حفظان صحت پر کوئی سمجھوتا نہیں کیا جائیگا،ڈاکٹڑ اسد جہانگیر
اشاعت کی تاریخ: 16th, October 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251017-2-2
حیدرآباد( اسٹاف رپورٹر)سندھ فوڈ اتھارٹی حیدراباد کے ڈپٹی ڈائریکٹر ڈاکٹر اسد جہانگیر نے اپنے دفتر واقع جی او ار کالونی میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ فوڈ اتھارٹی کسی کے کاروبار کو نقصان پہنچانا نہیں چاہتی تاہم عوام کی صحت اور معیار پر کوئی سمجھوتا نہیں ہوگا غیر معیاری اشیا فروخت کرنے والوں کے ساتھ کوئی رعایت برتی نہیں جائیگی کاروباری حضرات از خود معیار کو بہتر بنانے پر توجہ دیں۔ ڈاکٹر اسد جہانگیر نے کہاکہ انہوں نے اپنی تعیناتی کے ایک ماہ کے دوران حیدرآباد کے ایک بڑے ہوٹل سمیت 44 کارروائیاں میریٹ پر کی ہیں جن پر26 لاکھ 72 ہزارروپے جرمانہ عائد کیا گیا اور اب تک 27 لائسنس کی انہوں نے سالانہ تجدید کی ہے تاجربرادری کو لائسنس کا اجرا کیا جائے گا جرمانے کے حامل افراد اپنی اصلاح کرلیں تو جرمانہ معاف بھی کیا جاسکتا ہے حفظان صحت پر کوئی کمپرو مائز نہیں کیا جائے گا ۔ڈاکٹر اسد جہانگیر نے کہاکہ سندھ فوڈ اتھارٹی سے جو ماضی میں شکایت رہی ہیں انہیں ایڈریس کیا جارہا ہے ہم فوڈ اتھارٹی کو کرپشن فری کرنا چاہتے ہیں افسر یا عملے کا کوئی فرد کرپشن میں ملوث ہواتو انہیں براہ راست اطلاع کریں ہر جگہ کالی بھیڑیں موجود ہوتی ہیں فوڈ اتھارٹی میں کسی قسم کی کرپشن اور کاروباری حضرات کے ساتھ زیادتی کو برداشت نہیں کیا جائیگا اس ضمن میں وزیر اعلیٰ سندھ وزیر خوراک اور ڈائریکٹر جنرل کی انہیں سخت ہدایات ہیں کہ حیدرآباد کے عوام کو معیاری اشیا فراہم کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی جائے۔ ڈاکٹر اسد جہانگیر نے کہاکہ ان پر کسی قسم کا کوئی سیاسی دباؤ نہیں ہے انہیں حیدرآباد کی تاجر برادری اور ادارے کی مکمل حمایت حاصل ہے ۔ڈاکٹر اسد جہانگیر نے کہاکہ شہر میں غیر معیاری دودھ کی فروخت کو روکنے کے لیے شہر کے داخلی راستوں پر ناکے قائم کیے جائیں گے جہاں دودھ کا معیار چیک کیا جائے گا۔ ڈاکٹر اسد جہانگیر نے کہاکہ تعیناتی کے بعد ان پر بھی الزامات لگائے گئے سوشل میڈیا پر منفی کردار ادا کرنے والوں کو ایکسپوز کریں گے ۔ڈاکٹر اسد جہانگیرنے کہاکہ اس کوتاہی کو ہم تسلیم کرتے ہیں کہ حیدرآباد کے عوام اور کاروباری حضرات کو مؤثر آگاہی فراہم نہ کرسکے مستقبل قریب میں چیمبرز اور بڑی تاجر انجمنوں کے ساتھ آگاہی سیمینار منعقد کیے جائیں گے تاکہ شہریوں کو معیاری اشیا کے استعمال کے بارے میں آگاہی دی جاسکے اس کے لیے سندھ فوڈ اتھارٹی کو میڈیا کا تعاون درکار ہوگا تاہم مسائل کے حل کے لیے ان کا دفتر صبح 9 بجے سے رات 8 بجے تک کھلا ہوا ہے۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: فوڈ اتھارٹی باد کے
پڑھیں:
ڈی جی آئی ایس پی آر کے خیالات
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251201-03-2
