گلوبل صمود فلوٹیلا کیا ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 13th, October 2025 GMT
فلسطین جسے انبیاء کی سرزمین کہا جاتا تھا ، جہاں زیتون کے باغ لہلہاتے تھے، جہاں کی صبحیں پرنور تھیں، فضاؤں میں ننھے فرشتوں کی قلقاریاں گونجتی تھیں، جو کبھی امت مسلمہ کا قبلہ اول تھا آج صہیونی شازشوں اور ظلم و جبر کا شکار ہو کر ٹوٹ چکاہے ، بکھر چکا ہے ۔ اک اجڑا ہوا گلستان غزہ جہاں لوگوں کے پاس اپنے پیاروںکو دفنانے کے لئے جگہ ملتی ہے نہ کفن۔
گزشتہ دو برس سے جاری اس انسانی تاریخ کے سفارک ترین قتل عام پہ دنیا کے بڑے بڑے امن کے دعوے دار ملکوں اور انسانیت کا ڈھول پیٹنے والوں کے کانوں پہ جوں تک نہ رینگی مگر ایک بہادر لڑکی کے جذبے نے صمود فلوٹیلا کے نام سے ایک ایسے انسانی عظیم مشن کی بنیاد رکھ دی جس کو تاریخ میں سنہری حروف سے لکھا جائے گا۔
غزہ پر کیا گزری؟
یوں تو کئی دہائیوں سے اہل فلسطین صہیونی جبر و استبدادکا شکار ہیں مگر 7اکتوبر 2023ء سے وہ مسلسل اسرائیلی جارحیت اور نسلی کشی کا نشانہ بن کر رہ گئے ہیں۔ دوبرس کے دوران 67,000سے زائد فلسطینیوںکو شہید کیا جاچکا ہے اور ہزاروں ملبے تلے دبے ہیں۔ان میں 20,000معصوم بچے اور 14,000 خواتین بھی شامل ہیں۔ یعنی پچھلے دو برس سے ہر گھنٹے میں ایک بچے کا ناحق خون بہا کر غزہ پر قبصہ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ہر 33میں سے ایک شخص کو مار کر اہل فلسطین کی نسل کشی کی جا رہی ہے۔
یہ وہ اعداد و شمار ہیں جو دنیا کے سامنے آئے مگر ان ملبوں تلے دبے اور اسرائیلی قید میں شہید ہونے والے نجانے کتنے لوگ ہیں جن کا کوئی ریکارڈ نہیں۔صرف یہ ہی نہیں غزہ میں لوگوں کی بے بسی اور تکالیف کی اس سے بڑھ کر داستانیں ہیں۔ 169,000افراد زخمی ہیں جن میں سے بڑی تعداد عمر بھر کے لئے کسی نہ کسی معذوری کا شکار ہو چکی ہے۔یونیسف کی ایک رپورٹ کے مطابق 3,000سے 4,000بچے ایسے ہیں جو اپنے اعضاء کھو چکے ہیں۔ اور صحت کی سہولیات نا ہونے کے برابر ہیں۔
ہسپتالوں پہ اسرائیلی بموں نے انھیں بھی باقی شہر کی طرح ملبے کا ڈھیر بنا دیا ہے۔ غزہ میں 92فیصد گھر تباہ و برباد ہو چکے ہیں۔گزشتہ دوبرس میں 125صحت کی مراکز کو نشانہ بنایا گیا جس میں 34ہسپتال بھی شامل تھے۔جو بچی کچی سہولیات ہیں وہ بھی ناکافی اور اپنی مدد آپ کے تحت جاری ہیں ۔
اس کا عالم بھی یہ ہے کہ نہ تو آپریشن کرنے کو بنیادی آلات میسر ہیں نا بے ہوشی کی دوا۔ اسرائیلی حملوں میں 1,722صحت کے شعبے سے منسلک افراد کو شہید کر دیا گیا۔اور بیسیوں کی تعداد میں ہسپتالوںسے ڈاکٹروں اور عملے کے لوگوں کو یرغمال بنا لیا گیا۔ ہیلتھ کئیر ورکرز واچ کی جولائی کی رپورٹ کے مطابق صہیونی فوجیوں نے 28معروف فیزیشنز، جن میں 18سینئر سپیشلسٹ شامل تھے انھیں ناجائز حراست میںلے لیا۔ ان میں سرجن، بیہوشی کے ماہر، ماہرین زچہ و بچہ اور چائلڈ شپیشلسٹ بھی شامل تھے۔
