WE News:
2025-10-05@15:03:11 GMT

فزا علی خان نے اپنے عملے کے کھانے میں زینکس کیوں ملائی؟

اشاعت کی تاریخ: 5th, October 2025 GMT

فزا علی خان نے اپنے عملے کے کھانے میں زینکس کیوں ملائی؟

اداکارہ، گلوکارہ اور اینکر فزا علی کے ایک پرانے انٹرویو کا کلپ دوبارہ وائرل ہونے پر عوامی سطح پر شدید ردعمل سامنے آیا ہے۔

فزا علی خان جو 3 دہائیوں سے شوبز انڈسٹری کا حصہ ہیں، اکثر اپنی غیر معمولی اور متنازعہ باتوں کی وجہ سے خبروں میں رہتی ہیں۔ وائرل ہونے والے کلپ میں وہ انکشاف کرتی ہیں کہ انہوں نے ایک مرتبہ اپنے فلمی عملے کو نشہ آور گولی ملا کر کھانا کھلا دیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: معروف پاکستانی اداکارہ کا حجاب لینے کا فیصلہ، سوشل میڈیا پوسٹ میں کیا کہا؟

فزا علی کے مطابق وہ کسی بات پر ناراض ہوئیں اور انتقام کے طور پر عملے کے کھانے میں زینکس ملا دی۔ اس انکشاف نے انٹرنیٹ صارفین کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔

عوام کا کہنا ہے کہ یہ ایک سنگین مجرمانہ عمل ہے، جس سے کسی کی جان بھی جا سکتی تھی، جبکہ حیران کن بات یہ ہے کہ فزا علی نے اس واقعے کو نہایت معمولی انداز میں بیان کیا۔

سوشل میڈیا پر مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ اس اعتراف پر سنجیدہ کارروائی ہونی چاہیے۔

اسی شو میں فزا علی خان نے اپنی سابقہ شادی، طلاق، بیٹی کے ساتھ تعلق اور دوسری شادی کی خواہشات پر کھل کر گفتگو کی۔

فزہ علی نے اپنی ذاتی زندگی کی چیلنجز کو تسلیم کرتے ہوئے خواتین کو مالی اور جذباتی طور پر خود مختار ہونے کی تلقین کی اور کہا کہ ناکام رشتوں سے سبق سیکھنا ضروری ہے۔

انٹرویو کے دوران فزہ علی نے اپنی سابقہ شادی کے بارے میں بتایا کہ وہ اور ان کا شوہر شروع میں اچھے دوست تو تھے، مگر شوہر نے کبھی انہیں ایک بیوی کی حیثیت سے نہیں دیکھا۔’جبکہ ہم بہت اچھے دوست تھے، اس نے مجھے کبھی اپنی بیوی کی طرح نہیں دیکھا۔ میں شوٹس سے تھک کر واپس آتی تو کوئی میرا ساتھ نہ دیتا، نہ ٹی وی دیکھنے والا ہوتا، نہ ساتھ کھانا کھانے والا۔‘

یہ بھی پڑھیں: اداکارہ سجل علی لکس اسٹائل ایوارڈ کی نامزدگیوں سے مایوس کیوں ہیں؟

وہ مزید بتاتی ہیں کہ شوہر انہیں پارٹیوں یا ڈنرز پر لے جاتا، جہاں ان کی تیار کردہ کھانوں کی محنت ضائع ہوجاتی۔ یہ الیٹ کلاس سے تعلق اور عادتوں کی عدم مطابقت نے رشتے کو توڑ دیا۔

طلاق کے بارے میں فزہ علی کا موقف واضح تھا کہ جب عورت کو احساس ہو کہ اس کی بات سنی نہیں جارہا، تو رشتہ ختم کرنا ضروری ہے تاکہ زندگیاں مزید برباد نہ ہوں۔

