کراچی میں شہری کے گھر سے کروڑوں روپے کی ویڈ برآمد
اشاعت کی تاریخ: 8th, October 2025 GMT
محکمہ ایکسائز اینڈ نارکوٹکس کنٹرول سندھ نے منشیات کے خلاف نارتھ ناظم کے قریب نجی سوسائٹی میں ویڈ کی خفیہ کاشتکاری کو بے نقاب کرتے ہوئے ایک ملزم کو گرفتار کرلیا۔
ڈپٹی ڈائریکٹر ظہور الہیٰ مزاری کے مطابق گرفتار ملزم کی شناخت محمد سلمان سردار کے نام سے ہوئی ہے، جو خفیہ طور پر گھر میں ویڈ اُگا کر مختلف علاقوں، خصوصاً تعلیمی اداروں کے قریب فروخت کرتا تھا۔
مزید پڑھیں: ارمغان کےگھر سے برآمد ہونے والا اسنائپر سمیت جدید اسلحہ کہاں سے آیا؟
محکمہ نارکوٹکس نے کارروائی کے دوران گھر سے ویڈ کے 45 پودے، 42 گرام تیار ویڈ اور 30 گرام ویڈ کے بیج برآمد کیے ہیں، برآمد شدہ پودوں کا وزن تقریباً 10 سے 12 کلوگرام بتایا گیا ہے، جبکہ بین الاقوامی مارکیٹ میں ان کی مالیت چھ کروڑ روپے کے قریب ہے۔
ملزم کا بتانا ہے کہ اُس نے ارمغان کیس کو دیکھنے کے بعد یہ طریقہ اپنایا ہے، ملزم کے خلاف مقدمہ درج کرکے مزید تفتیش شروع کردی گئی ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ڈپٹی ڈائریکٹر ظہور الہیٰ مزاری کروڑوں روپے کی ویڈ محکمہ ایکسائز اینڈ نارکوٹکس کنٹرول سندھ محمد سلمان سردار.ذریعہ: WE News
پڑھیں:
حکومت نے لاپتا شہری کی اہلیہ کے اکاؤنٹ میں 50 لاکھ روپے کی امدادی رقم منتقل کردی
اسلام آباد:حکومت نے لاپتا شہری کی اہلیہ کے اکاؤنٹ میں 50 لاکھ روپے کی امدادی رقم منتقل کردی۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق لاپتا شہری عمر عبداللہ کی بازیابی کے لیے ان کی اہلیہ زینب زعیم کی دائر کردہ درخواست پر سماعت اسلام آباد ہائیکورٹ میں جسٹس محسن اختر کیانی نے کی، جس میں عدالت کو بتایا گیا کہ لاپتا شہری کی اہلیہ کے اکاؤنٹ میں حکومت کی جانب سے 50 لاکھ روپے کی امدادی رقم منتقل کر دی گئی ہے۔
عمر عبداللہ کے والد خالد عباسی ایڈووکیٹ نے عدالت کو اس پیش رفت سے آگاہ کیا۔ اس موقع پر وزارتِ دفاع کے نمائندے بھی عدالت میں پیش ہوئے اور عدالت کو ان کیمرہ بریفنگ دی گئی۔
سماعت کے دوران ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت میں لاپتا شہری سے متعلق رپورٹ پیش کی اور گزارش کی کہ ان کیمرہ بریفنگ سے قبل عدالت اس رپورٹ کا جائزہ لے۔
درخواست گزار کے وکیل نے عدالت کو یاد دلایا کہ 2018ء میں اسلام آباد ہائیکورٹ نے لاپتا شہری کے مقدمے میں اس وقت کے آئی جی، سیکرٹری داخلہ، سیکرٹری دفاع، ایس ایس پی اور تفتیشی افسر پر جرمانے عائد کیے تھے، تاہم آج تک ان احکامات پر عمل درآمد نہیں ہوا۔ وکیل نے مزید کہا کہ 2017ء میں اسی عدالت کے روبرو تفتیشی افسر نے تسلیم کیا تھا کہ عمر عبداللہ جبری گمشدگی کا شکار ہوا ہے۔
عدالت نے سخت ریمارکس دیتے ہوئے سوال اٹھایا کہ اُس وقت کے آئی جی کے خلاف کیا کارروائی کی گئی، ممکن ہے وہ ریٹائر ہو چکا ہو۔ جسٹس محسن اختر کیانی نے استفسار کیا کہ ایس ایس پی اور تفتیشی افسران کے خلاف کیا اقدامات کیے گئے؟ انہوں نے واضح کیا کہ عدالتی حکم تھا کہ ملوث افسران کی تنخواہوں سے کٹوتی کی جائے، مگر بظاہر اب بھی انہیں تنخواہیں اور پنشن مل رہی ہوں گی۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے عدالتی حکم کے باوجود کسی بھی قسم کی کارروائی نہ ہونے پر سخت اظہارِ برہمی کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس صورتحال کو آج کے عدالتی حکم میں تحریری طور پر شامل کریں گے۔ بعد ازاں کیس کی سماعت ملتوی کر دی گئی۔