امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کیلیفورنیا سے فوجی دستے اورِیگون کے شہر پورٹ لینڈ روانہ کر دیے ہیں، حالانکہ ایک عدالت نے انہیں نیشنل گارڈ کی تعیناتی کی اجازت دینے سے انکار کر دیا تھا۔

ذرائع کے مطابق، صدر ٹرمپ نے یہ اقدام عدالتی حکم کو بائی پاس کرتے ہوئے کیا، اور اس کے بجائے لاس اینجلس میں پہلے سے تعینات نیشنل گارڈ کے فوجیوں کو پورٹ لینڈ بھیج دیا۔

کیلیفورنیا کے گورنر گیون نیوسم نے اس فیصلے پر شدید ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس ’قانون کے حیرت انگیز غلط استعمال‘ کے خلاف عدالت میں مقدمہ دائر کریں گے۔
دوسری جانب، ایلینوئے کے گورنر جے بی پرٹزکر نے الزام لگایا کہ ٹرمپ نے ٹیکساس نیشنل گارڈ کے فوجیوں کو بھی دوبارہ تعینات کرنے کا حکم دیا ہے۔

یہ بھی پڑھیے ٹرمپ انتظامیہ نے امریکی شہروں کو ’جنگی میدان‘ قرار دے کر نیشنل گارڈ تعینات کر دیے

پینٹاگون نے تصدیق کی کہ کیلیفورنیا نیشنل گارڈ کے 200 اہلکار پورٹ لینڈ بھیجے گئے ہیں تاکہ امیگریشن اینڈ کسٹمز انفورسمنٹ (ICE) اور دیگر وفاقی اداروں کے عملے کی مدد کر سکیں۔

وائٹ ہاؤس کی ترجمان ابیگیل جیکسن نے بیان میں کہا کہ صدر ٹرمپ نے اپنے قانونی اختیار کا استعمال کرتے ہوئے وفاقی املاک اور اہلکاروں کی حفاظت کے لیے یہ قدم اٹھایا، جو حالیہ پرتشدد فسادات کے بعد ضروری تھا۔

انہوں نے گورنر نیوسم پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ انہیں قانون پر عمل کرنے والے شہریوں کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے، نہ کہ ان مجرموں کے ساتھ جو پورٹ لینڈ اور دیگر شہروں کو تباہ کر رہے ہیں۔

گورنر پرٹزکر نے اتوار کی رات بتایا کہ صدر ٹرمپ نے ٹیکساس نیشنل گارڈ کے 400 اہلکاروں کو ایلینوئے، اوریگون اور دیگر مقامات پر بھیجنے کے احکامات دیے ہیں۔
انہوں نے ٹیکساس کے گورنر گریگ ایبٹ سے مطالبہ کیا کہ وہ فوراً اس فیصلے کی حمایت واپس لیں۔

گزشتہ موسمِ گرما میں لاس اینجلس میں امیگریشن چھاپوں کے خلاف بڑے پیمانے پر احتجاج ہوئے تھے، جس کے بعد ٹرمپ نے ریاستی نیشنل گارڈ کو تعینات کیا۔ اس وقت بھی گورنر نیوسم نے فوج کے استعمال کو غیر ضروری اور اشتعال انگیز قرار دیا تھا، مگر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ اس فیصلے نے شہر کو جلنے سے بچایا۔

یہ بھی پڑھیے: ٹرمپ کی ہدایت پر واشنگٹن میں مسلح نیشنل گارڈز کی تعیناتی، شہریوں میں تشویش

اسی تعیناتی کے دوران موجود فوجیوں کو اب پورٹ لینڈ بھیجا گیا ہے۔
گورنر نیوسم نے کہا کہ یہ عوامی تحفظ کا نہیں بلکہ طاقت کے مظاہرے کا معاملہ ہے۔ صدر امریکی فوج کو سیاسی ہتھیار کے طور پر شہریوں کے خلاف استعمال کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ وہ عدالت میں جائیں گے، مگر عوام کو بھی ایسے آمرانہ اقدامات کے خلاف خاموش نہیں رہنا چاہیے۔

