Jasarat News:
2025-10-18@17:41:39 GMT

سیلاب کی آفت

اشاعت کی تاریخ: 18th, October 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

اس سال سیلاب کی آفت نے پاکستان کو ہلاکر رکھ دیا ہے۔ اس سے پہلے 2022ء میں سندھ میں غیر معمولی سیلاب آیا تھا‘ مگر موجودہ سیلاب پورے پاکستان پر محیط رہا ہے۔ یہ قومی المیہ ہے اور قومی المیوں اور سانحات کا مقابلہ قومیں مل جل کر کرتی ہیں‘ لہٰذا اسے صوبائی تناظْر کے بجائے قومی تناظر میں دیکھا جائے۔ ہاں! سیلاب کا مقابلہ کرنے یا سیلاب کی آفت سے عوام کا ممکن حد تک تحفظ کرنے میں صوبائی حکومتوں کی کارکردگی کا تقابلی جائزہ لیا جا سکتا ہے اور لیا جانا چاہیے‘ کیونکہ ہر صوبے کی حکومت اپنی کارکردگی کے اعتبار سے عوام کے سامنے جوابدہ ہے۔ جب ہم قومی آفتوں کو بھی صوبائی عصبیت کی نظر سے دیکھتے ہیں تو پھر ہم اپنی خامیوں اور کوتاہیوں کا بھی دفاع کرنے لگ جاتے ہیں‘ اس سے کارکردگی میں بہتری کے امکانات معدوم ہو جاتے ہیں۔ حدیث پاک میں ہے: ’’رسول اللہ سے دریافت کیا گیا: یا رسول اللہ! ایک شخص اپنی قوم سے محبت کرتا ہے‘ کیا یہ عصبیت ہے‘ آپؐ نے فرمایا: نہیں‘ بلکہ عصبیت یہ ہے کہ ایک شخص ظلم میں اپنی قوم کا مددگار بن جائے‘‘۔ (ابن ماجہ) مزید یہ کہ موسمی ماہرین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ عالمی سطح پر ماحولیاتی تبدیلیوں کے سبب درجہ ٔ حرارت بڑھ رہا ہے‘ اس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر برفانی تودوں کے پگھلنے کے سبب بڑے بڑے سیلاب آ سکتے ہیں اوراس کے نتیجے میں خدانخواستہ ناقابل ِ تصور تباہی اور بربادی آ سکتی ہے۔ قرآنِ کریم میں ہے: ’’خشکی اور تری میں لوگوں کے اپنے کرتوتوں کے سبب فساد برپا ہوگیا ہے تاکہ اللہ انہیں اْن کے اْن بعض کرتوتوں کا مزہ چکھائے شاید کہ وہ (سرکشی سے) باز آ جائیں‘‘ (الروم: 41) (2) ’’اور اللہ نے ایک بستی کی مثال بیان فرمائی جو (ہر لحاظ سے) امن واطمینان سے تھی‘ ہر جگہ سے اْسے کشادہ روزی آتی تھی‘ پھر اس کے رہنے والوں نے اللہ کی نعمتوں کی ناشکری کی تو اللہ نے اْن کے کرتوتوں کے سبب اْن کو بھوک اور خوف کے لباس کا مزہ چکھایا‘‘۔ (النحل: 112)

