میری دادی جنھیں ہم امّاں کہتے تھے، بیشتر انسانوں میں پائی جانے والی دوغلے پن کی عادت پر رنجیدہ دل کے ساتھ اکثرکہا کرتی تھیں، ’’ جیے جَلائے، مرے پَلائے‘‘ یعنی انسان زندہ جاوید لوگوں کی قدر نہیں کرتا، اُن کو اچھا نہیں سمجھتا لیکن جیسے ہی وہ دنیا سے رخصت ہوتے ہیں فوراً اُن کی ساری خوبیاں اس کو نظر آنا شروع ہو جاتی ہیں، جس کا انسان بڑھ چڑھ کر پرچار بھی کرتا ہے۔
ہر وقت اٹھتے بیٹھتے دنیا سے جانے والے کی خوبیاں بیان کرتے تھکتا نہیں،کہ اﷲ بخشے مرحوم میں فلاں خوبی تھی ،وہ یہ کرتے تھے ،وہ اپنے کردار اور اعلیٰ پائے کی خوبیوں کے باعث نہ صرف خاندان بلکہ پورے محلے کی ہر دل عزیز شخصیت تھے۔
قریبی جاننے والے بخوبی جانتے ہیں کہ اب مرحوم کی تعریف کرنے والے لوگ مرحوم کی زندگی میں ان کی کتنی قدر کرتے تھے،ان کا کتنا خیال رکھتے تھے۔مرحوم جب زندہ تھے تو انھوں نے کبھی اپنے خاندان کی تعریف نہیں کی تھی کہ وہ ان کا انتہائی خیال رکھتے ہیں اور ان کو کسی قسم کی تکلیف نہیں ہونے دیتے۔ مردے کے چہرے پر مکھن ملنے سے اس پر حسن نہیں آ جاتا۔
تعریف وہ جو زندہ انسان کی کی جائے، سوئے ہوئے بچے کا جتنا مرضی منہ چوم لیں،بچے کو کیسے پتہ چلے گا کہ اس کے گھر والے اس سے کتنا پیار کرتے ہیں۔
بڑے بڑے شاعروں اور فنکاروں کی یاد میں سیمینار کیے جاتے ہیں اور بتایا جاتا ہے کہ مرحوم انتہائی اعلیٰ پائے کی شخصیت تھے ،ان کے دنیا سے جانے کے بعد جو خلا پیدا ہوا ہے وہ صدیوں تک پر نہیں ہو سکے گا۔مگر ذرا سی تحقیق کرنے پر آشکار ہو جائے گا کہ مرحوم کی سیمیناروں میں بڑھ چڑھ کر تعریف کرنے والوں نے مرحوم سے جیتے جی سلام دعا لینا بھی گوارا نہیں کی تھی، کہ کہیں مرحوم اپنی کسمپرسی کے سبب ان سے مدد کا تقاضا نہ کر دیں۔
مرحوم کے بارے میں پتہ چلے گا کہ آخری وقت میں ان کے پاس دوا دارو کے پیسے تک نہ تھے اور وہ محلے کے بہت سے دکانداروں کے اس حد تک مقروض ہو چکے تھے کہ اب دکانداروں نے ادھار دینا بند کر دیا تھا۔اب دکانداروں کو مرحوم کی خوبیوں نہیںاپنی ڈوبی ہوئی رقم سے غرض ہے کہ اس کی واپسی کیسے ہو گی۔
بنی نوع انسان کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ خطا کا پُتلا ہے مگر میرا ماننا ہے کہ وہ اس کے ساتھ ساتھ مُنافِق بھی ہے جو اپنی کہی بات کو خود ہی باآسانی جھٹلانے میں کافی مہارت رکھتا ہے۔
خالق نے انسان کو خلق کرتے وقت بُلند مرتبہ و مقام عنایت فرمایا تھا لیکن افسوس وہ اس وقار کا تحفظ نہیں کرسکا اور اپنے پاؤں تلے اسے بیدردی سے روند ڈالا۔ جنت میں ابلیس کو حکمِ الٰہی تھا کہ انسان کو سجدہ کرو، مگر زمین پر اُتارے جانے کے بعد نجانے انسان نے ابلیس کی مریدی کیوں اختیارکر لی، ویسے اپنی شان و شوکت اور متانت و شخصی احترام پر ضرب کاری کرنے میں انسان کا کوئی ثانی نہیں ہے۔