انہوں نے کہا جب عورت کو لگتا ہے کہ اس کی بات سنی نہیں جا رہی، تو وہ سمجھتی ہے کہ رشتہ روکنا پڑے گا تاکہ زندگیاں مزید برباد نہ ہوں۔ اگر شوہر بیوی کا رشتہ خراب ہو جائے تو سب سے زیادہ جو تکلیف ہوتی ہے وہ بچوں کو ہوتی ہے۔

ان کا ماننا ہے کہ طلاق کو بند دروازہ نہ سمجھیں بلکہ نئی شروعات کا موقع ہے۔ ’ایک شخص سے رشتہ ٹوٹ جائے تو یہ ضروری نہیں کہ دروازہ ہمیشہ بند رہے، کوئی راستہ نہ ہو۔ اس دروازے کے بعد ہمیشہ کھڑکی ہوتی ہے۔ اس دروازہ کو چھوڑ دیں اور اس کھڑکی کی طرف دیکھیں۔ اس کھڑکی سے جو ہوا چلے، اس کی خوشی کو محسوس کریں۔ شاید اگلی بار زندگی میں بہتر شخص آئے۔‘

فزہ علی نے اپنی بیٹی فرال کے ساتھ والدہ ہونے کے تجربے کو بھی شیئر کیا۔ وہ سنگل ماں کے طور پر جدوجہد کرتی رہیں اور اب اداکاری، ہوسٹنگ اور گلوکاری سے بیٹی کو اچھی زندگی دے رہی ہیں۔

انہوں نے کہا ’آج اگر میں نے اپنی بیٹی کو اچھا گھر، اچھی زندگی دی ہے تو اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ میں اپنے پاؤں پر کھڑی ہوں اور کام کر رہی ہوں۔ میں کسی کے آنے کا انتظار نہیں کر رہی کہ کوئی آکر مجھے پیسے دے۔‘

بیٹی کو دی گئی نصیحت میں انہوں نے آزادی اور تعلیم پر زور دیا ’میں نے اپنی بیٹی کو کہا ہے کہ میرے پاس جو کچھ ہے وہ میرا گھر ہے، تمہیں اپنا گھر بنانا ہے۔ اسے مضبوط بناؤ اور پھر شادی کرو۔ شادی جلدی کرنے میں کیا جلدی ہے؟‘

وہ خبردار کرتی ہیں کہ اگر بیٹی شادی کے بعد شوہر کی طرف سے پریشانیوں مالی مسائل کا شکار ہوئی تو کیا کرے گی؟اگر وہ اپنے پاؤں پر کھڑی ہو اور اپنا کچھ ہو تو فائدہ ہوگا۔ لڑکی کو پڑھایا تو جاتا ہے مگر پاؤں پر کھڑا ہونے نہیں دیتا، یہ کیوں؟

دوسری شادی کے بارے میں فزہ علی نے امید ظاہر کی مگر شرط رکھی کہ پارٹنر ان کی بیٹی کو قبول کرے اور کام کرنے کی اجازت دے۔ انہوں نے کہا، میں دوبارہ شادی کروں گی جب مجھے ایسا شخص ملے گا جو مجھے سپورٹ کرے، میری بیٹی فرال کو قبول کرے اور مجھے کام کرنے دے۔

یہ انٹرویو سوشل میڈیا پر وائرل ہو گیا ہے، جہاں فزہ علی کی بہادری اور خود اعتمادی کی تعریف ہورہی ہے۔ وہ خواتین کو پیغام دیتی ہیں کہ ناکام رشتوں سے سبق لے کر آگے بڑھیں اور بچوں کی بھلائی کو ترجیح دیں، فزہ علی کی یہ باتیں پاکستانی معاشرے میں خواتین کی آزادی اور خود مختاری کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

we news اداکارہ پاکستان زینکس فزا علی خان گلوکارہ.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: اداکارہ پاکستان فزا علی خان گلوکارہ فزا علی خان فزہ علی نے انہوں نے نے اپنی بیٹی کو ہیں کہ

