جیارجیا، آذربائیجان سرحد پر طیارہ حادثہ، ترکیہ کے 20 فوجی ہلاک
اشاعت کی تاریخ: 12th, November 2025 GMT
ترک قومی وزارت دفاع نے طیارہ حادثے میں ہلاک ہونے والے 20 فوجی اہلکاروں کے نام جاری کردیے ہیں جو طیارے میں سوار تھے۔ وزارت دفاع سے جاری بیان میں بتایا گیا کہ ہلاک فوجیوں میں ایک لیفٹننٹ جنرل، دو میجر، دو فرسٹ لیفٹننٹ بھی شامل ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ ترکیہ کی وزارت دفاع نے جیارجیا اور آذربائیجان کی سرحد پر گزشتہ روز گر کر تباہ ہونے والے طیارے میں 20 فوجیوں کے ہلاک ہونے کی تصدیق کردی۔ انادولو کی رپورٹ کے مطابق ترک قومی وزارت دفاع نے طیارہ حادثے میں ہلاک ہونے والے 20 فوجی اہلکاروں کے نام جاری کردیے ہیں جو طیارے میں سوار تھے۔ وزارت دفاع سے جاری بیان میں بتایا گیا کہ ہلاک فوجیوں میں ایک لیفٹننٹ جنرل، دو میجر، دو فرسٹ لیفٹننٹ بھی شامل ہیں۔ وزیر دفاع یاسر گولر نے تعزیت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے ہیرو 11 نومبر 2025 کو اس وقت ہلاک ہوگئے جب سی-130 ملیٹر کارگو آذربائیجان سے واپسی میں جیارجیا کی سرحد کے قریب گر کر تباہ ہوا۔
.ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: وزارت دفاع
پڑھیں:
ترکیہ، پاکستان، افغانستان اور آذربائیجان ایک نیا اتحاد
اسلام ٹائمز: ترکیہ فعال اور شعوری طور پر ایک نئے جغرافیائی سیاسی بلاک کی تعمیر کر رہا ہے۔ اس بلاک کا مرکز ترکیہ اور پاکستان کے درمیان اسٹریٹجک پارٹنرشپ ہے، اسکا جوڑنے والا لنک آذربائیجان ہے اور اسکا ٹیسٹنگ گراؤنڈ افغانستان ہے۔ ترکیہ کا حتمی مقصد اثر و رسوخ کی ایک قوس بنانا ہے، جو بلقان اور قفقاز سے شروع ہو کر افغانستان اور پاکستان سے ہوتا ہوا بحر ہند تک پہنچتا ہے۔ اس منصوبے کی کامیابی یا ناکامی کا انحصار نہ صرف انقرہ کی سفارتی صلاحیتوں پر ہے، بلکہ اس بات پر بھی ہے کہ وہ چین، بھارت، ایران اور عرب جیسی طاقتوں کے ساتھ مقابلے کا کیسے انتظام کرتا ہے اور اسکے ساتھ ساتھ افغانستان میں عدم استحکام کی دلدل سے نکلنے کی اس کی صلاحیتیں کتنی کارآمد ہیں۔ ترتیب و تنظیم: علی واحدی
موجودہ ہنگامہ خیز جغرافیائی سیاسی منظر نامے میں، ترکیہ نے ایک بے چین اور پرجوش بین الاقوامی سیاسی کھلاڑی کے طور پر، مشرقی بحیرہ روم سے برصغیر پاک و ہند کے قلب تک اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کے لیے ایک نیا روڈ میپ تیار کیا ہے۔ اس روڈ میپ کا حتمی مقصد یوریشیا کے وسیع و عریض علاقے میں ایک فیصلہ کن طاقت کے طور پر ترکی کے کردار کو از سر نو متعارف کرانا ہے۔ حالیہ پیش رفت، خاص طور پر پاکستان کے ساتھ تعلقات میں بے مثال گہرائی اور طالبان کے زیر اقتدار افغانستان سے گہرے تعلقات قائم کرنے کی کوشش نے یہ بنیادی سوال اٹھایا ہے کہ آیا انقرہ ایک نیا اور مخصوص جغرافیائی سیاسی بلاک قائم کر رہا ہے۔ اس تزویراتی ہدف کے مطابق، حال ہی میں استنبول نے طالبان اور پاکستان کے درمیان امن مذاکرات کی میزبانی کی، جو اگرچہ ٹھوس نتائج کے بغیر ختم ہوگئی اور دونوں طرف سے ناکامی کا اعلان کیا گیا، پھر بھی ترکیہ کے لیے فریقین کی جانب سے سہولت کار کا کردار قبول کرنا اہم اور نتیجہ خیز امر ہے۔
اگرچہ طویل عرصے سے تاریخی اور مذہبی تعلقات کی بنیاد پر ترکیہ اور پاکستان کے تعلقات نے گذشتہ دو دہائیوں میں خاص طور پر رجب طیب اردگان کی قیادت میں ایک اعلیٰ اسٹریٹجک اور کثیر جہتی معیار حاصل کیا ہے، لیکن اب یہ پیشرفت صرف سیاسی میدان تک ہی محدود نہیں رہی بلکہ فوجی اور دفاعی تعاون کے میدان میں خاصا فروغ پا رہی ہے۔ دفاعی سازوسامان کی تیاری اور ترقی بالخصوص پاکستان کی جانب سے بڑے پیمانے پر ڈرونز کی خریداری ایک اہم پیشرفت ہے۔ دفاعی تعاون کی اس سطح نے پاکستان کو روایتی شراکت داروں جیسے کہ امریکہ اور یہاں تک کہ چین کے انحصار سے نکلنے اور اپنے تزویراتی حد کو بڑھانے کے قابل بنایا ہے۔
ترکیہ کو درپیش چیلنجز
ترکیہ کے نقطہ نظر سے ان امید افزا رجحانات کے باوجود، اس بلاک کی مکمل تشکیل کو سنگین ساختی رکاوٹوں اور چیلنجوں کا سامنا ہے۔ پاکستان کا چین پر گہرا انحصار ترکیہ کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہے۔ اسلام آباد بیجنگ کے ساتھ اپنے تزویراتی تعلقات کے مقابلے میں ترکیہ کے ساتھ تعاون کو متبادل نہیں بنا سکتا۔ چین پاکستان اکنامک کوریڈور (CPEC) منصوبے میں ترکیہ کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کی بھی مخالفت کرسکتا ہے، جو کہ بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو کا حصہ ہے، کیونکہ وہ اس اہم منصوبے کا کنٹرول کسی کے ساتھ شیئر کرنے کو تیار نہیں ہے۔ افغان محاذ پر، طالبان حکومت کا عدم استحکام اور ایک مربوط حکومتی ڈھانچہ کی کمی بھی ترکیہ کے لئے طویل مدتی غیر ملکی سرمایہ کاری کو مشکلات سے دوچار کرسکتی ہے۔ ترکیہ اپنا جیو پولیٹیکل روڈ میپ ایسی حکومت کی بنیاد پر نہیں بنا سکتا، جس میں استحکام اور بین الاقوامی قانونی حیثیت نہ ہو۔ اس بلاک کے طاقتور پڑوسی کے طور پر ایران کی حساسیت کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ تہران اپنی شمالی سرحدوں سے گزرنے والی ایک راہداری کے ابھرنے کو تشویش کے ساتھ دیکھ رہا ہے، جو روایتی حریفوں کے زیر اثر ہے۔
دوسری طرف، بھارت کی بڑھتی ہوئی اقتصادی اور فوجی طاقت کسی بھی کھلے عام بھارت مخالف بلاک کی تخلیق کو آسانی سے تحمل کرنے کے لئے تیار نہیں ہے۔ بھارت اپنے اقتصادی، سفارتی اور حفاظتی آلات سے جواب دے سکتا ہے، خاص طور پر خلیج فارس میں، جو پاکستان اور ترکیہ کے لیے توانائی اور روزگار کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ آخر میں، متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کی قیادت میں عرب ریاستیں، جنہوں نے طویل عرصے سے مسلم دنیا میں ترکیہ کی بالادستی کے منصوبے کی مخالفت کی ہے، اس ابھرتے ہوئے بلاک کے اثرات کو بے اثر کرنے کے لیے اہم دارالحکومتوں میں اپنے مالی ذرائع اور سیاسی اثر و رسوخ کا استعمال کریں گے۔ سعودی عرب نے حال ہی میں اسلام آباد کے ساتھ ایک جامع فوجی اور سکیورٹی تعاون کے معاہدے پر دستخط کیے ہیں، جو کہ ریاض کے لیے ایک جوہری چھتری کی تشکیل کے پیش نظر، ترکیہ کے بنائے ہوئے اتحاد سے زیادہ مضبوط اتحاد کی مؤثر نمائندگی کرتا ہے۔
حتمی نتیجہ
ان تمام اعداد و شمار پر غور کرتے ہوئے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ ترکیہ فعال اور شعوری طور پر ایک نئے جغرافیائی سیاسی بلاک کی تعمیر کر رہا ہے۔ اس بلاک کا مرکز ترکیہ اور پاکستان کے درمیان اسٹریٹجک پارٹنرشپ ہے، اس کا جوڑنے والا لنک آذربائیجان ہے اور اس کا ٹیسٹنگ گراؤنڈ افغانستان ہے۔ ترکیہ کا حتمی مقصد اثر و رسوخ کی ایک قوس بنانا ہے، جو بلقان اور قفقاز سے شروع ہو کر افغانستان اور پاکستان سے ہوتا ہوا بحر ہند تک پہنچتا ہے۔ اس منصوبے کی کامیابی یا ناکامی کا انحصار نہ صرف انقرہ کی سفارتی صلاحیتوں پر ہے، بلکہ اس بات پر بھی ہے کہ وہ چین، بھارت، ایران اور عرب جیسی طاقتوں کے ساتھ مقابلے کا کیسے انتظام کرتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ افغانستان میں عدم استحکام کی دلدل سے نکلنے کی اس کی صلاحیتیں کتنی کارآمد ہیں۔ تاہم، اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کی بہت سی کوشش یہ ظاہر کرتی ہیں کہ ترکیہ یوریشین جیو پولیٹیکل جغرافیہ میں نیا کھیل کھیلنے کی تیاری کر رہا ہے۔ ترکیہ اسی طرح علاقائی ترتیب کو پرانے نمونوں کے مطابق نہیں بلکہ اپنے نئے ڈیزائن کے مطابق نئے سرے سے متعین کرنے پر مائل ہے۔کیا ترکیہ کے لیڈر رجب طیب اردگان کے خوابوں کو تعبیر ملے گی یا یہ خواب خواب ہی رہے گا۔ ابھی اس بارے کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