WE News:
2025-10-13@15:50:55 GMT

جین زی: گزشتہ سے پیوستہ

اشاعت کی تاریخ: 11th, October 2025 GMT

جین زی پر میرے پچھلے کالم کو آپ سب نے جس محبت اور توجہ سے سراہا، اس کے لیے دل کی گہرائیوں سے شکریہ۔

بہت سے احباب نے اس پر دلچسپ آرا اور تفصیلات شیئر کیں جن سے میرا زاویۂ نگاہ مزید وسیع اور گہرا ہوا۔

اور اس کالم کو ایک نئے زاویے سے لکھنے کی تحریک ملی۔

یہ بھی پڑھیں: جین زی (Gen Z) کی تنہائی اور بے چینی

میرا مقصد کسی نسل کے حوالے سے فیصلہ سنانا یا کوئی حتمی رائے مسلط کرنا نہیں بلکہ محض یہ کوشش ہے کہ ایک کھلا، مدلل اور بامقصد مکالمہ شروع ہو جو سوچ کے نئے در وا کرے۔

ہم سے پچھلی نسل کو بھی ہم سے یہی گِلہ تھا کہ ہم بگڑی ہوئی نسل ہیں۔

شاید اُن سے پہلے والوں نے بھی اُن کے بارے میں یہی رائے بنائی ہو۔

درحقیقت ہر گزرتا زمانہ اپنے بعد آنے والے زمانے سے خائف ہوتا ہے۔

میں نے گذشتہ کالم میں لکھا تھا کہ جین زی ایک بے چین، بے صبر، بے ترتیب نسل ہے۔ جذباتی گہرائی سے نابلد اور موازنہ کلچر کا شکار۔ لیکن ڈاکٹر حامد نے ایک جملہ کہا جس نے مجھے دوبارہ سوچنے پر مجبور کیا، انہوں نے کہا  کہ ’جیسے تمہاری نسل نے، تم سے پہلی نسل نے اپنا رستہ بنایا۔ یہ نسل بھی کچھ نقصان کر کے، کچھ کھو کر بالآخر اپنا رستہ بنالے گی۔ یہی قانون حیات ہے۔ مجھے راشد یاد آگئے۔

روشنی سے ڈرتے ہو؟ روشنی تو تم بھی ہو روشنی تو ہم بھی ہیں!

مزید پڑھیے: طلاق اور علیحدگی کے بدلتے اصول: ’گرے ڈائیورس‘ کا بڑھتا ہوا رجحان

سوچا روشنی سے ڈرتے نہیں — مکالمہ کرتے ہیں۔ جین زی کے پاس ٹیکنالوجی، معلومات، مصنوعی ذہانت کے بے پناہ ہتھیار ہیں۔ ہتھیار اگر عقل سلیم سے استعمال کیا جائے تو برتری آپ کی ورنہ نقصان بھی آپ کا۔ یہی حال ان ڈیجیٹل ہتھیاروں کا بھی ہے۔ ان کا حاکم بننا ہے یا  ان کا غلام ۔ یہ فیصلہ انہیں استعمال کرنے والے کے ہاتھ ہے۔

قدیم یونان میں ایک ’سوفیسٹ اسٹیج‘ ہوا کرتا تھا جہاں دانشور، ادیب، مناظِر اور مقرر آکر گفتگو کرتے تھے، لیکن چونکہ مقصد سچ کا پرچار نہیں بلکہ صرف تقریری مقابلہ جیتنا ہوتا تھا، اس لیے کوئی بھی فنکار اس سٹیج پر ناقص ترین دلیلیں دے کر اپنے حق میں تالیاں بھی بجوا لیتا اور انعام بھی حاصل کر لیتا تھا۔

اس کی فضول باتوں کے لوگ دیوانے ہوتے۔

بغیر مکمل استدلال اور حکمت کے ہر ٹرینڈنگ ’انفلوئنسر‘ وہی سوفیسٹ اسٹیج والا جذباتی مقررہی ہے،

جو اچھا فنکار تو ضرور ہے، مگر اس کی باتوں کا حاصل جمع صفر ہے۔

ہم کیوں ہر چمکتی آواز کو “انفلوئنسر” ماننے کے لیے تیار بیٹھے ہیں؟

جین زی!