پڑھیں:

ہم بڑے لوگ کیوں پیدا نہیں کررہے؟

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251005-03-7

 

شاہنواز فاروقی

ایک زمانہ تھا کہ مسلم دنیا ’’دیوقامت‘‘ لوگوں کی دنیا تھی۔ اس دنیا میں بڑے مفسرین تھے، بڑے محدثین تھے، بڑے متکلمین تھے، بڑے مفکر تھے، بڑے دانش ور تھے، بڑے شاعر تھے، بڑے ادیب تھے، بڑے سیاست دان تھے، بڑے اساتذہ تھے، بڑے ماں باپ تھے، بڑے دوست احباب تھے۔ پھر ایک زمانہ وہ آیا کہ ہم لوگوں نے ’’بونے‘‘ پیدا کرنے شروع کیے۔ مذہب کے دائرے میں بھی بونے تھے، شعر و ادب کے دائرے میں بھی بونے تھے، سیاست میں بھی بونے تھے، مگر ہمارا زمانہ ’’بالشتیوں‘‘ اور ’’حشرات الارض‘‘ کا زمانہ ہے۔ اب نہ ہمارے پاس بڑے مفسرین ہیں، نہ بڑے سیرت نگار ہیں، نہ بڑے محدثین ہیں، نہ بڑے متکلمین ہیں، نہ بڑے شاعر ہیں، نہ بڑے ادیب ہیں، نہ بڑے دانش ور ہیں، نہ بڑے سیاست دان ہیں، نہ بڑے اساتذہ ہیں، نہ بڑے ماں باپ، نہ بڑی اولادیں ہیں، نہ بڑے دوست احباب ہیں، اس حوالے سے صورت حال اتنی ہولناک ہے کہ اس کی اطلاع عطا الحق قاسمی کے فرزند یاسر پیرزادہ تک کو ہوگئی ہے۔ چنانچہ یاسر پیرزادہ نے اپنے ایک کالم میں اس موضوع پر گفتگو کی ہے کہ ہمارے معاشرے میں بڑے سائنس دان، دانش ور اور فلسفی کیوں پیدا نہیں ہورہے۔ یاسر پیرزادہ نے اس حوالے سے کیا لکھا ہے انہی کے الفاظ میں ملاحظہ کیجیے۔ لکھتے ہیں۔

’’یونیورسٹیاں محض اس لیے نہیں بنائی جاتیں کہ وہاں نو سے پانچ بجے تک دفتر آیا جائے، حاضری لگائی جائے، کلاس پڑھائی جائے اور تنخواہ وصول کی جائے، جامعات کا کام سائنس دان، فلسفی اور دانشور پیدا کرنا ہوتا ہے، نوکری پیشہ مزدور تو گورنمنٹ ڈگری کالج ساہیوال بھی پیدا کرلے گا (اہالیان ساہیوال سے معذرت کے ساتھ)۔ مجھے اکثر یونیورسٹی میں طلبہ اور اساتذہ سے گفتگو کا موقع ملتا رہتا ہے جہاں میں ایسی ہی جلی کٹی باتیں سناتا ہوں، جواب میں کچھ وی سی صاحبان اپنی غزل بھی سناتے ہیں جس میں مطلع سے لے کر مقطع تک وہ محبوب کے بجائے اپنی ذات کی تعریفیں یوں بیان کرتے ہیں کہ غالب بھی شرما جائے۔ میرا ایک ہی مدعا ہوتا ہے کہ اگر ملک کی یونیورسٹیاں اور ان کے وی سی خواتین و حضرات ایسا ہی عمدہ کام کررہے ہیں تو ہماری جامعات سائنس دان، دانشور اور فلسفی پیدا کرنے کے بجائے نوکری کے متلاشی روبوٹ کیوں پیدا کررہی ہیں؟ اس سوال کے جواب میں مسئلے کی جڑ موجود ہے‘‘۔ (روزنامہ جنگ، 28 ستمبر 2025ء)

