نوبیل امن انعام 2025 آج، غزہ ڈیل میں تاخیر ٹرمپ کے لیے نقصان کا باعث بن گئی
اشاعت کی تاریخ: 10th, October 2025 GMT
نوبیل امن انعام 2025 کا اعلان آج (جمعہ) ناروے کے دارالحکومت اوسلو میں کیا جائے گا، تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا نام جیتنے والوں میں شامل ہونے کے امکانات نہایت کم ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:ہنگری کے مصنف لازلو کراسناہورکائی ادب کے نوبیل انعام کے حقدار قرار
ٹرمپ طویل عرصے سے یہ اعزاز حاصل کرنے کے خواہش مند ہیں، جو ان سے پہلے چار امریکی صدور کو مل چکا ہے، مگر ماہرین کے مطابق ان کی خارجہ پالیسی اور عالمی معاہدوں سے علیحدگی کے اقدامات نوبیل کمیٹی کے اصولوں سے مطابقت نہیں رکھتے۔
ناروے کے اخبار وی جی کے مطابق، کمیٹی نے اس سال کا فیصلہ پیر کے روز کیا تھا، یعنی غزہ میں جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کے اعلان سے پہلے۔ اس لیے امکان نہیں کہ یہ معاہدہ ٹرمپ کے امکانات میں کوئی تبدیلی لائے۔
یہ بھی پڑھیں:نوبیل انعام پانے والوں میں سعودی سائنسدان عمر بن مونس یاغی بھی شامل
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس سال نوبیل امن انعام انسانی خدمت یا عالمی تعاون کے فروغ دینے والی تنظیموں جیسے اقوام متحدہ کے اداروں، ریڈ کراس یا ڈاکٹروں کی تنظیم ڈاکٹرز وِد آؤٹ بارڈرز کو دیا جا سکتا ہے۔
کچھ مبصرین کا خیال ہے کہ کمیٹی اس بار ان صحافیوں یا تنظیموں کو سراہا سکتی ہے جو غزہ سمیت دنیا بھر میں جنگی حالات میں خبر رسانی کے دوران اپنی جانیں خطرے میں ڈال رہے ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
امن اوسلو صدر ٹرمپ غزہ ڈیل نوبیل انعام.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اوسلو غزہ ڈیل نوبیل انعام
پڑھیں:
امن کے نوبل انعام کا اعلان آج کیا جائے گا، کیا صدر ٹرمپ اسے حاصل کر پائیں گے؟
OSLO:آج ناروے کے دارالحکومت اوسلو میں نوبل کمیٹی امن کے نوبل انعام کا اعلان کرے گی، جو اس کے بانی الفریڈ نوبل کے نظریات سے ہم آہنگ کسی شخصیت کو دیا جائے گا۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نوبل امن انعام کے لیے خاصے پرامید نظر آتے ہیں اور اعلان سے صرف چند گھنٹے قبل وہ خود کو اس انعام کا حقیقی حقدار سمجھ رہے ہیں۔
بدھ کے روز دیے گئے ایک بیان میں ٹرمپ نے کہا کہ اگر مجھے یہ انعام نہیں دیا جاتا تو یہ ہمارے ملک کی بہت بڑی توہین ہو گی.
ٹرمپ کے حامیوں کا مؤقف ہے کہ انہوں نے عالمی امن کے لیے کئی اہم اقدامات کیے ہیں، جن میں حالیہ غزہ جنگ بندی معاہدہ، ابراہام معاہدے اور کووِڈ ویکسین کی فوری تیاری شامل ہیں۔
ان کے بقول ٹرمپ نے سات جنگوں کا خاتمہ کیا اور وہ روس-یوکرین مسئلے کو بھی حل کرنے کا دعویٰ کر رہے ہیں۔
اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کا اعلان ایسے وقت میں سامنے آیا جب نوبل امن انعام کے اعلان میں محض دو دن باقی تھے۔
واشنگٹن پوسٹ کے مطابق اسرائیل کے سابق اعلیٰ مذاکرات کار نے کہا کہ نوبل انعام کے اعلان کی ٹائم لائن نے دونوں فریقین پر دباؤ ڈالا تاکہ معاہدہ جلد طے پا سکے اور اس کا فائدہ ٹرمپ کو ملے۔
ٹرمپ کی اس خواہش کو محسوس کرتے ہوئے بعض ممالک نے ان کی کھل کر حمایت بھی کی ہے۔ پاکستان، اسرائیل، کمبوڈیا اور تائیوان نے انہیں نامزد کیا۔
امریکہ میں بھی کئی اہم شخصیات بشمول Pfizer کے سی ای او البرٹ بورلا اور سینیٹر بل کیسیڈی، انہیں نوبل انعام کے لیے موزوں قرار دے چکے ہیں۔
دوسری جانب نوبل کمیٹی کا طریقہ کار مکمل طور پر خفیہ اور غیرسیاسی سمجھا جاتا ہے۔ اوسلو کے پیس ریسرچ انسٹیٹیوٹ کی ڈائریکٹر نینا گریگر کے مطابق نوبل انعام عموماً گزشتہ سال کی کارکردگی کو مدنظر رکھ کر دیا جاتا ہے، جبکہ 2024 میں ٹرمپ منتخب تو ہو چکے تھے، مگر انہوں نے صدر کا عہدہ ابھی سنبھالا نہیں تھا۔
علاوہ ازیں نوبل کمیٹی کے سربراہ نے تصدیق کی ہے کہ اس سال کے انعام پر فیصلہ پیر کے روز ہی ہو چکا تھا۔
قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ اس سال کی ممکنہ فہرست میں ٹرمپ کا نام شامل نہیں، جب کہ وہ ادارے شامل ہیں جن سے ٹرمپ کے تعلقات تناؤ کا شکار رہے، جیسے کہ بین الاقوامی فوجداری عدالت (ICC) اور کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس (CPJ)۔
ٹرمپ خود بارہا اس بات کا اظہار کر چکے ہیں کہ وہ نوبل انعام کے مستحق ہیں۔
اگر آج ہونے والے اعلان میں ٹرمپ کا نام نہ آیا تو بھی اُن کے حامی پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔ سینیٹر کیسیڈی اور نمائندہ کلاڈیا ٹینی نے اعلان کیا ہے کہ وہ اگلے سال ٹرمپ کو دوبارہ نامزد کریں گے۔
نوبل انعام کی تاریخ میں ٹرمپ جیسی اعلانیہ اور کھلی مہم کم ہی دیکھی گئی ہے۔ یہ دیکھنا باقی ہے کہ کیا عالمی سیاست پر اثر انداز ہونے والے یہ اقدامات ٹرمپ کو دنیا کے سب سے بڑے امن انعام کا حقدار ٹھہرا سکیں گے، یا پھر یہ دوڑ اگلے برسوں تک جاری رہے گی۔