پورٹ لینڈ سمیت کئی شہروں میں ٹرمپ انتظامیہ کی امیگریشن پالیسی کے خلاف احتجاج جاری ہیں۔
صدر ٹرمپ نے حال ہی میں ایک ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کیے ہیں جس کے تحت اینٹی فاشسٹ (Antifa) گروپ کو ملکی دہشتگرد تنظیم قرار دیا گیا ہے۔

پورٹ لینڈ میں تعیناتی سے ایک روز قبل ٹرمپ نے شکاگو میں بھی 300 نیشنل گارڈ اہلکاروں کو تعینات کرنے کی منظوری دی تھی۔
شکاگو میں ہفتے کے روز احتجاج کے دوران جھڑپیں ہوئیں، جہاں امیگریشن حکام کے مطابق ایک مسلح خاتون نے پولیس گاڑیوں پر حملہ کیا، جس کے بعد حکام نے فائرنگ کی۔

ایلینوئے کے گورنر پرٹزکر نے ٹرمپ کے اقدامات کو ’طاقت کے ناجائز استعمال‘ اور ’سیاسی بحران پیدا کرنے کی کوشش‘ قرار دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ صدر جان بوجھ کر تصادم پیدا کر رہے ہیں تاکہ مزید فوجی بھیجنے کا جواز پیدا ہو سکے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: نیشنل گارڈ کے پورٹ لینڈ بھی کرتے ہوئے کے گورنر کے خلاف کہا کہ

پڑھیں:

مسیح کے نام پر فوجی دھمکیاں

اسلام ٹائمز: نائیجیریا کے موجودہ حالات کی بڑی وجہ ان عیسائی تبلیغی تحریکوں کی سرگرمیاں ہیں جو وائٹ ہاوس میں گہرا اثرورسوخ رکھتی ہیں۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو یہ محض اتفاق نہیں ہے کہ ٹرمپ کی موجودہ کابینہ میں دائیں بازو کی کیتھولک تحریکوں سے وابستہ چہرے دکھائی دیتے ہیں جیسے نائب صدر جے ڈی وینس، وزیر خارجہ مارکو روبیو اور اسٹیو بینن جیسے حمایتی جنہوں نے کلیسا کی زبان اور مفاہیم کو قومیت پرستی کا رنگ دے رکھا ہے۔ اس دائیں بازو کی انتہاپسندانہ مسیحیت کا ماسٹر مائنڈ پیٹریک دینن ہے جو نوتردام یونیورسٹی میں سیاسیات کا پروفیسر ہے۔ اس نے 2018ء میں ایک کتاب لکھی جس کا عنوان "کیوں لبرل ازم کو شکست ہوئی" لکھی تھی جس میں اس نے اس بات پر زور دیا تھا کہ لبرل ڈیموکریسی کی جانب سے "سرحدوں سے ماورائی" پر حد درجہ اصرار بہت سے مسائل کا باعث بنا ہے۔ تحریر: سید رضا حسینی
 
نائیجیریا 22 کروڑ آبادی پر مشتمل ملک ہے جو گذشتہ چند برس کے دوران مختلف قسم کے قومی، قبائلی تنازعات اور دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے۔ شمالی علاقوں میں دہشت گرد گروہ بوکوحرام اور داعش سرگرم عمل ہیں جبکہ ملک کے مرکز میں عیسائی زمینداروں اور مسلمانوں کے درمیان شدید تنازعہ جاری ہے اور اس کے جنوب میں علیحدگی پسند تحریکیں چل رہی ہیں۔ اگرچہ نائیجیریا میں تمام شہری حلقوں کے خلاف شدت پسندانہ اقدامات کوئی نئی بات نہیں ہے لیکن یہ ملک حال ہی میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے سوشل میڈیا بیانات کا نشانہ بنا ہوا ہے۔ ٹرمپ نے سوشل ٹروتھ نامی سوشل پلیٹ فارم پر لکھا: "میں اپنی وزارت جنگ کو حکم دیتا ہوں کہ وہ ممکنہ اقدام کے لیے تیار ہو جائے۔ اگر ہم حملہ کریں گے تو وہ تیز، وحشیانہ اور میٹھا ہو گا، ٹھیک اس طرح جیسے ان دہشت گردوں کی طرح جو عیسائیوں پر حملہ ور ہوتے ہیں۔"
 
