data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

واشنگٹن: امریکا میں فیڈرل جج نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی میں فوج تعینات کرنے سے عارضی طور پر روک دیا ہے۔

بین الاقوامی خبر رساں اداروں کے مطابق یہ معاملہ اس وقت سامنے آیا ہے جب ٹرمپ انتظامیہ نے نیشنل گارڈ فورسز کو شہر میں ممکنہ بے امنی کے پیش نظر تعینات کرنے کا منصوبہ بنایا، تاہم مقامی حکام نے اس فیصلے کو قانونی اختیارات سے تجاوز قرار دیتے ہوئے عدالت سے رجوع کیا۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق ڈسٹرکٹ جج جیا کوب نے اپنے فیصلے میں واضح کیا کہ صدر ٹرمپ کا اقدام واشنگٹن ڈی سی کے میئر اور مقامی انتظامیہ کی قانونی اتھارٹی کو نظرانداز کرتا ہے۔ عدالت نے کہا کہ اگرچہ وفاقی حکومت کو مخصوص حالات میں ریاستی یا ضلعی معاملات میں مداخلت کا اختیار حاصل ہوتا ہے، لیکن مقامی معاملات میں فوج تعینات کرنا ایسا قدم ہے جس کے لیے غیر معمولی جواز درکار ہوتا ہے، جو اس کیس میں پیش نہیں کیا گیا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ جج نے یہ حکم فوری طور پر نافذ نہیں کیا بلکہ اس پر 21 دن کی تاخیر لگا دی ہے۔ اس تاخیر کا مقصد یہ ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کو اپیل کا حق استعمال کرنے کی مہلت مل سکے، جس کے بعد حتمی فیصلہ اعلیٰ عدالت میں بھی زیرِ غور آسکتا ہے۔

یہ مقدمہ واشنگٹن ڈی سی کے اٹارنی جنرل برایان شوالب کی جانب سے دائر کیا گیا تھا، جنہوں نے مؤقف اختیار کیا کہ نیشنل گارڈ یا فوجی اہلکاروں کی تعیناتی شہر کی خودمختاری پر براہ راست اثر انداز ہو سکتی ہے۔

شوالب نے عدالت میں مؤقف پیش کیا کہ مقامی معاملات، خصوصاً سیکورٹی اور پولیسنگ سے متعلق فیصلے، مقامی اداروں کی ذمہ داری ہیں اور ان میں وفاقی حکومت کی یکطرفہ مداخلت آئینی توازن کو متاثر کر سکتی ہے۔

جج نے اپنے فیصلے میں کہا کہ اگرچہ صدر کو وفاقی املاک یا سرکاری عمارتوں کی حفاظت کے لیے فورس تعینات کرنے کا حق حاصل ہے، مگر اس اختیار کا مطلب یہ نہیں کہ وہ شہر کے اندرونی جرائم، احتجاج یا مقامی حکمرانی کے معاملات میں براہ راست فوج داخل کر سکتے ہیں۔ مقامی اور وفاقی حکومت کے درمیان اختیارات کی تقسیم ایک حساس آئینی معاملہ ہے جسے نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔

.

ذریعہ: Jasarat News

پڑھیں:

وفاقی آئینی عدالت کا سپریم کورٹ رولز 2025ء کو اختیار کرنے کا فیصلہ

اسلام آباد:

وفاقی آئینی عدالت نے سپریم کورٹ رولز 2025ء کو اختیار کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق چیف جسٹس وفاقی آئینی عدالت امین الدین خان کی زیر صدارت فل کورٹ اجلاس منعقد ہوا۔

وفاقی آئینی عدالت نے فل کورٹ اجلاس میں اہم فیصلے کیے۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ  آئینی عدالت کے پریکٹس اینڈ پروسیجر کے لیے سپریم کورٹ رولز 2025ء کو اختیار کیا جائے گا۔

فل کورٹ نے فیصلہ کیا کہ وفاقی آئینی عدالت میں مقدمات کی سماعت کم سے کم دو رکنی بینچ کرے گا، دو رکنی بینچ کے فیصلے کے خلاف مقدمات کی سماعت کم از کم تین رکنی بینچ کرے گا۔

اجلاس میں یہ فیصلہ بھی کیا گیا کہ بتایا گیا کہ سپریم کورٹ کے وکلاء آئینی عدالت میں پیش ہونے کے اہل ہوں گے۔

دریں اثنا آئینی عدالت کے فل کورٹ اجلاس کے فیصلوں کے بارے میں اٹارنی جنرل اور چاروں صوبوں کے ایڈووکیٹ جنرلز کو آگاہ کردیا گیا۔

متعلقہ مضامین

  • وفاقی آئینی عدالت کے قیام کے بعد پہلا پیغام جاری کردیا گیا
  • امریکی عدالت نے ٹرمپ کو دارالحکومت میں فوج تعینات کرنے سے روک دیا
  • وفاقی آئینی عدالت کا پاکستانی چینلز پر بھارتی مواد نشر کرنے کے کیس میں اہم فیصلہ
  • ٹرمپ نے جیفری ایپسٹین کی مزید دستاویزات جاری کرنے کے بل پر دستخط کر دیے
  • جسٹس گل حسن اورنگزیب کی سپریم کورٹ کا مستقل جج تعیناتی کا امکان
  • وفاقی آئینی عدالت کا سپریم کورٹ رولز 2025 کو اختیار کرنے کا فیصلہ
  • وفاقی آئینی عدالت کا سپریم کورٹ رولز 2025ء کو اختیار کرنے کا فیصلہ
  • امریکی کانگریس ایپسٹین فائلز جاری کرنے پر متفق، ٹرمپ نے بھی اعتراض ختم کردیا
  • سعودی عرب 142 ارب ڈالر کا اسلحہ خریدے گا، ٹرمپ