Express News:
2025-11-27@21:31:59 GMT

یہ گل چھرے کیسے اڑاتے ہیں

اشاعت کی تاریخ: 11th, October 2025 GMT

ہم اردو لکھتے تو ہیں اور اکثر لوگوں کاماننا ہے کہ اچھی اردو لکھتے ہیں لیکن پھر بھی اہل زبان نہیںہیں ، اس لیے بعض اوقات بعض الفاظ ہمیں پریشان کر دیتے ہیں ۔خیر’’ اہل زبان‘‘ کالفظ بھی کچھ زیادہ صحیح نہیں ہے کیوں کہ اگر گہرائی میں جاکر سوچیں تو اردو کاکوئی بھی اہل زبان نہیں ہے کیوں کہ یہ زبان کسی کی بھی نہیں ہے کیوں کہ یہ سب کی یاہرکسی کی زبان ہے یایوں کہیے کہ سب کی ہے، اس لیے کسی کی بھی نہیں ہے،اسے اگر ہم کہنا چاہیں تو ایک مجمع البحرین کہہ سکتے ہیں کہ ہر بحر کاپانی اس میں موجود ہے۔

جو لوگ اہل زبان کہلاتے ہیں، وہ بھی اوپر کی پشتوں میں کسی اور زبان کے ہوا کرتے تھے مثلاً غالب ، میر ، خسرو، داغ، سب کے اجداد فارسی تھے۔ خیر تو ہم اپنی بات کرنا چاہتے ہیں کہ کبھی کچھ ایسے الفاظ بھی سامنے آجاتے ہیں کہ ہم انھیں لکھتے بھی ہیں لیکن ان کے معنی ہمیں معلوم نہیں ہوتے کیوں کہ ایسے الفاظ اپنے مجازی معنی میں اتنے مشہور ہوجاتے ہیں کہ ان کے اصل اوربنیادی معنی گم ہوجاتے ہیں ۔ ایسے الفاظ میں دوالفاظ اکثر ہمیں چونکاتے اورستاتے ہیں ، ایک ’’گل چھرے‘‘ اوردوسرا ’’رنگ رلیاں‘‘

انھیں ہم اکثر پڑھتے بھی ہیں اورلکھتے بھی ہیں۔لیکن یہ کبھی سمجھ میں نہیں آیا کہ گل چھرے کیاہوتے ہیں اوررنگ رلیاں کیسی ہوتی ہیں ، رنگ رلیوں کو بھی فی الحال چھوڑدیتے ہیں ، صرف گل چھروں کی بات کرتے ہیں جہاں تک ہمیں معلوم ہے ’’گل‘‘ تو فارسی سے آیا ہے اور پھول کو کہتے ہیں لیکن پھولوں کے ساتھ ’’چھرے‘‘ ؟ یہ تو صاف صاف اجتماع ضدین ہے ، کہاں پھول کہاں چھرے۔ کیوں کہ چھرے تو بندوق کے ہوتے ہیں اوراسی وجہ سے ایک خاص یعنی بارہ بور کے بندوق کوچھریدار کہتے ہیں۔چھریدار سے یاد آیا کہ ایک زمانے میں ہمارے گاؤں کاایک ڈاکٹر بھی ’’ڈاکٹر چھریدار‘‘ کے نام سے مشہور ہوا تھا جو لوگوں کو پڑیوں میں گول گول چھرے باندھ کر دیا کرتا تھا یہ چھرے شکر کے ہوتے تھے اورمختلف سائزوں کے ہوتے تھے وہ ان چھروں پر کوئی دوائی ڈال کر دیتا تھا چنانچہ لوگوں میں ڈاکٹر چھریدار مشہورہوگیا تھا۔