تمہارا تو کمال ہی یہ ہے کہ تم سوال کرنا جانتے ہو۔

ہمارے وقت میں تو “کیوں” کو کفر سمجھا جاتا تھا،

اور تمہارے ہاں یہی ’کیوں؟‘ فیشن میں ہے۔

بس اسی تجسس، اسی سوال اور اسی پیمانے کو دلیلوں کی پرکھ کے لیے بھی قائم رکھو —

تمہیں ہم سے آگے جانا ہے۔

تمہیں اپنے لیے وہ بامعنی دنیا تراشنا ہے

جہاں صنفی اور طبقاتی امتیاز نہ ہو،

جہاں فہم و فراست، یعنی wisdom and understanding,

محض فنکاری اور لفاظی پر غالب ہوں۔

میرے پیارے جین زی!

کیا تم جانتے ہو کہ خاندان، دراصل ریاست کی چھوٹی سی اکائی ہوتا ہے؟

تم نے بہت اچھا کیا کہ طلاق کو اب معاشرتی  ‘Tabo’ نہیں رہنے دیا،

کیونکہ کوئی بھی زہریلا رشتہ برداشت کے لائق نہیں ہوتا۔

لیکن ایک بات ضرور سمجھنا—محبت وہ واحد جذبہ ہے جو فاتح عالم ہے۔

کسی بھی رشتے میں محبت سے بڑی کوئی زنجیر نہیں اور بدقسمتی سے محبت قربانی مانگتی ہے۔ ہاں!

 تم مت دینا قربانی!

  انفرادیت کا دور ہے۔ لیکن کبھی خودغرضی سے پاک محبت کا کمال مشاہدہ کرنا کہ وہ کیسے رشتوں اور تعلقات کو Glue کی طرح جوڑتی ہے۔

ذرا یہ بھی سوچو کہ دوستوں، رشتوں کے ساتھ بیٹھ کر سادہ کھانا کھانے میں،

کچھ دیر کے لیے موبائل چھوڑ دینے میں،

ایک دوسرے کی بات دھیان سے سننے میں،

مزید پڑھیں: مکالمہ دشمن میڈیا اور جنگ

سامنے بیٹھ کر مکالمہ کرنے — دل کی بات سننے اور دوسروں کے راز کی حفاظت کرنے ۔ یہ لوگوں کو سمجھنے کا عمل ہے ، اعتماد دینے اور حاصل کرنے کا عمل ہے جو  تمہارے وجود کو نئے معانی دے گا۔

تم مختلف ہو !

ہمارے عہد میں اطاعت فضیلت تھی

تمہارے عہد میں آگہی!

ہم نے نظریے بنائے

اور تم نے سارے نظریوں پر سوال اٹھادیئے!

ہم نے رشتوں میں برداشت کی بنیاد رکھی

تم نے ’سب سے پہلے میرا وجود‘ کانعرہ لگادیا!

تم اپنی سمت خود متعین کرو گے۔ تمہارا دور نئے تقاضے لا رہا ہے

تم ان کا حل تلاش کر لوگے

تمہیں کسی کے وعظ کی ضرورت نہیں۔

 بس تھپکی کی ضرورت ہے!

یہ بھی پڑھیے: قدرت ناراض ہے

تم خود ہی Digital temperance، Digital detox، Digital ethics اور Emotional Intelligence سیکھ لو گے۔

مجھے یقین ہے!

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

قرۃ العین حیدر

پرانی نسل جنریشن زی جین زی نئی نسل.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: کے لیے

پڑھیں:

پاکستان تیسری عالمی جنگ لڑ رہا ہے

پاکستان حال ہی میں بھارتی جارحیت کا ایسا منہ توڑ جواب دے چکا ہے کہ انڈیا چاہے بھی تو یہ ہزیمت نہیں بھول سکتا۔ بھارت کو شکست دیے زیادہ وقت نہیں گزرا کہ افغانستان میں دہشتگرد گروہوں نے پاکستان کی چیک پوسٹوں پر حملہ کر دیا۔ ان کو بھی عبرت ناک شکست ہوئی۔ وہ بھی بھارت کی طرح سیز فائر کی بھیک مانگتے رہے۔ مگر اس دفعہ جارح کو گھر تک پہنچانے کا فیصلہ کیا گیا۔ افغان دہشتگردوں کی چیک پوسٹوں پر جب تک پاکستانی پرچم ایستادہ نہیں ہوا، ادھر کے جوانوں کی تشفی نہیں ہوئی۔

یہ بات درست ہے کہ پاکستانی افواج بہت دلیری سے لڑیں۔ ہم نے ہر دو معرکوں میں دشمن کی طبیعت ٹھیک ٹھاک صاف کر دی۔ ان کو ایسی عبرت انگیز شکست دی کہ اب وہ شرم سے منہ چھپاتے پھر رہے ہیں۔ اب دنیا بھارت اور افغان دہشتگردوں کا تمسخر اڑا رہی ہے۔ شکست ان کے چہروں پر ہمیشہ کے لیے ثبت ہو گئی ہے۔ پاکستان کی بہادر افواج نے ہر مرحلے پر اپنی برتری تسلیم کروائی۔ فضا میں بھی ہمارا راج رہا اور زمین بھی ہماری افواج کی دلیری کے ترانے گاتی رہی۔ ان فتوحات کے پیچھے پوری قوم کی دعائیں بھی ہیں اور شہیدوں کے خون کی لالی بھی۔

جنگ جیتنے کے بعد  دنیا  میں پاکستان کے حوالے سے نقطہ نظر ہی بدل گیا۔ پہلے جو یہ سمجھتے تھی کہ شاید پاکستان صرف امداد مانگتا ہے اب اسی پاکستان  کو مدد گار  تصور کیا جا رہا ہے۔ امریکا، پاکستان کو اپنے صف اول کے حلیفوں میں شامل کرنے لگا۔ دوحہ سربراہان اجلاس میں پاکستان کی جتنی توصیف ہوئی ہماری سوچ سے بڑھ کر تھی۔ سعودی عرب سے دفاعی معاہدہ اس بات کا بین ثبوت ہے کہ دنیا ہماری عسکری طاقت کا لوہا مانتی ہے۔ سب کچھ پاکستان کے حق میں جا رہا ہے مگر 3 ممالک اس سے خوش نہیں ہیں۔

اس وقت دنیا کے امن کو سب سے زیادہ خطرہ بھارت، افغانستان اور اسرائیل سے ہے۔ ان 3 ممالک نے ہر مقام پر عالمی امن  کی خواہش کا مذاق اڑایا، انسانی حقوق پامال کیے۔ نفرت کو شعار بنایا۔ تشدد کی پرورش کی۔ دنیا بھر میں انتشار پھیلانے کی ہر ممکن کوشش کی۔ اسرائیل نے جو رویہ فلسطینیوں کے ساتھ روا رکھا ہے وہی مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں کے ساتھ ہو رہا ہے۔ ایک پوری وادی کو حبس بے جا میں رکھا گیا، ایک پوری نسل کو قتل کیا گیا۔

دنیا کو اس بات کا ادراک ہونا چاہیے کہ تیسری عالمی جنگ اس کے دہانے پر کھڑی ہے۔ اسرائیل کی جارحیت بڑھتی ہے تو سارے عالم اسلام کی سلامتی کو خطرہ ہے۔ فلسطینیوں کا خون بہت ارزاں ہو چکا ہے۔ اب معاہدہ ہو چکا ہے۔ حماس بھی رضامند ہے مگر اس مرحلے سے گزرنے سے پہلے 70 ہزار نہتے فلسطینی شہید کر دیے گئے۔ دنیا کا دباؤ بڑھا، پاکستان کی ضمانت ملی، سعودی عرب کا احسن کردار سامنے آیا تو بات بنی۔ ورنہ ظلم کی روایت جانے کتنی نسلوں تک جاری رہتی۔

ادھر افغان دہشتگردوں کا بھی یہی حال ہے۔ دہشتگردی ان کا کاروبار ہے۔ ساری دنیا ان کی کرتوتوں سے واقف ہے۔ ان کے شر سے نہ امریکا محفوظ ہے نہ جرمنی نہ فرانس نہ پاکستان۔ یہ مذہب کے نام کو بٹہ لگا رہے ہیں۔ ان کو آپ چاہیں تحریک طالبان پاکستان کے نام  سے پکاریں،  افغانی طالبان کہیں، یا یہ داعش کے قاتل  ہوں۔ ان کے شر سے دنیا پناہ مانگتی ہے۔ ایک عالم ان سے نجات چاہتا ہے۔ ایک زمانہ ان کے ظلم کا گواہ ہے۔ یہ اس عہد  کے سب سے بڑے گناہ گار ہیں۔

تو قصہ مختصر اگر اسرائیل کو کھلی چھوٹ مل جاتی ہے تو عالم اسلام کے لیے خطرہ بڑا واضح ہے۔ افغان دہشتگردوں کے سامنے کوئی رکاوٹ نہیں ہوتی تو ساری دنیا کے امن کو خطرہ ہے۔ کوئی ملک محفوظ نہیں۔ کوئی خطہ اس خوف سے مبرا نہیں۔ اس میں اگر بھارت کو بھی شامل کر لیں تو یہ 3 ممالک دنیا میں دہشتگردی، انسانی حقوق کی پامالی اور فسادات کی وجہ ہیں۔ ان کی بدمست قوتوں کے آگے بند باندھے بغیر دنیا میں امن کا تصور ممکن نہیں۔ دنیا کو بارود سے بچانے کے لیے ان ممالک کی سیاہ کاریوں کو ختم کرنا ہو گا۔

اب دیکھیں تو بات بڑی واضح ہے۔ بھارتی جبر ہے تو اس کے خلاف ایک ہی قوت کھڑی ہے اوروہ قوت ہے پاکستان۔ ورنہ  اس خطے کے کسی ملک میں اتنی جرات نہیں کہ بھارتی استبداد کے سامنے کھڑا ہو سکے۔ افغان دہشتگردوں کی قوت کے سامنے کون سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑا ہے تو جواب پاکستان کی صورت میں ملتا ہے۔ اسی طرح اسرائیل کو قابو کرنا ہو تو دنیا کو پاکستان کو مدد کے لیے پکارنا پڑتا ہے۔ پاکستان ہی  اس وقت  دنیا میں امن کا ضامن ہے۔

بات یہاں سے شروع ہوئی تھی کہ دنیا اس وقت تیسری عالمی جنگ کے دھانے پر کھڑی ہے۔ ایک غلطی بھی ساری دنیا کو بارود کا ڈھیر بنا سکتی ہے۔ ایک چنگاری بھی سارے جنگل کو راکھ بنا سکتی ہے۔ بدمست قوتوں کے آگے بند صرف پاکستان باندھ سکتا ہے۔ یہی قوت ہے جو اسرائیل کے استبداد کا بھی جواب ہے۔ بھارت کے نفرت انگیز عزائم کی روک تھام بھی پاکستان کر سکتا ہے۔ افغانیوں کو نکیل بھی پاکستان ڈال سکتا ہے۔ پاکستان ان تمام قوتوں سے نبرد آزما ہوا اور اپنا طاقت کا لوہا بھی منوایا اور دنیا کے امن کی خاطر اپنا کردار بھی ادا کیا۔

بات صرف اتنی ہے کہ تاریخ کے اس مقام پر پاکستان صرف اپنی سلامتی کی جنگ نہیں لڑ رہا بلکہ دنیا کے امن کی خاطر،  امن کے دشمنوں سے نبرد آزما ہے۔ یہ بات سارے عالم پر واضح ہو چکی ہے کہ  امن کے ان دشمنوں کے سامنے اگر کوئی طاقت سیسہ پلائی دیوار بن سکتی ہے تو وہ صرف اور صرف پاکستان ہے۔ خوش قسمتی یہ ہے کہ دنیا عالمی امن کے لیے پاکستان کی اہمیت سے واقف ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے اندر سے ہی چند شر پسند جبر کی قوتوں کے ساتھ مل کر  ہمیں ہی زک پہنچا رہے ہِیں۔ دنیا کی جنگ میں ہم اپنے آپ کو منوا چکے، دشمن کو ناکوں چنے چبوا چکے ہیں۔ یہ بات  ہمارے اندرونی دشمنوں کو بھی سمجھ آ جانی چاہیے کہ ہم نے نہ  اپنی سرحدوں، نہ عالم اسلام پر حرف آنے دیا  اور نہ ہی امن عالم پر سمجھوتہ کیا۔

یاد رکھیں! تاریخ اس بات کو ہمیشہ یاد رکھے گی کہ مسلمانوں کی ایک مملکت نے تن تنہا دنیا کے امن کی خاطر تیسری عالمی جنگ ان ملکوں کے خلاف لڑی جن سے ٹکرانے کی کوئی جرات نہیں کرتا تھا۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

عمار مسعود

عمار مسعود کالم نگار، سیاسی تجزیہ کار، افسانہ نگار اور صحافی۔ کبھی کبھی ملنے پر اچھے آدمی ہیں۔ جمہوریت ان کا محبوب موضوع ہے۔ عوامی مسائل پر گہری نظر اور لہجے میں جدت اور ندرت ہے۔ مزاج میں مزاح اتنا ہے کہ خود کو سنجیدہ نہیں لیتے۔ تحریر اور لہجے میں بلا کی کاٹ ہے مگر دوست اچھے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • گزشتہ ہفتے کے مقبول اسمارٹ فونز کی فہرست جاری، متعدد نئی انٹریاں
  • کشور دا
  • تو اسلام مکمل ضابطۂ حیات نہیں ہے؟
  • پاکستان تیسری عالمی جنگ لڑ رہا ہے
  • شادی میں اعتدال
  • پت جھڑ
  • اے آئی اور عام انسان
  • گزشتہ روز لگائے گئے الزامات بے بنیاد ہیں،سلمان اکرم راجہ
  • موبائل ۔ علم کا دوست اور جدید دنیا