ماحولیاتی بہتری کے لیے سعودی عرب کی قیادت میں تکنیکی انقلاب کا آغاز
اشاعت کی تاریخ: 7th, October 2025 GMT
سعودی عرب میں 11ویں موسمیاتی کنٹرول (Climate Control) کانفرنس بھرپور انداز میں جاری ہے، جس میں پاکستان سمیت دنیا بھر سے ماہرینِ ماحولیات، پالیسی ساز، صنعت کار اور جدید ٹیکنالوجی فراہم کرنے والی کمپنیوں نے شرکت کی۔
یہ کانفرنس ایسے وقت میں منعقد ہو رہی ہے جب سعودی عرب اپنے ویژن 2030 کے تحت پائیدار ترقی، توانائی کے مؤثر استعمال اور جدید ماحولیاتی و تعمیراتی ٹیکنالوجیز کے فروغ کے لیے نمایاں اقدامات کر رہا ہے۔
تقریب میں توانائی، ماحولیات اور قابلِ تجدید توانائی کے شعبوں سے تعلق رکھنے والے عالمی ماہرین نے اپنی تحقیقی رپورٹس، عملی تجربات اور اختراعی منصوبے پیش کیے۔ اس موقع پر پالیسی و ضابطہ جاتی سیشنز، ٹیکنو کمرشل پریزنٹیشنز، کیس اسٹڈیز، پینل ڈسکشنز اور نیٹ ورکنگ سیشنز بھی منعقد ہوئے، جن میں معروف انجینئرز، کنسلٹنٹس، مینوفیکچررز اور ڈسٹرکٹ کولنگ سروس فراہم کرنے والے شریک ہوئے۔
یہ بھی پڑھیے سعودی عرب کے ویژن 2030 سے پاکستانی کیسے فائدہ اٹھا سکتے ہیں؟
شرکاء نے اس بات پر زور دیا کہ سعودی عرب جس تیزی سے ٹیکنالوجی، پائیداری اور موسمیاتی بہتری کے میدان میں ترقی کر رہا ہے، وہ قابلِ تعریف ہے۔ انہوں نے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے ویژن 2030 کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ یہ وژن خطے کو ترقی، اختراع اور ماحول دوست مستقبل کی نئی سمت دے رہا ہے۔
اس موقع پر پاکستانی کمپنیوں کی شرکت بھی خصوصی طور پر نمایاں رہی۔ پاکستانی کمپنی کے شریک بانی شکیل احمد کیانی نے بتایا کہ ان کی ٹیم نے بغیر کمپریسر کے ایئر کنڈیشننگ سسٹم متعارف کرایا ہے، جو روایتی نظاموں کے مقابلے میں تقریباً 80 فیصد بجلی کی بچت فراہم کرتا ہے۔ بین الاقوامی ماہرین نے اس ٹیکنالوجی کو توانائی کے مؤثر استعمال اور موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے حوالے سے ایک اہم پیش رفت قرار دیا۔
کانفرنس کے دوران مختلف ممالک کے ماہرین کے درمیان ملاقاتیں اور تجربات کا تبادلہ بھی ہوا، جس سے پاکستان، سعودی عرب اور دیگر ممالک کے درمیان تکنیکی تعاون کے نئے مواقع پیدا ہونے کی توقع ہے۔
یہ بھی پڑھیے سعودی عرب میں نابینا افراد کے لیے جدید نیویگیشن سسٹم تیار
اس موقع پر فریڈرک پیلے (شریک بانی و کمرشل ڈائریکٹر)، انجینئر جویریہ اسد اور امیر حمزہ (بیسٹ ایچ ایل چیئرز) نے بھی اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ اس کانفرنس نے ماحولیاتی بہتری اور پائیدار ٹیکنالوجی کے حوالے سے عالمی تعاون کو مزید مضبوط بنایا ہے۔
ماہرین کے مطابق، موسمیاتی کنٹرول کانفرنس کا یہ ایڈیشن نہ صرف ٹیکنالوجی اور پالیسی کے امتزاج کی بہترین مثال ہے بلکہ یہ اس امر کا ثبوت بھی ہے کہ خطے کے ممالک پائیدار اور ماحول دوست مستقبل کے لیے ایک مشترکہ وژن کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ٹیکنالوجی سعودی وژن 2030.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: ٹیکنالوجی سعودی وژن 2030 کے لیے
پڑھیں:
سیلاب میں جانی نقصان کی روک تھام کو قومی سیاسی ترجیح بنایا جائے: مصدق ملک
اسلام آباد: وفاقی وزیرِ موسمیاتی تبدیلی مصدق ملک نے کہا ہے کہ سیلاب سے ہونے والے جانی نقصانات اور تباہ کاریوں کو روکنا اب ملکی سیاست اور حکمتِ عملی کا بنیادی محور ہونا چاہیے، کیونکہ حالیہ برسوں میں سیلاب نے معیشت، انفرا اسٹرکچر اور انسانی زندگیوں پر گہرا اثر ڈالا ہے۔
اسلام آباد میں چیئرمین این ڈی ایم اے کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے مصدق ملک نے بتایا کہ 2022 کے تاریخی سیلاب نے ملکی معیشت کو 9 فیصد جی ڈی پی کے برابر نقصان پہنچایا۔ گزشتہ تین سے چار بڑے سیلابوں کے دوران 4 ہزار 500 سے زائد افراد جاں بحق ہوئے جبکہ 4 کروڑ سے زیادہ لوگ بے گھر ہوئے، رواں برس بھی صورتحال تشویش ناک رہی اور سیلاب نے 31 لاکھ افراد کو متاثر یا بے گھر کیا۔
وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ آئندہ 200 دنوں میں ایک مربوط اور جامع حکمت عملی کے تحت سیلابی خطرات سے نمٹنے کے لیے مضبوط اقدامات کیے جائیں گے، موجودہ نکاسی آب کا نظام موسمیاتی شدت اور غیر معمولی بارشوں کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا، اس لیے حکومت طویل مدتی منصوبہ بندی کے تحت اگلے پانچ سال میں موسمیاتی مطابقت رکھنے والا انفرا اسٹرکچر تیار کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔
مصدق ملک نے مزید بتایا کہ وزیراعظم نے فوری طور پر ارلی وارننگ سسٹم کو جدید، مربوط اور فعال بنانے کی ہدایت جاری کر دی ہے۔ تحصیل اور ضلع کی سطح پر وارننگ کا موثر نظام قائم کیا جائے گا تاکہ متعلقہ علاقوں کو بروقت الرٹ مل سکے۔ “اسلام آباد کو خبر بعد میں ملے گی، پہلے وہ علاقے وارننگ پائیں گے جہاں حقیقی خطرہ موجود ہو۔
انہوں نے کہا کہ پہلے مرحلے میں ملک بھر میں آبی گزرگاہوں پر قائم تجاوزات کا خاتمہ کیا جائے گا، جبکہ دریا کے سیلاب، فلش فلڈز، نکاسی آب کی ناکامی اور ساحلی علاقوں میں تباہی کے مسائل وزیراعظم کے سامنے رکھ دیے گئے ہیں۔ وفاقی حکومت کا مؤقف ہے کہ موسمیاتی چیلنجز سے نمٹنا اب اختیاری نہیں بلکہ ناگزیر قومی ترجیح بن چکا ہے۔