یاسر پیرزادہ نے یونیورسٹیوں کی ناکارکردگی تو بیان کردی مگر انہوں نے اپنے پورے کالم میں اس سوال کا کوئی جواب فراہم نہیں کیا کہ ہم فلسفی، دانش ور اور سائنس دان کیوں پیدا نہیں کرپا رہے؟ لکھنے والوں کا فرض صرف یہ نہیں کہ مسئلے کی نشاندہی کریں بلکہ ان کا یہ فرض بھی ہے کہ وہ اپنے اٹھائے ہوئے سوال کا کوئی جواب بھی مہیا کریں۔

انسانی تاریخ کا پورا سفر ہمارے سامنے ہے۔ اس سفر کے سب سے بڑے لوگ تین ہیں۔ انبیا، اولیا اور مجدّدین۔ اتفاق سے انسانوں کی یہ تینوں اقسام مامور من اللہ ہوتی ہیں اور ان کا مقصد حیات بھٹکے ہوئے انسانوں کو صحیح راستہ دکھانا ہوتا ہے۔ ان عظیم ترین انسانوں کا مقصد حیات حق کا دفاع اور اس کا فروغ اور باطل کی مزاحمت ہوتا ہے۔ یہی وہ لوگ ہیں جو انسان کی نفوس کا ’’تزکیہ‘‘ کرتے ہیں۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ سیدنا ابراہیمؑ نے نمرود کے سامنے کلمہ حق بیان کیا اور اس کے باطل کی مزاحمت کی۔ سیدنا موسیٰؑ نے فرعون کو مشرف بہ اسلام کرنے کی کوشش کی اور اس کے باطل کی مزاحمت کی۔ رسول اکرمؐ نے مکے کے کافروں اور مشرکوں کے سامنے حق کو پیش کیا اور ان کے باطل کی مزاحمت کی۔ یہی کام بعدازاں اولیا اور مجددین ِ وقت نے کیا۔ برصغیر میں اگر مجدد الف ثانیؒ نہ ہوتے تو بادشاہت کا پورا ادارہ اسلام دشمن بن جاتا اور ہندو ازم میں جذب ہوجاتا۔ شاہ ولی اللہ کے وقت میں برصغیر سے قرآن اور حدیث کا علم تقریباً اُٹھ چکا تھا۔ شاہ ولی اللہ اور ان کے فرزندوں نے برصغیر میں قرآن و حدیث کے علم کو زندہ کیا۔ مولانا مودودیؒ بھی مجدد وقت تھے۔ وہ نہ ہوتے تو پوری امت مسلمہ یہ بات بھول جاتی کہ اسلام ایک مکمل ضابطہ ٔ حیات ہے اور مغرب اس دور کا سب سے بڑا باطل ہے۔ ہمیں اس بارے میں رتی برابر بھی شبہ نہیں ہے کہ مجدد الف ثانی بھی مامور من اللہ تھے۔ شاہ ولی اللہ بھی مامور من اللہ تھے اور مولانا مودودی بھی مامور من اللہ تھے۔ یہ ہماری تاریخ میں بڑے انسانوں کے ظہور کا سب سے اہم اسلوب ہے۔

مسلم تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ ہماری تاریخ میں بڑی آرزو نے بھی بڑے انسانوں کو پیدا کیا ہے۔ برصغیر میں اقبال اس کی سب سے بڑی مثال ہیں۔ اقبال اپنے تخلیقی سفر کے آغاز میں ایک قوم پرست شاعر تھے۔ وہ ہمالے کی شان میں نظم لکھ رہے تھے۔ وہ ایک ہندو کی طرح کہہ رہے تھے۔

