Express News:
2025-10-07@23:20:44 GMT

مادرِ علمی

اشاعت کی تاریخ: 8th, October 2025 GMT

ٹریننگ، سول سروسز کا انتہائی کمزور پہلو ہے، شروع دن سے ہی اربابِ بست و کشاد نے اسے غیر اہم سمجھ کر نظر انداز کیا، جس کا نتیجہ آج قوم، ہر سطح کے سول سرونٹس کی ناقص کارکردگی کی صورت میں بھگت رہی ہے۔

عسکری ادارے ٹریننگ کو Pride  سمجھتے ہیں اور تربیّتی اداروں میں اپنے بہترین افسر تعیّنات کرتے ہیں مگر سول سروسز میں ٹریننگ کو سزا سمجھا جاتا ہے۔ جب بھی کسی تربیّتی ادارے میں سوچ سمجھ کر اچھا افسر تعیّنات کیا گیا اس نے فرق ظاہر کردیا۔ ایک نہیں تمام سروسز کے زیرِ تربیّت افسران اعتراف کرتے ہیں کہ جب سے فاروق مظہر ، نیپا (نیشنل انسٹیٹیوٹ آف پبلک ایڈمنسٹریشن) کے ڈائریکٹر جنرل تعیّنات ہوئے ہیں، وہاں ایک واضح تبدیلی محسوس ہوتی ہے، اس کے ظاہری حسن میں بھی اضافہ ہوا ہے اور ٹریننگ کا معیار بھی بلند ہوا ہے۔

اس بار نیپا میں دولیکچر تھے جن کے لیے لاہور جانا پڑا ، ایک کورس کے شرکاء مختلف سروسز کے گریڈ 18 کے وہ افسران تھے جو گریڈ 19 میں پروموٹ ہونے والے ہیں، دوسرا لیکچر سینئر مینجمنٹ کورس کے شرکاء سے تھا، اس کے سامعین گریڈ 19 کے وہ افسران تھے جو گریڈ 20 میں جانے والے ہیں۔ اس میں وہ افسران بھی شامل ہوتے ہیںجو مختلف ضلعوں میں ڈپٹی کمشنر اور ڈی پی او رہ چکے ہوتے ہیں یا سیکریٹریٹ میں اہم عہدوں پر اپنے فرائض سرانجام دے چکے ہوتے ہیں۔

اس میں فارن سروس، کسٹمز، انکم ٹیکس ، انفارمیشن اور صوبائی سول سروس کے افسران بھی شامل تھے۔دو گھنٹے کے سیشن میں سوا گھنٹہ مہمان مقرّر کے لیکچر کے لیے مخصوص ہوتا ہے اورپون گھنٹہ شرکاء کے سوالوں کے لیے مختص کیا جاتا ہے، جس میں وہ گیسٹ اسپیکر سے کھل کر سوال کرتے ہیں۔ الحمداللہ دونوں گروپوں کے شرکاء نے لیکچر کے  بعد اپنے کمنٹس میں اس طرح کے جملے لکھے،

 "amazing".

..,"Superb"..., "it was a treat to listen this talk"..., "the most inspiring lecture"  جنھیں پڑھ کر اطمینان بھی ہوا اور خوشی بھی کہ اسلام آباد سے لاہور کا سفر رائیگاں نہیں گیا۔ دل سے نکلنے والی باتیں سامعین کے دل کو لگی ہیں اور انھوں نے اثر قبول کیا ہے۔

سولہ سترہ سال کی سروس والے افسران بڑے ذہین اور باخبر ہوتے ہیں، وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ سروس کے دوران مہمان مقرّر کا اپنا کردار اور طرزِ عمل کیسا رہا ہے۔ جن کی سروس قابلِ رشک ہو صرف انھی کا اثر قبول کیا جاتا ہے۔ ناقابلِ رشک ماضی کے حامل لوگ اگر آکر وعظ کرنا شروع کردیں تو سامعین دل ہی دل میں ہنستے ہیں اور بعد میں مذاق اُڑاتے ہیں۔

اِس بار لاہور میں ایک اہم مصروفیت جی سی یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر عمر چوہدری سے ملاقات تھی، چنانچہ نیپا سے فارغ ہوکر علاّمہ اقبال کونسل کا تین رکنی وفد (جس میں میرے علاوہ ، سابق وفاقی سیکریٹری عابد سعید اور سابق سی سی پی او لاہور چوہدری شفیق شامل تھے) وائس چانسلر صاحب سے ملا۔ ملاقات کا پس منظر یہ تھا کہ اپریل میں الحمراء میں ہونے والی یوم ِ اقبال کی تقریب میں راقم نے یہ تجویز پیش کی تھی کہ نئی نسل کو فکرِ اقبال سے روشناس کرانے کے لیے طلباء کے درمیان زیادہ سے زیادہ تقریری مقابلے اور سیمنارمنعقد کرائے جائیں۔