قدرتی آفات آنے کی دو صورتیں ہوتی ہیں: ایک اللہ تعالیٰ کی حکمت کے تحت اْس کے

تکوینی نظام میں تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں‘ نِت نئے اسباب پیدا ہوتے ہیں اور اْن کے نتیجے میں آفات‘ وبائیں اور سیلاب آتے ہیں‘ یعنی ان میں بظاہر بندوں کے کسی قصور کا دخل نہیں ہوتا‘ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تنبیہات ہوتی ہیں‘ آزمائشیں ہوتی ہیں یا قیامت کی یاد دہانی کے مناظر ہوتے ہیں۔ دوسرا ان حالات کے نمودار ہونے میں بندوں کی اپنی کوتاہیوں کا بھی بڑا دخل ہوتا ہے۔ عالمی ماہرین کے مطابق اس وقت انسانیت اس دوسری صورتحال سے دوچار ہے‘ جدید صنعتی انقلاب کے نتیجے میں طرح طرح کی ضرر رساں گیسیں پیدا ہو رہی ہیں‘ جو قدرتی ماحول میں تبدیلیاں رونما ہونے کا سبب بنتی ہیں۔ ماہرین کے مطابق اوزون ایک گیس ہے جو تین آکسیجن ایٹمز پر مشتمل ہوتی ہے‘ یہ زمین کے ماحول میں قدرتی طور پر پائی جاتی ہے اور زمین کو سورج کی نقصان دہ شعاعوں سے بچانے کا سبب بنتی ہے۔ اوزون کی سب سے زیادہ مقدار زمین کے ’’کْرۂ ہوائی‘‘ نامی حصے میں موجود ہوتی ہے۔ یہ زمین سے اوپر تقریباً 10 سے 50 کلومیٹر کی بلندی پر خلا میں واقع ہے‘ اس تہہ کو ’’اوزون لیئر‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ سورج کی اْن الٹرا وائلٹ شعاعوں کو جذب کرتی ہے جو انسانوں میں جلد کے کینسر‘ آنکھوں کے موتیا بند‘ فضائی آلودگی‘ سانس اور دمے کے مسائل اور دیگر اَمراض کا سبب بنتی ہیں‘ یہ پودوں اور سمندری حیات کو بھی نقصان سے بچاتی ہیں۔ گویا یہ سورج کی ضرر رسانی سے بچانے کے لیے ایک قدرتی دفاعی نظام ہے‘ پس مختلف صنعتوں سے ایسی ضرر رساں گیسیں پیدا ہوتی ہیں جو اس دفاعی تہہ کو نقصان پہنچا رہی ہیں‘ سو قدرت کے نظام کے تحت سورج کی ضرر رسانی سے بچنے کے لیے جو دفاعی نظام تھا‘ اْسے نقصان پہنچا رہی ہیں‘ اس کے نتیجے میں سورج کی برقی مقناطیسی شعاعیں ماحولیاتی تبدیلیوں کا باعث بن رہی ہیں۔ پس لوگوں کے اپنے کرتوتوں کے سبب قدرت کے دفاعی نظام میں خرابیاں رونما ہو رہی ہیں اور ان کے ممکنہ نقصانات خدانخواستہ بڑھتے چلے جائیں گے۔

یہ بھی تسلیم کیا جا رہا ہے کہ اوزون کو نقصان پہنچانے والی ان ضرر رساں گیسوں کی پیداوار میں ترقی یافتہ صنعتی ممالک کا بڑا حصہ ہے‘ پاکستان کا حصہ تو ایک فی صد بھی نہیں ہے‘ لیکن پاکستان سب سے زیادہ نقصانات کی زد میں ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ ترقی یافتہ صنعتی ممالک ان بے قصور ترقی پذیر یا پسماندہ ممالک کو اپنے پیدا کردہ خطرات سے بچانے کے لیے مالی اور فنی امداد دیتے‘ مگر وہ الگ تھلگ بیٹھے ہوئے یہ تماشا دیکھ رہے ہیں۔ تاہم اس میں ہمارا اپنا بھی حصہ ہے۔ قدرتی ماحول کو برقرار رکھنے اور شدید ترین بارشوں اور سیلابوں سے زمین کو کٹائو سے بچانے کا سبب قدرتی جنگلات تھے‘ انہیں ملک کے طاقتور اور بااثر لوگوں نے تباہ وبرباد کیا‘ ان میں ہر دور کے سیاستدان اور حکمران بھی شامل ہیں۔ پس یہی وہ طبقات ہیں جو قانون کو اپنی طاقت اور دبائو سے بے اثر کر دیتے ہیں یا اپنے حق میں من مانی تاویلات کا انبار لگا دیتے ہیں۔ ہمارا لڑکپن کے زمانے کا مشاہدہ ہے کہ جنگلات کا گھنا پن طوفانی بارشوں کے نتیجے میں پانی کے دبائو اور کٹائو کو روکنے کا سبب بنتا تھا۔ بڑے بڑے دیو قامت درختوں سے ٹکرا کر پانی پھیل جاتا تھا اور اْس کے بہائو اور کٹائو کی طاقت کم ہو جاتی تھی‘ مگر اب جنگلات کے کٹائو اور تباہی کے سبب سیلابی پانی کے بہائو اور کٹائو کے راستے میں کوئی قدرتی رکاوٹ نہیں ہے۔ بعض جگہ کان کنی کی وجہ سے پہاڑ ختم ہو رہے ہیں‘ گنجے ہو رہے ہیں اور اْن کا زمینی کٹائو آسان ہو گیا ہے۔ ان میں سنگ ِ مرمر‘ گرینائٹ‘ سیمنٹ کے کارخانوں اور کنکریٹ کے لیے جنگلات‘ پتھروں اور چٹانوں کا کٹائو شامل ہے۔ اب ہمیں اندازہ ہو رہا ہے کہ ہمارے ملک سے سیمنٹ کی برآمد

کے اسباب کیا ہیں‘ ہم یہ زرِ مبادلہ اپنے نقصان کی صورت میں کما رہے ہیں۔

تیسرا سبب جس کے پیدا کرنے کے ہم خود ذمے دار ہیں‘ وہ یہ ہے کہ ماضی میں دریائوں کے پاٹ بہت وسیع تھے اور اْن کے کنارے بنجر زمینیں تھیں‘ سو اگر کبھی طوفانی بارشوں یا برفانی تودوں کے پگھلنے کے سبب سیلاب آتا تو دریائوں کے کنارے یہ بنجر زمینیں اْسے اپنے اندر سمونے کے قابل تھیں‘ مگراب نہیں رہیں۔ اس کا سبب یہ ہے کہ دریائوں کے پاٹ اور بیٹ پر تجاوزات ہیں‘ ان کے سبب دریائوں کے پاٹ تنگ ہوگئے ہیں اور اب وہ سیلابی پانی کو اپنے اندر سمونے کے قابل نہیں رہے۔ اس لیے یہ پانی دریائوں کے کناروں سے کٹائو کے سبب بستیوں اور آبادیوں میں پھیل جاتا ہے‘ آبادیوںاور مویشیوں کو بھی بہا کر لے جاتا ہے‘ لوگوں کے تمام اثاثے اور زندگی بھر کی کمائی آنِ واحد میں تباہ وبرباد ہو جاتی ہے‘ وہ خود بھی کبھی اس بہائو میں بہہ جاتے ہیں اور کبھی اپنی آنکھوں سے اپنی کائنات کو برباد ہوتا ہوا دیکھتے ہیں۔ یہ منظر بھی ہم نے دیکھا ہے کہ بعض مقامات پر جب دریا خشک ہوتے ہیں تو لوگ وہاں آکر آباد ہو جاتے ہیں‘ جھونپڑیاں اور مکان بنا لیتے ہیں‘ دریائی پاٹ کی افتادہ زمینوں پر کاشت کرتے ہیں‘ مویشی پالتے ہیں اور پھر سیلاب سب کچھ بہا لے جاتا ہے اور ہر سال انہی چیزوں کا حکومت کو معاوضہ دینا پڑتا ہے۔ ایسے مناظر بھی سامنے آئے کہ لوگ جان بچانے کے لیے درختوں پر چڑھ گئے‘ لیکن وہاں زہریلے سانپ بھی تھے اور بعض صورتوں میں سیلابی پانی اْن درختوں کو جڑ سے اکھاڑ کر بہا لے گیا اور وہ بھی ساتھ بہہ گئے۔ حکومتیں اپنے وسائل کے اندر رہتے ہوئے متاثرین کو معاوضے دینے کے لیے یقینا کوئی فارمولا تو بنائیں گی‘ لیکن یہ وقتی سہارا ہوگا‘ مستقل اور دیرپا انتظامات کے لیے مستقل منصوبہ بندی‘ موثر حکمت ِ عملی اور کثیر مالی وسائل درکار ہوں گے اور ظاہر ہے کہ ہمارے اقتصادی حالات کے پیش ِ نظر یہ وسائل دستیاب نہیں ہیں‘ نیز یہ سوال بھی اپنی جگہ ہے کہ جو وسائل دستیاب ہیں اور لوگوں کی بحالی کے لیے مختص کیے جا رہے ہیں‘ اْن میں بھی بدعنوانی‘ خیانتوں اور لوٹ مار کا تناسب کیا ہو گا۔

مفتی منیب الرحمن.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: کے نتیجے میں دریائوں کے ہیں اور ا ہوتی ہیں جاتے ہیں سے بچانے سیلاب ا رہی ہیں سورج کی جاتا ہے رہے ہیں ہے اور کے سبب کے لیے کا سبب رہا ہے

پڑھیں:

پنجاب کے سیلاب متاثرہ علاقوں میں فلڈ سروے جاری

لاہور(ڈیلی پاکستان آن لائن )پنجاب کے سیلاب سے متاثرہ اضلاع میں فلڈ سروے جاری ہے اور متاثرین کی تفصیلات جمع کی جارہی ہیں۔ 

ترجمان پی ڈی ایم اے کے مطابق  سیلاب متاثرہ اضلاع میں 2200 سے زائد سروے ٹیمیں اور 11 ہزار اہلکار سرگرم ہیں جب کہ متاثرہ علاقوں میں 58 فیصد سروے مکمل ہو چکا ہے۔ 

ترجمان نے بتایا کہ فلڈ سروے میں3لاکھ 68 ہزار متاثرین کی تفصیلات جمع کرلی گئی ہیں جب کہ سروے ٹیموں نے 10لاکھ42 ہزار ایکڑ سیلاب متاثرہ اراضی کی نشاندہی کی ہے۔

ترجمان پی ڈی ایم اے نے بتایا کہ سروے ٹیموں نے سیلاب سے متاثرہ ایک لاکھ 7 ہزار مکانات کا ڈیٹا بھی جمع کر لیا ہے۔

لاہور: ایوان عدل کے قریب ایل ڈی اے پلازہ میں آگ لگ گئی

مزید :

متعلقہ مضامین

  • ذاتی وسائل سے 350 افغان گھرانوں کی دیکھ بھال کرتا ہوں، شاہد آفریدی
  • افغانستان نے تمام احسانات کو فراموش کردیا: شاہد آفریدی بھی طالبان کی جارحیت پر بول پڑے
  • سیلاب کے بعد ڈنگی وبا
  • حالیہ سیلاب سے ملکی معیشت کو 822 ارب روپے کا نقصان ہوا ہے، احسن اقبال
  • عمران خان ایک خودپسند شخص ہےجو اپنی بے لگام سیاسی خواہشات کیلئے ملک اور عوام کو بھی خطرے میں ڈال سکتا ہے:سلیمان شاہ راشدی
  • پاک، افغان کشیدگی: وزیراعظم نے اعلیٰ سطح کا اجلاس بلا لیا، آج اہم فیصلے متوقع
  • چھوڑ دو غصے کی باتیں، اشتعال اچھا نہیں۔۔۔ !
  • پنجاب کے سیلاب متاثرہ علاقوں میں فلڈ سروے جاری
  • آج کا دن کیسا رہے گا؟