سندھ کے وزیر برائےایکسائز اینڈ ٹیکسیشن مکیش کمار چاولہ کی ہدایت پر محکمہ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن نے صوبہ بھر میں جاری روڈ چیکنگ مہم کے اعدادوشمار جاری کر دیے گئے ہیں۔

محکمہ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن کےترجمان کے مطابق مہم کا آغاز 27 اکتوبر سے ہوا، جس کے دوران مجموعی طور پر 26 ہزار 716 گاڑیوں کی جانچ پڑتال کی گئی۔

مختلف خلاف ورزیوں پر جرمانوں اور موٹر وہیکل رجسٹریشن ٹیکس کی مد میں مجموعی طور پر ایک کروڑ 57 لاکھ 57 ہزار 997 روپے وصول کیے گئے۔

یہ بھی پڑھیں: سندھ میں گاڑیوں کی نمبر پلیٹس کی تبدیلی کی تاریخ میں ایک بار پھر توسیع

اعداد و شمار کے مطابق کراچی ڈویژن میں 9 ہزار 146 گاڑیاں چیک کی گئیں اور 55 لاکھ 59 ہزار 183 روپے ٹیکس و جرمانے وصول کیے گئے۔

حیدرآباد ڈویژن میں 6 ہزار 289 گاڑیوں کی چیکنگ کے دوران 29 لاکھ 32 ہزار 398 روپے وصول کیے گئے۔

سکھر ڈویژن میں 1 ہزار 999 گاڑیوں کو چیک کیا گیا اور 5 لاکھ 65 ہزار 280 روپے کی وصولی ہوئی۔

مزید پڑھیں:حکومت سندھ کا ٹیکس چوروں کے نام اخبارات میں شائع، اکاؤنٹس منجمند کرنے کا فیصلہ

لاڑکانہ ڈویژن میں 2 ہزار 836 گاڑیوں کی چیکنگ سے 25 لاکھ 19 ہزار 763 روپے جبکہ میرپورخاص ڈویژن میں 3 ہزار 526 گاڑیوں کی چیکنگ کے دوران 15 لاکھ 51 ہزار 375 روپے وصول کیے گئے۔

اسی طرح شہید بینظیر آباد ڈویژن میں 2 ہزار 923 گاڑیاں چیک کی گئیں اور 26 لاکھ 29 ہزار 998 روپے ٹیکس و جرمانوں کی مد میں حاصل کیے گئے۔

ترجمان نے بتایا کہ مہم کو مزید مؤثر بنانے کے لیے چیکنگ کا دائرہ کار بڑھایا جا رہا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن حیدرآباد روڈ چیکنگ مہم سکھر شہید بینظیر آباد کراچی لاڑکانہ مکیش کمار چاولہ میرپورخاص.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن روڈ چیکنگ مہم سکھر شہید بینظیر آباد کراچی لاڑکانہ مکیش کمار چاولہ میرپورخاص ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن وصول کیے گئے گاڑیوں کی ڈویژن میں

پڑھیں:

پی پی نے بلدیاتی نظام پر بات نہ کی تو 18ویں ترمیم ختم ہوگی ‘سندھ میں صوبہ بھی بنے گا‘ایم کیو ایم

