امریکا کا نیا اسٹیلتھ لڑاکا طیارہ، پینٹاگون اس ہفتے کمپنی کا انتخاب کرے گا
اشاعت کی تاریخ: 7th, October 2025 GMT
کئی ماہ کی تاخیر کے بعد امریکی محکمہ دفاع یعنی پینٹاگون اس ہفتے یہ فیصلہ کرنے والا ہے کہ امریکی بحریہ کے اگلے اسٹیلتھ لڑاکا طیارے کی تیاری اور ڈیزائن کے لیے کس دفاعی کمپنی کا انتخاب کیا جائے گا۔
یہ ایک اربوں ڈالر مالیت کا منصوبہ ہے، جو چین کے بڑھتے ہوئے دفاعی اثرورسوخ کا مقابلہ کرنے میں امریکا کے لیے مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق اس منصوبے کے لیے بوئنگ کمپنی اور نارتھروپ گرومن کارپوریشن کے درمیان سخت مقابلہ جاری ہے۔
یہ بھی پڑھیں: امریکی سیکریٹری دفاع پر دوسری بار یمن حملوں سے متعلق خفیہ معلومات سگنل پر شیئر کرنے کا الزام
یہ طیارہ، جسے F/A-XX کا نام دیا گیا ہے، امریکی بحریہ کے موجودہ F/A-18E/F سپر ہارنیٹ بیڑے کی جگہ لے گا جو 1990 کی دہائی سے سروس میں ہیں۔
???????? After months of delays, the Pentagon is set to select a defense company this week to design and build the Navy's next-generation stealth fighter, the project critical to countering China.
Boeing [right] and Northrop Grumman [left] are competing to develop the carrier-based… pic.twitter.com/g65b1TwiAw
— Vanguard Intel Group ???? (@vanguardintel) October 7, 2025
ذرائع کے مطابق امریکی وزیرِ دفاع پِیٹ ہیگسیَتھ نے جمعے کے روز اس منصوبے کے فیصلے کی منظوری دی ہے۔
توقع ہے کہ بحریہ اس ہفتے کے دوران F/A-XX تیار کرنے والی کمپنی کا اعلان کر دے گی، تاہم ذرائع کے مطابق بعض تکنیکی یا انتظامی رکاوٹیں ایک بار پھر فیصلے میں تاخیر کا باعث بن سکتی ہیں۔
مزید پڑھیں: پینٹاگون کے سربراہ نے افغانستان سے امریکی انخلا پر نظرثانی کا حکم دے دیا
پینٹاگون اور امریکی بحریہ نے اس بارے میں کوئی باضابطہ تبصرہ نہیں کیا۔
ماہرین کے مطابق F/A-XX منصوبے میں تاخیر نے بحری فضائیہ کے مستقبل اور طیارہ بردار بحری جہازوں کے کردار کے حوالے سے کئی سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔
اگر اس منصوبے میں مزید تاخیر ہوئی تو بحریہ کے پاس 2030 کی دہائی کے بعد ایسے جدید لڑاکا طیارے دستیاب نہیں ہوں گے جو سمندر میں آپریشن کے قابل ہوں، جس سے امریکی بحریہ کی عالمی طاقت کے مظاہرے کی صلاحیت متاثر ہو سکتی ہے۔
نیا F/A-XX طیارہ جدید اسٹیلتھ ٹیکنالوجی، طویل پرواز کی صلاحیت، بہتر ہتھیار نظام اور بغیر پائلٹ لڑاکا طیاروں کے ساتھ مربوط انداز میں کام کرنے کی استعداد رکھے گا۔
مزید پڑھیں: ایران حملے کی رپورٹ پر تنازع: پینٹاگون انٹیلی جنس ایجنسی کے سربراہ برطرف
دفاعی تجزیہ کاروں کے مطابق، چین چھٹی نسل کے طیاروں کے پروٹوٹائپ پر تیزی سے کام کر رہا ہے، اس لیے یہ فیصلہ امریکا کے لیے رفتار برقرار رکھنے کے لحاظ سے نہایت اہم ہے۔
منصوبہ اس وقت تاخیر کا شکار ہوا جب پینٹاگون اور امریکی کانگریس کے درمیان فنڈنگ پر اختلافات پیدا ہوئے۔
پینٹاگون نے صرف 74 ملین ڈالر کے محدود فنڈ کی تجویز دی تھی، جبکہ بعض حکام پروگرام کو 3 سال تک مؤخر کرنے کے حامی تھے۔
تاہم کانگریس نے منصوبے کو تیز کرنے کے لیے 750 ملین ڈالر کی منظوری دی اور مالی سال 2026 کے لیے مزید 1.4 ارب ڈالر مختص کیے۔
