ٹرمپ کو امن کا نوبیل انعام نہ دیے جانے پر وائٹ ہاؤس کا ردعمل سامنے آگیا
اشاعت کی تاریخ: 10th, October 2025 GMT
واشنگٹن: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو امن کا نوبیل انعام نہ ملنے پر وائٹ ہاؤس کا ردعمل سامنے آگیا۔
ترجمان وائٹ ہاؤس اسٹیون چیونگ نے اپنے بیان میں کہا کہ نوبیل کمیٹی نے ثابت کیا کہ وہ سیاست کو امن پر ترجیح دیتے ہیں۔
اسٹیون چیونگ نے کہا کہ صدر ٹرمپ امن معاہدے کرتے رہیں گے، صدر ٹرمپ جنگیں ختم کرتے رہیں گے اور جانیں بچاتے رہیں گے۔
خیال رہے کہ اس سے پہلے سوئیڈن کی رائل سوئیڈش اکیڈمی آف سائنس کے سربراہ جورجین واٹن فریڈنس نے نوبیل امن انعام 2025 اعلان کرتے ہوئے کہا کہ امن کا نوبیل انعام وینزویلا کی جمہوریت نواز رہنما ماریہ کورینا مچاڈو کو دیا جاتا ہے۔
نارویجن نوبیل کمیٹی کے مطابق ماریاکورینا مچاڈو کو وینزویلا کے عوام کے جمہوری حقوق کے فروغ اور آمریت سے جمہوریت کی منصفانہ و پُرامن منتقلی کی جدوجہد پر دیاگیا۔
واضح رہے امن کا نوبیل انعام (نوبیل پیس پرائز) اس شخص کو دیا جاتا ہے جس نے ملکوں کے درمیان رفاقت بڑھانے، مستقل فوجیں ختم یا کم کرنے اور امن کے قیام و فروغ کے لیے سب سے زیادہ یا بہترین کام کیا ہو۔
امریکی صدر ٹرمپ امن نوبیل انعام حاصل کرنے کی خواہش رکھتے تھے اور ٹرمپ نے دعویٰ کیا تھا کہ انہوں نے تو 7جنگیں ختم کرائی ہیں اور وہ دنیا میں امن کے لیے کام کررہے ہیں لہٰذا انہیں امن کا نوبیل انعام دیا جائے۔
بعد ازاں پاکستان نے پاک بھارت جنگ رکوانے میں امریکی صدر کی کوششوں کو تسلیم کرتے ہوئے ٹرمپ کو امن کا نوبیل ایوارڈ کا حقدار قرار دینے میں پہل کی تھی اور اس بات کااعلان 20 جون کو کیا گیا تھا۔
پاکستان کے بعد اسرائیل، کمبوڈیا، آرمینیا اور آذربائیجان نے بھی صدر ٹرمپ کے لیے اس ایوارڈ کی حمایت کی تھی تاہم اس کے باوجود صدر ٹرمپ کا نوبیل انعام حاصل کرنے کا خواب شرمندہ تعبیر ناہوسکا۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: امن کا نوبیل انعام کو امن
پڑھیں:
روس ٹرمپ امن منصوبے سے متفق، یوکرین رکاوٹ ہے: صدر پیوٹن
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے کہا ہے کہ روس نے سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے نئے 28 نکاتی امن منصوبے پر اصولی طور پر اتفاق کر لیا تھا، تاہم یوکرین کی مخالفت کے باعث امریکا نے اس پر پیش رفت روک دی ہے۔
عالمی میڈیا رپورٹ کے مطابق روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن نے یہ بات کریملن میں سلامتی کونسل کے مستقل اراکین کے اجلاس کے دوران کہی، اجلاس کے آغاز میں چیئر آف فیڈریشن کی سربراہ ویلنٹینا ماتویینکو نے پیوٹن سے ٹرمپ کے منصوبے اور الاسکا میں ہونے والی ملاقات سے متعلق سوال کیا۔
پیوٹن نے جواب میں بتایا کہ امریکی انتظامیہ نے روس سے لچک دکھانے کی درخواست کی تھی، اور روس نے ان تجاویز سے اتفاق کر کے اپنا مثبت مؤقف واضح کر دیا تھا۔
صدر پیوٹن کے مطابق ٹرمپ کا امن منصوبہ الاسکا ملاقات سے پہلے بھی زیرِ غور تھا اور ملاقات میں روس نے دوبارہ اس سے اتفاق کی تصدیق کی، روس نے چین، بھارت، برازیل، جنوبی افریقہ، کوریا اور او ڈی کے بی کے تمام اتحادی ممالک کو مکمل طور پر اعتماد میں لیا، اور تمام شراکت دار ممالک نے اس ممکنہ معاہدے کی حمایت کی۔
پیوٹن نے الزام لگایا کہ امریکی انتظامیہ مذاکرات میں خاموشی اس لیے اختیار کیے ہوئے ہے کہ یوکرین اس منصوبے کو منظور کرنے پر آمادہ نہیں، یوکرین اور اس کے یورپی اتحادی اب بھی روس کو اسٹریٹیجک شکست دینے کے وہم میں مبتلا ہیں اور انہیں میدانِ جنگ کی اصل صورتحال کا ادراک نہیں۔
انہوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ 4 نومبر کو یوکرین دعویٰ کر رہا تھا کہ کوپیانسک میں صرف 60 روسی فوجی موجود ہیں، جبکہ حقیقت میں اس وقت پورا شہر روسی فوج کے کنٹرول میں آچکا تھا اور صرف چند علاقوں میں کلیئرنس آپریشن جاری تھا۔
صدر پیوٹن نے کہا کہ اگر یوکرین ٹرمپ منصوبے کو قبول نہیں کرے گا تو ایسے واقعات دیگر محاذوں پر بھی دہرائے جائیں گے، تاہم انہوں نے ایک مرتبہ پھر اس بات کا اعادہ کیا کہ روس امن مذاکرات کے لیے تیار ہے، بشرطیکہ تمام نکات پر عملی گفتگو شروع کی جائے۔
اجلاس کے اختتام پر صدر نے 2026 میں روس کی او ڈی کے بی چیئرمین شپ اور نیو کولونیلزم کے خلاف روسی حکمتِ عملی سے متعلق پالیسی امور پر بھی گفتگو کی۔
یاد رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یوکرین کو امن معاہدہ قبول کرنے کے لیے آئندہ جمعرات تک کا وقت دیا ہے۔
دوسری طرف کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف نے تصدیق کی ہے کہ روس اور امریکہ کے درمیان یوکرین میں امن قائم کرنے کے لیے امریکی تجویز کردہ 28 نکاتی منصوبے پر رابطوں کی نوعیت اور سطح ابھی طے نہیں ہوئی ہے۔
پیسکوف نے بتایا کہ روسی صدر ولادیمیر پوتن اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان مذاکرات کی ضرورت اور رابطوں کی نوعیت پر ابھی کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا گیا۔