وینزویلا کی اپوزیشن رہنما ماریا کورینا ماچادو کو جب جمعے کے روز نوبیل امن انعام ملنے کی اطلاع ملی تو وہ حیرت میں ڈوب گئیں۔

ماریا کورینا ماچادو کی میڈیا ٹیم کی جانب سے شیئر کی گئی ویڈیو میں انہیں فون پر گفتگو کے دوران حیرت سے ’میں شاک میں ہوں‘ کہتے دیکھا جاسکتا ہے۔

یہ گفتگو ایڈمنڈو گونزالیز اوروریٹیا سے ہو رہی تھی، وہی سیاستدان جنہوں نے گزشتہ صدارتی انتخابات میں ماچادو کی نااہلی کے بعد اپوزیشن امیدوار کے طور پر ان کی جگہ لی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی خواہش پوری نہ ہوئی، امن کا نوبیل انعام 2025 وینزویلا کی ماریہ کورینا کو مل گیا

گونزالیز، جو تقریباً ایک سال سے جلاوطنی کی زندگی گزار رہے ہیں، نے جواب دیا کہ ’ہم خوشی کے شاک‘ میں ہیں۔

اس وقت وینزویلا میں گوشہ نشینی کی زندگی گزارنے والی 58 سالہ ماریا کورینا ماچادو نے کہا؛ ’یہ کیا ہے؟ مجھے یقین نہیں آ رہا!‘

نوبیل کمیٹی کے مطابق، ماچادو کو یہ اعزاز وینزویلا کے عوام کے جمہوری حقوق کے فروغ کے لیے ان کی انتھک جدوجہد اور آمریت سے جمہوریت تک ایک منصفانہ و پُرامن انتقال کی کوششوں پر دیا گیا ہے۔

مزید پڑھیں:

ماریا کورینا ماچادو لاطینی امریکا میں جمہوری جدوجہد اور شہری جرات کی علامت سمجھی جاتی ہیں۔

وہ طویل عرصے سے نکولس مادورو کی آمرانہ حکومت کے خلاف مزاحمت کرتی آئی ہیں اور دھمکیوں، گرفتاریوں اور سیاسی انتقام کے باوجود ملک میں ہی رہ کر پُرامن مزاحمت اور آزاد انتخابات کی تحریک چلاتی رہی ہیں۔

نوبیل کمیٹی نے انہیں ایک ’اتحاد پیدا کرنے والی قوت‘ قرار دیا، جنہوں نے ماضی میں تقسیم شدہ اپوزیشن کو یکجا کیا اور مختلف سیاسی گروہوں کے درمیان تعاون کو فروغ دیا۔

مزید پڑھیں:

2024 کے متنازع صدارتی انتخابات کے دوران، جب انہیں امیدوار بننے سے روک دیا گیا، تو انہوں نے ایڈمنڈو گونزالیز اوروریٹیا کی حمایت کی اور شہری سطح پر ووٹوں کی گنتی، انتخابی نگرانی اور دھاندلی کے انکشافات کے لیے ایک وسیع مہم کی قیادت کی حالانکہ حکومت نے اختلاف رائے دبانے کی بھرپور کوشش کی۔

کمیٹی کے بیان میں کہا گیا ہے کہ ماریا کورینا ماچادو نے ثابت کیا کہ جمہوریت کے آلات ہی امن کے آلات ہیں۔

’وہ ایک ایسے مستقبل کی امید ہیں جہاں شہریوں کے بنیادی حقوق محفوظ ہوں اور ان کی آواز سنی جائے۔‘

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

نوبیل امن انعام وینزویلا.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: نوبیل امن انعام وینزویلا ماریا کورینا ماچادو

پڑھیں:

وینزویلا امریکا کے لیے دوسرا ویتنام؟؟

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251122-03-3
امیر محمد کلوڑ
وینزویلا براعظم جنوبی امریکا میں واقع تین کروڑ تیس لاکھ آبادی کا ایک سوشلسٹ ملک ہے جن کے صدور ہمیشہ امریکا کے لیے ایک Tough Guy (مشکل) رہے ہیں حالیہ صدر سے پہلے 1999-2013: ہوگو چاویز کا دور رہا ہے جوکہ امریکا کے خلاف جارحانہ بیان دینے میں مشہور تھے۔ شاویز نے سوشلزم، امریکا مخالف پالیسی اور فلسطین حمایت اپنائی امریکا نے ابتدائی طور پر سفارتی دباؤ، اقتصادی پابندیاں اور میڈیا تنقید کے ذریعے ردعمل دیاؤ براہِ راست فوجی مداخلت نہیں، صرف سیاسی اور معاشی دباؤ برقرار رکھا۔ اس کے بعد 2013 سے اب تک نکولس مادورو ہی ملک کی باگ دوڑ سنبھالے ہوئے ہیں۔ وینزویلا دنیا کے سب سے بڑے ثابت شدہ تیل کے ذخائر کا حامل ہے اس کے بعد دنیا میں سعودی عرب کا نام آتا ہے ’’ثابت شدہ تیل کے ذخائر (Proven Oil Reserves)‘‘ کا مطلب ہے وہ تیل کی مقدار جو موجودہ ٹیکنالوجی اور اقتصادی حالات میں نکالی جا سکتی ہے اور تجارتی طور پر استعمال کی جا سکتی ہے۔ وینزویلا میں تقریباً 300-305 ارب بیرل تیل ثابت شدہ ذخائر کے طور پر ہیں اس کا مطلب یہ نہیں کہ سب فوراً نکالا جا سکتا ہے، لیکن موجودہ ٹیکنالوجی اور تیل کی قیمت کے حساب سے یہ نکالنے کے قابل ہے، یہی وجہ ہے کہ وینزویلا کی معیشت اور عالمی اہمیت کا بڑا حصہ تیل پر ہے۔

ٹرمپ جو دنیا بھر کے ٹھیکیدار اور صاحب بہادر بنے پھرتے ہیں اب ان کا رخ جنوبی امریکا کے ملک وینزویلا کی طرف ہے۔ جہاں کے صدر نکولاس مادورو جوکہ کئی سال تک وینزویلا کے دارالحکومت کاراکاس میں بس ڈرائیور رہے اور اس کے بعد ٹریڈ یونین کے لیڈر کے طور پر ابھرے۔ فلسطین کی کھل کر حمایت کرنے والے 23 نومبر کو اپنی 63 ویں سالگرہ منائیں گے۔ لیکن ٹرمپ کے حالیہ بیان نے صدر مادورو کو اور وینزویلا کے عوام کو وقتی طور پر پریشان کردیا ہے۔ ٹرمپ نے کہا ہے کہ وہ وینزویلا میں امریکی فوج بھیجنے کے امکان کو ’’مسترد نہیں کرتا‘‘۔ ان کے مطابق، انہیں ’’وینزویلا کا خیال کرنے کی ضرورت ہے‘‘، یعنی نہ صرف منشیات کے مسئلے کی بات، بلکہ ملک کی قیادت پر بھی تنقید ہے۔

ڈرگ اسمگلنگ کے الزامات: ٹرمپ بار بار مادورو حکومت پر الزام لگاتا ہے کہ وہ منشیات اسمگلنگ میں ملوث ہے، خصوصاً ’’Cartel de los Soles‘‘ کی بات کرتا ہے۔ امریکا نے حال ہی میں کیریبین میں ایک کشتی پر حملہ کیا جو منشیات لے جانے کی شک میں تھی، اور ٹرمپ نے اس کارروائی کو ’’منشیات کے خلاف جنگ‘‘ قرار دیا ہے۔ امریکا نے USS Gerald R. Ford دنیا کا سب سے بڑا طیارہ بردار بحری جہاز کیریبین میں تعینات کرنے کا اعلان کیا ہے۔ یہ حرکت بہت بڑی عسکری نشان دہی ہے، جو وینزویلا پر امریکی دباؤ بڑھانے کا حصہ سمجھی جاتی ہے۔ اگر امریکا حملہ کرے تو اصل صورتحال کیا بنے گی؟ امریکا آسانی سے قبضہ نہیں کر سکتا۔ وینزویلا کا جغرافیہ بہت مشکل ہے۔ یہاں پر بڑے گھنے جنگلات اور پہاڑ ہیں فوج اور عوامی ملیشیا بہت بڑی ہے، جنگ لمبی اور مہنگی ہو جائے گی، عالمی سطح پر امریکا کو شدید مخالفت ملے گی۔

