اسلام آباد ہائیکورٹ: ایمان مزاری کیخلاف توہینِ عدالت کی درخواست پر فیصلہ محفوظ
اشاعت کی تاریخ: 2nd, October 2025 GMT
اسلام آباد ہائیکورٹ نے ایڈووکیٹ ایمان مزاری کے خلاف ٹرائل کورٹس کے ججز سے منسوب بیان پر دائر توہینِ عدالت کی درخواست قابلِ سماعت ہونے یا نہ ہونے کے حوالے سے فیصلہ محفوظ کرلیا۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے سماعت کے دوران ریمارکس دیے کہ سب سے پہلے یہ دیکھنا ہوگا کہ آیا یہ درخواست قابلِ سماعت بھی ہے یا نہیں۔
انہوں نے کہا کہ ججز کو خود بتانا چاہیے کہ ان کی عزت نفس مجروح ہوئی ہے، اگر کوئی اور آکر یہ دعویٰ کرے گا تو اس سے مختلف تاثر جائے گا۔
یہ بھی پڑھیں:
درخواست گزار حافظ احتشام احمد نے ذاتی حیثیت میں عدالت میں پیش ہوکر موقف اختیار کیا کہ ایمان مزاری نے پریس کلب کے باہر تقریر میں یہ تاثر دیا کہ ججز میں تقسیم ہے اور ٹرائل کورٹس کے ججز پر دباؤ ہے۔
اس پر جسٹس محسن اختر کیانی نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہیں پر رک جائیں، آگے ایک لفظ بھی نہ بولیے گا۔
’کسی کی ذاتی رائے ہو سکتی ہے لیکن اس عدالت میں کوئی تقسیم نہیں ہے۔‘
مزید پڑھیں:
انہوں نے مزید کہا کہ ہم اس عدالت میں کسی قسم کی تقسیم نہیں ہونے دیں گے۔ اگر کسی جج نے کوئی شکایت کی ہے تو وہ سامنے لائیں، ورنہ محض کسی تقریر کو توہینِ عدالت قرار دینا درست نہیں۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ اچھے جج بھی ہوتے ہیں اور نالائق جج بھی، اس حقیقت کا ذکر کرنا توہین عدالت نہیں کہلاتا۔
’ہر کسی کو آزادی اظہارِ رائے حاصل ہے، چاہے وہ اخبار پڑھتا ہو یا وی لاگ سنتا ہو۔‘
مزید پڑھیں:
دلائل مکمل ہونے پر عدالت نے درخواست کے قابلِ سماعت ہونے پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اسلام آباد ہائیکورٹ ایمان مزاری پریس کلب توہین عدالت ٹرائل کورٹس جسٹس محسن اختر کیانی حافظ احتشام احمد وی لاگ.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اسلام ا باد ہائیکورٹ ایمان مزاری پریس کلب توہین عدالت ٹرائل کورٹس جسٹس محسن اختر کیانی حافظ احتشام احمد وی لاگ جسٹس محسن اختر کیانی ایمان مزاری
پڑھیں:
لاہور ہائیکورٹ کے جج کی 27 ویں ترمیم کے خلاف درخواست پر سماعت سے معذرت
لاہور ہائیکورٹ میں 27 ویں آئینی ترمیم کے خلاف دائر درخواست پر جج نے سماعت سے معذرت کر لی۔لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس چودھری محمد اقبال نے ذاتی وجوہات کی بنا پر اس درخواست پر سماعت سے معذرت کرتے ہوئے فائل چیف جسٹس عالیہ نیلم کو ارسال کر دی۔درخواست گزار منیر احمد و دیگر کی جانب سے ایڈووکیٹ محمد اظہر صدیق پیش ہوں گے، درخواست میں وزیراعظم اور سپیکر قومی اسمبلی کو بذریعہ سیکرٹریز فریق بنایا گیا ہے۔درخواست میں مؤقف اپنایا گیا کہ ترمیم کے ذریعے سپریم کورٹ کا اصل اختیار ختم کر کے وفاقی آئینی عدالت بنا دی گئی ہے، سپریم کورٹ کی حیثیت کمزور ہونے اور عدلیہ کی آزادی متاثر ہونے کا اندیشہ ہے۔درخواست گزار کے مطابق ترامیم اسلامی دفعات، عدالتی خودمختاری اور بنیادی حقوق کے خلاف ہیں، صوبوں کی مشاورت کے بغیر ترمیم سے آئینی ڈھانچہ متاثر ہوا ہے، وکلا، سول سوسائٹی، صحافیوں اور دیگر طبقات سے کوئی رائے نہیں لی گئی۔درخواست میں استدعا کی گئی کہ لاہور ہائیکورٹ ستائسویں آئینی ترمیم کو کالعدم قرار دے اور درخواست کے حتمی فیصلہ تک ترمیم پر عملدرآمد روک دے۔