تھائی لینڈ میں ہونے والے مس یونیورس 2025 کے بین الاقوامی مقابلے میں فلسطین پہلی بار اپنی نمائندہ بھیج رہا ہے۔

ستائیس سالہ نادین ایوب، جو ایک سرٹیفائیڈ ہیلتھ اینڈ نیوٹریشن کوچ ہیں، نومبر 2025 میں ہونے والے اس عالمی مقابلے میں فلسطین کی اولین نمائندہ بننے جا رہی ہیں۔

نادین ایوب، جنہیں 2022 میں مس فلسطین کا تاج پہنایا گیا تھا، ادب اور نفسیات میں ڈگری رکھتی ہیں۔ انہوں نے اپنی اس تاریخی شرکت کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا کہ وہ مظلوم فلسطینی عوام کی نمائندہ ہیں جنہیں غزہ میں ناانصافی اور قتل عام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

فلسطینی ماڈل نے زور دیتے ہوئے کہا کہ ’’فلسطین دنیا کے ہر فورم پر نمودار ہوگا۔ فلسطینیوں کے لیے اب خاموش نہیں رہا جاسکتا۔‘‘ ان کا یہ بیان اس وقت سامنے آیا ہے جب غزہ میں جاری جنگ کے باعث فلسطینی عوام بین الاقوامی توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں۔

        View this post on Instagram                      

A post shared by Nadeen Ayoub (@nadeen.

m.ayoub)

مس یونیورس 2025 کا مقابلہ 21 نومبر کو تھائی لینڈ میں منعقد ہوگا، جہاں 130 سے زائد ممالک کی نمائندہ خواتین اس عالمی تاج کے لیے مقابلہ کریں گی۔ اس سال یہ 74واں مس یونیورس مقابلہ ہوگا، جس میں متحدہ عرب امارات کی مریم محمد، عراق، لبنان اور ایران سمیت متعدد مسلم ممالک کی نمائندہ خواتین بھی شریک ہوں گی۔

یہ خبر بھی پڑھیے: مس یونیورس مقابلے میں پہلی بار امارات کی نمائندگی، ماڈل مریم محمد شرکت کریں گی

نادین ایوب کی شرکت نے بین الاقوامی میڈیا میں خاصی توجہ حاصل کی ہے، کیونکہ یہ پہلا موقع ہے کہ فلسطین کی نمائندہ اس معروف عالمی مقابلے میں حصہ لے رہی ہے۔ مس یونیورس آرگنائزیشن کے ترجمان کے مطابق، یہ مقابلہ خواتین کو بااختیار بنانے اور عالمی برادری میں مثبت تبدیلی لانے کے لیے وقف ہے۔

نادین ایوب کی شرکت نہ صرف فلسطینی عوام کے لیے امید کی کرن ہے، بلکہ یہ ثابت کرتی ہے کہ فلسطینی خواتین ہر میدان میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا سکتی ہیں۔ ان کی یہ کوشش عالمی سطح پر فلسطینی قضیے کو اجاگر کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: نادین ایوب مس یونیورس کی نمائندہ مقابلے میں کے لیے

پڑھیں:

اسرائیل کے مقابلے میں اقوام عالم کی بے بسی

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251006-03-4

 