ہم اسے ’’گل چھرے ‘‘ سمجھ لیتے لیکن چھرے اوربندوق کے چھرے تو اس سے بھی پہلے موجود تھے پھر ان چھروں کے ساتھ ’’اڑانا‘‘ مستقل استعمال ہوتا ہے اوراسی اڑانے کے لفظ نے سارا معاملہ گڑ بڑ کردیا ہے۔ اگر پھولوں کو بندوق میں ڈال کر اڑایا جائے تو ایسا ہرگھر میں ممکن نہیں۔ کیوں کہ ایک تو تجربہ کار لوگوں کو پتہ ہے کہ بندوق کی نالی میں اگر ذرا بھی کوئی چیز ہوتو نالی پھٹ جاتی ہے اورپھول بھی چل جاتے ہیں ، مطلب یہ کہ کم سے کم یہ جو ’’اڑائے ‘‘جاتے ہیں یہ بندوق کے ذریعے تو نہیں اڑائے جاسکتے اورہم نے قدیم تحریروں میں دیکھا ہے کہ گل چھرے بندوق کی ایجاد سے پہلے بھی اڑائے جاتے تھے خاص طور پر بادشاہ ،ملیکائیں، شہزادے اور شہزادیاں اکثر گل چھرے اڑانے میں مصروف رہتے تھے ۔

اپنے ٹٹوئے تحقیق کو اس راہ پر ڈالتے ہی اچانک ہمیں گل چھرے اڑانے جیسا ایک تاریخی واقعہ مل گیا جس میں ’’چھرے ‘‘ اڑائے گئے تھے۔ عباسی خلیفہ منصورکی بیوی ملکہ ’’خیزران‘‘ سے یہ واقعہ منسوب ہے، ملکہ خیزران سے ایسے اوربھی کئی واقعات موجود ہیں کیوں کہ وہ اپنے دورکی ایک بے مثال ، لاثانی اور بے نظیر خاتون تھی، کچھ راویوں کاکہنا ہے کہ جنتر منتر اورچف تعویزوالی بھی تھی اورخلیفہ منصورکو اس نے اپنے اس منتر سے دبو لیا تھا ۔ایک ضعیف سی روایت یہ بھی ہے کہ وہ ’’بلارہ ‘‘ تھی، بلارہ بٹیربازوں کی اصطلاح میں یہ ایک خاص طریقے سے پالی ہوئی ’’بٹیرنی‘‘ ہوتی ، بٹیربازی کے موسم میں بٹیر باز اس کوکھیتوں میں بنے ہوئے مکان کے اندر رکھ لیتے ہیں اورچاروں طرف جال بچھا کر بلارے کو لٹکادیتے ہیں ،بٹیرنی ساری رات نعرہ لگاتی ہے اوربٹیر اس آواز کو سن کر آتے ہیں اورجال میں پھنستے ہیں ۔خیر تو ملکہ خیزران نے اپنے بیٹے امین کی شادی میں ایک خاص ندرت یہ کی کہ بارات میں چھوٹے کاغذ کے چھرے پھینکتی تھی بظاہر یہ کاغذکی گولیاں ہوتی تھیں لیکن کھولنے پر اس کے اندر ایک موتی ہوتا تھا اورکاغذ پر کوئی عہدہ کوئی جاگیر یاانعام بھی رکھا ہوتا جو پانے والے کو دے دیاجاتا ،ممکن ہے گل چھرے اڑانے کایہ سلسلہ وہیں سے شروع ہوا ہو۔

یقین سے نہیں کہاجاسکتا لیکن امکان ہے کہ ملکہ خیزران کی یہ ایجاد آگے بھی چلی ہو، عربی میں شاید اس کا نام بھی کچھ اورہو اور پھرکسی نے اس کا ترجمہ اردو میں گل چھرے کردیا ہو۔کیوں کہ گل چھرے میں بنیادی معنی وہی ہیں جو مال مفت دل بے رحم میں ہیں ۔

مطلب یہ کہ لفظ کہیں سے بھی آیا ہو کسی نے بھی بنایا ہو گل اورچھرے کاآپس میں جو بھی جائزیاناجائز تعلق ہولیکن یہ بات سو فی صد درست ہے کہ گل چھرے صرف وہی لوگ اڑاسکتے ہیں جن کے ہاتھوں کسی اورکامال لگا ہو ۔باقی آپ خود ہی دانابینا ہے اوروہ لوگ بھی سامنے ہیں جو گل چھرے اڑاتے تھے ۔اڑاتے ہیں اوراڑاتے رہیں گے

ہزاروں رنگ بدلے گا زمانہ

 نہ بدلے گا گل چھروں کااڑانا

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: جاتے ہیں اہل زبان ہیں لیکن نہیں ہے ہیں اور کیوں کہ ہیں کہ ہے اور

پڑھیں:

8ویں مرتبہ آیا ہوں، بانی پی ٹی آئی سے کیوں نہیں ملنے دیا جارہا، سہیل آفریدی

راولپنڈی کی اڈیالہ جیل کے قریب گورکھپور ناکے پر وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا سہیل آفریدی کا پولیس اہلکاروں کے ساتھ مختصر مکالمہ ہوا ہے۔

سہیل آفریدی نے پولیس اہلکاروں سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ 8ویں مرتبہ جیل آئے لیکن انہیں بانی پی ٹی آئی سے ملاقات کی اجازت نہیں دی جارہی۔

یہ بھی پڑھیں: کیا سہیل آفریدی مفاہمت کے رستے پر چل پڑے، کتنا آگے جا سکیں گے؟

انہوں نے کہا کہ وہ خیبر پختونخوا کے ساڑھے 4 کروڑ عوام کے نمائندہ ہیں اور عدالتی احکامات کے باوجود ملاقات سے روکے جانے پر انہوں نے تشویش کا اظہار کیا۔

انہوں نے سوال کیا کہ اندر کون موجود ہے اور ملاقات کیوں نہیں کروائی جا رہی۔ ان کا مطالبہ تھا کہ تحریری طور پر بتایا جائے کہ عدالتی حکم پر عمل کیوں نہیں ہو رہا اور راستہ روکنے کی وجہ کیا ہے۔

میں بار بار شرافت سے آ رہا ہوں ، آتا ہوں یہاں بیٹھ جاتا ہوں، آپ لوگوں کو بھی احساس کرنا چاہیے،

سہیل آفریدی نے جس دن ڈنڈے کا جواب ڈنڈے سے دیا یہ ہھر سدھریں گے pic.twitter.com/miIFpBtY7p

— Ahmad Hassan Bobak (@ahmad__bobak) November 27, 2025

وزیر اعلیٰ کے پی نے کہا کہ اس طرز عمل سے ایک صوبے کے ساتھ امتیازی سلوک کا تاثر پیدا ہو رہا ہے اور یہ صورتحال ملک میں مزید فاصلے بڑھا سکتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ کل اگر کسی اور صوبے میں کسی دوسرے رہنما کے ساتھ ایسا ہوا تو یہ کسی کے لیے بھی مناسب نہیں ہوگا۔

یہ بھی پڑھیں: سہیل آفریدی نے اچھے کام کیے تو ہم حمایت کریں گے، گورنر خیبرپختونخوا فیصل کریم کنڈی

سہیل آفریدی نے کہا کہ میں ہربار آتا ہوں، شرافت سے بیٹھ جاتا ہوں، آپ کو بھی احساس کرنا چاہیے، بار بار پشاور سے اڈیالہ آنا اور پھر جانا، یہ افسوسناک ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

we news اڈیالہ جیل بانی پی ٹی آئی پاکستان پولیس اہلکار خیبرپختونخوا عمران خان وزیراعلی سہیل آفریدی

متعلقہ مضامین

  • ہم نے مذاکرات میں بہت کوشش کی لیکن کچھ نہیں ہوسکا: چیئرمین پی ٹی آئی
  • 8ویں مرتبہ آیا ہوں، بانی پی ٹی آئی سے کیوں نہیں ملنے دیا جارہا، سہیل آفریدی
  • پی ٹی آئی نے مذاکرات میں بھرپور کوشش کی، کامیابی نہ ملی: چیئرمین بیرسٹر گوہر
  • ہم نے مذاکرات میں بہت کوشش کی لیکن کچھ نہیں ہوسکا: بیرسٹر گوہر
  • حکومت عوام کو ریلیف دینا چاہتی ہے لیکن آئی ایم ایف کی شرائط کی وجہ سے ممکن نہیں، رانا ثنااللہ
  • ہم نے مذاکرات میں بہت کوشش کی لیکن کچھ نہیں ہو سکا: بیرسٹر گوہر
  • شرمیلا فاروقی کو پارلیمنٹ لاجز کا ماحول جیل جیسا کیوں لگا؟
  • سزایافتہ افسر کو صدر میڈل، آئینی عدالت بنالی لیکن کام نہیں، جسٹس محسن کے سخت ریمارکس
  • یہ تقسیم کیوں ؟
  • صدر آصف زرداری نے زندگی میں تقریباً سب کچھ حاصل کر لیا،لیکن ان کی آخری خواہش کیا ہے؟سینئر صحافی رؤف کلاسرا نے بتا دیا