سن 2023سے لے کر اب تک صحت کی سہولیات پر790حملے ریکارڈ پر موجود ہیں۔ جن کا مقصد غزہ کے لوگوںکو صحت کی بنیادی سہولیات سے محروم کرنا تھا۔غزہ کی وزارت صحت کے مطابق غزہ ہیومنٹرین فاونڈیشن کی جانب سے امداد کے لئے جانے والے 2600افراد کو مار دیا گیا جبکہ 19000شدید زخمی ہوئے جس کے پیچھے اسرائیلل کی سفارکی سے امداد لینے آنے والوں کو روکنے کی غرض سے لگائی گئی آگ تھی۔ اور کچھ رپورٹوں کے مطابق اسرائیلی سپاہیوں نے کہا کے انھیں اس موقع پر لوگوں کو جمع کر کے آگ لگانے کا حکم ملا تھا۔غزہ میں 89 فیصدپانی اور نکاسی آب کا نظام تباہ و برباد ہو چکا ہے۔آدھی سے زیادہ آبادی روزانہ چھ لیٹر سے بھی کم پانی پہ گزارہ کرنے پر مجبور ہے۔ جبکہ ایمرجنسی سٹینڈرڈزکے مطابق زندہ رہے کے لئے 20لیٹر روزانہ کی بنیاد پر درکار ہوتا ہے۔
صمود فلوٹیلا کا محرک
صمود دراصل عربی لفظ ہے جس کے معنی’استقامت‘ یا ’ مزاحمت‘ کے ہیں۔ فلوٹیلا ہسپانوی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی کشتیوں یا جہازوں کے ایک قافلے کے ہیں۔صمود فلوٹیلا کا تصور جولائی 2025کے دوران فریڈم فلوٹیلا کولیشن ، گلوبل موومنٹ ٹو غزہ اور دیگر مہمات کے نتیجے میں آیا۔
یعنی یہ دنیا بھر سے غزہ کے لوگوں کی مدد کے لئے پانی کے راستے بھیجی جانے والی امداد دراصل مدد کی پکار اور استقامت ومزاحمت کا استعارہ تھی۔ گلوبل صمود فلوٹیلا غزہ پر اسرائیلی قبضے کے غیر قانونی محاصرے کو توڑنے کے لئے بحیرہ روم کے پار چھوٹے جہازوں کا ایک مربوط ، غیر متشدد بحری بیڑا ہے۔
جس میں بین الاقوامی شرکاء کے متنوع اتحاد کو یکجا کر تے ہوئے غزہ کے لوگوں کو خوراک اور ضروریات زندگی کی اشیاء پہنچانے کی کوشش کی گئی۔
اقوام متحدہ ، ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن، یونیسیف اور دیگر تحقیقاتی اداروں کی رپورٹیں اس بات کا ثبوت ہیںکہ غزہ صرف جنگ زدہ علاقہ نہیں ہے بلکہ قافہ زدہ بن چکا ہے۔اعداد و شمار پہ نگاہ ڈالی جائے تو یہ دلخراش حقیقت سامنے آتی ہے کہ گزشتہ چند ماہ کے دوران 440افراد فاقہ کشی اور غذائی قلت کا شکار ہو کر مر گئے اور ان میں147 معصوم بچے بھی تھے۔
ایک دل دہلا دہنے والی رپورٹ کے مطابق تقریباً پندرہ افراد روزانہ بنیادوںپہ خوراک کی عدم دستیابی کے باعث زندگی کی جنگ ہار جاتے ہیں۔غزہ میں بھوک کا راج ہے ماؤں کی چھاتیاں سوکھ چکی ہیں نامولود بچے دودھ کی عدم فراہمی کے باعث تڑپ تڑپ کر مر رہے ہیں۔خواب دیکھنے اور کھلونوں سے کھیلنے والی معصوم آنکھیں اور ہاتھ اپنے پیاروں کے جسموں کے ٹکڑوں کو ڈھونڈنے اور جمع کرنے میں مصروف ہیں۔حاملہ عورتیں غذائی قلت اور بنیادی صحت کی سہولیات کی عدم موجودگی میں مردہ بچے جنتے ہوئے خود بھی جان سے جا رہی ہیں۔
صمود فلوٹیلا کا محرک دراصل اہل فلسطین کی مدد تھا۔ گریٹا نامی سویڈش ایکٹیوسٹ نے دیگر ایکٹیوسٹس کے ساتھ مل کر اس عالمی مہم کا آغاز کیا۔پہلا قافلہ چھوٹے درجنوں جہازوں پر مشتمل تھا جس میں مختلف کارکنان، ڈاکٹروں، انسانیت پررستوں ، جہازرانوں، اور امدادی کارکنوں نے ہسپانوی بندرگاہوں سے 31اگست کو غزہ کی جانب سفر شروع کیا 4ستمبر کو دوسرے مرحلے میں تیونس سے کشتیوںنے اس میں شرکت کی۔چھ براعظموں سے انسانی ہمدردی رکھنے والے وفود نے اس فلوٹیلا میں شرکت کی۔44ممالک سے 50جہازوں پہ سوار وفود اسرائیلی جارحیت اور نسل کشی کے خلاف جدوجہد کا استعارہ بنے ۔
سن 2010سے کئی فلوٹیلا نے پانی کے راستے غزہ میں امداد پہچانے کی کوشش کی اور سب کو اسرائیل نے بین الاقوامی سرحدوں کے قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کامیاب نہیں ہونے دیا۔ دو اکتوبرکو اسرائیلی بحری فوج نے سب امدادی کشتیوں اور سوار افراد کو غیر قانونی طور پر حراست میں لے لیا اور صرف ایک کشتی کسی طرح سے ان کے غصابانہ قبضے سے محفوظ رہنے میں کامیاب ہوئی۔
سویڈن اسرائیل تعلقات
سویڈن اور اسرائیل کے سفارتی و تجارتی تعلقات ہیں اور اسرائیل نے سویڈ ن کے دارلحکومت سٹاک ہولم میں اپنی ایمبیسی قائم کر رکھی ہے جبکہ تل ابیب میں سویڈن کا سفارت خانہ اور اعزازی کونسلیٹ بھی موجود ہیں۔سویڈن کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جنہوںنے اسرائیل کی ریاست کو ابتداء میں ہی تسلیم کرتے ہوئے سفارتی تعلقات کا آغاز کیا تھا۔حیرانی کی بات یہ ہے کہ سویڈن نے سن 2014میں فلسطین کو ایک خود مختار ریاست کے طور پر تسلیم کیا اور سن 2015میں فلسطین کا سفارت خانہ سٹاک ہولم میں کھلا۔سویڈش حکومت نے اپنی شہری کے کی رہائی کے لئے کوئی خاص دلچسپی ظاہر نہ کی لیکن پوری دنیا میں ہونے والے احتجاج نے گریٹا اور دیگر کارکنوںکی رہائی کے لئے عالمی برادری کا زور ڈالنا کارگر ثابت ہوا۔
پاکستان اورگلوبل صمود فلوٹیلا
اسلامی ملک ہونے کے ناطے پاکستان اس وقت فلسطین کے ساتھ اس مشکل گھڑی میں شانہ بشانہ کھڑا ہے۔ پاکستان نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں بھی فلسطین کے حق ِ خودارادیت کے لئے آواز بلند کی اور اسرائیلی وزیر اعظم کی تقریر کا بائیکاٹ کیا۔اس سے قبل بھی پاکستان میں اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا گیا ۔ پھر الخدمت اور دیگر غیر منافع بخش تنظیموںکی جانب سے غزہ میں امدادی سرگرمیاں جاری رہیں۔ سابق سینیٹر مشتاق احمد خان اور دیگر پاکستانی غزہ کی طرف جانے والے گلوبل صمود فلوٹیلا کے قافلے میں سوار تھے، اسرائیلی فورسز نے حملہ کرکے مشتاق احمد سمیت بیشتر افراد کو حراست میں لے لیا تھا۔
پاکستانی حکومت کی جانب سے کیا اقدامات کئے گئے؟
آخری اطلاعات کے مطابق اسرائیلی حکومت نے غزہ تک امداد لے جانے والے گلوبل صمود فلوٹیلا سے گرفتار کیے گئے مزید 456ارکین کو ڈی پورٹ کردیا ۔ تاحال صہیونی ریاست کی قید میں ابھی بھی چھ فلوٹیلا رضاکار موجود ہیں ۔ سابق سینیٹر مشتاق احمد کی اسرائیلی حراست سے رہائی کے معاملے پر دفتر خارجہ نے اہم پیشرفت کرتے ہوئے اردن کے دارالحکومت عمّان میں موجود اپنے سفارت خانے کے ذریعے سابق سینیٹر مشتاق احمد خان کی بحفاظت واپسی کے لیے کوششیں کیں اور وہ 7اکتوبر کو صہیونی قیدسے رہا ہوگئے۔ انھوںنے میڈیا سے بات کرتے ہوئے بتایا کے دوران قید ان پر مظالم ڈھائے گئے اور انھیں باندھ کر رکھاگیا۔
کیا فلوٹیلا کامیاب رہا؟
گلوبل صمود فلوٹیلا میں دنیا کے پنتالیس ممالک سے رضاکاروںنے شرکت کی اور یہ بین الاقوامی میری ٹایمزقوانین کے اندر لیگل ہے۔ اس کے مقابلے میں اسرائیلی مداخلت اور نہتے انسانی بنیادوں پر امداد لے کر جانے والوںکو یرغمال بناتے ہوئے ان پہ ذہنی و جسمانی تشدد کرکے اور بھوکاپیاسا رکھ کر انسانی حقوق کی جو پامالی اسرائیل نے کی وہ دنیا کبھی بھول نہیں پائے گی۔ گریٹا اور ان کے ساتھیو ں نے حراست سے آزاد ہونے کے بعد اسرائیلی مظالم کی جو داستانیں سنائی ہیں اس سے دنیا کے سامنے صہیونی طاقتوں کا بدنما چہرہ کھل کر سامنے آگیا ہے۔