متین فکری

اقوام متحدہ پوری دنیا میں آباد قوموں اور ملکوں کا نمائندہ ادارہ ہے اس ادارے کا مقصد دنیا میں امن قائم کرنا اور قوموں کے درمیان تنازعات کو خوش اسلوبی سے طے کرانا ہے۔ اقوام متحدہ نے اس سلسلے میں اپنی افادیت ثابت کی ہے اور عالمی امن کے قیام میں اہم کردار ادا کیا ہے لیکن یہ اس وقت ممکن ہوا ہے جب امریکا نے بھی اس کا ساتھ دیا ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں پانچ مستقل ارکان امریکا، روس، چین، برطانیہ اور فرانس کو ویٹو کے اختیارات حاصل ہیں یعنی سلامتی کونسل اگر اپنے مستقل اور غیر مستقل ارکان کی کثرت رائے سے کوئی قرار داد منظور بھی کرلے تو کوئی مستقل رکن اسے ویٹو کرنے یعنی مسترد کرنے کا اختیار رکھتا ہے۔ اس کے ویٹو کرنے سے وہ قرار داد غیر موثر ہوجاتی ہے اور سلامتی کونسل کوئی قدم نہیں اٹھا سکتی۔ بصورت دیگر وہ کسی علاقے میں قیام امن کے لیے اقوام متحدہ کی امن فوج بھیجنے کا اختیار بھی رکھتی ہے۔ اقوام متحدہ کی کوئی مستقل امن فوج نہیں ہے وہ مختلف ملکوں سے فوجی دستے طلب کرتی اور انہیں ’’امن فوج‘‘ کے نام سے متنازع علاقے میں تعینات کرکے امن قائم کرتی ہے۔ اس حوالے سے اس کی کارکردگی قابل تعریف رہی ہے۔ پاکستان نے بھی اقوام متحدہ کی امن فوج میں اپنا حصہ ڈالا ہے اور پاکستان کے فوجی دستوں کی کارکردگی کو عالمی سطح پر سراہا گیا ہے۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ سلامتی کونسل میں ویٹو کا اختیار سب سے زیادہ امریکا نے استعمال کیا ہے۔ غزہ میں 2 سال سے اسرائیلی جارحیت جاری ہے وہ غزہ میں ہزاروں مردوں، عورتوں، بچوں اور خاص طور پر شیرخوار بچوں کو شہید کرچکا ہے، اگرچہ شہدا کی تعداد 68 ہزار بتائی جاتی ہے لیکن عینی شاہدین کے مطابق یہ تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔ اسرائیلی بمباری سے زخمی اور معذور ہونے والے فلسطینیوں کا بھی کوئی شمار نہیں۔ اسرائیل نے پورے غزہ کو کھنڈر بنادیا ہے، یہ حالات اس بات کا تقاضا کررہے تھے کہ غزہ میں فوری جنگ بندی عمل میں لائی جائے، چنانچہ سلامتی کونسل میں بار بار جنگ بندی کی قرار داد پیش ہوئی اور امریکا نے ہر بار اسے ویٹو کردیا۔ اس طرح اس نے ببانگ ِ دہل اعلان کیا کہ وہ جنگ جاری رکھنا چاہتا ہے لیکن حیرت ہے کہ ہمارے حکمرانوں نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو امن کا علمبردار قرار دیتے ہوئے اسے امن کے نوبل انعام کے لیے نامزد کیا ہے۔

خود ٹرمپ کی منافقت کا یہ حال ہے کہ اس نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے عالمی ادارے پر الزام لگایا ہے کہ وہ دنیا میں جنگ روکنے میں ناکام ہوگیا ہے۔ حالانکہ اس کی ناکامی میں امریکا کا بڑا ہاتھ ہے اس نے عالمی ادارے کو اپنے ویٹو کے ذریعے یرغمال بنا رکھا ہے، اب ٹرمپ نے غزہ کے لیے جس امن منصوبے کا اعلان کیا ہے اس کا مقصد جنگ کا خاتمہ نہیں بلکہ فلسطینیوں کو اسرائیل کا غلام بنانا اور حماس کی مزاحمت کو ختم کرنا ہے۔ اسرائیل اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود حماس کو ختم کرنے میں ناکام رہا اب وہ امریکی امن منصوبے کی آڑ میں یہ مقصد حاصل کرنا چاہتا ہے۔ تمام عرب ملکوں نے اس منصوبے کی حمایت کردی ہے، اس طرح حماس کی قیادت اگر اپنی مزاحمت جاری رکھنے کے لیے کسی عرب ملک میں پناہ لینا چاہے تو اسے پناہ نہیں ملے گی۔ حماس نے فی الحال امریکی منصوبے پر مشروط آمادگی ظاہر کرتے ہوئے مزاحمت جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ٹرمپ عرب حکمرانوں کے ذریعے اسے ٹھکانے لگادے گا۔ پاکستان کی حکمران قیادت بھی امریکی منصوبے کی پرجوش حامی ہے۔ امریکی منصوبے میں مسئلہ فلسطین کے دو ریاستی حل کو بھی نظر انداز کردیا گیا ہے کیونکہ اسرائیل کسی فلسطینی ریاست کے حق میں نہیں ہے۔ امریکی منصوبے کا واحد مقصد غزہ پر اسرائیل کی بالادستی قائم کرنا ہے۔