پتھر کی مورتوں کو سمجھا ہے تو خدا ہے

خاکِ وطن کا مجھ کو ہر ذرّہ دیوتا ہے

لیکن پھر اللہ تعالیٰ نے اقبال کی آرزو بدل ڈالی پہلے ان کی آرزو صرف ہندوستان کا جغرافیہ تھا پھر ان کی آرزو ایک سطح پر عالمگیر اور دوسری سطح پر آفاقی ہوگئی اور وہ کہنے لگے

چین و عرب ہمارا ہندوستاں ہمارا

مسلم ہیں ہم وطن ہے سارا جہاں ہمارا

٭٭

پرے ہے چرخِ نیلی خام سے منزل مسلماں کی

ستارے جس کی گردِ راہ ہیں وہ کارواں تُو ہے

آرزو کی اس تبدیلی نے اقبال کو اوسط درجے کے شاعر سے ایک عظیم شاعر میں ڈھال دیا۔ ایسے شاعر میں کہ جب تک فارسی اور اردو زندہ رہیں گی اقبال اس وقت تک زندہ رہیں گے۔ ایک وقت تھا کہ ہمارے پاس اقبال تھے مگر اب ہمارے پاس اقبال کا سایہ بھی نہیں ہے۔

انسانی شخصیت کا مطالعہ بتاتا ہے کہ بسا اوقات زندگی میں ہونے والا کوئی بڑا تجربہ بھی انسان کو دیوقامت بنا دیتا ہے۔ اردو شاعری میں اس کی سب سے بڑی مثال میر تقی میر ہیں۔ انہیں عشق کے تجربے نے ’’معمولی‘‘ سے ’’غیر معمولی‘‘ بنادیا۔ چنانچہ انہوں نے محبت کے تجربے سے عظیم الشان شاعری تخلیق کرکے دکھائی۔ انہوں نے کہا ؎

محبت نے کاڑھا ہے ظلمت سے نُور

نہ ہوتی محبت نہ ہوتا ظہور

٭٭

محبت مسبّب، محبت سبب

محبت سے ہوتے ہیں کارِ عجب

٭٭

مرے سلیقے سے میری نبھی محبت میں

تمام عمر میں ناکامیوں سے کام لیا

تاریخ کا علم بتاتا ہے کہ تاریخ کی بڑی کروٹ بھی بڑے انسان پیدا کرتی ہے۔ تاریخ کی کروٹ ایک چیلنج ہوتی ہے اور چیلنج کے بارے میں ٹوائن بی نے بنیادی بات کہی ہے۔ ٹوائن بی نے کہا ہے کہ چیلنج کے ساتھ انسان کے تعلق کی دو صورتیں ہیں۔ کچھ لوگ چیلنج کو اپنے لیے بوجھ بنالیتے ہیں اور وہ بوجھ کے نیچے دب کر رہ جاتے ہیں۔ اس کے برعکس کچھ لوگ چیلنج کو ایک ’’قوتِ محرکہ‘‘ یا Motivation میں ڈھال لیتے ہیں۔ ہماری تاریخ میں اس کی سب سے بڑی مثال قائداعظم ہیں۔ انہوں نے قیام پاکستان کو ایک چیلنج کے طور پر لیا اور وہ دیکھتے ہی دیکھتے محمد علی جناح سے ’’قائداعظم‘‘ بن گئے۔ کبھی وہ صرف ’’افراد‘‘ کے وکیل تھے مگر چیلنج نے انہیں ایک مذہب، ایک تہذیب، ایک تاریخ اور ایک قوم کا ’’وکیل‘‘ بنا کر کھڑا کردیا۔ 20 ویں صدی میں لینن اور مائو بھی تاریخ کی کروٹ کا حاصل تھے۔ چنانچہ لینن نے روس میں اور مائو نے چین میں سوشلسٹ انقلاب برپا کیا۔