وہ بتاتے ہیں کے ان کے ہاتھوںپیروں کی بیڑیوں سے باندھا گیا انھیں ہر طرح سے محور کیا گیا۔ یہاں تک کے انھیں واش روم سے اپنے حلق کو تر کرنے کے لئے پانی پینا پڑا۔ خصوصاً گریٹا کے اوپر اسرائیلی جھنڈا پھینکا گیا اور اسے چومنے پہ مجبور کیا گیا۔ مسلمان خواتین کے سروں سے حجاب اتار کران کا تقدس پامال کیا گیا۔ انھیں سونے نہ دیتے ہوئے شدید جسمانی و ذہنی ٹارچر کا نشانہ بنایا گیا۔ ان کی تذلیل کی اور نفسیاتی طور پر حراس کیا گیا۔فلوٹیلا کی روح رواں گریٹا کا کہنا ہے کہ یہ حملہ اور ناجائز محاصرہ ہمارے حوصلوںکو کم نہیںکرسکتا ہم فلسطین کے لئے اپنا مشن جاری رکھیں گے۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
غزہ میں فائر بندی کی کھلی خلاف ورزیاں: اسرائیلی فائرنگ سے ایک فلسطینی شہید
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
غزہ میں نام نہاد فائر بندی کے باوجود اسرائیلی فوج کی کارروائیاں مسلسل جاری ہیں ، جنوبی غزہ میں اسرائیلی فائرنگ سے ایک اور فلسطینی نوجوان شہید ہوگیا۔
غزہ طبی حکام کے مطابق یہ واقعہ خان یونس کے مشرقی قصبے بنی سہیلہ میں پیش آیا، جو کہ اسرائیلی زیرِ کنٹرول یلو زون میں شامل ہے، المناسر میڈیکل کمپلیکس نے تصدیق کی کہ متاثرہ شخص جان لیوا گولی لگنے کے باعث موقع پر دم توڑ گیا۔
عینی شاہدین نے بتایا کہ اسی دوران اسرائیلی گن بوٹس نے ساحلی شہر رفح کے کناروں پر شدید فائرنگ کی جبکہ مشرقی خان یونس میں بھی زمینی توپ خانے نے متعدد مقامات کو نشانہ بنایا، یہ حملے بیک وقت کیے گئے جس سے علاقے میں خوف و ہراس پھیل گیا۔
اس سے قبل بھی اسرائیلی فوج نے غزہ سٹی کے شجاعیہ محلے میں رہائشی عمارتوں کو دھماکوں سے اڑا دیا جو فائر بندی معاہدے کی ایک اور کھلی خلاف ورزی ہے، جنوبی غزہ میں بھی مشرقی خان یونس کے علاقوں پر شیلنگ کی گئی، جنہیں فائر بندی کے تحت محفوظ تصور کیا جاتا تھا۔
اقوام متحدہ میں فلسطینی مندوب ریاض منصور نے سلامتی کونسل کو بتایا کہ 10 اکتوبر کو فائر بندی کے نفاذ کے بعد سے اسرائیلی کارروائیوں میں یومیہ کم از کم دو بچے شہید ہو رہے ہیں، گزشتہ ایک ماہ میں ایک ہزار سے زائد فلسطینی ہلاک یا زخمی ہو چکے ہیں۔
غزہ کی وزارتِ صحت نے بھی تصدیق کی ہے کہ فائر بندی کے آغاز سے اب تک 342 فلسطینی شہید اور لگ بھگ 900 زخمی ہوئے،اکتوبر 2023 سے جاری دو سالہ جنگ میں اب تک تقریباً 70 ہزار فلسطینی مارے جا چکے ہیں جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے، جبکہ ایک لاکھ 70 ہزار سے زائد زخمی ہو چکے ہیں۔
خیال رہےکہ حماس کی جانب سے تو جنگ بندی کی مکمل پاسداری کی جارہی ہے لیکن اسرائیل نے اپنی دوغلی پالیسی اپناتے ہوئے 22 سال سے قید فلسطین کے معروف سیاسی رہنما مروان البرغوثی کو رہا کرنے سے انکاری ظاہر کی ہے اور اسرائیل کے متعدد وزیر اپنی انتہا پسندانہ سوچ کے سبب صبح و شام فلسطینی عوام کو دھمکیاں دے رہے ہیں جبکہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی جارحانہ انداز اپناتے ہوئے مسلسل دھمکیاں دے رہے ہیں۔