میرا قائد عمران خان فوجی آپریشن کیخلاف تھا، ہم بھی اس کے خلاف ہیں، نو منتخب وزیر اعلیٰ کے پی
اشاعت کی تاریخ: 13th, October 2025 GMT
نو منتخب وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا محمد سہیل آفریدی نے کہا ہے کہ میرا قائد عمران خان ملٹری آپریشن کے خلاف تھا تو ہم بھی اس کے بالکل خلاف ہیں، ملٹری آپریشن دہشت گردی کا حل نہیں، دنیا بھر میں مذاکرات کی طرف آیا جارہا ہے۔
اپنے انتخاب کے بعد اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ میں اپنے لیڈر پاکستان کے سب سے مقبول ترین لیڈر کا انتہائی مشکور ہوں، اس نے مجھ جیسے ادنی کارکن جو مڈل کلاس سے تعلق رکھتا ہے، جس کا نہ کوئی بھائی نہ بچہ سیاست میں ہے۔
انہوں نے کہا کہ میرے نام کے ساتھ زرداری یا بھٹو نہیں ہے، اپنی محنت کرکے اس عہدے تک پہنچا ہوں، میں اپنے قائد کا اس لئے بھی شکر گزار ہوں میرا تعلق قبائل سے ہے، میں پہلے پاکستانی ہوں۔
سہیل آفریدی نے کہا کہ اس مائینڈ سیٹ کے ساتھ یہ ہیں، میرے نام کے ساتھ آفریدی ہے، میرے نام کا اعلان ہوا تو اس مائنڈ سیٹ کے ساتھ تزلیل کی گئی، ان کا رویہ ہے کہ قبائل ہمیشہ پیچھے رہیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ 78 سال سے اس مائنڈ سیٹ کے ساتھ ہم پر حکومت کر رہے ہیں، میرا قائد جانتا تھا کہ قبائل کئی سالوں سے پیچھے ہیں، میرے چیئرمین کا کہنا ہے کہ کوئی بھی جس کے نام کے ساتھ بھٹو یا زرداری کا نام لگا ہے، صرف اس کو موقع نہیں دیتا، بلکہ وہ اس کو موقع دیتا ہے جو محنت کرکے یہاں تک آیا، میں پاکستان کی سب سے بڑی اسٹیبلشمنٹ جو ہمارا سوشل میڈیا ہے اس کا بھی شکر گزار ہوں۔
سہیل آفریدی نے کہا کہ میڈیا کے نمائندوں کا بھی شکر گزار ہوں جنہوں نے حق کے لیے اپنی نوکریاں گنوادیں، میں شہید ارشد شریف کا بھی شکر گزار ہوں جس نے راہ حق کے لئے اپنی جان گنوا دی۔
انہوں نے کہا کہ علی امین گنڈاپور نے جس طرح ایک آواز پر استعفیٰ دیا اور جس طرح آج ایوان میں کہا کہ اپنے لیڈر کے کہنے پر استعفیٰ دیا تو آپ کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔
ان کا کہنا تھا کہ جو ہماری پگڑیاں اچھال رہے ہیں ان کی اپنی لنگوٹیا پھٹی ہوئی ہیں، میں اپنے لیڈر کو پیغام دینا چاہتا ہوں میں آپ کا عاشق ہوں، اور لوگ سیاست کرتے ہیں لیکن میں آپ سے عشق کرتا ہوں۔
انہوں نے کہا کہ آپ نے جس طرح قبائل کو شعور دیا اور بہادری ڈالی تو یقین دلاتا ہوں کہ یہ خیبرپختونخوا صرف چیئرمین کا ہے، پارٹی کو مختلف چیلنجز کا سامنا ہے، تمام پی ٹی آئی کارکنوں کو جو باہر ہیں یا ملک میں ہیں، ان کو یقین دلاتا ہوں قائد کی رہائی کے لئے آج سے اقدام اٹھانے شروع کردیے ہیں، چیئرمین کی اہلیہ جو باپردہ خاتون ہے، سیاست سے ان کا تعلق نہیں، ان کے لیے بھی سب سے پہلے کام کروں گا۔
ان کا کہنا تھا کہ آج تک چیئرمین کی رہائی کے لیے جو اقدامات نہیں ہوئے وہ کرکے دکھاؤں گا، قائد کی رہائی کے لیے احتجاجی سیاست کا چمپیئن ہوں، کیونکہ میرے پاس کچھ کھونے کا نہیں ہے، نہ گاڑیاں نہ کچھ اور، یہ کرسی کو اپنے لیڈر کے لئے ایک لات دونگا، کوئی یہ نہ سمجھے کہ مجھے کوئی سیلوٹ کرے گا اور میں اس تخت و تاج کے لئے اپنے مقصد سے ہٹ جاؤں گا تویہ ان کی بھول ہے، میں اپنے لیڈر کے احکامات پر فوری لبیک کروں گا۔
انہوں نے کہا کہ کچھ روز سے افواہیں ہیں کہ چیرمین کی جیل کو تبدیل کیا جارہا ہے، اگر چیئرمین کو ان کی فیملی کی مرضی کے بغیر ایسا کیا تو سارے پاکستان کو جام کردوں گا، میرے لیڈر نے امن و جمہوریت کا دیکھا تھا لیکن بدقسمتی سے ایبلسیلوٹلی ناٹ اور اسرائیل کو تسلیم نہ کرنے پر میرے قائد کی حکومت گرائی گئی۔
ان کا کہنا تھا کہ اس خطے کے تمام بچے و خواتین صرف چیئرمین سے محبت کرتے ہیں لیکن لندن پلان کے ذریعے دہشتگردی لائی گئی، ہم نے بتایا بھی کہ ایک بار پھر پختونوں کے سر کی قیمت لگائی جارہی ہے لیکن مراد سعید پر الزام لگایا گیا، جب ہم چیخ رہے تھے کہ یہاں دہشت گرد لائے جارہے تھے لیکن اس وقت آپ نے سنا نہیں اسوقت آپ جھوٹے تھے یا آج ہیں۔
انہوں نے کہا کہ میرا قائد ملٹری آپریشن کے خلاف تھا تو ہم بھی اس کے بالکل خلاف ہیں، ملٹری آپریشن دہشت گردی کا حل نہیں، دنیا بھر میں مذاکرات کی طرف آیا جارہا ہے، یہ انٹیلیجنس بیسڈ کئی آپریشن کرچکے ہیں تو پھر تو کوئی حل ہی نہیں، انہوں نے ہمیشہ فیصلے اپنی ذات اور اپنے بچوں کے لیے کیے ہیں، یہ مسائل کا حل نہیں ہے، جہاں بھی آپ نے آپریشن کرنے ہیں وہاں کے عمائدین اور عوام کو اپنے اعتماد میں لینا ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ آپ کو اپنی افغانستان کی پالیسی کی نظر ثانی کرنی ہوگی، جو افغان بہن بھائی چالیس سال سے یہاں رہ رہے تھے اب ان کو دھکے مار کر نکا رہے ہیں، اس طرح پالیسیاں نہیں بنتیں، علی امین گنڈاپور نے اپنے دور حکومت میں ان کو سنبھالا اور کھانے ودیگر انتظام کیا، یہ پالیسی ہوتی ہے، جو بھی افغان پالیسی بنائی جائے یہاں کے نمائندوں، حکومت کو اعتماد میں لیں،ان مارٹر گولوں میں ہمارے بچے شہید ہو رہے ہیں۔
سہیل آفریدی نے کہا کہ ہماری قوم اس پر بہت خفا ہے، یہاں ایسی پالیسی لائیں گے کہ کوئی قانون سے مبرا نہیں ہوتا، ان کو قانون کے کٹہرے میں لانا ہوگا، پشتون تحفظ موومنٹ کو بین کیا گیا ہے، لوگوں کو شیڈول فور میں ڈالا گیا ہے، میں مرکزی حکومت سے بات کروں گا جو اپنا حق مانگتے ہیں ان کو شیڈول فور میں کیسے ڈالا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ 9 مئی تحریک انصاف کے خلاف بدنام کرنے کا آپریشن تھا، ہمارے کارکنوں کو دبانے کے لیے کیا گیا، پورے پاکستان میں تو کچھ نہیں کرسکتا لیکن میں ریڈیو پاکستان کی انکوائری مقرر کرتا ہوں، عوام ہی ریاست ہیں، اور اس وقت ریاست چیئرمین کے ساتھ کھڑی ہے، عوام نے آٹھ فروری کو صرف چیئرمین کے حق میں فیصلہ کیا ہے، بدقسمتی سے لوگوں کو بتانا ہے کہ کس قسم کی دھاندلی ہوئی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ کامن ویلتھ کی رپورٹ سب کو بجھوادوں گا، آٹھ فروری کی دھاندلی کی بھی انکوائری کرواؤں گا، ہمارے کارکنوں کو احتجاج پر مارا گیا، آج بھی انہوں نے تحریک لبیک کے کارکنوں پر گولیاں برسائیں، یہ اب خونی درندے بن گئے ہیں، یہ بند کمروں کے فیصلے اور غلط مشاورت آپ کو بند راستوں کی طرف لے جا رہی ہے، میں تحریک لبیک کے کارکنوں پر تشدد کی مذمت کرتا ہوں۔
.