انسانی شخصیت کی تفہیم بتاتی ہے کہ بڑی ذہانت اور بڑا علم بھی انسان کو عظیم بنا کر کھڑا کردیتا ہے۔ ہماری ادبی تاریخ میں غالب اور محمد حسن عسکری اس کی سب سے بڑی مثالیں ہیں۔ بلاشبہ غالب اردو کے چار عظیم شاعروں میں سے ایک ہے۔ اس کی پشت پر نہ مذہب کی قوت تھی نہ اس کے پاس کوئی بڑا اور گہرا تجربہ تھا مگر اس کی ذہانت اور علم بے مثال تھا وہ فارسی کی پوری روایت کو جذب کیے بیٹھا تھا۔

محمد حسن عسکری کا مطالعہ قاموسی یا Encyclopedic تھا۔ برصغیر میں ان کی سطح کا مطالعہ صرف اقبال کے پاس تھا۔ چنانچہ عسکری صاحب اردو کے سب سے بڑے نقاد بن گئے۔ ان کے جیسا نقاد نہ ان سے پہلے کوئی تھا۔ نہ ان کے زمانے میں کوئی تھا اور نہ کسی دوسرے عسکری کی پیدائش کا امکان دور دور تک نظر آتا ہے۔

ہمارے عہد کا ایک بڑا المیہ یہ ہے کہ مسلمانوں کی عظیم اکثریت اپنے تہذیبی اور تاریخی تجربے سے کئی گئی اور فرد پرستی نے انسان کے اندر موجود اجتماعیت پرستی کو مار دیا ہے۔ اس کا اظہار سلیم احمد نے اپنے ایک قطعے میں کیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے۔

ہر طرف سے انفرادی جبر کی یلغار ہے

کن محاذوں پر لڑے تنہا دفاعی آدمی

میں سمٹتا جارہا ہوں ایک نقطے کی طرح

میرے اندر مر رہا ہے اجتماعی آدمی

ہمارے اندر اجتماعی آدمی کی موت نے ہمارے چاروں طرف بالشتیوں کے ڈھیر لگادیے ہیں۔

ہماری ایک بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ ہم اعلیٰ درجے کے ادارے وجود میں لانے سے قاصر ہیں۔ چنانچہ ہماری ذہانتیں اور ہمارا علم ادارتی نہیں بن پا رہا یعنی Institutionalize نہیں ہوپا رہا۔ ہماری جامعات میں جو تحقیق ہورہی ہے اس کی سطح پست اور اس کا مقصد صرف عہدے اور تنخواہ کی ’’ترقی‘‘ ہے۔ چنانچہ جامعات ہوں یا مدارس ہم ہر جگہ لکیر کے فقیر بنے ہوئے ہیں۔ اس ماحول میں کوئی بڑا آدمی پیدا ہو تو کیسے؟

 

شاہنواز فاروقی

متعلقہ مضامین

  • 61 سال پہلے ممبئی آکر بے گھر اور بھوکا رہا، جاوید اختر کا اپنے کیرئر کے بارے میں جذباتی پیغام
  • اس بار بھارت اپنے طیاروں کے ملبے میں دفن ہوگا، وزیر دفاع
  • ہم بڑے لوگ کیوں پیدا نہیں کررہے؟
  • کرکٹر ابرار احمد رشتہ ازدواج میں منسلک ہونے کو تیار، شادی کب؟
  • عالیہ بھٹ اپنی ننھی سی بیٹی کے لیے ای میل کیوں لکھتی ہیں؟
  • وجے دیوراکونڈا اور رشميکا مندانہ کی منگنی ہوگئی، جَلد شادی کی خبریں زیرِ گردش
  • ایمریٹس نے اپنی پروازوں میں پاور بینک ساتھ رکھنے کی پابندی کیوں لگائی؟
  • بون میں افغانستان قونصل خانے کے عملے نے استعفیٰ کیوں دیا؟
  • جب اپنا بوجھ اتار پھینکا جائے