اسلام آباد(نیوزڈیسک) وزیرِ اعظم شہباز شریف کے مشیر برائے سیاسی امور، سینیٹر رانا ثناء اللّٰہ کا کہنا ہے کہ اگر صدر ریٹائرمنٹ کی زندگی گزارتے ہیں تو استثنیٰ میں کیا برا ہے؟ البتہ اگر صدر ریٹائرمنٹ کے بعد کوئی آفس قبول کرتے ہیں تو انہیں استثنیٰ حاصل نہیں ہو گا۔

پارلیمنٹ ہاؤس اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آئین میں درج ہے کہ اگر کوئی آرٹیکل 6 کی خلاف ورزی کرے گا تو اس کو سزا ملے گی، مشرف اور باجوہ کو کیا مسائل ہوئے ہیں؟ مشرف کے خلاف فیصلہ آیا تو پھر اس فیصلے کا کیا ہوا؟صدر کے بعد وزیراعظم کو بھی فوجداری مقدمات سے استثنیٰ کی ترمیم کمیٹی میں پیش

رانا ثناء اللّٰہ نے کہا کہ آئینی عہدوں کو پوری دنیا میں عزت دی جاتی ہے، امریکا و برطانیہ کو دیکھ لیں، صدر یا وزیرِ اعظم کی مدتِ عہدہ ختم ہونے کے بعد بھی عزت و احترام کیا جاتا ہے، یہ ہمارے ہاں ہی رواج ہے کہ ہر وقت کوئی نہ کوئی وزیرِ اعظم یا صدر جیل میں ہوتا ہے۔ اب سارے اختیارات جوڈیشل کمیشن کے پاس ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ معرکۂ حق کی جیت سے پوری قوم کا پوری دنیا میں سر بلند ہوا، آرمی چیف کی تعیناتی کا اختیار وزیرِ اعظم کے پاس ہے۔

رانا ثناء اللّٰہ کا کہنا ہے کہ آئین میں ترمیم کسی شخصیت یا سیاسی مقصد کے لیے نہیں کی گئی، آئینی عدالت کے ججوں کے انٹرویو جوڈیشل کمیشن کرے گا، پہلی تعیناتی وزیرِ اعظم کی ایڈوائس پر ہو گی کیونکہ جوڈیشل کمیشن موجود نہیں ہو گا۔

.

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: رانا ثناء کے بعد

پڑھیں:

فوج کے انٹرنل سٹرکچر میں تبدیلی کو سیاسی تنازع نہیں بنایا جاسکتا، رانا ثناء  

اسلام آباد(این این آئی) وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے سیاسی امور رانا ثناء اللہ نے کہا ہے کہ مسلح افواج کے انٹرنل اسٹرکچر میں تبدیلی ایک پیشہ ورانہ معاملہ ہے، اسے سیاسی تنازع نہیں بنایا جا سکتا۔پاکستان مسلم لیگ (ن) کے مرکزی رہنما رانا ثناء اللہ نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ 27 ویں آئینی ترمیم مکمل طور پر آئین میں درج پارلیمانی طریقہ کار کے مطابق عمل میں لائی گئی ہے، اسے متنازع قرار دینا درست نہیں۔وزیراعظم کے معاون خصوصی نے کہا کہ ترمیم کا مسودہ پہلے باضابطہ طور پر ایوان میں پیش کیا گیا اور پھر قواعد کے مطابق متعلقہ کمیٹی کے سپرد کیا گیا، کمیٹی نے 3 دن تک ہر شق پر تفصیلی غور کیا، بعض نکات کو حذف کیا گیا اور کچھ میں ترمیم شامل کی گئی جبکہ ہر شق پر باقاعدہ ووٹنگ ہوئی۔انہوں نے کہا کہ جو ترمیم دو تہائی اکثریت سے منظور ہو چکی ہو اسے متنازع نہیں کہا جا سکتا، اپوزیشن نے اگر اتفاق رائے کرنا ہوتا تو تجاویز لے کر آتی مگر انہوں نے سٹینڈنگ کمیٹیوں کا بھی بائیکاٹ کر رکھا ہے۔رانا ثناء اللہ نے کہا کہ وزیراعظم شہباز شریف نے یوم آزادی پر بھی اپوزیشن کو میثاق پاکستان کیلئے دعوت دی تھی تاکہ ملکی مسائل پر مشترکہ پالیسی تشکیل دی جائے تاہم پی ٹی آئی اور اپوزیشن بیٹھنے کو تیار ہی نہیں، پارلیمنٹ سے اپوزیشن کو تین بار مذاکرات کی پیشکش کی جا چکی ہے، اس بار بھی کوشش کی گئی مگر انہوں نے انکار کیا۔وزیراعظم کے معاون خصوصی نے کہا کہ مسلح افواج کے انٹرنل اسٹرکچر میں تبدیلی ایک پیشہ ورانہ معاملہ ہے، اسے سیاسی تنازع نہیں بنایا جا سکتا، حکومت چاہتی تھی کہ صحت، آبادی، لوکل باڈیز اور دیگر عوامی مسائل پر بھی اتفاق رائے پیدا ہو لیکن ایسا ممکن نہ ہو سکا۔رانا ثناء اللہ نے اپنے بیان میں مزید کہا ہے کہ عوامی اہمیت کے معاملات پر بحث اور غور و فکر کا آغاز ہو چکا ہے، جیسے جیسے اتفاق رائے پیدا ہوتا جائے گا مزید ترامیم بھی متوقع ہیں۔ 

متعلقہ مضامین

  • 27ویں ترمیم: سابق صدر، وزیراعظم کو جیلوں میں ٹھونسنے کا رواج، اس لیے استثنیٰ بڑی بات لگتی ہے، رانا ثنااللہ
  • اگر صدر ریٹائرمنٹ کے بعد کوئی آفس قبول کرتے ہیں تو استثنیٰ حاصل نہیں ہو گا: رانا ثناء اللّٰہ
  • صدر مملکت کو استثنیٰ کس صورت میں حاصل ہوگا؟ رانا ثنااللہ نے وضاحت کردی
  • کیا عدلیہ کو بھی تاحیات استثنی حاصل ہے؟
  • فوج کے انٹرنل سٹرکچر میں تبدیلی کو سیاسی تنازع نہیں بنایا جاسکتا، رانا ثناء  
  • اس مرتبہ بھی کوشش کی کہ اپوزیشن سے ڈائیلاگ کریں، رانا ثناء اللّٰہ
  • 27ویں کے بعد 28ویں ترمیم بھی آرہی ہے؛ رانا ثنااللہ کا انکشاف
  • 27ویں کے بعد 28ویں ترمیم بھی آرہی ہے، رانا ثناء
  • فیلڈ مارشل کو استثنیٰ دینے سے آرٹیکل 6 ختم نہیں ہوتا: رانا ثنا اللّٰہ