اس سلسلے میں ایک بڑا declamation contest جی سی کے بخاری آدیٹوریم میں منعقد کرایا جائے، جس میں ملک کی تمام یونیورسٹیوں کے طلباء حصہّ لیں۔ مجوزہ مقابلے میں اوّل، دوم اور سوم آنے والوں کو علاّمہ اقبال کونسل کی طرف سے نقد انعامات اور میڈل دیے جائیں گے۔

جی سی یونیورسٹی کے وی سی صاحب نے اس تجویز سے اتفاق کیا اور اس انٹر یونیورسٹی مذاکرے کی میزبانی کا عندیہ دے دیا۔ راقم نے الحمراء میں یہ بھی اعلان کیا تھا کہ مجوزہ declamation contest میں اوّل آنے والے کو پچاس ہزار روپے، دوم کو تیس ہزار اور تیسری پوزیشن لینے والے کو بیس ہزار روپے نقد انعام اور ساتھ میڈل بھی دیے جائیں گے۔ وائس چانسلر صاحب اور ان کی ٹیم کے ساتھ ملاقات میں یہ طے ہوگیا کہ یہ مقابلہ موسم کھُل جانے کے بعد آیندہ فروری میں ہوگا اور اس کا موضوع ہوگا ؎ جہانِ تازہ کی افکارِ تازہ سے ہے نمود۔

علاّمہ اقبال کونسل کی طرف سے انعامات کی رقم مبلغ ایک لاکھ روپے جی سی یونیورسٹی انتظامیہ کو فراہم کردی گئی ہے۔

مجھے یاد ہے زمانہء طالب علمی میں جی سی کے اساتذہ یا باہر سے آئے ہوئے مشاہیر کی زبان سے بارہا یہ فقرہ سنتے تھے ’’یہ آپ کے لیے بہت بڑا اعزاز ہے کہ آپ نہرِ سویز کے اِس جانب والی دنیا کے عظیم ترین ادارے میں پڑھ رہے ہیں‘‘۔ تحقیق کرنے پر معلوم ہوا کہ خود انگریز بھی جی سی لاہور کو نہر سویز کی اِ س جانب سب سے عظیم تعلیمی درسگاہ قرار دیتے تھے، پورے ہندوستان میں اس پائے کا کوئی دوسرا تعلیمی ادارہ نہیں تھا۔ لاہور شہر کی اہمیّت اور محلِ وقوع کے پیشِ نظر انگریزوں نے نوابوں اور رؤساء کے بچوں کے لیے ایچی سن کالج قائم کیا،اور برّصغیر کے قابل ترین طلباء کے لیے گورنمنٹ کالج لاہور قائم کیا گیا۔

بلاشبہ یہ وہ درسگاہ ہے جس کے کلاس روموں اور کو ریڈوروں میں آج بھی عظیم ترین راوینز ڈاکٹر علّامہ اقبالؒ ، ڈاکٹر عبدالسّلام، فیض احمد فیض اور پطرس بخاری کے قدموں کی چاپ سنائی دیتی ہے۔ دیدہ زیب اوول میں کھڑے ہوکر ٹاور کی رفعتوں کی جانب دیکھیں تو آج بھی کالج کی پرشکوہ عمارت اپنے سحر میں جکڑ لیتی ہے۔

آکسفورڈ اور کیمرج یونیورسٹیوں میں جانے کا موقع بھی ملتا رہا ہے مگرجو grace اور grandeur جی سی کی عمارت میں ہے ، دنیا کے کسی ملک کے تعلیمی ادارے کی عمارت میں نظر نہیں آتا ۔ جی سی یونیورسٹی کا تو معلوم نہیں مگر گورنمنٹ کالج لاہور بلاشبہ سب سے نمایاں سب سے منفرد اور سب سے ممتاز تھا ۔۔اور اسے یہ امتیاز اس کی تخلیقی، ادبی اور ثقافتی سرگرمیوں کی وجہ سے حاصل تھا۔ جی سی کی مجلسِ اقبال بڑی جاندار تھی، سوندھی ٹرانسلیشن سوسائٹی بہت متحرّک تھی۔ اس کی ڈرامیٹک سوسائٹی کا تو پورے برّ صغیر میں ڈنکا بجتا تھا، جس کے ڈراموں میں خود پطرس بخاری حصّہ لیا کرتے تھے اور ان کے بعد رفیع پیرزادہ اور خالد عباس ڈار جیسے فنکار اُن روایات کے امین اور پاسدار تھے۔