پیچیدہ معمہ
1960ء میں آزادی کے حصول کے بعد سے ہی نائیجیریا قومی اور مذہبی اختلافات کا شکار رہا ہے۔ ملک کے مرکز میں عیسائی زمیندار ہیں جن کے مسلمان کسانوں کے ساتھ شدید تنازعات جاری ہیں۔ یہ تنازعات پانی کے ذخائر اور کھیتوں پر ہیں اور اب تک کئی مسلح جھڑپوں کا باعث بنے ہیں۔ چند ماہ قبل تقریباً 50 مسلمان مبلغین اور 40 عیسائی دیہاتی ان جھڑپوں میں اپنی جان کھو بیٹھے تھے۔ دوسری طرف نائیجیریا کے شمال مغرب میں بوکوحرام اور داعش جیسے دہشت گرد گروہوں نے حکومت کے خلاف وسیع مسلح سرگرمیاں جاری رکھی ہوئی ہیں جس کے نتیجے میں دسیوں لاکھ عیسائی شہری جلاوطنی پر مجبور ہو چکے ہیں۔ ایسے اکثر جوان جو بے روزگاری اور شدید مالی مشکلات کا شکار ہیں ان دہشت گرد گروہوں میں شمولیت اختیار کر لیتے ہیں۔ درحقیقت حکومتی رٹ نہ ہونے کے باعث شمالی علاقے دہشت گرد گروہوں کی محفوظ پناہ گاہیں بن چکی ہیں۔
 
عیسائی پاپولزم کا ظہور
نائیجیریا کے موجودہ حالات کی بڑی وجہ ان عیسائی تبلیغی تحریکوں کی سرگرمیاں ہیں جو وائٹ ہاوس میں گہرا اثرورسوخ رکھتی ہیں۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو یہ محض اتفاق نہیں ہے کہ ٹرمپ کی موجودہ کابینہ میں دائیں بازو کی کیتھولک تحریکوں سے وابستہ چہرے دکھائی دیتے ہیں جیسے نائب صدر جے ڈی وینس، وزیر خارجہ مارکو روبیو اور اسٹیو بینن جیسے حمایتی جنہوں نے کلیسا کی زبان اور مفاہیم کو قومیت پرستی کا رنگ دے رکھا ہے۔ اس دائیں بازو کی انتہاپسندانہ مسیحیت کا ماسٹر مائنڈ پیٹریک دینن ہے جو نوتردام یونیورسٹی میں سیاسیات کا پروفیسر ہے۔ اس نے 2018ء میں ایک کتاب لکھی جس کا عنوان "کیوں لبرل ازم کو شکست ہوئی" لکھی تھی جس میں اس نے اس بات پر زور دیا تھا کہ لبرل ڈیموکریسی کی جانب سے "سرحدوں سے ماورائی" پر حد درجہ اصرار بہت سے مسائل کا باعث بنا ہے۔
 
پیٹرک دینن اپنی کتاب میں مزید لکھتا ہے کہ اس بات کا نتیجہ نہ صرف حکومت کی جانب سے سماجی ڈھانچوں کی از سر نو تعریف پر مبنی بائیں بازو کی پالیسیاں تھونپنے کی صورت میں ظاہر ہوا ہے جو بذات خود اختلافات کو ہوا دینے والا اور غیر مستحکم ہے بلکہ بہت زیادہ آزاد عالمی معیشت تشکیل پانے کی صورت میں بھی سامنے آیا ہے جس میں نیولبرل ازم نے مزدوروں اور امریکی ووٹرز خاص طور پر عیسائیوں کے مفادات کو زک پہنچائی ہے۔ ٹرمپ کو ووٹ دینے والے مزدور طبقے سے تعلق رکھنے والے عیسائی ووٹر اس بات کو ترجیح دیتے ہیں کہ ان کا سروکار بظاہر مزدوروں کے حامی جمہوریت پسند کی بجائے ایک جابر اور لالچ لیکن درحقیقت معتدل رہنما سے ہو۔ ان کی نظر میں اگر ٹرمپ ٹیکسوں میں اضافہ کرنے اور ساتھ ہی تارکین وطن کو ملک میں داخل ہونے سے روکنے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو اس کے بہت بہتر نتائج ظاہر ہوں گے۔
 
