وزیرِ اعظم کے مشیر برائے سیاسی امور، سینیٹر رانا ثناء اللّٰہ—فائل فوٹو

وزیرِ اعظم کے مشیر برائے سیاسی امور، سینیٹر رانا ثناء اللّٰہ کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی کے ساتھ معاملہ ہم بیٹھ کر سلجھا لیں گے۔

’جیو نیوز‘ کے پروگرام ’نیا پاکستان‘ میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ عوامی فلاح اور آزاد کشمیر کی ترقی سے متعلق تمام مطالبات کے لیے تیار ہیں، کل بھی ہمارے عوامی ایکشن کمیٹی کے 3 ارکان سے مذاکرات ہوئے، یہ 3 ارکان پھر اپنے دیگر کمیٹی ارکان سے مشاورت کے لیے گئے۔

رانا ثناء اللّٰہ نے کہا کہ جن باتوں پر رائے میں فرق ہے ان پر بات کرنے کے لیے وہ ارکان مشاورت کے لیے گئے ہیں، وزارتیں کم کرنے سے متعلق ہم نے کہا ہے کہ اس پر کام کرنے کی ضرورت ہے، آزاد کشمیر کی حکومت کے حساب سے کابینہ کا حجم زیادہ ہے۔

یہ بھی پڑھیے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ڈیٹا پر ہمارے شدید اعتراضات ہیں: رانا ثناء اللّٰہ

انہوں نے کہا کہ ایسے لائحہ عمل پر متفق ہونا چاہتے ہیں کہ قانونی ماہرین کی رائے کے مطابق معاملہ حل ہو، کل بھی ہم نے کچھ چیزوں پر ایک حد تک اتفاق کیا تھا، مشاورت کے لیے گئے ارکان واپس آتے ہیں تو امید ہے کہ معاہدہ سائن ہو جائے گا۔

وزیرِ اعظم کے مشیر برائے سیاسی امورنے کہا کہ حکومت کے حجم اور مہاجرین کی نشستوں میں مہاجرین بھی فریق ہیں، آزاد کشمیر کے وسائل سے متعلق ان کی باتیں حقیقت پر مبنی ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ پیپلز پارٹی کے ساتھ معاملہ ہم بیٹھ کر سلجھا لیں گے، کوئی پریشانی کی بات نہیں، نہروں پر احتجاج کے دوران ہائی ویز بند کر کے پنجاب کو پانی چور کہا جاتا تھا۔

سینیٹر رانا ثناء اللّٰہ کا کہنا ہے کہ کہا جاتا تھا کونسی فلڈ کینال نکالنا چاہتے ہیں یہاں تو سیلاب آتا ہی نہیں، ہم نے کہا تھا کہ فلڈ کینال ہو گی تو سیلاب سےنقصان نہیں پہنچے گا۔

.

ذریعہ: Jang News

کلیدی لفظ: رانا ثناء الل نے کہا کہ کے لیے

پڑھیں:

پیپلز پارٹی کا پلڑا بھاری

موجودہ وفاقی حکومت نے پیپلز پارٹی کی مدد سے ڈیڑھ سال پورا کر لیا ہے اور موجودہ ملکی اور عالمی صورت حال کے تناظر میں ملک بھر میں فوری طور پر عام انتخابات منعقد ہوتے بھی نظر نہیں آ رہے اور ان ڈیڑھ سالوں میں مسلم لیگ (ن) نے پنجاب میں اپنی حکومت کے ترقیاتی منصوبوں سے ایسی صورت حال پیدا کر دی ہے جیسی انتخابات سے قبل پیدا ہوتی ہے۔

حکومت پنجاب نے صوبے میں سیلابی صورت حال برقرار ہوتے ہوئے بھی ایسے ترقیاتی کاموں کا آغاز کر دیا ہے جب کہ سیلاب متاثرین ابھی تک گھروں سے محروم ہیں یا ان کے گھر ابھی رہائش کے قابل نہیں ہیں۔ متاثرین کے گھر اور کھیت ابھی تک ڈوبے ہوئے ہیں اور ان کی بحالی کے بغیر پنجاب کے کسی ضلع میں کسی نئے منصوبے کا آغاز کر دیا گیا ہے اور ایسا لگ رہا ہے کہ پنجاب و سندھ میں الیکشن سر پر ہے اور مقابلہ ہو رہا ہے۔

کہا جا رہا ہے کہ پنجاب حکومت کا پیپلز پارٹی کے خلاف رویہ جارحانہ ہوگیا ہے اور نوبت یہاں تک آگئی ہے کہ ڈیڑھ سال میں پہلی بار پیپلز پارٹی نے وزیر اعلیٰ پنجاب کے خلاف قومی اسمبلی اور سینیٹ سے واک آؤٹ کیا اور حکومت سے علیحدگی کی دھمکی بھی دے دی ہے جب کہ پی پی کا کہنا ہے کہ وہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت کا حصہ نہیں، صرف حمایت کر رہی ہے۔

پنجاب حکومت کی جانب سے مزاحمت اور پی پی مخالف جو تقاریر سامنے آئی ہیں اس میںاگر سیاسی صورتحال کا بغور جائزہ لیا جائے تو موجودہ حکومت میں پیپلز پارٹی کا پلڑا بھاری ہے اور پیپلز پارٹی اپنی حکومتیں برقرار رکھنے کے لیے مسلم لیگ ن کی محتاج نہیں بلکہ (ن) لیگ اپنی وفاقی حکومت برقرار رکھنے کے لیے پیپلز پارٹی کی محتاج ہے مگر نہ جانے کیوں وفاقی حکومت کو خطرے میں ڈال کر مسلم لیگ (ن) کو تنہا اور پیپلز پارٹی کو ناراض کیا جا رہا ہے اور پی ٹی آئی اس موقع کی تاک میں ہے کہ پی پی (ن) لیگ سے ناراض ہو کر اس سے آ ملے جس کی پی ٹی آئی نے پی پی کو پیش کش بھی کی تھی کہ قومی اسمبلی اور سینیٹ میں اس کے ساتھ اپوزیشن میں آن بیٹھے اور اب موقعہ ملتے ہی پی پی ایسا کر بھی سکتی ہے اور پی پی اور پی ٹی آئی کے لیے یہ کوئی نیا موقعہ بھی نہیں ہوگا کیونکہ ماضی میں ایسا ہو چکا ہے اور وزیر اعلیٰ ثنا اللہ زہری کی (ن) لیگی بلوچستان حکومت کو دونوں پارٹیوں نے مل کر ہٹایا تھا اور ایک نئی بلوچستان عوامی پارٹی کا وزیر اعلیٰ اور چیئرمین سینیٹ منتخب کرا چکی ہیں۔

پیپلز پارٹی کی رہنما شازیہ مری کے مطابق توقع نہ تھی کہ پنجاب حکومت کے اس قسم کے بیانات سننے پڑیں گے۔ سندھ کے وزیر اطلاعات نے بھی ناراضگی کا اظہار کیااور پی پی کے سابق وفاقی وزیر اطلاعات قمر زمان کائرہ کا کہنا ہے ہم پنجاب حکومت کے غلط کاموں کی نشان دہی کریں گے اور تنقید بھی کریں گے۔

مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کا اتحاد ختم ہونے کی تو پی ٹی آئی شدت سے منتظر ہے اور پی پی اور پی ٹی آئی کے درمیان سیاسی اختلافات ضرور ہیں مگر پی ٹی آئی (ن) لیگ کو اپنا مخالف سمجھتی ہے جس کے ساتھ بیٹھنے کو وہ کبھی تیار نہیں ہوگی اور مخالفانہ بیانات دونوں پارٹیوں کو قریب آنے کا موقعہ دے رہے ہیں اور سیاسی منظر نامہ یہ ہے کہ پنجاب میں (ن) لیگ کا اصل انتخابی مقابلہ پی پی سے نہیں پی ٹی آئی سے ہی ہونا ہے۔

اس وقت ملک کے دو اہم عہدے صدر مملکت اور چیئرمین سینیٹ پیپلز پارٹی کے پاس ہیں جو آئینی عہدے ہیں جنھیں ہٹانے کی (ن) لیگ کے پاس طاقت ہے ہی نہیں جب کہ سندھ و بلوچستان کی حکومتیں پیپلز پارٹی کے پاس اور کے پی کی حکومت پی ٹی آئی کے پاس ہیں اور دونوں مل کر وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کر سکتی ہیں جس کی کامیابی بیرونی قوتوں کی حمایت سے ممکن ہے مگر ایسا ہوگا نہیں اور اگر بات یونہی بڑھتی رہی تو صدر مملکت وفاقی حکومت کے لیے مسائل بھی پیدا کر سکتے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • پیپلز پارٹی کا پلڑا بھاری
  • آزاد کشمیر میں احتجاج کا معاملہ ، عوامی ایکشن کمیٹی اور حکومت کے درمیان مذاکرات کامیاب، معاہدہ طے پا گیا
  • نواز لیگ سے لفظی جنگ،پیپلز پارٹی کاپنجاب اسمبلی اجلاس کے بائیکاٹ کا فیصلہ
  • ن لیگ سے لفظی جنگ:پیپلز پارٹی نے اہم فیصلہ کر لیا
  • بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ڈیٹا پر ہمارے شدید اعتراضات ہیں: رانا ثناء اللہ
  • پیپلز پارٹی اور ن لیگ میں لفظی جنگ رکوانے کے لئے  حکومتی جماعت کے بڑے میدان میں آ گئے
  • مریم نواز کے بیانات کا معاملہ، پیپلزپارٹی اور (ن ) لیگی رہنمائوں کی بیٹھک
  • بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ڈیٹا پر ہمارے شدید اعتراضات ہیں: رانا ثناء اللّٰہ
  • حکومت کا قانون سازی میں ساتھ نہیں دیں گے، سینیٹر پلوشہ خان