بلوچستان کی سیاست میں حالیہ دنوں پیدا ہونے والی اندرونی کشیدگی کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کے درمیان معاملات بہتر ہونے کی امید پیدا ہوگئی ہے۔

پارٹی کے صوبائی صدر اور سینیٹر سردار عمر گورگیج نے واضح کیا ہے کہ پیپلز پارٹی ایک خاندان کی مانند ہے اور خاندانوں میں اختلافات وقتی نوعیت کے ہوتے ہیں، جو جلد ختم کر دیے جائیں گے۔

سینیٹر سردار عمر گورگیج نے کہا کہ وہ خود پارٹی کے تمام رہنماؤں کے درمیان موجود رنجشیں ختم کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ ان کے مطابق پارٹی میں اتحاد وقت کی ضرورت ہے تاکہ بلوچستان کے عوام کے مسائل بہتر انداز میں حل کیے جا سکیں۔

مزید پڑھیں: سرفراز بگٹی وزیراعلیٰ بلوچستان کب تک، پی پی اور ن لیگ کا پاور شیئرنگ فارمولا کیا ہے؟

انہوں نے وزیراعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی کی کارکردگی پر اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعلیٰ اپنی ذمہ داریاں احسن طریقے سے نبھا رہے ہیں اور وہی وزیراعلیٰ رہیں گے۔

سینیٹر عمر گورگیج نے اس تاثر کی بھی نفی کی کہ پارٹی کے اندرونی اختلافات خطرناک حد تک بڑھ گئے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ وزیراعلیٰ میر سرفراز بگٹی، علی حسن زہری اور علی مدد جتک کے درمیان بعض معاملات ضرور زیرِ بحث آئے ہیں، تاہم ذاتیات کی بنیاد پر الزامات لگانا درست عمل نہیں۔ اگر کسی کے پاس ثبوت ہیں تو وہ پیش کرے، بصورتِ دیگر ہمیں مشاورت اور بات چیت کے ذریعے مسائل حل کرنے چاہییں۔

انہوں نے واضح کیا کہ کسی رہنما کو شوکاز نوٹس جاری کرنے کا کوئی ارادہ نہیں، بلکہ تمام معاملات کو افہام و تفہیم سے حل کیا جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ علی حسن زہری اور علی مدد جتک دونوں اپنی جگہ درست ہیں، ہمیں پارٹی کے وسیع تر مفاد کو مقدم رکھنا ہوگا۔

مزید پڑھیں: بلوچستان کی مخلوط حکومت میں اختلافات، سرفراز بگٹی کی وزارت اعلیٰ خطرے میں؟

انہوں نے مزید کہا کہ وزیراعلیٰ میر سرفراز بگٹی اور لیاقت لہڑی کے درمیان بھی اختلافات جلد ختم ہو جائیں گے، کیونکہ پارٹی میں ایسا کوئی مسئلہ نہیں جو بات چیت سے حل نہ ہو سکے۔

واضح رہے کہ گزشتہ دنوں پیپلز پارٹی کے صوبائی وزیر میر علی حسن زہری اور پارلیمانی سیکریٹری میر لیاقت لہڑی نے وزیراعلیٰ پر کھل کر تنقید کی تھی۔ میر علی حسن زہری نے وندر میں ایک تقریب سے خطاب کے دوران کہا تھا کہ وزیراعلیٰ میر سرفراز بگٹی کی پالیسیوں نے پیپلز پارٹی کا بیڑا غرق کر دیا ہے، کسی کارکن یا رہنما کے کام نہیں ہو رہے۔

اسی طرح میر لیاقت لہڑی نے صوبائی اسمبلی کے اجلاس میں حکومت کی کارکردگی پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا تھا کہ چمن سے گوادر تک نوجوان بے روزگار ہیں، کاروبار تباہ ہو چکے ہیں، ٹرانسپورٹ کا شعبہ زوال پذیر ہے اور حکومت صرف دعوؤں تک محدود ہے۔

مزید پڑھیں: کوئٹہ دھماکا انتشار پھیلانے کی گھناؤنی سازش ہے، وزیراعظم کا سرفراز بگٹی کو ٹیلیفون

سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق بلوچستان کی موجودہ مخلوط حکومت، جو پیپلز پارٹی کی قیادت میں قائم ہے، اپنے قیام کے ڈیڑھ سال بعد ہی اندرونی اختلافات کا شکار نظر آ رہی ہے۔ تاہم سینیٹر عمر گورگیج کے حالیہ بیان سے عندیہ ملتا ہے کہ پارٹی قیادت اختلافات کو ختم کر کے اتحاد کی فضا بحال کرنے کے لیے سرگرم ہے۔

سینیٹر گورگیج کے بیان کے بعد سیاسی حلقوں میں یہ تاثر مضبوط ہو رہا ہے کہ پارٹی کے اندر جاری اختلافات جلد ختم ہو جائیں گے اور وزیراعلیٰ میر سرفراز بگٹی اپنی وزارتِ اعلیٰ کی مدت پورے اعتماد کے ساتھ مکمل کریں گے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

بلوچستان پیپلز پارٹی سینیٹر عمر گورگیج میر سرفراز بگٹی.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: بلوچستان پیپلز پارٹی سینیٹر عمر گورگیج میر سرفراز بگٹی میر سرفراز بگٹی علی حسن زہری پیپلز پارٹی کہ وزیراعلی عمر گورگیج کے درمیان کہ پارٹی پارٹی کے تھا کہ

پڑھیں:

پیپلز پارٹی لاہور آفس کو 8لاکھ 74ہزار کا نوٹس جاری

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

لاہور(آئی این پی) پاکستان پیپلز پارٹی نے حکومتی اداروں پر انتقامی کارروائیوں کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ لاہور کی بیوروکریسی سیاسی عدم استحکام پیدا کر کے پیپلز پارٹی اور (ن) لیگ کے اتحاد کو شد و مد سے توڑنے کی کوشش کررہی ہے ،ٹریفک پولیس پارٹی کی ٹرانسپورٹ پر لگی فلیکسز کو زبردستی اتروا رہی ہے جبکہ پیپلز پارٹی لاوہر کے دفتر کو ایل ڈی اے نے 8لاکھ 74ہزار کا نوٹس سیاسی سرگرمی کرنے پر بھیجا ہے،24گھنٹے میں مہم بند نہ ہوئی تو کمشنر،ڈپٹی کمشنر اور سی ٹی او آفس کا گھیرا ئو کریں گے۔ان خیالات کا اظہار پیپلز پارٹی کے رہنمائوں فیصل میر،مجید غوری نے جوہر ٹائون آفس میں سبط حسن اور شاہد عباس ایڈوکیٹ کیساتھ ہنگامی پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔اس موقع پر رم فاروق،عزیز عباسی،شہباز درانی اور اللہ دتہ وٹو بھی موجود تھے۔فیصل میر نے کہا کہ پیپلز پارٹی اس وقت (ن) لیگ کی اتحادی جماعت ہے اور ہم اپنی قیادت کی ہدایت پر اس اتحاد کو ساتھ لیکر چل رہے ہیں۔ہم وزیر اعظم شہباز شریف سے کہنا چاہتے ہیں کہ پنجاب حکومت کے خلاف بیوروکریسی سازش کر رہی ہے۔ڈپٹی کمشنر اور سی ٹی او لاہور کے متعلق تحقیقات کرائی جائیں ،لاہور انتظامیہ پیپلز پارٹی کی سیاسی سرگرمیوں پر روک ٹوک کرتی ہے۔جبکہ مجید غوری کو فون کر کے پیپلز پارٹی کی ممبر سازی مہم روکنے کی دھمکیاں دی گئی ہیں ۔انہوں نے زور دیکر کہا کہ لاہور میں جگہ جگہ (ن) لیگ کے دفاتر ہیں،وہ اس مہم میں شامل نہیں ہو سکتی،سی ٹی او اور ایل ڈی اے کی بدنیتی اس سے ظاہر ہوتی ہے کہ انہوں نے 80ایچ ماڈل ٹائون کو کوئی جرمانہ یا نوٹس نہیں کیا۔ انہوں نے کہا کہ انتظامیہ کی طرف سے (ن) لیگ کا نام استعمال کر کے یہ سب کچھ کیا جا رہا ہے۔ہم کسی سرکاری دفتر پر نہیں اپنی پراپرٹی پر اشتہارات لگاتے ہیں، 24گھنٹے میں یہ مہم بند نہ ہوئی تو کمشنر،ڈپٹی کمشنر اور سی ٹی او آفس کا گھیرائو کریں گے ۔انہوں نے مطالبہ کیا کہ سی ٹی او کے خاندان کے سوشل میڈیا اکائونٹس چیک کروائے جائیں۔پیپلز پارٹی کے رہنمائوں نے مطالبہ کیا کہ وزیراعظم شہباز شریف لاہور انتظامیہ کو فوری معطل کر کے تحقیقات کرائیں۔پیپلز لائرز فورم لاہور ڈویژن کے صدر شاہد عباس ایڈوکیٹ نے کہا کہ ہمارے ورکروں کے حوصلے ایسی حرکتوں سے پست نہیں کیے جا سکتے،ہمیں حق حاصل ہے کہ بطور پاکستانی اپنی سیاسی سرگرمیاں جاری رکھیں۔انہوں نے کہا کہ آرٹیکل 16کے تحت ہم اپنے دفتر ،گھر اور گاڑی پر پارٹی کا جھنڈا اور بینرز لگا سکتے ہیں۔سیاسی انتقامی میں ملوث سرکاری ملازمین کیخلاف قانونی چارہ جوئی کریں گے۔سبط حسن نے کہا کہ بار بار پیپلز پارٹی کا راستہ روکنے کی کوشش کی جا رہی ہے،پنجاب کی بیوروکریسی ہوش کے ناخن لے۔

خبر ایجنسی گلزار

متعلقہ مضامین

  • وزیراعلیٰ بلوچستان کی تبدیلی کی خبریں، صدرمملکت کاملاقات سے انکار 
  • وزیراعلیٰ بلوچستان کے دن گنے جا چکے،صدر زرداری کا ملاقات سے انکار
  • وزیراعلیٰ بلوچستان کی تبدیلی کی خبریں، سرفراز بگٹی صدر زرداری سے ملنے دبئی پہنچ گئے
  • وزیراعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی دبئی پہنچ گئے، صدر آصف علی زرداری سے ملاقات نہیں ہو سکی
  • وزیراعلیٰ بلوچستان کی تبدیلی کی خبریں، صدر مملکت نے سرفراز بگٹی سے ملاقات سے انکار کر دیا
  • وزیراعلی بلوچستان کی تبدیلی خبریں؛ صدرمملکت کا سرفراز بگٹی سے ملاقات سے انکار
  • 27ویں آئینی ترمیم کیخلاف وکلا کنونشن بار قیادت کے اختلافات کا شکار ہونے کے بعد سڑک پر منعقد
  • ایوان بلوچستان میں وزیر اعلیٰ میر سرفراز بگٹی کے مخالف کون؟
  • کیا ایم کیو ایم مشرف دور حکومت سے زیادہ طاقت ور ہو گئی ہے؟
  • پیپلز پارٹی لاہور آفس کو 8لاکھ 74ہزار کا نوٹس جاری