’’ ناقدری‘‘ انسان کی بیشمار بری عادتوں میں سے ایک ہے، انسان ہر اُس شے و فرد کی قدر نہیں کرتا جو اُسے بہ سَہولت میسر آ جائے۔ ایک بار ہاتھ سے نعمت چھوٹ جائے پھر خالی ہاتھوں کی خفت مٹانے میں انسان کی ڈھٹائی دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے، وہ شرمندہ نظر آنے کے بجائے اُلٹا یہ ظاہرکرتا ہے کہ وہ باقدر تھا اور باذوق بھی ساتھ زندگی سے جانے والی نعمتوں کے قصیدے پڑھنا بھی شروع کر دیتا ہے۔
انسان کو اپنی غلطی کا اعتراف کرنے میں دِقّت پیش آتی ہے، دوسرے انسان کے اندر اُسے ہزاروں برائیاں نظر آجائیں گی مگر خود کی خامیوں پر آنکھیں موند لینا وہ زیادہ بہتر سمجھتا ہے۔ انسان کا سب سے بڑا مخالف دوسرا انسان ہے لیکن پردے پر سے منظر بدلتے اور ایک انسان کی زندگی کی فلم ختم ہوتے ہی دوسرا اُس کا سب سے بڑا مداح بن جاتا ہے۔
یہ دنیا جادوئی نگری ہے جہاں کب، کون کیا بن جائے کسی کو پہلے سے کان و کان خبر نہیں ہوتی ہے، آج کوئی کسی کردارکو نبھا رہا ہے تو کل وہ کس روپ کو اختیار کر لے گا یہ صرف وہی جانتا ہے، یہاں ایک جسم میں کئی شخصیتیں موجود ہیں۔
انسان اکثر اوقات رنگ بدلنے میں گِرگٹ کو بھی مات دے دیتا ہے، ساری بات مطلب اور ترجیحات کی ہے، جب کوئی فرد ضرورت بن جائے پھر ماضی میں اُس کے متعلق انسان کی منفی رائے اچانک مثبت جذبات میں تبدیل ہو جاتی ہے۔
یہ سب سنی سنائی باتیں نہیں ہیں بلکہ میں نے بذاتِ خود اپنے اردگرد متعدد بار امّاں کا کہا یہ جملہ ’’جیے جَلائے، مرے پَلائے‘‘ سچ ہوتے ہوئے دیکھا ہے اورکئی دفع تو انسانوں کی اس حوالے سے کھلم کھلا منافقت پر میرا سر بری طرح چکرایا ہے۔
زندگی بھر جس فرد کو صبح شام لعن طعن کیا وہ مرتے ہی فرشتہ صفت کیسے بن جاتا ہے، یہ بات میری سمجھ سے بالاتر ہے۔ زندگی رہتے کسی انسان کی اُس کے سامنے تعریف کر دی جائے تو وہ خوش ہوگا اور تعریف کرنے والے کو اُسے خوشی دینے کا اجر بھی حاصل ہوسکے گا جب کہ مرنے کے بعد اُس کے نام پر تاج محل ہی کیوں نہ تعمیر کروا دیا جائے یا دوسرے کسی قسم کا بھی چونچلا پن زندگی میں اُس انسان پر ڈھائی زیادتیوں کو مٹا نہیں سکتا ہے۔
کوئی انسان پرفیکٹ نہیں ہوتا ہے، ہرکسی میں کم و بیش خامیاں پائی جاتی ہیں، ہمیں دوسروں کی خامیوں کو درگزرکرنا چاہیے تاکہ سامنے والا ہماری باری میں بھی اپنا ہاتھ ہلکا رکھے۔ عیب جوئی سے کسی کا بھلا نہیں ہوتا ہے بلکہ احساسات مجروح ہوتے ہیں، شکوے جنم لیتے ہیں اور آپسی رشتوں میں دوریاں آ جاتی ہیں۔
بات اگر معاشرے میں اخلاقی اقدار کے تحفظ کی ہو تو اُس کے لیے اصلاح کا راستہ کُھلا ہے۔ کسی فرد کے اندر کوئی نامناسب عادت نظر آئے تو طریقے سے تنہائی میں اُسے سمجھایا جاسکتا ہے، صحیح اور غلط کے نتائج بتلا کر راہِ راست پر لایا جاسکتا ہے۔
