افغانستان کے بارے میں حقیقت پسندانہ پالیسی
اشاعت کی تاریخ: 16th, October 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251016-03-5
متین فکری
افغانستان اور پاکستان محض ہمسایہ ملک ہی نہیں، اسلام کے مضبوط رشتے میں بندھے ہوئے دو برادر ملک بھی ہیں جن کے تعلقات کی جڑیں بہت گہری ہیں لیکن افسوس حالیہ دنوں میں ان تعلقات میں بہت سی دراڑیں پڑ گئی ہیں۔ یہاں تک کہ دونوں ملک ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہوگئے ہیں۔ ایک دوسرے پر حملے کررہے ہیں اور خون بہا رہے ہیں افسوسناک ہی نہیں انتہائی تشویشناک بھی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس کی ابتدا افغانستان کی طرف سے ہوئی ہے اور پاکستان کو بھی جوابی کارروائی کرنی پڑی ہے۔ افغانستان سے امریکا کے انخلا کے بعد عمومی خیال یہی تھا کہ پاکستان اور افغانستان مل جل کر رہیں گے۔ پاکستان افغانستان کی تعمیر نو اور بحالی و آبادکاری میں مدد دے گا اور افغانستان پاکستان کو دہشت گردی کے عفریت سے نجات دلائے گا۔ پاکستان نے تو افغانستان کی طرف تعاون کا ہاتھ بڑھایا لیکن افغانستان پاکستان کی توقعات پر پورا نہ اُترا۔ ٹی ٹی پی (تحریک طالبان پاکستان) جو قبائلی علاقوں میں بیٹھ کے اندرونی ملک دہشت گردی کررہی تھی جب پاکستان نے اس کے خلاف کارروائی کرکے اسے قبائلی علاقوں سے نکلنے پر مجبور کیا تو اِن لوگوں نے فرار ہو کر افغانستان میں پناہ لے لی، محض پناہ لینا تو ایسا قابل اعتراض نہیں تھا لیکن ان لوگوں نے افغانستان میں بیٹھ کر پاکستان کے خلاف دہشت گردی شروع کردی اور افغانستان میں طالبان حکومت ان کی سرپرستی کرنے لگی۔ پاکستان کے وزرائے خارجہ نے بار بار کابل کا دورہ کیا، افغان حکام سے مذاکرات کیے، انہیں بتایا کہ ٹی ٹی پی ان کے ملک میں بیٹھ کر پاکستان میں دہشت گردی کررہی ہے۔ انہیں دہشت گردی کے ثبوت بھی فراہم کیے گئے لیکن افغان حکومت نے سنی اَن سنی کردی اور ٹی ٹی پی کی سرپرستی جاری رکھی۔ بالآخر پاکستان اِن دہشت گردوں کے خلاف براہِ راست کارروائی کرنے پر مجبور ہوگیا۔
یہ سب کچھ اس وقت ہوا جب افغان وزیر خارجہ بھارت کے دورے پر تھے اور وہاں سے پاکستان کے خلاف بیانات جاری کررہے تھے۔ انہوں نے اس مشترکہ اعلامیہ پر بھی دستخط کیے جس میں مقبوضہ کشمیر کو بھارت کا حصہ قرار دیا گیا ہے، حالانکہ یہی افغانستان ہے جب مقبوضہ کشمیر میں مسلح جدوجہد شروع ہوئی تو کشمیری نوجوان یہاں آکر عسکری تربیت حاصل کیا کرتے تھے اور یہ تاثر عام تھا کہ افغان مجاہدین سوویت یونین سے نجات حاصل کرنے کے بعد مقبوضہ کشمیر کا رُخ کریں گے اور اسے بھارت سے آزاد کرائیں گے۔ اب ایسا کیا ہوا کہ افغانستان ایڑیوں کے بل اُلٹا پلٹ گیا ہے اور اس نے پاکستان کے خلاف محاذ جنگ کھول لیا ہے۔ پاکستان اور بھارت کی حالیہ جھڑپ میں بھی پاکستان کے خلاف اس کا رویہ منفی رہا۔ شاید افغانوں میں وفاداری اور احسان شناسی کی حِس بہت کمزور ہے ورنہ کیا وجہ ہے کہ پاکستان چالیس سال تک ان کی مہمانداری کرتا رہا، سوویت یونین کے حملے کے بعد پچاس لاکھ افغان باشندے اپنا ملک چھوڑنے پر مجبور ہوگئے تھے۔ پاکستان نے اپنی سرحدیں کھول دیں، افغان مہاجرین کا مہمانوں کی طرح استقبال کیا، مہاجر کیمپوں میں بسانے کے بجائے شہری بستیوں میں جگہ دی، انہیں جائداد خریدنے اور کاروبار کرنے کی سہولت دی، اس طرح پاکستان نے انہیں اپنے جسم کا حصہ بنالیا اب افغان حکومت کی حرکتوں کی وجہ سے پاکستان افغان باشندوں کو واپس بھیج رہا ہے تو انہیں محسوس ہورہا ہے کہ وہ دوبارہ مہاجر بن رہے ہیں۔
یہی نہیں بلکہ پاکستان نے سوویت یونین کے خلاف افغان جہاد کو منظم کرنے اور حملہ آور کو افغانستان سے نکالنے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ ہمیں یاد ہے کہ جب سابق سوویت یونین افغانستان میں اپنی پٹھو حکومتوں کے ذریعے کمیونزم کی آبیاری کررہا تھا اور اسلامی جذبے سے سرشار افغان نوجوان اس کے خلاف مسلح جدوجہد کی تیاری کررہے تھے تو قاضی حسین احمد بروئے کار آئے انہوں نے افغان نوجوانوں سے رابطہ کیا انہیں پشاور میں اپنے مکان پر مدعو کیا ان کی دامے درمے قدمے سخنے ہر اعتبار سے مدد کی اور باہمی مشاورت اور صلاح مشورے کے لیے اپنا مکان ان کے حوالے کردیا اور خود اپنی فیملی کے ساتھ دوسری جگہ شفٹ ہوگئے۔ سوویت یونین نے افغانستان پر حملہ کیا تو اس کے مقابلے کے لیے افغان مجاہدین کا گروپ تیار ہوچکا تھا۔ اس کا کریڈٹ براہ راست قاضی حسین احمد کو جاتا ہے۔ وہ بلاشبہ افغان جہاد کے اولین معمار ہیں۔ یہ پاکستان میں بھٹو کا دور تھا انہوں نے بھی گلبدین حکمت یار کو پاکستان آنے کی دعوت دی تھی۔ جنرل ضیا الحق اقتدار پر قابض ہوئے تو انہوں نے سوویت یونین کے خلاف افغان جہاد کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنالیا، امریکا بھی ان کی پشت پر آکھڑا ہوا اس نے افغان مجاہدین کے لیے ڈالروں کی بوری کے منہ کھول دیے اور اسلحے کے ڈھیر ان کے قدموں میں ڈھیر کردیے، پھر مغربی دنیا اور عرب ممالک بھی ان کی مدد کو آگئے اس لیے یہ کہنا کہ افغانوں نے سوویت یونین کو شکست دی، حقیقت واقعہ کے خلاف ہے، پوری دنیا نے ان کا ساتھ دیا اور پاکستان کا کردار اس میں بنیادی رہا۔
جب امریکا نے نائن الیون کے واقعے کے بعد افغان طالبان کی حکومت کو جارحیت کا نشانہ بنایا اور ناٹو ممالک کی افواج کے ساتھ افغانستان پر چڑھ دوڑا تو اگرچہ پاکستان میں برسراقتدار جنرل پرویز مشرف نے امریکا کے آگے سرنڈر کردیا اور پاکستان کی سرزمین افغانستان کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت دے دی، لیکن آئی ایس آئی درپردہ افغان طالبان کی مدد کرتی رہی اور اس نے امریکی جارحیت کو ناکام بنانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ امریکا کو اندازہ تھا کہ پاکستان اس کے ساتھ ڈبل گیم کررہا ہے لیکن اس کا اس کے پاس کوئی علاج نہ تھا۔ آخر بیس سال تک افغانستان میں ہر قسم کا حربہ آزمانے کے بعد امریکا کو بے نیل و مرام افغانستان سے نکلنا پڑا۔ اس نے اپنی شکست کا ذمے دار برملا پاکستان کو قرار دیا۔ کہنے کا مطب یہ ہے کہ پاکستان ہر حال میں افغانستان کے ساتھ کھڑا رہا ہے، اس نے افغانستان کو کبھی بے یار و مددگار نہیں چھوڑا، لیکن شاید احسان شناسی افغانوں کی سرشت میں ہی نہیں ہے انہوں نے پاکستان سے ایسے آنکھیں پھیرلی ہیں جیسے وہ اسے جانتے ہی نہیں۔ وہ پاکستان کے ازلی دشمن بھارت کے ساتھ دوستی گانٹھ رہے ہیں لیکن بھارت کبھی ان کا دوست ثابت نہیں ہوگا اور انہیں منجدھار میں چھوڑ کر چلا جائے گا۔ افغانستان کو بالآخر پاکستان کی طرف پلٹنا پڑے گا کہ یہ اس کا دوست بھی ہے اور بھائی بھی۔ افغانستان کے بارے میں پاکستان کی حقیقت پسندانہ پالیسی کا تقاضا یہی ہے کہ اگر وہ مذاکرات پر آمادہ ہو تو اس سے بامقصد اور نتیجہ خیز مذاکرات کیے جائیں اگر وہ شرانگیزی پر تُلا رہے تو طاقت کے ذریعے اس کا سدباب کیا جائے جیسا کہ پاکستان نے چند روز پہلے کیا۔ وہ یہ شرانگیزی بھارت کی شہ پر کررہا ہے جو پاکستان سے دو تین ماہ پہلے پٹ چکا ہے اور اب اس کی کسر افغانستان کے ذریعے نکالنا چاہتا ہے۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان کشیدگی اور محاذ آرائی بھارت کے مفاد میں تو ہوسکتی ہے ان دونوں ملکوں کے مفاد میں ہرگز نہیں ہے۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: پاکستان کے خلاف اور افغانستان افغانستان میں افغانستان کے سوویت یونین اور پاکستان پاکستان کی پاکستان نے کہ پاکستان پاکستان ا نے افغان انہوں نے ہی نہیں رہے ہیں کے ساتھ لیکن ا ہے اور کے بعد اور اس رہا ہے خلاف ا
پڑھیں:
بھارت اور افغان طالبان کا گٹھ جوڑ بے نقاب، پاکستان پر حملوں کا قوی ثبوت
ریاستی دہشتگردی میں ملوث بھارت کا افغان طالبان کے ساتھ گٹھ جوڑ بے نقاب ہو گیا۔ مودی حکومت پاکستان میں عدم استحکام پیدا کرنے کے لیے ہر حد پار کر رہی ہے، بھارت میں خود مودی کی دوغلی پالیسی پر شدید تنقید جاری ہے۔ بھارت کا افغان طالبان حکومت سے گٹھ جوڑ کھل کر سامنے آ گیا ہے۔ اقوام متحدہ میں افغان سرزمین سے دہشتگردی کے الزامات لگانے والا بھارت، آج انہی طالبان سے ہاتھ ملا رہا ہے۔ افغان وزیر خارجہ کا حالیہ دورہ بھارت اور اس کے بعد پاکستان پر حملہ اس دوغلی پالیسی کا واضح ثبوت ہے۔مودی سرکار کی اس مفاد پرستانہ روش پر خود بھارت کے اندر سے آوازیں بلند ہو رہی ہیں۔ سابق وزیر اعلیٰ مقبوضہ کشمیر محبوبہ مفتی نے سوال اٹھایا کہ طالبان کو کل تک دہشت گرد کہنے والے آج ان کے سامنے ہاتھ جوڑ کر کیوں کھڑے ہیں؟ بھارت ایک طرف مسلمانوں پر ظلم کرتا ہے، دوسری جانب انہی طالبان سے مذاکرات کر رہا ہے۔ یہ رویہ نہ صرف اخلاقی پستی کا عکاس ہے بلکہ پاکستان میں پراکسی جنگ کے لیے سہولت کاری کی سازش بھی ہے۔