مزید پڑھیں: امریکا نے قطر کا 400 ملین ڈالر کا لگژری جیٹ تحفہ قبول کرلیا، نیا ایئر فورس ون بنے گا
رپورٹس کے مطابق دفاعی حکام کے درمیان یہ بھی بحث جاری رہی کہ آیا بوئنگ اور نارتھروپ دونوں اپنی موجودہ مصروفیات کے ساتھ نیا طیارہ وقت پر تیار کر سکیں گے یا نہیں۔
بوئنگ پہلے ہی امریکی فضائیہ کے F-47 طیارے کی تیاری میں مصروف ہے، جبکہ نارتھروپ گرومن کو سینٹینیل بین البراعظمی میزائل پروگرام کے بڑھتے ہوئے اخراجات کا سامنا ہے۔
اگرچہ F/A-XX پروگرام کی مقدار، مالیاتی حجم اور ٹائم لائن خفیہ رکھی گئی ہے، لیکن دفاعی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ منصوبہ ماضی کے F-35 پروگرام کی طرح دسیوں ارب ڈالر پر محیط ہو سکتا ہے۔
امریکی بحریہ اب بھی اپنے بیڑے کے لیے 270 سے زائد لاک ہیڈ مارٹن F-35C طیارے خریدنے کا ارادہ رکھتی ہے، تاہم رواں سال کے اوائل میں لاک ہیڈ مارٹن کو F/A-XX مقابلے سے باہر کر دیا گیا۔
پہلے F/A-XX طیارے 2030 کی دہائی میں سروس میں شامل کیے جانے کی توقع ہے، جبکہ موجودہ F/A-18 سپر ہارنیٹس کو 2040 تک استعمال میں رکھا جائے گا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اسٹیلتھ لڑاکا طیارے بحری فضائیہ پیٹ ہیگسیتھ پینٹاگون ڈیزائن کانگریس لاک ہیڈ مارٹن محکمہ دفاعذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اسٹیلتھ لڑاکا طیارے بحری فضائیہ پیٹ ہیگسیتھ پینٹاگون ڈیزائن کانگریس لاک ہیڈ مارٹن محکمہ دفاع امریکی بحریہ کے مطابق کے لیے
پڑھیں:
امریکی پابندیوں کے باعث روسی تیل کا سودا ختم، بھارتی مکیش امبانی بھی پابندی کی لپیٹ میں
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد: بھارت، جس نے ہمیشہ آزاد خارجہ پالیسی کا دعویٰ کیا، آخرکار امریکی دباؤ کے سامنے پسپائی اختیار کر گیا، امریکی پابندیوں اور اقتصادی دباؤ کے تحت بھارتی حکومت نے روس سے سستا تیل خریدنے کی پالیسی ترک کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
بین الاقوامی میڈیا رپورٹس کے مطابق بھارت کی بڑی کمپنیوں کے روس کے ساتھ کیے گئے 10 سالہ تیل کے معاہدے واشنگٹن کی پابندیوں کے بعد عملی طور پر بے اثر ہو گئے ہیں، اس فیصلے کے اثرات میں مکیش امبانی کی ریلائنس کمپنی بھی شامل ہے، جس نے امریکی حکم پر روسی تیل کی خریداری روک دی ہے۔
رپورٹ کے مطابق روسی تیل کی بندش کے بعد ریلائنس کو مشرقِ وسطیٰ اور ممکنہ طور پر امریکا سے مہنگا خام تیل خریدنا پڑے گا۔ کمپنی کی ریفائنری یکم دسمبر سے غیر روسی خام تیل پر چلائی جائے گی۔
رپورٹ کے مطابق بھارت برسوں روسی تیل سے اربوں ڈالر کا فائدہ اٹھاتا رہا، لیکن سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے لگایا گیا 50 فیصد ٹیرف مودی حکومت کے لیے فیصلہ کن ثابت ہوا۔ اسی دباؤ کے باعث بھارت نے روسی تیل نہ خریدنے کا فیصلہ کیا حالانکہ ایک بھارتی کمپنی کے روس کے ساتھ تیل کے سودوں کی مالیت 33 ارب ڈالر سے زائد تھی۔
ٹرمپ انتظامیہ پہلے ہی واضح کر چکی تھی کہ روسی تیل کی خریداری جاری رہی تو امریکا اور بھارت کے درمیان تجارتی معاہدے پر کوئی پیشرفت ممکن نہیں ہوگی، جس کے پیش نظر بھارت نے اپنی پالیسی میں بڑی تبدیلی کی۔