انسانی زندگی چند گھڑیوں کا مجموعہ ہے، کب کس کا دوسرے جہان سے بلاوا آ جائے اور وہ دنیائے فانی سے کوچ کر جائے پھر پیچھے والے صرف پچھتاتے رہ جائیں اس سے بہتر ہے ہم اپنے اردگرد موجود لوگوں کو اُن کی زندگی میں ہی اُن کا جائز مقام دیں۔
اخلاقی اعتبار سے انسان پر فرض ہے کہ وہ دوسرے انسان کی قدرکرے، اُس میں موجود خوبیوں کا کھلے دل سے اعتراف کرے اور اُس کو اپنا مخالف سمجھنے کے بجائے ساتھی تصورکرے۔ ایک معاشرہ صحیح معنوں میں انسانی معاشرہ تبھی بنتا ہے جب وہاں سب انسان یگانگت کے ساتھ زندگی گزاریں اور اپنے آپسی رشتوں کو ناقدری کی بھینٹ چڑھانے سے گریزکریں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: تعریف کر مرحوم کی انسان کی ہے کہ وہ جاتا ہے نہیں ہو
پڑھیں:
قم المقدسہ میں مجلس ایصال ثواب کا انعقاد
مجلس عزاء سے خطاب کرتے ہوئے علامہ ڈاکٹر سید توقیر عباس کاظمی نے علم و عالم کی اہمیت بیان کرتے ہوئے علامہ ظفر عباس مرحوم کی دین مبین کے راستے میں انجام دی گئی خدمات کو سراہا۔ چھوٹی تصاویر تصاویر کی فہرست سلائیڈ شو
قم المقدسہ میں بزرگ عالم دین علامہ ملک ظفر عباس مرحوم کے لئے مجلس ایصال ثواب کا انعقاد
قم المقدسہ میں بزرگ عالم دین علامہ ملک ظفر عباس مرحوم کے لئے مجلس ایصال ثواب کا انعقاد
قم المقدسہ میں بزرگ عالم دین علامہ ملک ظفر عباس مرحوم کے لئے مجلس ایصال ثواب کا انعقاد
قم المقدسہ میں بزرگ عالم دین علامہ ملک ظفر عباس مرحوم کے لئے مجلس ایصال ثواب کا انعقاد
قم المقدسہ میں بزرگ عالم دین علامہ ملک ظفر عباس مرحوم کے لئے مجلس ایصال ثواب کا انعقاد
قم المقدسہ میں بزرگ عالم دین علامہ ملک ظفر عباس مرحوم کے لئے مجلس ایصال ثواب کا انعقاد
قم المقدسہ میں بزرگ عالم دین علامہ ملک ظفر عباس مرحوم کے لئے مجلس ایصال ثواب کا انعقاد
قم المقدسہ میں بزرگ عالم دین علامہ ملک ظفر عباس مرحوم کے لئے مجلس ایصال ثواب کا انعقاد
قم المقدسہ میں بزرگ عالم دین علامہ ملک ظفر عباس مرحوم کے لئے مجلس ایصال ثواب کا انعقاد
اسلام ٹائمز۔ قم المقدسہ حرم حضرت فاطمہ معصومہ سلام علیہا میں بزرگ عالم دین سرمایہ ملت جعفریہ پاکستان، مبلغ مکتب اہل بیت عصمت و طہارت مرحوم و مغفور علامہ ملک ظفر عباس (برطانیہ) اور مرحوم ملک مہروز طفیل کے لئے ایک مجلس ایصال ثواب کا اہتمام کیا گیا۔ مجلس عزاء سے خطاب کرتے ہوئے علامہ ڈاکٹر سید توقیر عباس کاظمی نے علم و عالم کی اہمیت بیان کرتے ہوئے علامہ ظفر عباس مرحوم کی دین مبین کے راستے میں انجام دی گئی خدمات کو سراہا۔ مجلس عزاء کے بعد پاکستان سے تشریف لائے ہوئے بزرگ عالم دین امام خمینی ٹرسٹ کے بانی علامہ سید افتخار حسین نقوی نے مرحومین کے لئے دعائے مغفرت فرمائی، جبکہ پروگرام کے آخر میں مرحومین کے لئے اجتماعی فاتحہ خوانی بھی کی گئی۔