Express News:
2025-10-13@15:28:44 GMT

یہ گل چھرے کیسے اڑاتے ہیں

اشاعت کی تاریخ: 11th, October 2025 GMT

ہم اردو لکھتے تو ہیں اور اکثر لوگوں کاماننا ہے کہ اچھی اردو لکھتے ہیں لیکن پھر بھی اہل زبان نہیںہیں ، اس لیے بعض اوقات بعض الفاظ ہمیں پریشان کر دیتے ہیں ۔خیر’’ اہل زبان‘‘ کالفظ بھی کچھ زیادہ صحیح نہیں ہے کیوں کہ اگر گہرائی میں جاکر سوچیں تو اردو کاکوئی بھی اہل زبان نہیں ہے کیوں کہ یہ زبان کسی کی بھی نہیں ہے کیوں کہ یہ سب کی یاہرکسی کی زبان ہے یایوں کہیے کہ سب کی ہے، اس لیے کسی کی بھی نہیں ہے،اسے اگر ہم کہنا چاہیں تو ایک مجمع البحرین کہہ سکتے ہیں کہ ہر بحر کاپانی اس میں موجود ہے۔

جو لوگ اہل زبان کہلاتے ہیں، وہ بھی اوپر کی پشتوں میں کسی اور زبان کے ہوا کرتے تھے مثلاً غالب ، میر ، خسرو، داغ، سب کے اجداد فارسی تھے۔ خیر تو ہم اپنی بات کرنا چاہتے ہیں کہ کبھی کچھ ایسے الفاظ بھی سامنے آجاتے ہیں کہ ہم انھیں لکھتے بھی ہیں لیکن ان کے معنی ہمیں معلوم نہیں ہوتے کیوں کہ ایسے الفاظ اپنے مجازی معنی میں اتنے مشہور ہوجاتے ہیں کہ ان کے اصل اوربنیادی معنی گم ہوجاتے ہیں ۔ ایسے الفاظ میں دوالفاظ اکثر ہمیں چونکاتے اورستاتے ہیں ، ایک ’’گل چھرے‘‘ اوردوسرا ’’رنگ رلیاں‘‘

انھیں ہم اکثر پڑھتے بھی ہیں اورلکھتے بھی ہیں۔لیکن یہ کبھی سمجھ میں نہیں آیا کہ گل چھرے کیاہوتے ہیں اوررنگ رلیاں کیسی ہوتی ہیں ، رنگ رلیوں کو بھی فی الحال چھوڑدیتے ہیں ، صرف گل چھروں کی بات کرتے ہیں جہاں تک ہمیں معلوم ہے ’’گل‘‘ تو فارسی سے آیا ہے اور پھول کو کہتے ہیں لیکن پھولوں کے ساتھ ’’چھرے‘‘ ؟ یہ تو صاف صاف اجتماع ضدین ہے ، کہاں پھول کہاں چھرے۔ کیوں کہ چھرے تو بندوق کے ہوتے ہیں اوراسی وجہ سے ایک خاص یعنی بارہ بور کے بندوق کوچھریدار کہتے ہیں۔چھریدار سے یاد آیا کہ ایک زمانے میں ہمارے گاؤں کاایک ڈاکٹر بھی ’’ڈاکٹر چھریدار‘‘ کے نام سے مشہور ہوا تھا جو لوگوں کو پڑیوں میں گول گول چھرے باندھ کر دیا کرتا تھا یہ چھرے شکر کے ہوتے تھے اورمختلف سائزوں کے ہوتے تھے وہ ان چھروں پر کوئی دوائی ڈال کر دیتا تھا چنانچہ لوگوں میں ڈاکٹر چھریدار مشہورہوگیا تھا۔

ہم اسے ’’گل چھرے ‘‘ سمجھ لیتے لیکن چھرے اوربندوق کے چھرے تو اس سے بھی پہلے موجود تھے پھر ان چھروں کے ساتھ ’’اڑانا‘‘ مستقل استعمال ہوتا ہے اوراسی اڑانے کے لفظ نے سارا معاملہ گڑ بڑ کردیا ہے۔ اگر پھولوں کو بندوق میں ڈال کر اڑایا جائے تو ایسا ہرگھر میں ممکن نہیں۔ کیوں کہ ایک تو تجربہ کار لوگوں کو پتہ ہے کہ بندوق کی نالی میں اگر ذرا بھی کوئی چیز ہوتو نالی پھٹ جاتی ہے اورپھول بھی چل جاتے ہیں ، مطلب یہ کہ کم سے کم یہ جو ’’اڑائے ‘‘جاتے ہیں یہ بندوق کے ذریعے تو نہیں اڑائے جاسکتے اورہم نے قدیم تحریروں میں دیکھا ہے کہ گل چھرے بندوق کی ایجاد سے پہلے بھی اڑائے جاتے تھے خاص طور پر بادشاہ ،ملیکائیں، شہزادے اور شہزادیاں اکثر گل چھرے اڑانے میں مصروف رہتے تھے ۔