جی سی کے جواں سال اور پرعزم وائس چانسلر ڈاکٹر محمد عمر صاحب کے ساتھ میٹنگ سے فارغ ہوکر واپس چلنے لگے تو عابد سعید (جو بڑے عرصے کے بعد اپنی مادرِ علمی میں آئے تھے اور پوری طرح Nostalgic feelings سے سرشار تھے)نے جی سی کا مکمّل راؤنڈ لگانے کی خواہش ظاہر کی۔ میں تو یہاں سے فارغ ہونے کے بعد کئی بار جی سی یو میں لیکچر زکے لیے آچکا تھا مگر عابد سعید اپنی مادرِ علمی سے فارغ ہونے کے بعد پہلی بار یہاں آئے تھے، اس لیے وہ زمانہء طالب علمی کی تمام یادیں تازہ کرنا چاہتے تھے۔

ہم وی سی آفس کی پچھلی جانب سر فضل حسین ہال کے پاس سے گزرے تو اس میں ہونے والی کئی تقریبات یاد آگئیں۔ میں تو گریجویشن کے بعد لاء کالج میں چلا گیا تھا مگر عابد سعید اور نذیر سعید، دونوں بھائیوں نے جی سی سے اکنامکس میں ماسٹرز کیا، دونوں اسٹوڈنٹس یونین کے صدر رہے اور دونوں ڈی ایم جی میں شامل ہوکر فیڈرل سیکریٹری بنے۔ عابد اکنامکس ڈیپارٹمنٹ پہنچے تو جذبات سے مغلوب ہوچکے تھے، یہاں وہ دیوانہ وارکبھی ایک کمرے کا دروازہ کھول کر دیکھتے اور کبھی دوسرے کمرے میں جھانکتے۔ غالباً وہ نصف صدی پرانے کلاس فیلوز اور اساتذہ کو تلاش کر رہے تھے ۔۔مگر وہاں تو صرف یادیں ہی تھیں۔۔ بس یادیں ہی رہ جاتی ہیں ۔

اور پھر انھیں نذیر سعید کا اور اگلے سال والا اپنا الیکشن یاد آگیا اور وہ میری یادیں تازہ کرتے رہے کہ ُاس الیکشن میں یہ نئی نظم تخلیق ہوئی تھی اور اگلے الیکشن میں یہ نئے نعرے ایجاد ہوئے تھے۔ وہ اپنی تیز یادداشت کے زور پر مجھے یاد کراتے رہے کہ بخاری آڈیٹوریم کے سامنے سیڑھیوں پر کھڑے ہوکر آپ نے تقریر میں یہ کہا تھا، اور پھر انگلش ڈیپارٹمنٹ کے سامنے بھی بہت بڑا جتماع ہوا تھا ، وہاں یہ کہا گیا تھا اوروہاں دونوں گروپوں کے درمیان نعرے بازی کا بھی خوب مقابلہ ہوا تھا۔ چلتے چلتے ہم یونین آفس کے پاس سے گزرے تو قدم خود بخود رک گئے، یہ کیسے ہوسکتا تھا کہ یونین آفس کے اندر نہ جاتے۔

یونین آفس میں ابھی تک وہ بورڈ لٹکا ہوا تھا جس پر پرانے صدور کے نام درج تھے۔ وہاں موجود طلباء کو جب بتایاگیا کہ یہ اسٹوڈنٹس یونین کے صدر رہے ہیں تو طلباء بہت خوش ہوئے اور بڑے تپاک سے پرانی باتیں پوچھتے رہے۔ کچھ طلباء نے پوچھا ’’انکل آپ کچھ گائیڈ کریں کہ ہمیں جی سی یونیورسٹی میں کس طرح کی سرگرمیوں کو پروموٹ کرنا چاہیے‘‘ تو انھیں کہا گیا ’’بیٹا آپ میرا پچھلے مہینے ’جی سی کاتاریخی مباحثہ ‘ کے عنوان سے چھپنے والا آرٹیکل نیٹ سے نکال کر پڑھ لیں تو آپ کو اپنے سوالوں کا جواب مل جائے گا‘‘۔  

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: جی سی یونیورسٹی وائس چانسلر ہوتے ہیں سے فارغ نے والے کے بعد اور اس میں یہ کے لیے

پڑھیں:

لاہور میں وقفے وقفے سے بارش، موسم خوشگوار

لاہور میں رات گئے شروع ہونے والی بارش وقفے وقفے سے جاری ہے، جس کے باعث گرمی کی شدت میں کمی آگئی اور موسم خوشگوار ہوگیا۔

محکمہ موسمیات کے مطابق لاہور میں مزید بارش کے امکانات ہیں، شہر میں سب سے زیادہ بارش اپر مال پر 40 ملی میٹر ریکارڈ کی گئی۔

مغل پورہ میں 35، سمن آباد میں 33، اقبال ٹاؤن میں 32، فرخ آباد میں 30، جوہر ٹاون میں 27، نشتر ٹاؤن اور لکشمی چوک میں 18، پانی والا تالاب میں 17، ایئرپورٹ میں 15 اور جیل روڈ پر 14 ملی میٹر بارش ریکارڈ کی گئی۔

ترجمان پی ڈی ایم اے کے مطابق گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران پنجاب کے بیشتر اضلاع میں بارشیں ریکارڈ کی گئی۔ ملتان میں 113 ملی میٹر، فیصل آباد 78، بہاولپور 44، لاہور 40، خانیوال 28، ٹوبہ ٹیک سنگھ 25، سیالکوٹ 19، جہلم 18 اور اٹک میں 10 ملی میٹر تک بارش ریکارڈ کی گئی۔

گجرانوالہ، مری اور ساہیوال میں 8 ملی میٹر، اوکاڑہ 7، نارووال 6، منگلا 5، گجرات اور حافظ آباد 3 جبکہ لیہ اور قصور میں 1 ملی میٹر تک بارش ریکارڈ کی گئی۔

آئندہ 24 گھنٹوں میں پنجاب کے بیشتر اضلاع میں بارشوں کی پیشگوئی ہے۔ راولپنڈی، مری، گلیات، اٹک، چکوال، جہلم، گجرانولہ، لاہور، گجرات، سیالکوٹ، نارووال، حافظ آباد، منڈی بہاالدین، اوکاڑہ، ساہیوال، قصور، جھنگ، سرگودھا اور میانوالی میں بارشوں کا امکان ہے۔

ترجمان کے مطابق بارشوں کے باعث دریاؤں کے بہاؤ میں اضافہ ہوگا، دریائے سندھ اور جہلم میں بارشوں کے باعث پانی کے بہاؤ میں اضافے کا امکان ہے، 7 اکتوبر تک دریائے چناب میں پانی کی سطح میں اضافے کا امکان ہے جبکہ دریائے ستلج اور راوی میں پانی کے بہاؤ کا انحصار بھارتی آبی ذخائر سے اخراج پر ہے۔

ڈی جی عرفان علی کاٹھیا کا کہنا تھا کہ بڑے دریاؤں سے ملحقہ ندی نالوں کے بہاو میں اضافے کا خدشہ ہے ، کمشنر ز ڈپٹی کمشنرز اور دیگر افسران الرٹ ہیں۔ شہریوں سے التماس ہے کہ خراب موسم کی صورتحال میں احتیاطی تدابیر اختیار کر یں۔

گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران آندھی و بارش سے مختلف حادثات میں 2 شہری جاں بحق ہوئے، 14 شہری زخمی اور 10 عمارتوں کو جزوی نقصان پہنچا۔

آندھی و طوفان کی صورتحال میں محفوظ مقامات پر رہیں۔ ایمرجنسی صورتحال میں پی ڈی ایم اے ہیلپ لائن 1129 پر رابطہ کریں۔

متعلقہ مضامین

  • علامہ سید ہاشم رضا مجلس علماء مکتب اہلبیتؑ خیبر پختونخوا کے صدر منتخب
  • لاہور  میں چکی مالکان نے آٹا 5 روپے کلو مہنگا کر دیا 
  • کراچی سے لاہور جانے والی ملت ایکسپریس بڑے حادثے سے بال بال بچ گئی
  • پی آئی اے کا مسقط کے لیے پروازوں کی بحالی کا فیصلہ
  • لاہور میں وقفے وقفے سے بارش، موسم خوشگوار
  • ریاض: جامعہ نورہ یونیورسٹی میں ’انٹرنیشنل بک فیئر‘ کا کامیاب انعقاد
  • مسافرانِ عشق و وفا
  • لاہور میں جماعت اسلامی کا غزہ مارچ
  • لاہور کی تاریخی آندھی، جب دن کے وقت رات ہوگئی