’’دل ڈھونڈتا ہے پھر وہی‘‘
اشاعت کی تاریخ: 16th, October 2025 GMT
معیاری پروگرامنگ کے لیے اپنی جدوجہد اور بہترین کارکردگی کا عزم لیے ’’ایکسپریس انٹرٹینمنٹ‘‘ ایک بار پھر اپنی نئی حکمتِ عملی کے ساتھ منفرد اور نیا مواد پیش کرنے جا رہا ہے, تاکہ ناظرین کے لیے تازگی اور انفرادیت کے حامل پروگرام پیش کیے جاسکیں۔ ’’ایکسپریس انٹرٹینمنٹ‘‘ طویل عرصے سے پاکستان کی ٹی وی انڈسٹری میں اپنا ایک کلیدی اور نمایاں کردار ادا کر رہا ہے، جہاں اس نے مسلسل اور ایک کے بعد ایک منفرد اور حقیقی تصورات کو پیش کیا ہے۔
اپنے پروگراموں میں تنوع لانے کے لیے ’’ایکسپریس انٹرٹینمنٹ‘‘ نہ صرف تجربہ کار ڈراما ٹیم کے ساتھ کام کرتا ہے، بلکہ ابھرتے ہوئے نئے پروڈیوسرز کو بھی اپنی ٹیم میں شامل کرتا ہے، جو جوش و جذبے کے ساتھ تخلیقی چیلینجوں کو قبول کرتے ہیں اور اپنی پوری توانائی کو بہترین پروڈکشن میں صرف کرتے ہیں۔
اسی سلسلے میں، ایکسپریس انٹرٹینمنٹ نے اپنے نئے آنے والے ڈرامے ’’دل ڈھونڈتا ہے پھر وہی‘‘ کی رونمائی کے موقع پر ایک خصوصی بلاگرز میٹ اپ کا انعقاد کیا گیا۔ اس تقریب میں پاکستان کی ڈیجیٹل کمیونٹی کے ممتاز افراد نے شرکت کی، تاکہ وہ ’’ایکسپریس انٹرٹینمنٹ‘‘ کے بدلتی ہوئی پروگرامنگ وژن سے آگاہی حاصل کر سکیں اور اس طاقت وَر اور ایک نئی پروڈکشن کا ابتدائی جائزہ لے سکیں۔
’ایکسپریس انٹرٹینمنٹ‘ جو کہ اپنی تخلیقی انفرادیت اور اثرانگیز کہانیوں کی مسلسل فراہمی کے لیے جانا جاتا ہے، پاکستان میں ٹی وی کے مواد کے معیار کو مزید بلند کرنے کے لیے پُرعزم ہے۔ یہ ادارہ تخلیق، تنوع اور معیاری پیش کش پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے، چینل کی نئی پروگرامنگ لائن اپ ناظرین کے لیے ایسی کہانیاں پیش کرے گا جو خلوص اور احتیاط سے تخلیق کی گئی ہیں۔
اسی وژن کا حصہ، ’دل ڈھونڈتا ہے پھر وہی‘ ایک متاثر کن نیا ڈراما ہے، جو جذباتی کہانی اور سنیماٹک مہارت کا ایک حسین امتزاج ہے۔ ’’الفا پروڈکشنز‘‘ کے بینر تلے تخلیق کردہ یہ پروجیکٹ اسد صدیقی کے تخلیقی جذبے کی نمائندگی کرتا ہے، جنہوں نے اس کہانی کو نہایت باریکی سے اور گہرے جذبات کے ساتھ پیش کیا ہے۔