ڈونرز کو خوش کرنے کی کوشش
وائٹ ہاوس میں مسیحیت سے متاثرہ پالیسیاں لاگو کرنے کے پیش نظر دنیا کے مختلف حصوں میں اپنے ہم فکر حلقوں کی حمایت بھی ٹرمپ کے ووٹ بینک کی توجہ کا مرکز بن چکا ہے۔ اگرچہ امریکہ کی رائے عامہ عراق اور افغانستان طرز کی مداخلت کے خلاف ہے لیکن عالمی نظام میں تبدیلی لانے کے لیے مختلف قسم کے فوجی، اقتصادی اور سفارتی ہتھکنڈوں کا استعمال اب بھی ان کی نظر میں مطلوب ہے۔ لہذا ہم دیکھتے ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ نائیجیریا فوجی بھیجنے یا اس ملک پر فضائی حملے انجام دینے کا امکان ظاہر کرتا ہے۔ امریکی صدر نے اتوار کے دن صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا: "میرے سامنے بہت سے آپشن ہیں۔" اس سے پہلے امریکہ کے اراکین کانگریس اور کنزرویٹو عیسائی گروہوں نے ٹرمپ سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ ان کے بقول نائیجیریا میں عیسائی شہریوں کے خلاف شدت پسندانہ اقدامات کے باعث موثر اقدام انجام دے۔
 
امریکہ کا نیا لالچ
نائجیریا آبادی کے لحاظ سے افریقہ کا سب سے بڑا ملک ہے اور اس کے شمال میں بوکوحرام اور داعش جیسے گروہ سرگرم عمل ہیں۔ اس ملک میں کسی قسم کی فوجی مداخلت ایک طرف امریکہ مخالف گروہوں کے خاتمے اور دوسری طرف عالمی سطح پر امریکہ کی پوزیشن مضبوط بننے کا باعث بن سکتی ہے۔ دوسری طرف نائیجیریا افریقہ کا سب سے بڑا تیل اور قدرتی ذخائر کا مالک ہے۔ لہذا امریکہ اس ملک پر سیاسی دباو کو ایک ہتھکنڈے کے طور پر استعمال کر کے وہاں موجود قدرتی ذخائر تک رسائی حاصل کر سکتا ہے۔ امریکہ چاہتا ہے کہ افریقی ممالک اسے سیاسی اور سیکورٹی مراعات فراہم کریں جیسے اس براعظم میں روس اور چین کا اثرورسوخ روکنے میں اس کی مدد کرنا یا تارکین وطن کو کنٹرول کرنا یا امریکی کمپنیوں کو اپنے قدرتی ذخائر تک رسائی فراہم کرنا وغیرہ۔

متعلقہ مضامین

  • سہیل آفریدی کو ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی پر نوٹس جاری
  • ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی: الیکشن کمیشن نے وزیراعلیٰ سہیل آفریدی کو طلب کرلیا
  • مسیح کے نام پر فوجی دھمکیاں
  • اسرائیلی فوج نےجنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی کرتےہوئے مزید23فلسطینی شہیدکردیئے
  • چیئر مین سی ڈی اے کی ہدایت پر اسلام آباد میں تجاوزات ، بلا اجازت تعمیرات اور بلڈنگ بائی لاز کی خلاف ورزی پر کاروائیاں جاری
  • کوڈ آف کنڈکٹ کی خلاف ورزی: بابراعظم پر جرمانہ عائد
  • آئی سی سی نے بابراعظم پر جرمانہ عائد کردیا
  • بابر اعظم کو آئی سی سی کوڈ آف کنڈکٹ کی خلاف ورزی پر جرمانہ
  • آئی سی سی نے بابر اعظم پر جرمانہ عائد کردیا
  • وارثت خدائی حکم ہے، حق دلانا ریاستی ذمے داری ہے، عدالتی فیصلہ