جین زی پر میرے پچھلے کالم کو آپ سب نے جس محبت اور توجہ سے سراہا، اس کے لیے دل کی گہرائیوں سے شکریہ۔
بہت سے احباب نے اس پر دلچسپ آرا اور تفصیلات شیئر کیں جن سے میرا زاویۂ نگاہ مزید وسیع اور گہرا ہوا۔
اور اس کالم کو ایک نئے زاویے سے لکھنے کی تحریک ملی۔
یہ بھی پڑھیں: جین زی (Gen Z) کی تنہائی اور بے چینی
میرا مقصد کسی نسل کے حوالے سے فیصلہ سنانا یا کوئی حتمی رائے مسلط کرنا نہیں بلکہ محض یہ کوشش ہے کہ ایک کھلا، مدلل اور بامقصد مکالمہ شروع ہو جو سوچ کے نئے در وا کرے۔
ہم سے پچھلی نسل کو بھی ہم سے یہی گِلہ تھا کہ ہم بگڑی ہوئی نسل ہیں۔
شاید اُن سے پہلے والوں نے بھی اُن کے بارے میں یہی رائے بنائی ہو۔
درحقیقت ہر گزرتا زمانہ اپنے بعد آنے والے زمانے سے خائف ہوتا ہے۔
میں نے گذشتہ کالم میں لکھا تھا کہ جین زی ایک بے چین، بے صبر، بے ترتیب نسل ہے۔ جذباتی گہرائی سے نابلد اور موازنہ کلچر کا شکار۔ لیکن ڈاکٹر حامد نے ایک جملہ کہا جس نے مجھے دوبارہ سوچنے پر مجبور کیا، انہوں نے کہا کہ ’جیسے تمہاری نسل نے، تم سے پہلی نسل نے اپنا رستہ بنایا۔ یہ نسل بھی کچھ نقصان کر کے، کچھ کھو کر بالآخر اپنا رستہ بنالے گی۔ یہی قانون حیات ہے۔ مجھے راشد یاد آگئے۔
روشنی سے ڈرتے ہو؟ روشنی تو تم بھی ہو روشنی تو ہم بھی ہیں!
مزید پڑھیے: طلاق اور علیحدگی کے بدلتے اصول: ’گرے ڈائیورس‘ کا بڑھتا ہوا رجحان
سوچا روشنی سے ڈرتے نہیں — مکالمہ کرتے ہیں۔ جین زی کے پاس ٹیکنالوجی، معلومات، مصنوعی ذہانت کے بے پناہ ہتھیار ہیں۔ ہتھیار اگر عقل سلیم سے استعمال کیا جائے تو برتری آپ کی ورنہ نقصان بھی آپ کا۔ یہی حال ان ڈیجیٹل ہتھیاروں کا بھی ہے۔ ان کا حاکم بننا ہے یا ان کا غلام ۔ یہ فیصلہ انہیں استعمال کرنے والے کے ہاتھ ہے۔
قدیم یونان میں ایک ’سوفیسٹ اسٹیج‘ ہوا کرتا تھا جہاں دانشور، ادیب، مناظِر اور مقرر آکر گفتگو کرتے تھے، لیکن چونکہ مقصد سچ کا پرچار نہیں بلکہ صرف تقریری مقابلہ جیتنا ہوتا تھا، اس لیے کوئی بھی فنکار اس سٹیج پر ناقص ترین دلیلیں دے کر اپنے حق میں تالیاں بھی بجوا لیتا اور انعام بھی حاصل کر لیتا تھا۔
اس کی فضول باتوں کے لوگ دیوانے ہوتے۔
بغیر مکمل استدلال اور حکمت کے ہر ٹرینڈنگ ’انفلوئنسر‘ وہی سوفیسٹ اسٹیج والا جذباتی مقررہی ہے،
جو اچھا فنکار تو ضرور ہے، مگر اس کی باتوں کا حاصل جمع صفر ہے۔
ہم کیوں ہر چمکتی آواز کو “انفلوئنسر” ماننے کے لیے تیار بیٹھے ہیں؟
جین زی!
تمہارا تو کمال ہی یہ ہے کہ تم سوال کرنا جانتے ہو۔
ہمارے وقت میں تو “کیوں” کو کفر سمجھا جاتا تھا،
اور تمہارے ہاں یہی ’کیوں؟‘ فیشن میں ہے۔
بس اسی تجسس، اسی سوال اور اسی پیمانے کو دلیلوں کی پرکھ کے لیے بھی قائم رکھو —
تمہیں ہم سے آگے جانا ہے۔
تمہیں اپنے لیے وہ بامعنی دنیا تراشنا ہے
جہاں صنفی اور طبقاتی امتیاز نہ ہو،
جہاں فہم و فراست، یعنی wisdom and understanding,
محض فنکاری اور لفاظی پر غالب ہوں۔
میرے پیارے جین زی!