اب آتے ہیں صمود فلوٹیلا کی طرف۔ یہ امدادی بحری بیڑہ جو غزہ کا غیر قانونی اور غیر انسانی محاصرہ توڑنے کے لیے بین الاقوامی سول سوسائٹی کے زیر اہتمام روانہ ہوا تھا اگرچہ طویل سمندری سفر کرنے کے بعد اپنی منزل پر پہنچ گیا ہے لیکن اسرائیلی فوجوں نے اس کا محاصرہ کرکے اس میں موجود تمام رضا کاروں کو حراست میں لے لیا ہے، اس بحری بیڑے میں امدادی سامان سے بھری ہوئی پچاس کشتیاں ہیں جو چوالیس سے زیادہ مسلم اور غیر مسلم ملکوں کی نمائندگی کررہی ہیں۔ ان میں پاکستان سے ہمارے سابق سینیٹر مشتاق احمد صاحب بھی شامل ہیں، جو ہمیں انٹرنیٹ کے ذریعے اس سفر سے لمحہ بہ لمحہ آگاہ کرتے رہے۔ صمود فلوٹیلا کئی مرتبہ طوفان میں گھرا لیکن اس نے سفر جاری رکھا، بالآخر اپنی منزل تک پہنچ گیا، پھر اسرائیلی فوجوں نے دھاوا بول دیا اور سب کو پکڑ کر لے گئی۔ اس پر پوری دنیا میں احتجاج ہورہا ہے۔ جماعت اسلامی نے پاکستان میں احتجاجی مظاہروں کا اہتمام کیا ہے لیکن اسرائیل وہ بے غیرت ملک ہے جو عالمی احتجاج کو بھی خاطر میں نہیں لاتا۔ اس نے اقوام عالم کو اپنے آگے بے بس بنا رکھا ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ فساد کی اصل جڑ امریکا ہے، اسرائیل امریکا کے کھونٹے پر ناچ رہا ہے، یہی وجہ ہے کہ ایران نے امریکا کو ’’شیطان کبیر‘‘ قرار دیا ہے۔ جب تک ’’شیطان کبیر‘‘ کا بندوبست نہیں ہوتا یہ دنیا اسی طرح فسادات سے بھڑکتی رہے گی۔

متین فکری

متعلقہ مضامین

  • فلسطین کا امن منصوبہ: حقیقت یا فریب؟
  • فلسطینی ریاست کے قیام سے چیزیں درست ہوں گی، خواجہ آصف
  • مس یونیورس مقابلے میں پہلی بار امارات کی نمائندگی، ماڈل مریم محمد شرکت کریں گی
  • ہیومن رائٹس پروٹیکشن کا فلسطین سے اظہار یکجہتی کیلیے تقریب کا انعقاد
  • اسرائیل کے مقابلے میں اقوام عالم کی بے بسی
  • فلسطین کی مزاحمتی تنظیم حماس نے عالمی نگرانی میں ہتھیار ڈالنے پر اتفاق کرلیا
  • ٹرمپ کے شکر گزار ہیں‘ فلسطین میں جنگ بندی کے قریب ہیں‘ شہباز شریف
  • اعلان بالفور سے اعلان نیو یارک تک
  • اسرائیلی فوج نے غزہ میں بمباری مزید تیز کردی، جبری انخلاء کا نیا حکم