یہ خطہ اپنے جغرافیے، تاریخ اور سیاسی حرکیات کے باعث ہمیشہ عالمی طاقتوں کی دلچسپی کا مرکز رہا ہے، یہی وجہ ہے کہ یہاں کے حالات کبھی یک سمت نہیں رہے۔ پاکستان گزشتہ دو دہائیوں میں دہشت گردی کے خلاف ایک طویل جنگ لڑ چکا ہے اور اب بھی لڑ رہا ہے۔ ان حالات میں پاک فوج کے شعبۂ تعلقاتِ عامہ کے ترجمان لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چودھری کی جانب سے سینئر صحافیوں کو ملکی سلامتی کی صورتحال پر بریفنگ دی گئی ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ افغانستان کی سرزمین کا پاکستان کے خلاف استعمال ہونا ایک تلخ مگر کھلی حقیقت ہے، جسے نظر انداز کرنا قومی مفاد کے منافی ہوگا، مگر اس کے پیچھے وہ کچھ بھی ہے جس کا کہیں ذکر نہیں ہے گزشتہ برسوں میں افغان طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد یہ امید کی جارہی تھی کہ اب کم از کم پاکستان کی سلامتی کو لاحق خطرات کم ہوں گے، لیکن عملی صورت حال اس کے برعکس دکھائی دیتی ہے۔ طالبان حکومت کا یہ مؤقف کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے عناصر ان کے ’’مہمان‘‘ ہیں اور ہجرت کرکے افغانستان آئے ہیں، کسی منطق یا اصول کے تحت درست نہیں ٹھیرتا۔ اس میں کوئی دو بات نہیں کہ مہمان وہ ہوتے ہیں جو میزبان ملک کے قوانین کا احترام کریں، اس کے امن کو خطرے میں نہ ڈالیں اور ہتھیار اٹھاکر ہمسایہ ملک میں داخل نہ ہوں۔ اگر یہ لوگ پاکستانی ہیں تو پاکستان کا حق ہے کہ انہیں قانون کے مطابق اس کے حوالے کیا جائے تاکہ عوام کے خون سے کھیلنے والے عناصر کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جا سکے۔ لیکن پاکستان کی طرف سے بھی جس قسم کی زبان استعمال کی جارہی ہے وہ ایسا لگتا ہے کوئی ایک خاص حکمت عملی کے تحت افغان قیادت کو پاکستان سے متفر کرنے کی کوشش کررہا ہے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے سینئر صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ یہ بھی ایک افسوسناک حقیقت ہے کہ امریکا اور ناٹو افواج نے افغانستان سے انخلا کے وقت جو اسلحہ وہاں چھوڑا، وہ آج دہشت گرد گروہوں کے پاس ہے۔ 7 ارب 20 کروڑ ڈالر کا یہ جدید اسلحہ پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں استعمال ہو رہا ہے۔ اس اسلحے کے ذریعے پاکستان کے عوام اور سیکورٹی فورسز کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ یہ معاملہ محض کسی ایک تنظیم یا چند عناصر تک محدود نہیں بلکہ اس کے پیچھے ایک منظم نیٹ ورک ہے جو افغانستان کی سرزمین سے کام کرتا ہے۔ ڈی جی کے مطابق یہاں یہ بات قابل ِ غور ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان بارڈر مینجمنٹ دنیا کے دیگر ملکوں کی طرح مشترکہ ذمے داری ہونی چاہیے، لیکن موجودہ حالات میں طالبان حکومت اس ذمے داری سے پہلو تہی کرتی نظر آتی ہے۔ نہ صرف بارڈر پر مؤثر نگرانی کی کمی ہے بلکہ دہشت گرد عناصر کو کسی نہ کسی درجے کی سہولت کاری بھی میسر آتی دکھائی دیتی ہے۔ پاکستان نے متعدد بار افغان حکام کو دہشت گردوں کے مراکز، ان کی قیادت، مالیاتی ذرائع اور حملوں کے شواہد پیش کیے، جو نہ صرف اقوامِ متحدہ بلکہ عالمی ثالثی اداروں کے علم میں بھی لائے گئے۔ پاکستان نے یہ بھی کہا کہ اگر ایک قابل ِ تصدیق میکانزم تشکیل پاتا ہے اور اس میں کسی تیسرے فریق کی شمولیت ضروری ہو تو پاکستان کو اس پر کوئی اعتراض نہیں، کیونکہ مقصد صرف ایک ہے اور وہ دہشت گردی کا خاتمہ ہے۔