کیا تم جانتے ہو کہ خاندان، دراصل ریاست کی چھوٹی سی اکائی ہوتا ہے؟
تم نے بہت اچھا کیا کہ طلاق کو اب معاشرتی ‘Tabo’ نہیں رہنے دیا،
کیونکہ کوئی بھی زہریلا رشتہ برداشت کے لائق نہیں ہوتا۔
لیکن ایک بات ضرور سمجھنا—محبت وہ واحد جذبہ ہے جو فاتح عالم ہے۔
کسی بھی رشتے میں محبت سے بڑی کوئی زنجیر نہیں اور بدقسمتی سے محبت قربانی مانگتی ہے۔ ہاں!
تم مت دینا قربانی!
انفرادیت کا دور ہے۔ لیکن کبھی خودغرضی سے پاک محبت کا کمال مشاہدہ کرنا کہ وہ کیسے رشتوں اور تعلقات کو Glue کی طرح جوڑتی ہے۔
ذرا یہ بھی سوچو کہ دوستوں، رشتوں کے ساتھ بیٹھ کر سادہ کھانا کھانے میں،
کچھ دیر کے لیے موبائل چھوڑ دینے میں،
ایک دوسرے کی بات دھیان سے سننے میں،
مزید پڑھیں: مکالمہ دشمن میڈیا اور جنگ
سامنے بیٹھ کر مکالمہ کرنے — دل کی بات سننے اور دوسروں کے راز کی حفاظت کرنے ۔ یہ لوگوں کو سمجھنے کا عمل ہے ، اعتماد دینے اور حاصل کرنے کا عمل ہے جو تمہارے وجود کو نئے معانی دے گا۔
تم مختلف ہو !
ہمارے عہد میں اطاعت فضیلت تھی
تمہارے عہد میں آگہی!
ہم نے نظریے بنائے
اور تم نے سارے نظریوں پر سوال اٹھادیئے!
ہم نے رشتوں میں برداشت کی بنیاد رکھی
تم نے ’سب سے پہلے میرا وجود‘ کانعرہ لگادیا!
تم اپنی سمت خود متعین کرو گے۔ تمہارا دور نئے تقاضے لا رہا ہے
تم ان کا حل تلاش کر لوگے
تمہیں کسی کے وعظ کی ضرورت نہیں۔
بس تھپکی کی ضرورت ہے!
یہ بھی پڑھیے: قدرت ناراض ہے
تم خود ہی Digital temperance، Digital detox، Digital ethics اور Emotional Intelligence سیکھ لو گے۔
مجھے یقین ہے!
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: کے لیے
پڑھیں:
بااثر ٹھیکے دار کو کون روکے گا؟؟
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251127-03-4
برسات کے موسم میں دریا کی فکر محکمہ ٔ آب پاشی کو اس وجہ سے بھی بہت ہوتی ہے کہ یہ ان کی بے حساب کمائی کا سیزن ہوتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ دریا بادشاہ ہے اس سے کون حساب کرے؟ سو خوب لوٹا جاتا ہے۔ عوامی دور حکمرانی میں سکرنڈ کے قریب اہم دریائی بند پر بدعنوانی کی خبر لینے پہنچے تو موقع پر انجینئر نے میڈیا والوں کو دیکھ کر کہا بھائی یہ فلان بااثر شخص کا ٹھیکہ ہے میں کیا کوئی بھی اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا اور اب حکمت عملی یہ ہے کہ ہڈی توڑ کر کھائو اور کھلائو تاکہ یہ کھانے والے کے حلق میں بھی نہ پھنسے اور جس کو بچائو خاطر کھلائو وہ بھی خوش ہوجائے، یوں دونوں راضی تو کیا کرے گا قاضی۔ اب یہ بات مجھے آئین پاکستان میں بچائو کی خاطر پے درپے ترامیم میں یاد آئیں کہ انجینئرڈ انتخابات میں اس طریقہ کار ہی سے من پسند افراد کا انتخاب کیا گیا اور آئین کی ترامیم کی سخت ہڈی جو مطلوبہ مقاصد کے لیے درکار ہے اس کے ٹکڑے کیے کچھ مقاصد 26 ویں ترمیم میں آزاد کشمیر کی حکمرانی کا لالچ دے کر اور دبائو کا حربہ آزما کر منوائی گئی اور معترضین کے حلق سے آسانی سے اُتاری گئی اور جب وہ متاثرین کو ہضم ہوگئی تو 27 ویں ترمیم میں دوسری ہڈی ایوانوں میں ذائقہ دار چورن کی صورت مولانا فضل الرحمن کو ختم نبوت کی یاد دلا کر بنگلا دیش بجھوا کر حاشیہ برداروں کے ہاتھوں قوم کے حلق میں انڈیل دی گئی اور مخالفت کورام کشمیری جام پلا کر استثنیٰ لے کر دے کر بٹوارہ سے راضی کرنے کا سامان کیا، یوں آئین کو دو طلاق دے دی گئیں اب تیسری طلاق کی تیاری ہے۔
18 ویں ترمیم کے جہیز میں جو سامان این ایف سی ایوارڈ میں نقد دیا گیا اس میں سے کچھ واپس لینے اور کچھ ملکیت میں دیے گئے شعبے تعلیم اور بہبود آبادی وغیرہ لینے کی باتوں کے ساتھ صوبوں کو توڑ کر سب حواریوں کا پیٹ بھرنے کا تذکرہ ہے۔ پی پی پی اس سے پریشان ہے کہ مال ملکیت کی کمی سیاسی کمی بھی پیدا کرے گی سو بلاول نے بھی کہہ دیا کہ کوئی مائی کا لعل 18 وین ترمیم کی کلائی مروڑ کر کچھ نہیں لے سکتا۔ سو اب دوسری طرف بھی ترامیم کے عمل کو فائنل کرنے کی بے چینی ہے کہ یہ مکمل ہو تو پھر من کی مراد پوری ہو، یہاں تک بتائے جانے کی اطلاع ہے کہ استثنیٰ صدر آصف زرداری کو ہے دوسروں کو نہیں سوچ لو! یہ کڑوا پیغام بھی پریشان کن ہے سو بات درمیانی راہ کہ مڈل میں کر رہے ہیں کہ این ایف سی ایوارڈ سے ملنے والی رقم میں سے کٹوتی کے بجائے ہم صدقہ کی صورت ہر مرتبہ کچھ فنڈ وفاق کو ریفنڈ کردیا کریں تو بات بھی بن جائے گی اور لاج بھی رہ جائے گی۔ سوچ وبچار ہو رہا کہ چلو فنڈ کا مسئلہ تو یوں حل ہو جائے گا مگر صوبوں میں تقسیم کا فارمولا جو صوبائی اسمبلی میں پہلے دو تہائی اکثریت سے پاس کرنے کی بات آئین میں لکھی گئی ہے صوبہ سندھ کی اسمبلی میں اس پر عمل مشکل تر ہے تو کیوں ناں 28 ویں ترمیم میں صوبوں کے اس اختیار کو ختم کرکے اس اسپیڈ بریکر کی رکاوٹ کو اکھاڑ پھنکا جائے۔ کھلاڑی اپنے اپنے پتے کھیل رہے ہیں ماہرین نئے سال کو نئے روپ میں دیکھ رہے ہیں کہ کیا ہوگا؟ یہ ربّ کو پتا ہے کہ کس کا پتا کامیاب ہو گا اور وہ بازی جیت لے گا۔
اب مجھے اس انجینئر کی بات آئین کی ترمیم کے سلسلے میں رہ رہ کر یاد آرہی ہے ملک میں مہنگائی کے سیلاب کی ذمے دار بقلم خود بنے اور دہشت گردی کے عذاب کے روک تھام کے لیے بند کا ٹھیکہ جن کے پاس ہے اس کو کوئی روکنے ٹوکنے والا نہیں، اس کے پاس امریکی صدر کی تحسین کارکردگی کی سند ہے اور وہ ایوانوں کے ارکان میں ترمیم کی بڑی ہڈی نہیں ٹھونس رہا بلکہ ہڈی توڑ کر حصہ بقدر جثہ دے رہا ہے۔ پچکار رہا ہے تو حکومت کے تحفہ کے ساتھ ڈانٹ رہا ہے، بات منوا رہا ہے اور خدانخواستہ اس بندوبست کا وہی حشر ہوا جو دریا کے بند کی پختہ کاری کا دیکھنے کو ملا کہ ایک ہی ریلے نے بند کے بخیے اکھیڑ دیے تھے کہیں عوام کا سیلاب امڈے اور پھر کہنے والے گنگنائیں دل کے ارمان آنسوؤں میں بہہ گئے۔