روس اور چین: یہ دونوں مل کر امریکا کے لیے سیاسی سر درد بنیں گے۔ لاطینی امریکا کے تقریباً تمام ممالک نے جنگی بیڑے بھیجنے کی شدید مخالفت کی ہے۔ برازیل، میکسیکو، چلی، پیرو، ارجنٹینا ان ممالک نے کہا ہے کہ ’’وینزویلا کا مسئلہ سیاسی ہے، اس کا حل فوجی نہیں ہونا چاہیے‘‘ برازیل کے صدر نے کہا امریکا کا عسکری دباؤ پورے خطے کو عدم استحکام میں دھکیل دے گا۔ لاطینی امریکا نے ہمیشہ ’’No Foreign Military Intervention‘‘ کی پالیسی رکھی ہے۔ امریکا کے اقدام کو ’’غیر قانونی، خطرناک اور خطے کے امن کے خلاف‘‘ قرار دیا۔ روس نے کہا ہے کہ امریکا وینزویلا کو ’’دوسرا عراق، دوسرا لیبیا‘‘ بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔ روس نے اپنی فضائی اور سمندری فورسز کی Combative Readiness بڑھانے کی بات کی ہے (علامتی پیغام امریکا کو دیا گیا ہے)۔

چین کا ردِعمل بھی سخت ہے: چین نے کہا کہ وہ ’’وینزویلا کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کا احترام‘‘ کرتا ہے۔ چین نے امریکا کے اقدام کو ’’بے جواز فوجی دھمکی‘‘ کہا۔ ساتھ یہ بھی کہا کہ ’’تیل کے بہانے جنگ کرنا عالمی قانون کی خلاف ورزی ہے‘‘۔ بہرحال امریکن ریپبلکن پارٹی کے صدر ٹرمپ کو آج کل اپنے ہی ملک میں سبکی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ تازہ نیویارک سٹی میئر کے انتخابات میں ڈیموکریٹک سوشلسٹ بھارتی نژاد مسلمان زہران ممدانی کی شکل میں۔ جہاں پر بلین ڈالرز کے مالک ایلن مسک اور ڈونالڈ ٹرمپ جیسے لوگ ہارنے کے بعد اب تک زخم چاٹتے نظر آرہے ہیں۔ جیسا کہ میں اپنے گزشتہ کالموں میں بھی کہتا آرہا ہوں کہ شاید کارخانہ قدرت میں امریکا کے ٹکڑے ٹکڑے ہونے میں قرعہ فال ٹرمپ کے ہی کھاتے میں آنے کا امکان ہے جیسے روس کے لیے گورباچوف ثابت ہوئے تھے اس طرح یہ فرعونیت کے مینار امریکا کے گورباچوف ثابت ہوں گے۔

سیف اللہ

متعلقہ مضامین

  • ضمنی الیکشن میں ن لیگ کی کامیابی قیادت پر اعتماد کا ثبوت ہے: ماریہ طلال
  • چند وکلاء دوست آئینی ترامیم پر اپنی سیاست کررہے ہیں، ایڈووکیٹ سرفراز میتلو
  • سندھ حکومت کے تحت کراچی میں اس وقت 756 ترقیاتی اسکیمیں جاری ہیں، شرجیل میمن
  • محمد وسیم جونیئر کا ناقابل یقین کیچ، ویڈیو وائرل
  • وزیر اطلاعات پنجاب عظمی بخاری کا سہیل آفریدی کے بیان پر ردعمل سامنے آگیا.
  • ’سہیل آفریدی پہلے خود قانون پڑھ لیں‘، عظمیٰ بخاری کا مریم نواز کو لکھے خط پر ردعمل
  • انٹرویوز کے بھاری معاوضے پرعاطف اسلم کا موقف سامنے آگیا
  • ایف بی آر کا  شاندار کارکردگی پر افسران کو 2 سال کی تنخواہ بطور انعام دینے کا فیصلہ
  • وینزویلا امریکا کے لیے دوسرا ویتنام؟؟
  • اپوزیشن رہنما ناروے گئیں تو مفرور قرار دیا جائے گا‘ وینزویلا