اپنے ٹٹوئے تحقیق کو اس راہ پر ڈالتے ہی اچانک ہمیں گل چھرے اڑانے جیسا ایک تاریخی واقعہ مل گیا جس میں ’’چھرے ‘‘ اڑائے گئے تھے۔ عباسی خلیفہ منصورکی بیوی ملکہ ’’خیزران‘‘ سے یہ واقعہ منسوب ہے، ملکہ خیزران سے ایسے اوربھی کئی واقعات موجود ہیں کیوں کہ وہ اپنے دورکی ایک بے مثال ، لاثانی اور بے نظیر خاتون تھی، کچھ راویوں کاکہنا ہے کہ جنتر منتر اورچف تعویزوالی بھی تھی اورخلیفہ منصورکو اس نے اپنے اس منتر سے دبو لیا تھا ۔ایک ضعیف سی روایت یہ بھی ہے کہ وہ ’’بلارہ ‘‘ تھی، بلارہ بٹیربازوں کی اصطلاح میں یہ ایک خاص طریقے سے پالی ہوئی ’’بٹیرنی‘‘ ہوتی ، بٹیربازی کے موسم میں بٹیر باز اس کوکھیتوں میں بنے ہوئے مکان کے اندر رکھ لیتے ہیں اورچاروں طرف جال بچھا کر بلارے کو لٹکادیتے ہیں ،بٹیرنی ساری رات نعرہ لگاتی ہے اوربٹیر اس آواز کو سن کر آتے ہیں اورجال میں پھنستے ہیں ۔خیر تو ملکہ خیزران نے اپنے بیٹے امین کی شادی میں ایک خاص ندرت یہ کی کہ بارات میں چھوٹے کاغذ کے چھرے پھینکتی تھی بظاہر یہ کاغذکی گولیاں ہوتی تھیں لیکن کھولنے پر اس کے اندر ایک موتی ہوتا تھا اورکاغذ پر کوئی عہدہ کوئی جاگیر یاانعام بھی رکھا ہوتا جو پانے والے کو دے دیاجاتا ،ممکن ہے گل چھرے اڑانے کایہ سلسلہ وہیں سے شروع ہوا ہو۔

یقین سے نہیں کہاجاسکتا لیکن امکان ہے کہ ملکہ خیزران کی یہ ایجاد آگے بھی چلی ہو، عربی میں شاید اس کا نام بھی کچھ اورہو اور پھرکسی نے اس کا ترجمہ اردو میں گل چھرے کردیا ہو۔کیوں کہ گل چھرے میں بنیادی معنی وہی ہیں جو مال مفت دل بے رحم میں ہیں ۔

مطلب یہ کہ لفظ کہیں سے بھی آیا ہو کسی نے بھی بنایا ہو گل اورچھرے کاآپس میں جو بھی جائزیاناجائز تعلق ہولیکن یہ بات سو فی صد درست ہے کہ گل چھرے صرف وہی لوگ اڑاسکتے ہیں جن کے ہاتھوں کسی اورکامال لگا ہو ۔باقی آپ خود ہی دانابینا ہے اوروہ لوگ بھی سامنے ہیں جو گل چھرے اڑاتے تھے ۔اڑاتے ہیں اوراڑاتے رہیں گے

ہزاروں رنگ بدلے گا زمانہ

 نہ بدلے گا گل چھروں کااڑانا

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: جاتے ہیں اہل زبان ہیں لیکن نہیں ہے ہیں اور کیوں کہ ہیں کہ ہے اور

پڑھیں:

عمران خان کی تصویر دکھانا ممنوع ہے، لیکن اسرائیلی پارلیمنٹ کے مناظر ہمارے ٹی وی چینلز پر نشر ہو رہے ہیں

تل ابیب ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 13 اکتوبر2025ء ) پی ٹی آئی کی جانب سے اعتراض اٹھایا گیا ہے کہ عمران خان کی تصویر دکھانا ممنوع ہے، لیکن اسرائیلی پارلیمنٹ کے مناظر ہمارے ٹی وی چینلز پر نشر ہو رہے ہیں۔ تفصیلات کے مطابق پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ اسرائیلی پارلیمنٹ کی کاروائی براہ راست نشر کیے جانے پر تھریک انصاف کی جانب سے ردعمل دیا گیا ہے۔

جاری بیان میں تھریک انصاف کی جانب سے کہا گیا ہے کہ " اسرائیلی پارلیمنٹ کے مناظر ہمارے ٹی وی چینلز پر نشر ہو رہے ہیں، لیکن عمران خان کی تصویر دکھانا ممنوع ہے۔ قائداعظم نے واضح کہا تھا: "ہم اسرائیل کو تب تک تسلیم نہیں کریں گے جب تک فلسطین آزاد نہیں ہوتا۔" لیکن آج ہم کس راستے پر جا رہے ہیں؟ ایک طرف حکومت کہتی ہے کہ ہم اسرائیل کو تسلیم کسی صورت نہیں کریں گے؟ دوسری طرف ہر ایک وہ کام کیا جارہا ہے جس واضح ہوتا ہے یہ لوگ اسرائیل کو تسلم کرچُکے ہے۔

(جاری ہے)

" واضح رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خطاب کے موقع پر پہلی بار اسرائیلی پارلیمنٹ کی کارروائی پاکستان میں براہِ راست دکھائی گئی، اس دوران نیتن یاہو کو اسرائیلی پارلیمنٹ کی طرف سے خراجِ تحسین پیش کیا گیا اور ارکانِ پارلیمنٹ نے کھڑے ہو کر تالیاں بجائیں، اس دوران نیتن یاہو کے حق میں نعرے لگتے رہے، یہ سب بھی پاکستانی ٹی وی چینلز پر براہِ راست نشر ہوا جب کہ ٹرمپ کے خطاب کے دوران ایک رکن پارلیمنٹ نے فلسطین کے حق میں احتجاج کیا، اس دوران ایوان میں شور شرابا بھی ہوا۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیلی پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ مشکل وقت میں اسرائیل کے ساتھ کھڑا رہا اور اسرائیل نے وہ سب کچھ جیت لیا جو طاقت کے بل پر جیتا جاسکتا تھا، اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی تاریخ ساز لمحہ ہے، یہ صرف جنگ کا اختتام نہیں بلکہ ایک نئی امید کا آغاز ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ مشرقِ وسطیٰ کے ایک نئے تاریخی دور کا آغاز ہے، غزہ کے لوگوں کی توجہ اب تعمیر نو پر ہونی چاہیے، یہ اسرائیل اور پوری دنیا کے لیے غیر معمولی کامیابی ہے، غزہ امن معاہدے میں عرب اور مسلم ممالک نے اہم کردار ادا کیا، غزہ سے ایران تک ان تلخ نفرتوں نے مصیبت، دکھ اور ناکامی کے سوا کچھ نہیں دیا، دہشت گردوں کے خلاف کامیابیوں کو پورے مشرق وسطیٰ کے لیے امن وخوشحالی میں تبدیل کیا جائے۔

بتایا گیا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اسرائیلی پارلیمنٹ سے خطاب کے دوران بائیں بازوں کے دو ارکان پارلیمنٹ کی طرف سے فلسطین کے حق میں احتجاج بھی کیا گیا، اس دوران ایوان میں شور شرابا بھی کیا گیا جس پر احتجاج کرنے والے رکن کو سکیورٹی اہلکار پکڑ کر ایوان سے باہر لے گئے، اس حوالے سے عالمی نشریاتی ادارے الجزیرہ نے رپورٹ کیا ہے اسرائیلی رکنِ پارلیمان ایمن عودہ کی جانب سے احتجا کیا گیا تھا۔

عودہ نے کہا کہ ایوان میں موجود منافقت کی حد ناقابلِ برداشت ہے، نیتن یاہو کو ایسی خوشامد کے ذریعے سراہنا جس کی مثال نہیں ملتی، ایک منظم گروہ کے ذریعے انہیں تخت پر بٹھانا نہ تو اسے اور نہ ہی اس کی حکومت کو غزہ میں کیے گئے انسانیت کے خلاف جرائم اور نہ ہی ہزاروں اسرائیلی اور لاکھوں فلسطینی متاثرین کے خون کی ذمہ داری سے بری کرتا ہے، صرف قبضے کے خاتمے اور اسرائیل کے ساتھ ریاستِ فلسطین کو تسلیم کرنے سے ہی سب کیلئے انصاف، امن اور سلامتی ممکن ہوگی۔

متعلقہ مضامین

  • عمران خان کی تصویر دکھانا ممنوع ہے، لیکن اسرائیلی پارلیمنٹ کے مناظر ہمارے ٹی وی چینلز پر نشر ہو رہے ہیں
  • ’میں نے ایک ایک کرکے نیند کی گولیاں جمع کیں تاکہ قتل کا منصوبہ مکمل کر سکوں‘
  • افغانستان کو پیار کی زبان سمجھ نہیں آئی، طالبان فرار ہو رہے، عطار تارڑ
  • علی امین گنڈاپور کے استعفے پر گورنر کی رائے کے بغیر نئے وزیراعلیٰ کا انتخاب، غیرقانونی قرار
  • علی امین گنڈا پور کے استعفے پر گورنر کی رائے کے بغیر نئے وزیراعلیٰ کا انتخاب، غیرقانونی قرار
  • دنیا کا واحد اسلامی معاشرہ
  • ’’ ٹوہ مت لگاؤ‘‘
  • افغان وزیر خارجہ بھارت جا کر بھارتی زبان بولنے لگے، پاکستان کیخلاف سخت بیان
  • زیبرا میں سفید اور کالی دھاریاں کیسے اور کیوں بنتی ہیں؟