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ان کا کہنا تھا کہ بھی شکر گزار ہوں انہوں نے کہا کہ ملٹری آپریشن اپنے لیڈر کرتا ہوں میں اپنے رہے ہیں کے خلاف کے ساتھ کے لیے کے لئے
پڑھیں:
افغان وزیر خارجہ بھارت جا کر بھارتی زبان بولنے لگے، پاکستان کیخلاف سخت بیان
نئی دہلی: افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی نے جمعہ کو ہندوستان کی سرکاری دورے کے دوران ایک پریس بریفنگ میں پاکستان کے خلاف سخت الفاظ میں بیان دیا ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ افغان سرزمین کسی بھی ملک کے خلاف استعمال نہیں کی جائے گی، جو پاکستان کے الزامات پر ایک واضح طنز سمجھا جا رہا ہے۔
متوقی نے پاکستان کی جانب سے افغان سرحد پار فضائی حملوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ “افغانوں کی ہمت کی آزمائش نہ کی جائے”۔ انہوں نے مزید کہا، “اگر کوئی ایسا کرنا چاہے تو سوویت یونین، امریکہ اور نیٹو سے پوچھ لے، تاکہ وہ بتا سکیں کہ افغانستان کے ساتھ ایسے کھیل کھیلنا اچھا نہیں ہے۔” یہ بیان پاکستان کی حالیہ کارروائیوں پر براہ راست تنقید ہے، جو طالبان حکومت کے مطابق “غیر متوقع، تشدد آمیز اور اشتعال انگیز” عمل ہیں۔
افغان وزیر خارجہ نے پاکستان کے دعوؤں کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان میں کوئی دہشت گرد گروہ فعال نہیں ہے، نہ ہی لشکر طیبہ یا جیش محمد جیسے گروہوں کو پناہ دی جا رہی ہے۔ انہوں نے پاکستان سے ثبوت پیش کرنے کا مطالبہ کیا اور کہا کہ گزشتہ چار سالوں میں افغانستان نے دہشت گردی کے خلاف کامیاب اقدامات کیے ہیں۔ متقی نے زور دیا کہ افغانستان ہندوستان کو قریبی دوست سمجھتا ہے اور دونوں ممالک باہمی احترام، تجارت اور عوامی روابط کی بنیاد پر تعلقات بڑھائیں گے۔
یہ بیان اس وقت سامنے آیا جب افغان وزیر خارجہ نئی دہلی میں ہندوستانی وزیر خارجہ ایس جیشنکر سے ملاقات کر رہے تھے۔ اس ملاقات میں دونوں ممالک نے سفارتی تعلقات کو بہتر بنانے پر اتفاق کیا، جس میں کابل میں ہندوستانی سفارت خانے کو دوبارہ کھولنے کا اعلان بھی شامل ہے۔ افغان وزارت دفاع نے بھی پاکستان کی کارروائیوں کو “سرحد کی خلاف ورزی” قرار دیتے ہوئے خبردار کیا کہ اگر صورتحال مزید خراب ہوئی تو “نتائج پاکستان آرمی کے ذمے ہوں گے”۔
افغان وزیر خارجہ کا یہ بیان پاکستان اور افغانستان کے بگڑتے تعلقات کی عکاسی کرتا ہے، جہاں پاکستان کا دعویٰ ہے کہ افغان سرزمین سے تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) حملے کر رہی ہے، جبکہ طالبان ان الزامات کی سختی سے تردید کرتے ہیں۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ بیان مغربی طاقتوں سمیت پاکستان کے لیے ایک واضح پیغام ہے کہ افغانستان اب مزید برداشت نہیں کرے گا۔