ہلاک ہوگئے ہیں، روتی ہوئی ملبے میں سے ماں کو تلاش کر رہی ہے۔

ایک ماں اپنے پانچ بیٹوں کی میّتوں پر کھڑے ہوکر دنیا سے پوچھ رہی ہے۔’’ہم پر اتنا ظلم کیوں کیا جارہا ہے۔ کیا ہم انسان نہیں ہیں؟‘‘ ایک پانچ چھ سالہ زخمی بچی اپنے دو سالہ زخمی بھائی کو اٹھا کر نا معلوم منزل کی طرف پیدل چلی جارہی ہے تاکہ وہ اپنے بھائی کو آگ اور بارود سے بچاسکے۔ یورپ کی کوئی پارلیمنٹ ایسی نہیں ہے جہاں نسل، رنگ، مذہب اور علاقے سے بالاتر ہوکر، ارکانِ پارلیمنٹ نے غزہ کے ان مناظر کا ذکر نہ کیا ہو اور ذکر کرتے ہوئے ان کی آواز نہ بھّرائی ہو اور آنکھیں نہ بھیگی ہوں۔

اب کئی مہینوں سے غزہ کے مظلوم ترین انسان بھوک اور بارود کا سامنا کررہے ہیں۔ کوئی چار روز سے بھوکا ہے تو کسی نے پانچ روز سے کچھ نہیں کھایا۔ والدین بچّوں کو تسلّی دینے کے لیے سمندر کا پانی دیگچی میں ڈال کر آگ پر رکھ دیتے ہیں اور کئی دنوں کے بھوکے معصوم بچے چولہے پر چڑہی ہوئی دیگچی کو دیکھتے دیکھتے سوجاتے ہیں، یہ ایک روز کا عذاب نہیں، کئی مہینوں سے ایسے ہی چل رہا ہے، جو بے گناہ انسان ابھی تک موت کے منہ میں نہیں گئے وہ سوکھ کر کانٹا بن چکے ہیں۔

اسرائیل اور اس کے سرپرست امریکا نے بھوک کو بھی ہتھیار بنایا ہوا ہے۔ اسرائیلی ٹرک روٹیاں لاتا ہے جنھیں جاں بہ لب فلسطینیوں کے سامنے پھینک کر اسرائیلی فوجی تماشا دیکھتے ہیں۔ اس دوران کسی اسرائیلی فوجی کا گن چلانے کا موڈ بن جائے تو وہ لائن میں لگے ہوئے مظولم فلسطینیوں پر فائرنگ کرکے انھیں موت کے گھاٹ اتاردیتا ہے۔ انسانیت کی اتنی تذلیل کبھی دیکھی یا سنی نہیں گئی۔

مظلومینِ غزہ بھی ہمارے جیسے انسان ہیں، ہماری طرح وہ بھی کلمہ گو مسلمان ہیں، برستی ہوئی آگ اور بارود میں بھی اپنے رب کی بارگاہ میں جھکتے اور نماز ادا کرتے ہیں۔ ان کی جگہ ہم بھی تو ہو سکتے تھے، اگر ہم غزہ جیسے انسانیت سوز مظالم سے محفوظ ہیں تو اس پر اپنے خالق اور مالک کا شکر کیوں نہیں بجا لاتے۔

اہلِ غزہ ہر روز دعائیں کرتے ہیں اور منّتیں مانگتے ہیں کہ اس عذب سے بچ جائیں۔ اسرائیل کی بمباری رک جائے اور ہمیں ایک روٹی اور چند قطرے پانی کے میّسر آجائیں تو ہم ہر لحظہ اللہ کا شکر ادا کرتے رہیں گے۔ وہ نعمتیں جو مظلومینِ غزہ کا خواب ہیں ہمیں ان سے کئی سو گنا زیادہ نعمتیں میّسر ہیں مگر ہمارا ہر لمحہ سجدۂ شکر میں کیوں نہیں گذرتا؟ ہمیں اس پر غور کرنا چاہیے اور اپنی ناشکری پر شرم آنی چاہیے۔ ہمیں اپنے طرزِ عمل پر توبہ کرنی چاہیے اور اپنے چھوٹے موٹے مسائل بھول کر اللہ سبحانہ تعالیٰ کے حضور اظہارِ تشکّر کے لیے سر جھکا دیناچاہیے۔

حالیہ سیلاب سے ملک کے مختلف حصوں میں لوگوں کا بہت زیادہ جانی اور مالی نقصان ہوا ہے۔ بونیر میں آن کی آن میں بیسیوں مکان، مکینوں سمیت سیلاب کی نذر ہوگئے۔ کئی ایسے لوگ ہیں جن کے تیس سے زیادہ قریب ترین عزیز بپھرے پانیوں میں غرق ہوگئے ہیں۔ کیا ایسے بدقسمت افراد کے دلوں پر لگے ہوئے گہرے گھاؤکبھی مندمل ہوسکتے ہیں؟ وسطی اور جنوبی پنجاب میں جانی نقصان کے علاوہ ہزاروں غریب لوگوں کا گھریلو سامان اور مال مویشی سیلاب میں بہہ گئے ہیں۔

بہت سے خوشحال گھرانے بھی ہر چیز سے محروم ہوکر کھلے آسمان تلے آگئے ہیں اور اب انھیں چاولوں کی ایک پلیٹ کے لیے لائن میں لگنا پڑرہا ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس عذاب اور آزمائش سے محفوظ رکھا ہے تو ہمیں اظہارِ تشکّر کا خصوصی اہتمام کرنا چاہیے۔ وہ شکرانے کے نوافل کی صورت میں بھی ہوسکتا ہے اور سیلاب زدگان کی امداد کرکے بھی ہوسکتا ہے اور بیک وقت دونوں کام کرکے بھی ہوسکتا ہے۔

دراصل انسانوں کی مادّی خواہشات کی حدود ختم ہوچکی ہیں، لوگ ہر جائز اور ناجائز طریقے سے پیسہ کمانے کے جنون میں مبتلاء ہیں،جہاں حرص وہوس لامحدود اور خواہشات بے لگام ہو جائیں وہاں نہ قناعت کے لیے کوئی جگہ بچتی ہے اور نہ تشکّر کے لیے وقت ملتا ہے۔ ہمارے ماموں جان نے جو ملک کے اہم ترین عہدوں پر فائز رہے، اپنے بیڈروم میں یہ شعر فریم کراکے لگا رکھا تھا

؎جو کچھ ملا ہوا ہے کروں گر اُسی کا شکر

کچھ اور مانگنے کی نہ فرصت ملے مجھے

واقعی جو نعمتیں میّسر ہیں، اگر انسان، دینے والے کا شکر ادا کرنے لگے تو اور کچھ مانگنا ہی بھول جائے۔ ہمارے والد صاحب مختلف طریقوں سے قناعت کی اہمیّت اور فضیلت ہمارے دل ودماغ میں اتارا کرتے تھے۔ ایک بار وہ ہم تینوں بھائیوں کو گاؤں کے ایک غریب مزدور کے کچّے گھر کے پاس لے گئے اور اس گھر سے بلند ہونے والے قہقہوں کی آوازیں سنواتے رہے اور ہمیں بتاتے رہے کہ اس مزدور کے گھر میں وہ آسائشیں اور نعمتیں نہیں ہیں جو تمہیں میّسر ہیں مگر دیکھو وہ اور اس کے گھر والے کتنے خوش ہیں۔ خوشی، مال ودولت سے نہیں اطمینانِ قلب سے ملتی ہے اور اطمینانِ قلب صرف اسے ملتا ہے جو قناعت کی دولت سے مالا مال ہو۔

ہم دنیاوی آسائشوں میں کمی کا رونا روتے رہتے ہیں اور ہر وقت شکوہ کناں رہتے ہیں مگر جو نعمتیں میّسر ہیں، ان کا شکر ادا نہیں کرتے۔ اگر اللہ کی نعمتوں کا ذکر کرنے لگیں تو قلم ٹوٹ جائیں اور کاغذ کم پڑ جائیں، آپ کے جسمانی اعضاء سلامت ہیں تو آپ کتنے خوش قسمت ہیں۔ آنکھیں اور بینائی قدرت کا کتنا بڑا کرم ہے، اس کا احساس کسی اندھے کو دیکھ ہی ہوتا ہے، ہاتھ اور پاؤں موجود ہوں اور درست کام کررہے ہوں تو یہ کتنی بڑی نعمت ہے جس کا احساس ہمیں ٹانگوں سے محروم شخص کو دیکھ کر ہی ہوتا ہے۔ اگر آپ کو بھوک لگتی ہے، کھانا ہضم ہوجاتا ہے، نیند صحیح آتی ہے، بینائی اور گویائی درست ہے تو آپ بہت خوش قسمت انسان ہیں۔

نبی کریمؐ کا فرمان ہے کہ ’’نیکی اور تقویٰ میں اپنے سے بہتر اور برتر لوگوں کی طرف دیکھو مگر دنیاوی وسائل میں اپنے سے کم تر لوگوں کو دیکھا کرو‘‘ چاہیے تو یہ تھا کہ ہم لوگ جو کسی دشمن کی درندگی سے بھی محفوظ ہیں اور سیلاب کے عذاب سے بھی بچے ہوئے ہیں، نہ صرف ہر روز شکرانے کے نوافل ادا کرتے بلکہ اپنی زندگیوں میں تبدیلی لاتے، سادہ طرزِزندگی اختیار کرتے، ہمارے دلوں میں خالقِ کائنات کا خوف پیدا ہوتا اور سر تشکّر کے جذبے سے اس کی بارگاہ میں جھکے رہتے، اور پھر دل میں تہیّہ کرلیتے کہ آیندہ زندگی ہم غربت اور قدرتی آفات کا شکار ہونے والوں کی مدد اور خدمت کے لیے وقف کردیں گے۔ مگر زمین پر صورتِ حال یہ ہے کہ ہمارے ہی معاشرے کے کچھ ایسے بدبخت بھی ہیں جو سیلاب زدگان کا گھریلو سامان اور مال مویشی چوری کرنے سے بھی باز نہیں آئے۔ یعنی ایک تباہ کن آفت کو اپنی آنکھوں سے دیکھ کر بھی ہمارے اندر خدا خوفی اور انسانی ہمدردی نہیں پیدا ہوسکی۔ ہم کیسے انسان ہیں؟

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: سر ہیں ادا کرتے ہیں اور اور مال گئے ہیں ہے اور ہوں تو کے لیے کا شکر سے بھی

پڑھیں:

خاندان کا ادارہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار کیوں؟

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

خاندان کا ادارہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار کیوں؟ …شاہنواز فاروقی

ایک وقت تھا کہ خاندان ایک مذہبی کائنات تھا۔ ایک تہذیبی واردات تھا۔ محبت کا قلعہ تھا۔ نفسیاتی حصار تھا۔ جذباتی اور سماجی زندگی کی ڈھال تھا… ایک وقت یہ ہے کہ خاندان افراد کا مجموعہ ہے۔ چنانچہ جون ایلیا نے شکایت کی ہے ؎

مجھ کو تو کوئی ٹوکتا بھی نہیں
یہی ہوتا ہے خاندان میں کیا

ٹوکنے کا عمل اپنی نہاد میں ایک منفی عمل ہے۔ مگر آدمی کسی کو ٹوکتا بھی اسی وقت ہے جب اُس سے اس کا ’’تعلق‘‘ ہوتا ہے۔ جون ایلیا کی شکایت یہ ہے کہ اب خاندان سے ٹوکنے کا عمل بھی رخصت ہوگیا ہے۔ یہی خاندان کے افراد کا مجموعہ بن جانے کا عمل ہے۔ لیکن خاندان کا یہ ’’نمونہ‘‘ بھی بڑی نعمت ہے۔ اس لیے کہ بہت سی صورتوں میں اب خاندان افراد کا مجموعہ بھی نہیں رہا۔ اسی لیے شاعر نے شکایت کی ہے ؎
اک زمانہ تھا کہ سب ایک جگہ رہتے تھے
اور اب کوئی کہیں کوئی کہیں رہتا ہے


بعض لوگ اس طرح کی باتوں کو مشترکہ خاندانی نظام کے ٹوٹ جانے کا سانحہ سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اسلام مشترکہ خاندانی نظام پر نہیں صرف خاندان پر اصرار کرتا ہے۔ مشترکہ خاندانی نظام ٹوٹ رہا ہے تو اپنی خرابیوں کی وجہ سے ٹوٹ رہا ہے اور اسے ٹوٹ ہی جانا چاہیے۔ اور اب اگر لوگ الگ گھر بناکر رہ رہے ہیں تو اس میں اعتراض کی کون سی بات ہے! لیکن مسئلہ یہ نہیں ہے کہ اب کوئی کہیں، کوئی کہیں رہتا ہے، بلکہ یہ ہے کہ جو جہاں بھی رہتا ہے محبت کے ساتھ دوسرے سے نہیں ملنا چاہتا۔ ایک وقت تھا کہ لوگ کسی ضرورت کے تحت خاندان سے سیکڑوں بلکہ ہزاروں میل دور جاکر آباد ہوجاتے تھے، مگر یہ فاصلہ صرف جغرافیائی ہوتا تھا… نفسیاتی، ذہنی اور جذباتی نہیں ہوتا تھا۔ اب لوگ ایک گھر میں رہتے ہیں تو ان کے درمیان ہزاروں میل کا نفسیاتی، جذباتی اور ذہنی فاصلہ ہوتا ہے… اور یہی فاصلہ اصل خرابی ہے، یہی فاصلہ خاندان کی ٹوٹ پھوٹ کی علامت ہے، یہی ہمارے عہد کا ایک بڑا انسانی المیہ ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اس المیے کی وجہ کیا ہے؟اس سوال کا جواب یہ ہے کہ خاندان اپنی اصل میں ایک مذہبی تصور ہے۔ کائناتی سطح کے مفہوم میں مرد اللہ تعالیٰ کی ذات اور عورت اللہ تعالیٰ کی صفت کا مظہر ہے، چنانچہ شادی کا ادارہ ذات اور صفت کے وصال کی علامت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام میں شادی کی غیرمعمولی اہمیت ہے اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح کو نصف دین کہا ہے۔ مرد اور عورت کے تعلق کی اسی نوعیت کی وجہ سے اسلام طلاق کو سخت ناپسند کرتا ہے، کیونکہ اس سے انسانی سطح پر ذات اور صفت میں علیحدگی ہوجاتی ہے۔ لیکن مرد اور عورت کے اس تعلق کا مرکز اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ اسی ذات نے انسانوں کو ’’جوڑے‘‘ کی صورت میں پیدا کیا۔ اسی ذات نے زوجین کے درمیان محبت پیدا کی۔ اسی ذات نے بچوں کی پیدائش کو عظیم نعمت اور رحمت میں تبدیل کیا اور اسی ذات نے بچوں کی پرورش پر بے پناہ اجر رکھا۔ مذہبی معاشروں میں خاندان کا یہ تصور انسانوں کے شعور میں پوری طرح راسخ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ خاندان کا ادارہ لاکھوں یا ہزاروں سال کا سفر طے کرنے کے باوجود بھی نہ صرف یہ کہ باقی اور مستحکم رہا بلکہ اس میں کروڑوں انسان ایک حسن و جمال اور ایک گہری رغبت بھی محسوس کرتے رہے۔ لیکن جیسے ہی خدا انسانوں کے باہمی تعلق سے غائب ہوا خاندان کا ادارہ اضمحلال، انتشار اور انہدام کا شکار ہوگیا۔مذہب کی وجہ سے خاندان کے ادارے کی ایک تقدیس تھی۔ اس پر اللہ تعالیٰ کی رحمت کا سایہ تھا۔ اس میں کائناتی سطح کی معنویت تھی جس کا کچھ نہ کچھ ابلاغ بہت کم پڑھے لکھے لوگوں تک بھی کچھ نہ کچھ ضرور ہوتا تھا۔ مذہبی بنیادوں کی وجہ سے خاندان میں ایک برکت تھی اور اس کے ساتھ اجروثواب کے درجنوں تصورات وابستہ تھے۔ لیکن خدا کے تصور کے منہا ہوتے ہی اور مذہب سے رشتہ توڑتے ہی خاندان اچانک صرف ایک حیاتیاتی، سماجی اور معاشی حقیقت بن گیا۔ یعنی انسان محسوس کرنے لگے کہ خاندان انسانی نسل کی بقا اور تسلسل کے لیے ضروری ہے۔ خاندان نہیں ہوگا تو انسانی نسل فنا ہوجائے گی۔ خاندان کے خالص حیاتیاتی تصور نے مرد اور عورت کے باہمی تعلق کو صرف جسمانی تعلق تک محدود کردیا۔ اس تعلق کی اہمیت تو بہت تھی مگر اس میں معنی کا فقدان تھا، اور اس سے کوئی تقدیس وابستہ نہ تھی۔ خدا اور مذہب سے بے نیاز ہوتے ہی انسان کو محسوس ہونے لگا کہ خاندان صرف ہماری سماجی ضرورت ہے۔ انسان ایسی حالت میں پیدا ہوتا ہے کہ اسے طویل عرصے تک ماں باپ اور دوسرے خاندانی رشتوں کی ’’ضرورت‘‘ ہوتی ہے، لیکن ضرورت ایک ’’مجبوری‘‘ اور ایک ’’جبر‘‘ ہے اور اس کی کوئی اخلاقیات نہیں۔ چنانچہ مغربی دنیا میں کروڑوں انسانوں نے اس مجبوری اور جبر کے طوق کو گلے سے اتار پھینکا۔ انسان صرف سماجی نفسیات کا اسیر ہوجاتا ہے تو اس سے ’’معاشی ضرورت‘‘ کے نمودار ہونے میں دیر نہیں لگتی، اور معاشی ضرورت دیکھتے ہی دیکھتے سماجی ضرورت کو بھی ’’ثانوی ضرورت‘‘ بنادیتی ہے۔ خاندان کے ادارے کے حوالے سے یہی ہوا۔ خاندان کے سماجی ضرورت ہونے کے تصور سے معاشی ضرورت کا تصور نمودار ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے خاندان کے ادارے کے تشخص کا نمایاں ترین پہلو بن گیا۔

خاندان کے ادارے کے حوالے سے خدا اور مذہب کے بعد سب سے زیادہ اہمیت محبت کے تصور کو حاصل ہے۔ محبت انسانی زندگی میں کتنی اہم ہے اس کا اظہار میر تقی میرؔ نے اس سطح پر کیا ہے جس سے بلند سطح کا تصور ذرا مشکل ہے۔ میرؔ نے کہا ہے ؎
محبت نے کاڑھا ہے ظلمت سے نور
نہ ہوتی محبت نہ ہوتا ظہور

میرؔ نے اس شعر میں محبت کو پوری کائنات کی تخلیق کا سبب قرار دیا ہے۔ محبت نہ ہوتی تو یہ کائنات ہی وجود میں نہ آتی۔ محبت کے حوالے سے میرؔ کا ایک اور شعر بے مثال ہے۔ انہوں نے کہا ہے ؎
محبت مسبّب محبت سبب
محبت سے ہوتے ہیں کارِ عجب

محبت کے ’’کارِ عجب‘‘ کرنے کی صلاحیت کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ ہر انسان ایک دوسرے سے مختلف کائنات ہوتا ہے، لیکن محبت شادی کی صورت میں دو کائناتوں کو اس طرح ایک کردیتی ہے کہ ان کے درمیان کوئی تضاد اور کوئی کش مکش باقی نہیں رہتی۔ یہ عمل معجزے سے کم نہیں، مگر محبت نے اس معجزے کو تاریخ و تہذیب کے سفر میں اتنا عام کیا ہے کہ یہ معجزہ کسی کو معجزہ ہی نظر نہیں آتا۔

بچوں کو پالنا دنیا کا مشکل ترین کام ہے۔ اس میں ماں باپ کی شخصیت کی اس طرح نفی ہوتی ہے کہ اس کا بوجھ اٹھانا آسان نہیں۔ بچوں کی پرورش ماں باپ کی نیندیں حرام کردیتی ہے، ان کا آرام چھین لیتی ہے، ان کی ترجیحات کو تبدیل کردیتی ہے۔ لیکن ماں باپ کی محبت ہر قربانی کو سہل کردیتی ہے۔ ماں باپ کے دل میں بچوں کے لیے محبت نہ ہو تو وہ بچوں کو پالنے سے انکار کردیں، یا ان کو ہلاک کر ڈالیں۔ لیکن محبت، بے پناہ مشقت کو بھی خوشگوار بنادیتی ہے اور انسان کو تکلیف میں بھی ’’راحت‘‘ محسوس ہونے لگتی ہے، پریشانی بھی بھلی معلوم ہوتی ہے، قربانی میں بھی بے پناہ لطف کا احساس ہوتا ہے۔ بچوں کو ماں باپ کی محبت کا جو تجربہ ہوتا ہے وہ ان کی شخصیت کو ایسا بنادیتا ہے کہ جب ماں باپ بوڑھے ہوجاتے ہیں تو اکثر بچے اسے لوٹانے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ محبت ہی ہے جو بچوں ہی نہیں بڑوں کو بھی اس لائق بناتی ہے کہ وہ اپنے وقت، خوشیوں اور وسائل میں دوسروں کو شریک کریں۔ لیکن مغرب میں انسان خدا اور مذہب سے دور ہوا تو اس کے دل میں محبت کا کال پڑگیا، اور محبت کے قحط نے والدین کے لیے بچوں اور بچوں کے لیے والدین کو بوجھ بنا دیا۔ یہاں تک کہ شوہر اور بیوی بھی ایک دوسرے کو ایک وقت کے بعد ’’اضافی‘‘ نظر آنے لگے۔ مغرب کا یہ ہولناک تجربہ اب مشرق میں بھی عام ہے، یہاں تک کہ اسلامی معاشرے بھی اس سے محفوظ نہیں۔ اس سلسلے میں اسلامی اور غیر اسلامی معاشروں میں فرق یہ ہے کہ غیر اسلامی معاشروں میں خدا اور مذہب لوگوں کی زندگی سے یکسر خارج ہوچکے ہیں، جبکہ اسلامی معاشروں میں مذہب آج بھی اکثر لوگوں کے لیے ایک زندہ تجربہ ہے۔ البتہ جدید دنیا کے رجحانات کا دبائو اتنا شدید ہے کہ مسلم معاشروں میں بھی مذہب پیش منظر سے پس منظر میں چلا گیا ہے۔ چنانچہ مسلم معاشروں میں بھی خاندان کا ادارہ اضمحلال، انتشار اور انہدام کا شکار ہورہا ہے۔

مادی دنیا حقیقی خدا کے انکار تک محدود نہ رہی بلکہ اس نے دولت کی صورت میں اپنا خدا پیدا کرکے دکھایا، اور وہ معاشرے جو کبھی ’’خدا مرکز‘‘ یا God Centric تھے وہ دولت مرکز یا Money Centric بنتے چلے گئے۔ ان معاشروں میں دولت ہر چیز کا نعم البدل بن گئی۔ اس نے حسب نسب کی صورت اختیار کرلی۔ وہی شرافت اور نجابت کا معیار ٹھیری۔ اسی سے علم و ہنر منسوب ہوگئے، اسی سے انسانوں کی اہمیت کا تعین ہونے لگا، اسی نے خوشی اور غم کی صورت اختیار کرلی۔ یہاں تک کہ دولت ہی ’’تعلق‘‘ بن کر رہ گئی۔ دولت کی اس بالادستی اور مرکزیت نے معاشروں میں قیامت برپا کردی۔ مغرب کی تو بات ہی اور ہے، ہم نے اپنے معاشرے میں دیکھا ہے کہ والدین تک معاشی اعتبار سے کامیاب بچوں کو اپنے اُن بچوں پر ترجیح دینے لگتے ہیں جو معاشی اعتبار سے نسبتاً کم کامیاب ہوتے ہیں، خواہ معاشی اعتبار سے کمزور بچوں میں کیسی ہی انسانی خوبیاں کیوں نہ ہوں۔ پاکستان اور دوسرے ملکوں میں مشرق وسطیٰ جانے کا رجحان پیدا ہوا تو کروڑوں لوگ اپنے خاندانوں کو چھوڑ کر بہتر معاشی مستقبل کے لیے عرب ملکوں میں جا آباد ہوئے۔ یہ لوگ دس پندرہ اور بیس سال کے بعد لوٹے تو ان کے پاس دولت تو بہت تھی مگر وہ اپنے بچوں کے لیے تقریباً اجنبی تھے۔ یہاں تک کہ ان کی بیویوں اور ان کے درمیان بھی ’’نیم اجنبی‘‘ کا تعلق استوار ہوچکا تھا۔

انسانوں کی شخصیتوں کی جڑیں معاشیات میں اتنی گہری پیوست ہوئیں کہ ہم نے متوسط طبقے کے بہت سے بچوں کو یہ کہتے سنا کہ ہمیں ہمارے باپ نے دیا ہی کیا ہے؟ حالانکہ ان کے پاس شرافت کی دولت تھی، ایمان داری کا سرمایہ تھا، علم کی میراث تھی، تخلیقی رجحانات کا ورثہ تھا۔ لیکن انہیں ان میں سے کسی چیز کی موجودگی کا شعور نہ تھا، کسی چیز کی موجودگی کا احساس نہ تھا۔ انہیں شعور اور احساس تھا تو صرف اس چیز کا کہ ان کے پاس دولت نہیں ہے۔ کار اور کوٹھی نہیں ہے۔ بینک بیلنس نہیں ہے۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ شادی بیاہ کے معاملات میں دولت تقریباً واحد معیار بن چکی ہے۔ اس سلسلے میں مذہبی اور سیکولر کی کوئی تخصیص نہیں۔ دولت کے حمام میں سب ننگے ہیں۔ اس کے بعد بھی لوگ سوال کرتے ہیں کہ خاندان کا ادارہ کیوں کمزور پڑرہا ہے!

شاہنواز فاروقی دانیال عدنان

متعلقہ مضامین

  • 27 ویں ترمیم: اتنی جھنجھناہٹ کیوں
  • ملک میں شرافت‘ آئین اور قانون کی کوئی جگہ نہیں ہے‘ سلمان اکرم راجا
  • واویلا کیوں؟
  • عمرہ زائرین حادثے پر جماعت اسلامی ہند نے اپنے گہرے رنج و غم کا کیا اظہار
  • آج اس ملک میں شرافت، آئین اور قانون کی کوئی جگہ نہیں ، سلمان اکرم راجا
  • آج اس ملک میں شرافت، آئین اور قانون کی کوئی جگہ نہیں ہے:سلمان اکرم راجا
  • آج اس ملک میں شرافت، آئین اور قانون کی کوئی جگہ نہیں ہے، سلمان اکرم راجا
  • خاندان کا ادارہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار کیوں؟
  • کچے مکانات، ہماری ثقافت اور تاریخ کے محافظ
  • یہ اسرائیلوے اورٹرمپوے