اس ڈرامے کی کہانی رِدا بلال نے تحریر کی ہے، جو اپنی حساس اور معاشرتی موضوعات پر مبنی تحریروں کے لیے معروف ہیں۔ یہ ڈراما علی اور رمشا کی زندگی پر مبنی ہے۔ دو پیار کرنے والے، جو محبت کے جذبے اور کچھ المیوں میں بندھے ہوئے ہیں۔ جب علی کو ابتدائی الزائمر کی تشخیص ہوتی ہے، تو ان کے رشتے کو ایک انتہائی سخت آزمائش کا سامنا ہوتا ہے۔ کہانی اس وقت کُھلتی ہے جب رمشا اپنی محبت کو بچانے کی کوشش کرتی ہے، حالاں کہ علی کی یادداشت آہستہ آہستہ مٹنے لگتی ہے۔
یہ کہانی محبت، برداشت اور یادداشت کی حدود کو تلاش کرتی ہے اور یہ سوال اٹھاتی ہے کہ کیا محبت اُس وقت بھی زندہ رہتی ہے، جب دل بھولنے لگے؟
ڈرامے کی ہدایت کاری عدنان سرور نے کی ہے، جن کی فلمی باریکی اور جذباتی کہانی گوئی اس ڈرامے میں بھی نمایاں ہے۔ ڈرامے میں زارا نور عباس اور زاہد احمد نے مرکزی کردار ادا کیے ہیں، جب کہ روبینہ اشرف، فیضان شیخ، محمد احمد، اور نوری گلوانی جیسے نام ور فن کار معاون کرداروں میں شامل ہیں۔ ہر اداکار نے اپنی اداکاری سے اس کہانی میں سچائی اور گرم جوشی کا رنگ بھر دیا ہے، جو انسانی رشتوں کی نرمی اور خوب صورتی کو اجاگر کرتی ہے۔
ڈرامے کا ساؤنڈ ٹریک بھی ناظرین کے لیے جذباتی گہرائی میں اضافہ کرتا ہے، جس میں مومن خان مومن کا لازوال کلام ’وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا‘ شامل ہے، جسے ذیشان علی نے نہایت دل کش انداز میں گایا ہے۔ یہ روح کو چھو لینے والا نغمہ ڈرامے کے جذباتی مزاج کے ساتھ ہم آہنگ ہوکر ہر منظر کو محبت اور تڑپ کی عکاسی میں بدل دیتا ہے۔
ایکسپریس انٹرٹینمنٹ اس حقیقت کو تسلیم کرتا ہے کہ پاکستان کے ڈیجیٹل تخلیق کار جدید ٹی وی مناظر کی تشکیل میں کلیدی کردار ادا کر رہے ہیں۔ ان کی شمولیت اور آرا نہ صرف مؤثر مواد کو تقویت دیتی ہیں بلکہ چینلز کو ایسی تخلیقات پیش کرنے کی راہ دکھاتی ہیں جو آج کے ناظرین کے دلوں کو چھو جائیں۔
اس بلاگرز میٹ اپ کے ذریعے، ایکسپریس انٹرٹینمنٹ نے تخلیقی مکالمے کے فروغ، معیاری پروڈکشن کے جشن، اور ناظرین سے مضبوط تعلقات کے قیام کے لیے اپنی وابستگی کا عزم دہرایا۔ ’’دل ڈھونڈتا ہے پھر وہی‘‘ کے ذریعے، یہ چینل کہانی گوئی کی نئی تعریف متعارف کروانے کے سفر پر گام زن ہے، ایک ناقابلِ فراموش کہانی کے ساتھ۔
TagsShowbiz News Urdu.