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251118-08-20

کراچی ( اسٹاف رپورٹر ) ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما اور وفاقی وزیر صحت مصطفی کمال نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے بلدیاتی نظام سے متعلق ترمیم پر پیپلز پارٹی کو سخت وارننگ دی ہے۔ انہوں نے پیپلز پارٹی کو مقامی حکومتوں کے معاملے پر بات چیت کی دعوت دیتے ہوئے کہا کہ اگر انہوں نے اس بل پر بات نہ کی تو ’’18 ویں ترمیم بھی ختم ہوگی اور سندھ میں صوبہ بھی بنے گا‘‘۔ مصطفی کمال نے دعویٰ کیا کہ آنے والے مہینوں میں یہ ترمیم لازمی آئے گی اور منظور بھی ہوگی۔ انہوں نے پیپلز پارٹی پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ’’کراچی دودھ دینے والی گائے ہے، اسے چارہ نہیں دو گے تو کیسے چلے گا‘‘ اور یہ بھی واضح کیا کہ پی پی پی 27ویں ترمیم میں اس بل کو شامل کرنے کیلیے تیار نہیں تھی تاہم حکومت نے آئندہ ترمیم میں اسے لازمی دیکھنے کا وعدہ کیا ہے۔ دوسری جانب سندھ کے سینئر وزیر شرجیل انعام میمن نے کہا ہے کہ ایم کیو ایم کے وفاقی وزیر نے آج بغیر تیاری کے پریس کانفرنس کرکے پیپلز پارٹی پر بے بنیاد الزام تراشی کی، سندھ کی تقسیم ناممکن ہے، دنیا میں ایسی کوئی طاقت نہیں جو سندھ کو تقسیم کرے۔ تفصیلات کے مطابق بہادرآباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے مصطفیٰ کمال نے کہا کہ بلدیاتی حکومتوں کو بااختیار بنانے کے لیے ایم کیو ایم پاکستان کی مجوزہ آئینی ترمیم اب صرف کراچی کا مسئلہ نہیں رہا بلکہ پورے پاکستان کا معاملہ بن چکا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ 2024 میں پہلی بار پاکستان کی تاریخ میں ایم کیو ایم نے وزارتیں، عہدے اور پیکیجز مانگنے کے بجائے صرف ایک نکاتی ایجنڈے پر حکومت میں شمولیت اختیار کی۔ ہم نے مسلم لیگ (ن) کے ساتھ جو ایگریمنٹ کیا وہ صرف اور صرف ہماری آئینی ترمیم کی حمایت کیلیے تھا۔ لیکن جب ایم کیو ایم نے 26ویں ترمیم کے موقع پر اپنا بل پیش کیا تو ہمارے پاس نمبرز کم تھے، اور ملک کو درپیش چیلنجز کی وجہ سے اس بل کو اس وقت موخر کر دیا گیا۔ ہمارا بل لاء اینڈ جسٹس کی قائمہ کمیٹی میں رہا، ایک سال بعد جب 27 ویں ترمیم کا موقع آیا تو پیپلز پارٹی کے علاوہ پاکستان کی تمام پارٹیز نے ایم کیو ایم کے بل کی حمایت کی۔ جس کی وجہ سے ایک ڈیڈلاک پیدا ہوا اور قومی مفاد میں وزیراعظم نے ہم سے گزارش کی کہ اس معاملے کو اگلی ترمیم کیلیے روک دیا جائے۔ یہ بل مردہ نہیں ہوا، یہ زندہ ہے۔ جیسے 26ویں ترمیم کے بعد یہ زندہ رہا، ویسے ہی 27ویں ترمیم کے بعد بھی زندہ ہے۔ عوام کے حقوق کا یہ آئینی بل آنے والے مہینوں میں اسمبلی میں آئے گا اور عوام کے گھروں تک اختیارات اور وسائل پہنچیں گے۔ مصطفی کمال نے کراچی کے معاشی استحصال پر تفصیلی روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ کراچی کو 2006ء تک جی ایس ٹی کا 2.5% براہ راست ملتا تھا بعد میں جی ڈی پی کا 1/6 براہ راست ڈسٹرکٹ کو جاتا تھا لیکن 2010 کی 7ویں این ایف سی ترمیم کے بعد سب پیسہ وزیراعلیٰ ہاؤس میں پارک ہونے لگا، کراچی کو اس سال 850 ارب روپے ملنے چاہیے تھے جبکہ حقیقت میں 100 ارب روپے بھی نہیں دیے گئے۔ پچھلے 17 سالوں میں کراچی کو 3000 ارب روپے کا نقصان ہوا۔ مصطفی کمال نے سابق چیف جسٹس گلزار احمد کے تاریخی فیصلے کا حوالہ دیا جس میں سپریم کورٹ نے واضح کیا تھا کہ آرٹیکل 140 اے صرف ایک روایتی شق نہیں، بلکہ آئین کی اس روح کی علامت ہے جو عوام کو بااختیار بنانے کا تقاضا کرتی ہے۔ بلدیاتی حکومتیں آئینی ادارے ہیں اور صوبے ان کے اختیارات ختم نہیں کر سکتے۔ جسٹس گلزار احمد کے فیصلے نے یہ مؤقف مضبوط کیا کہ اختیارات کی مرکزیت قومی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے، اور پاکستان میں دیرپا ترقی اسی وقت ممکن ہے جب شہر اپنے فیصلے خود کر سکیں۔

سیف اللہ

متعلقہ مضامین

  • پاکستان کی غیر ملکی فنڈنگ میں اضافہ، 4 ماہ میں 2 ارب 29 کروڑ ڈالر موصول
  • سندھ ہائیکورٹ نے کے ایم سی کو کنٹونمنٹ علاقوں سے ٹیکس وصولی سے روک دیا
  • فی تولہ سونا 7 ہزار روپے سستا، عالمی مارکیٹ میں بھی کمی
  • لیسکو کی ریکوری مہم، رواں ماہ 6 کروڑ 13 لاکھ روپے وصول
  • ڈی آئی جی آپریشنز کے احکامات کی روشنی میں لاہور سٹی ڈویژن کی سکیورٹی سخت
  • سندھ میں نیا صوبہ بنے گا ایم کیو ایم
  • بھارت سے آنے والے یاتریوں سے 10 لاکھ سے زاید کرایہ وصولی کا انکشاف
  • پی پی نے بلدیاتی نظام پر بات نہ کی تو 18ویں ترمیم ختم ہوگی ‘سندھ میں صوبہ بھی بنے گا‘ایم کیو ایم
  • چمن سرحد پر ڈرائیوروں کی مشکلات بڑھ گئیں