اس سارے منظر نامے میں اور ڈی آئی ایس پی آر کی بریفنگ میں یہ بات بھی اہم ہے کہ ایک دوسرے کے خلاف نہیں لڑنا چاہیے۔ مسلمانوں کو باہمی دشمنی میں مبتلا کرنا سامراجی طاقتوں کا پرانا طریقہ ہے۔ خطے کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ جب بھی مسلمانوں نے اندرونی اختلافات کو ہوا دی، بیرونی قوتوں نے اس کا فائدہ اٹھایا۔ پاکستان اور افغانستان دو مسلمان، ہمسایہ اور تاریخی رشتوں میں جڑے ہوئے ممالک ہیں۔ ان کے درمیان بداعتمادی بڑھانا، انہیں ایک دوسرے کے خلاف کھڑا کرنا، یا غلط فہمیاں پیدا کرنا بیرونی قوتوں کا مفاد ہے اور وہ اس کام میں برسوں سے لگے ہوے ہیں، اسی تناظر میں بھارت کا کردار بھی سامنے آتا ہے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے بجا طور پر کہا کہ بھارت کبھی مسلمانوں کا خیر خواہ نہیں ہو سکتا۔ یہی بات افغان طالبان کے علم میں ہونا ضروری ہے کہ بھارت نہ تو افغانستان کے عوام کا دوست ہے اور نہ ہی پاکستان کے لیے کسی مثبت کردار کا خواہاں ہے۔ بھارت کا مقصد ہمیشہ خطے میں انتشار کو بڑھانا اور پاکستان کو عدم استحکام کی طرف دھکیلنا رہا ہے۔ اس کے لیے کبھی پروپیگنڈا، کبھی دہشت گرد عناصر کی مالی معاونت اور کبھی سفارتی محاذ پر پاکستان کو نشانہ بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ افغان طالبان اگر سمجھتے ہیں کہ بھارت ان کا سچا ساتھی ہے، تو یہ ان کی تاریخ فہمی کی غلطی ہے۔ بھارت کبھی نہ افغانستان کے مزاحمتی گروہوں کا دوست رہا ہے، نہ آج ہو سکتا ہے، اور نہ مستقبل میں ہوگا۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے اس طرف بھی اشارہ کیا کہ بھارت کی خود فریبی بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ بھارتی آرمی چیف کی جانب سے بعض آپریشنز کو ’’ٹریلر‘‘ قرار دینا حقیقت سے منہ موڑنے کے مترادف ہے۔ یہ ٹھیک کہ پاکستان کا مؤقف واضح ہے کہ ہماری آزادی اور خودمختاری پر کوئی سمجھوتا نہیں ہو سکتا۔ ہم نے قربانیاں اس لیے نہیں دیں کہ کوئی دہشت گرد گروہ، کوئی بیرونی طاقت یا کوئی منفی نیٹ ورک ہمارے اندر انتشار پھیلائے۔ لیکن یہ بات سمجھنے کی ہے کہ اگر پاکستان اور افغانستان میں کشیدگی بڑھتی ہے تو اس کا نقصان زیادہ پاکستان کو ہی ہوگا جذبات کی باتیں اپنی جگہ لیکن ایک مکار دشمن کے ساتھ دوسرا دشمن پیدا کرنا کہیں کی عقل مندی نہیں ہے، پاکستان اور افغانستان دونوں کے عوام امن چاہتے ہیں، ترقی چاہتے ہیں، خوشحالی چاہتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے ضروری ہے کہ دونوں ممالک دہشت گردی کے خلاف مشترکہ لائحہ عمل طے کریں۔ ایک دوسرے پر الزام تراشی ترک کریں، غلط فہمیوں کو کم کریں اور اس خطے کو مزید کسی پراکسی جنگ کا میدان نہ بننے دیں۔ یہ وقت اس بات کا ہے کہ ہمسایہ ممالک حقائق کا سامنا کریں۔ امن صرف خواہش سے نہیں بلکہ عملی اقدامات، اعتماد سازی اور مشترکہ کوششوں سے قائم ہوتا ہے۔ پاکستان نے ہمیشہ افغان عوام کے لیے خیر خواہی کا کردار ادا کیا ہے اور آئندہ بھی کرے گا، لیکن کسی بھی صورت دہشت گردی کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔ خطہ اس وقت نازک موڑ پر کھڑا ہے۔ یہ فیصلہ اب ہم سب نے مل کر کرنا ہے کہ ہمیں انتشار کی طرف جانا ہے یا امن و استحکام کی طرف۔ اس وقت امن، استحکام، باہمی احترام اور مشترکہ ذمے داری۔ یہی راستہ خطے کے مستقبل کی ضمانت ہے۔