مثبت اور تعمیری صحافت پاکستان اور ایران کو مزید قریب لا سکتی ہے، مہران مواحد فر
اشاعت کی تاریخ: 3rd, October 2025 GMT
ایران کے لاہور میں قونصل جنرل نے مقامی ٹی وی کے ہیڈکوارٹرز کے دورے کے موقع پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میڈیا اقوام کو قریب لانے میں پل کا کردار ادا کرتا ہے، ایران اور پاکستان کے درمیان تاریخی اور ثقافتی رشتے موجود ہیں، جنہیں مزید فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ اسلام ٹائمز۔ ایران کے لاہور میں قونصل جنرل مہران مواحد فر اور ڈی جی خانہ فرہنگ ایران ڈاکٹر اصغر مسعودی نے لاہور میں مقامی ٹی وی چینل کا دورہ کیا۔ اس موقع پر ڈائریکٹر چیف ایڈیٹرسلیم بخاری، ڈائریکٹر 24 نیوز میاں طاہر، ہیڈ آف پروگرامنگ خرم کلیم، اِن پُٹ ہیڈ زین العابدین، ایڈیٹر ڈیلی سٹی فورٹی ٹو نوید چوہدری اور ڈائریکٹر آپریشنز تراب عباس نے قونصل جنرل کا پرتپاک استقبال کیا اور انہیں ادارے کے مختلف شعبہ جات کا تفصیلی دورہ کروایا۔ قونصل جنرل ایران مہران مواحد فر کو نیوز آفس کے ورکنگ ماحول، جدید نشریاتی سہولیات اور خبر کی تیاری کے مراحل کے بارے میں آگاہ کیا گیا۔
وفد نے نیوز روم، پروڈکشن یونٹ اور اسٹوڈیو کا معائنہ کیا اور سٹاف سے ملاقاتیں بھی کیں۔ اس دوران میڈیا کے کردار، پاکستان اور ایران کے تعلقات اور خطے کی بدلتی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ مہران مواحد فر نے سٹی نیوز نیٹ ورک کی صحافتی خدمات کو سراہتے ہوئے کہا کہ میڈیا اقوام کو قریب لانے میں پل کا کردار ادا کرتا ہے، ایران اور پاکستان کے درمیان تاریخی اور ثقافتی رشتے موجود ہیں، جنہیں مزید فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ مثبت اور تعمیری صحافت دونوں ممالک کے عوام کو قریب لا سکتی ہے۔ سینئر صحافیوں اور انتظامیہ نے بھی اس موقع پر اس عزم کا اظہار کیا کہ سٹی نیوز نیٹ ورک پیشہ ورانہ صحافت کو فروغ دینے کیساتھ ساتھ پاک ایران تعلقات کو اُجاگر کرنے میں اپنا کردار ادا کرتا رہے گا۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: مہران مواحد فر
پڑھیں:
بون میں افغانستان قونصل خانے کے عملے نے استعفیٰ کیوں دیا؟
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 03 اکتوبر 2025ء) بون میں واقع افغانستان کے قونصل خانے کے عملے نے جرمنی کی جانب سے طالبان حکومت کے مقرر کردہ دو نمائندوں کو منظوری دینے کے اقدام کو جرمنی میں مقیم افغان شہریوں کی حساس معلومات کے لیے خطرہ قرار دیا۔
ابھی تک صرف روس نے طالبان حکومت کو باضابطہ طور پر تسلیم کیا ہے، جس نے اگست 2021 میں اقتدار سنبھالا تھا، جب امریکی قیادت میں افواج نے 20 سالہ جنگ کے بعد افغانستان سے افراتفری میں انخلاء کیا۔
تاہم، جولائی میں جرمنی کی جانب سے دو سفارت کاروں کو منظوری دینا دوطرفہ تعلقات میں ایک اہم قدم سمجھا جا رہا ہے۔
جرمن حکومت کے ترجمان اسٹیفن کورنیلیئس نے اس وقت کہا تھا کہ یہ تقرری افغان حکام کے ساتھ مجرم افغان شہریوں کو ان کے وطن واپس بھیجنے سے متعلق مذاکرات کے بعد ہوئی۔
(جاری ہے)
یہ ملک بدریاں اگست 2024 سے دوبارہ شروع ہوئیں۔
ان نئے نمائندوں کو آئندہ ملک بدری کی پروازوں کی ہم آہنگی میں مدد دینے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے، کیونکہ جرمنی تارکین وطن پر قابو پانے کی کوشش کر رہا ہے۔
جرمنی میں تارکین وطن ایک ایسا سیاسی موضوع ہے جس نے بہت سے ووٹرز کو انتہائی دائیں بازو کی جماعتوں کی حمایت پر مجبور کیا ہے۔
اجتماعی استعفے کا اعلانبون میں افغان قونصل خانے کے قائم مقام قونصل، حامد ننگیالے کبیری، نے قونصل خانے کی ویب سائٹ پر ایک ویڈیو میں عملے کے اجتماعی استعفے کا اعلان کیا۔
انہوں نے کہا، ''طالبان کی غیر قانونی حیثیت اور افغان عوام کے بنیادی حقوق کی وسیع خلاف ورزیوں کے پیشِ نظر، یہ فیصلہ ناقابل قبول ہے اور شہریوں کے حساس دستاویزات اور معلومات کی سلامتی کے لیے سنگین خطرہ ہے۔
‘‘انہوں نے کہا کہ تمام دستاویزات، سامان اور دیگر اثاثے جرمن وزارتِ خارجہ کے حوالے کر دیے جائیں گے۔
کبیری نے مزید کہا، ''ہم پرامید ہیں کہ جلد ایک آزاد افغانستان دیکھنے کو ملے گا، جو قانون کی حکمرانی کے تحت ہوگا اور عوام کی مرضی سے ابھرے گا۔‘‘
جرمنی کا ردعملجرمن وزارتِ خارجہ نے اس حوالے سے رائے دینے سے انکار کیا، جبکہ برلن میں افغان سفارت خانے سے بھی فوری طور پر رابطہ نہیں ہو سکا۔
جرمنی میں تقریباً 4 لاکھ 42 ہزار افغان شہری مقیم ہیں، جہاں حال ہی تک تارکینِ وطن کے لیے نسبتاً کھلا دروازہ اور وسیع پناہ گزین ڈھانچہ موجود رہا ہے۔
روس نے جولائی میں طالبان کی نئی حکومت کو تسلیم کیا، جو طالبان انتظامیہ کے لیے اپنی عالمی تنہائی کو کم کرنے کی ایک اہم پیش رفت تھی۔
چین، متحدہ عرب امارات، ازبکستان اور پاکستان پہلے ہی کابل کے لیے سفیروں کا تقرر کر چکے ہیں، جو طالبان حکومت کو باضابطہ تسلیم کیے جانے کی طرف ایک قدم ہے۔
ادارت: صلاح الدین زین