ذریعہ: Al Qamar Online
کلیدی لفظ: ایکسپریس انٹرٹینمنٹ ناظرین کے کے ساتھ کرتا ہے کے لیے
پڑھیں:
توہم پرست قیادت
دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ قوموں کی تقدیر جذباتی نعروں، جھوٹے وعدوں یا وقتی مقبولیت سے نہیں بدلتی۔ قومیں تب اُبھرتی ہیں جب وہ عقل، اخلاق، علم اور تربیت کے راستے پر چلتی ہیں۔ یہی وہ بنیادی نکتہ ہے جسے مشہور برطانوی فلاسفر’انتھونی کلیفوڑ گریلنگ‘ اپنی کتاب (The Meaning of Things) میں بار بار دہراتے ہیں کہ انسان کی اصل عظمت اس کے علم و استدلال اور اخلاقی بصیرت میں پوشیدہ ہے، نہ کہ اُن چرب زبانی کرنے والے حکمرانوں میں جنہیں جھوٹی دیانت اور مصنوعی عظمت کا خول پہنا کر عوام کے سامنے پیش کر دیا جاتا ہے۔
فکری غلامی، توہمات، جادو، اور غیر مرئی سہاروں کا تصور انسان کو اس کی ذہنی آزادی سے محروم کر دیتا ہے۔ گریلنگ لکھتے ہیں:’جب انسان دلیل کی روشنی چھوڑ دیتا ہے، وہ غیر مرئی سہاروں کے اندھیروں میں بھٹکنے لگتا ہے اور قومیں اس وقت پستی کا شکار ہوتی ہیں جب فیصلے عقل اور ثبوت کے بغیر کیے جائیں۔‘
جذباتیت، نفرت، شدت پسندی اور مذہبی جنون نے پہلے ہی معاشرے کو کھوکھلا کر دیا تھا؛ اس پر مستزاد یہ کہ توہم پرستی اور غیر مرئی طاقتوں پر بھروسے نے ہمیں اُن تہذیبوں سے بھی نیچے گرا دیا جن کی بنیادیں بت پرستی پر قائم تھیں۔
دی اکانومسٹ کی حالیہ رپورٹ میں عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی سے متعلق بعض روحانی اثرات اور ماورائی مداخلتوں کے الزامات زیرِ بحث آئے۔ ان دعوؤں کی صحت سے قطع نظر، اصل مسئلہ کچھ اور ہے، ’کیا ہماری سیاست دلیل کے مینار پر کھڑی ہے یا اَن دیکھے سائے اور توہمات اس کے ستون ہیں؟۔‘ یہ سوال محض شخصیات کا نہیں، بلکہ ہمارے اجتماعی سیاسی ذہن کا آئینہ ہے۔
گریلنگ کے مطابق ’توہم پرستی انسان کی وہ لغزش ہے جس میں انسان اپنے خوف، خواہش اور اضطراب کو ’حقیقت‘ سمجھنے لگتا ہے۔ جادو ٹونا، عملیات، غیبی اشارے، خواب اور دعائیں وغیرہ، یہ سب وہ ذہنی پناہ گاہیں ہیں جہاں پر قوم اپنی ذمہ داریوں کے بوجھ سے بھاگ کر آرام تلاش کرتی ہے۔
مگر تاریخ بتاتی ہے کہ قومیں کبھی ان پناہ گاہوں میں زندہ نہیں رہ سکتیں اور اگر کوئی قوم ایسا کرے گی تو پاتال کی گہرائیوں میں گر کر اپنا نام و نشان مٹا دے گی۔ جب کسی ملک کی سیاست غیر مرئی تصورات کے سہارے چلنے لگے تو فیصلے انسانوں کی بنیادی ضروریات، اور میرٹ کے بجائے خوابوں اور خوفوں سے تشکیل پاتے ہیں۔گریلنگ کے نزدیک یہ محض غیر سائنسی روش نہیں، بلکہ ایک اخلاقی اور سماجی کمزوری کی علامت ہے۔
پاکستانی سیاست کا ایک دیرینہ زخم شخصیت پرستی ہے، اور یہ وہ گورکن ہے جو سوال کی قبر کھود کر اسے زندہ دفن کر دیتا ہے، پھرافراد نظریات اور اصولوں سے بڑے ہو جاتے ہیں، اور ایک وقت آتا ہے جب جاہل عقیدت مندوں کا جمِ غفیر کسی نااہل انسان کو کندھوں پر بٹھا کر اُسے بُت بنا دیتا ہے۔ایک ایسا بت جس کے گرد رسومات ادا ہوتی ہیں اور جس پر تنقید ’گستاخی‘ سمجھی جاتی ہے۔
گریلنگ اسی کیفیت کے متعلق خبردار کرتے ہیں: ’جب کوئی فرد اصولوں سے بڑا ہو جائے تو قومیں اپنی سوچ گروی رکھ کر محض بت کی پیروی میں زندگی گزارنے لگتی ہیں اور چوہوں کی طرح اندھیری سرنگ میں سانسیں لے کر خوش ہوتی ہیں۔‘ یہ وہ لمحہ ہوتا ہے جب آزادی آخری سانس لیتی ہے، کیونکہ جہاں رہنما پر تنقید جرم بن جائے وہاں شعور کا چراغ بجھ جاتا ہے۔
ہمیں بتایا گیا کہ ہر 5 سال بعد ووٹ ڈالنا اور گنتی کرنا جمہوریت ہے، حالانکہ جمہوریت کا اصل مقصد سوال اٹھانے کی آزادی ہے۔ مگر ہماری قوم سوال کرنے کے بجائے رہنماؤں کی ہر بات کو حرفِ آخر سمجھنے لگتی ہے اور جماعتیں نظریاتی تنظیموں سے ہٹ کر فرقوں میں بدل جاتی ہیں۔ ’ہم سچے، باقی سب باطل‘ کا نعرہ جمہوریت کے دروازے کو اندر سے بند کردیتا ہے۔
دی اکانومسٹ کی رپورٹ میں جو بھی الزامات سامنے آئے، چاہے وہ روحانی رہنمائی سے متعلق ہوں، جادو ٹونے، عملیات یا غیبی اشاروں سے۔ ریاست کا ہر فیصلہ انسانی جانوں، معیشت اور اجتماعی مستقبل کو بدلتا ہے اور یہ وہ سوال ہے جو آج بھی اپنی جگہ کھڑا ہمارا منہ چڑا رہا ہے: ’کیا ہم ایسی ریاست کو قبول کر سکتے ہیں، جہاں سیاسی فیصلے عمل، عقل، دانش، لیاقت اور ثبوتوں کے بجائے توہمات، قرعہ اندازیوں اور جنات کے سہارے نکلیں؟۔‘
ماضی کے یہی وہ فیصلے تھے جو ماورائی ترجیحات اور غیبی خواہشات کو مدنظر رکھے کر کیے گئے اور یہ اخلاقی جرم بن کر اب سامنے آ رہے ہیں۔ کیونکہ ہمارے حکمرانوں نے اپنی اپنی ذمہ داری دلیل کے بجائے کسی غیبی سہارے کو سونپ رکھی تھی۔
گریلنگ کا قول یہاں پر ہماری رہنمائی کرتا ہے: ’انسان جب اپنی عقل سے دستبردار ہوتا ہے، تو وہ اپنی آزادی سے بھی دستبردار ہوچکا ہوتا ہے۔‘ اور یہی وہ نکتہ ہے جس پر آج ہمیں فیصلہ کرنا ہے: کیا ہم وہ قوم بننا چاہتے ہیں جس کا رہبر عقل ہو؟ یا وہ قوم جو جذبات، خوف، خواب، نفرت اور توہمات کے سائے میں بھٹکتی رہے؟
ہمارا مستقبل اس دن روشن ہوگا جب ہم بڑی سے بڑی سوکالڈ مذہبی، سماجی، سیاسی و عسکری شخصیت کو اصولوں کے تابع کر دیں گے۔ سوال کو جرم نہیں اپنا حق سمجھیں گے۔ سیاست کو مذہب اور روحانی سہاروں سے جدا کرکے فیصلوں کو علم و شواہد کے حوالے کر دیں گے۔ تبھی ہم اس دنیا میں سر اٹھا کر جی سکیں گے۔
آج بھی ہمارے ہاتھ میں عقل و شعور کا وہ چراغ موجود ہے جسے گریلنگ انسانی وقار کا درجہ دیتا ہے، مگر شرط صرف یہ ہے کہ ہم اس چراغ کو اپنی ہتھیلی پر اٹھائیں، اسے بجھنے نہ دیں، اور اس کی روشنی میں ہر فیصلے کو جانچنے اور پرکھنے کی کوشش کریں۔
پاکستان نہ توہمات کی بستی ہے، اور نہ ہی الف لیلوی داستان ہے، بلکہ یہ 25 کروڑ زندہ انسانوں کا وطن ہے۔ہمارے وطن کی تقدیر دلیل سے بدلے گی، نہ کسی غیر مرئی سہاروں سے۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں