Express News:
2025-12-03@11:29:39 GMT

جیے جَلائے، مرے پَلائے

اشاعت کی تاریخ: 18th, October 2025 GMT

میری دادی جنھیں ہم امّاں کہتے تھے، بیشتر انسانوں میں پائی جانے والی دوغلے پن کی عادت پر رنجیدہ دل کے ساتھ اکثرکہا کرتی تھیں، ’’ جیے جَلائے، مرے پَلائے‘‘ یعنی انسان زندہ جاوید لوگوں کی قدر نہیں کرتا، اُن کو اچھا نہیں سمجھتا لیکن جیسے ہی وہ دنیا سے رخصت ہوتے ہیں فوراً اُن کی ساری خوبیاں اس کو نظر آنا شروع ہو جاتی ہیں، جس کا انسان بڑھ چڑھ کر پرچار بھی کرتا ہے۔

ہر وقت اٹھتے بیٹھتے دنیا سے جانے والے کی خوبیاں بیان کرتے تھکتا نہیں،کہ اﷲ بخشے مرحوم میں فلاں خوبی تھی ،وہ یہ کرتے تھے ،وہ اپنے کردار اور اعلیٰ پائے کی خوبیوں کے باعث نہ صرف خاندان بلکہ پورے محلے کی ہر دل عزیز شخصیت تھے۔

قریبی جاننے والے بخوبی جانتے ہیں کہ اب مرحوم کی تعریف کرنے والے لوگ مرحوم کی زندگی میں ان کی کتنی قدر کرتے تھے،ان کا کتنا خیال رکھتے تھے۔مرحوم جب زندہ تھے تو انھوں نے کبھی اپنے خاندان کی تعریف نہیں کی تھی کہ وہ ان کا انتہائی خیال رکھتے ہیں اور ان کو کسی قسم کی تکلیف نہیں ہونے دیتے۔ مردے کے چہرے پر مکھن ملنے سے اس پر حسن نہیں آ جاتا۔

تعریف وہ جو زندہ انسان کی کی جائے، سوئے ہوئے بچے کا جتنا مرضی منہ چوم لیں،بچے کو کیسے پتہ چلے گا کہ اس کے گھر والے اس سے کتنا پیار کرتے ہیں۔

بڑے بڑے شاعروں اور فنکاروں کی یاد میں سیمینار کیے جاتے ہیں اور بتایا جاتا ہے کہ مرحوم انتہائی اعلیٰ پائے کی شخصیت تھے ،ان کے دنیا سے جانے کے بعد جو خلا پیدا ہوا ہے وہ صدیوں تک پر نہیں ہو سکے گا۔مگر ذرا سی تحقیق کرنے پر آشکار ہو جائے گا کہ مرحوم کی سیمیناروں میں بڑھ چڑھ کر تعریف کرنے والوں نے مرحوم سے جیتے جی سلام دعا لینا بھی گوارا نہیں کی تھی، کہ کہیں مرحوم اپنی کسمپرسی کے سبب ان سے مدد کا تقاضا نہ کر دیں۔

مرحوم کے بارے میں پتہ چلے گا کہ آخری وقت میں ان کے پاس دوا دارو کے پیسے تک نہ تھے اور وہ محلے کے بہت سے دکانداروں کے اس حد تک مقروض ہو چکے تھے کہ اب دکانداروں نے ادھار دینا بند کر دیا تھا۔اب دکانداروں کو مرحوم کی خوبیوں نہیںاپنی ڈوبی ہوئی رقم سے غرض ہے کہ اس کی واپسی کیسے ہو گی۔

 بنی نوع انسان کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ خطا کا پُتلا ہے مگر میرا ماننا ہے کہ وہ اس کے ساتھ ساتھ مُنافِق بھی ہے جو اپنی کہی بات کو خود ہی باآسانی جھٹلانے میں کافی مہارت رکھتا ہے۔

خالق نے انسان کو خلق کرتے وقت بُلند مرتبہ و مقام عنایت فرمایا تھا لیکن افسوس وہ اس وقار کا تحفظ نہیں کرسکا اور اپنے پاؤں تلے اسے بیدردی سے روند ڈالا۔ جنت میں ابلیس کو حکمِ الٰہی تھا کہ انسان کو سجدہ کرو، مگر زمین پر اُتارے جانے کے بعد نجانے انسان نے ابلیس کی مریدی کیوں اختیارکر لی، ویسے اپنی شان و شوکت اور متانت و شخصی احترام پر ضرب کاری کرنے میں انسان کا کوئی ثانی نہیں ہے۔

 ’’ ناقدری‘‘ انسان کی بیشمار بری عادتوں میں سے ایک ہے، انسان ہر اُس شے و فرد کی قدر نہیں کرتا جو اُسے بہ سَہولت میسر آ جائے۔ ایک بار ہاتھ سے نعمت چھوٹ جائے پھر خالی ہاتھوں کی خفت مٹانے میں انسان کی ڈھٹائی دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے، وہ شرمندہ نظر آنے کے بجائے اُلٹا یہ ظاہرکرتا ہے کہ وہ باقدر تھا اور باذوق بھی ساتھ زندگی سے جانے والی نعمتوں کے قصیدے پڑھنا بھی شروع کر دیتا ہے۔

انسان کو اپنی غلطی کا اعتراف کرنے میں دِقّت پیش آتی ہے، دوسرے انسان کے اندر اُسے ہزاروں برائیاں نظر آجائیں گی مگر خود کی خامیوں پر آنکھیں موند لینا وہ زیادہ بہتر سمجھتا ہے۔ انسان کا سب سے بڑا مخالف دوسرا انسان ہے لیکن پردے پر سے منظر بدلتے اور ایک انسان کی زندگی کی فلم ختم ہوتے ہی دوسرا اُس کا سب سے بڑا مداح بن جاتا ہے۔

یہ دنیا جادوئی نگری ہے جہاں کب، کون کیا بن جائے کسی کو پہلے سے کان و کان خبر نہیں ہوتی ہے، آج کوئی کسی کردارکو نبھا رہا ہے تو کل وہ کس روپ کو اختیار کر لے گا یہ صرف وہی جانتا ہے، یہاں ایک جسم میں کئی شخصیتیں موجود ہیں۔

انسان اکثر اوقات رنگ بدلنے میں گِرگٹ کو بھی مات دے دیتا ہے، ساری بات مطلب اور ترجیحات کی ہے، جب کوئی فرد ضرورت بن جائے پھر ماضی میں اُس کے متعلق انسان کی منفی رائے اچانک مثبت جذبات میں تبدیل ہو جاتی ہے۔

یہ سب سنی سنائی باتیں نہیں ہیں بلکہ میں نے بذاتِ خود اپنے اردگرد متعدد بار امّاں کا کہا یہ جملہ ’’جیے جَلائے، مرے پَلائے‘‘ سچ ہوتے ہوئے دیکھا ہے اورکئی دفع تو انسانوں کی اس حوالے سے کھلم کھلا منافقت پر میرا سر بری طرح چکرایا ہے۔

زندگی بھر جس فرد کو صبح شام لعن طعن کیا وہ مرتے ہی فرشتہ صفت کیسے بن جاتا ہے، یہ بات میری سمجھ سے بالاتر ہے۔ زندگی رہتے کسی انسان کی اُس کے سامنے تعریف کر دی جائے تو وہ خوش ہوگا اور تعریف کرنے والے کو اُسے خوشی دینے کا اجر بھی حاصل ہوسکے گا جب کہ مرنے کے بعد اُس کے نام پر تاج محل ہی کیوں نہ تعمیر کروا دیا جائے یا دوسرے کسی قسم کا بھی چونچلا پن زندگی میں اُس انسان پر ڈھائی زیادتیوں کو مٹا نہیں سکتا ہے۔

 کوئی انسان پرفیکٹ نہیں ہوتا ہے، ہرکسی میں کم و بیش خامیاں پائی جاتی ہیں، ہمیں دوسروں کی خامیوں کو درگزرکرنا چاہیے تاکہ سامنے والا ہماری باری میں بھی اپنا ہاتھ ہلکا رکھے۔ عیب جوئی سے کسی کا بھلا نہیں ہوتا ہے بلکہ احساسات مجروح ہوتے ہیں، شکوے جنم لیتے ہیں اور آپسی رشتوں میں دوریاں آ جاتی ہیں۔

بات اگر معاشرے میں اخلاقی اقدار کے تحفظ کی ہو تو اُس کے لیے اصلاح کا راستہ کُھلا ہے۔ کسی فرد کے اندر کوئی نامناسب عادت نظر آئے تو طریقے سے تنہائی میں اُسے سمجھایا جاسکتا ہے، صحیح اور غلط کے نتائج بتلا کر راہِ راست پر لایا جاسکتا ہے۔

انسانی زندگی چند گھڑیوں کا مجموعہ ہے، کب کس کا دوسرے جہان سے بلاوا آ جائے اور وہ دنیائے فانی سے کوچ کر جائے پھر پیچھے والے صرف پچھتاتے رہ جائیں اس سے بہتر ہے ہم اپنے اردگرد موجود لوگوں کو اُن کی زندگی میں ہی اُن کا جائز مقام دیں۔

اخلاقی اعتبار سے انسان پر فرض ہے کہ وہ دوسرے انسان کی قدرکرے، اُس میں موجود خوبیوں کا کھلے دل سے اعتراف کرے اور اُس کو اپنا مخالف سمجھنے کے بجائے ساتھی تصورکرے۔ ایک معاشرہ صحیح معنوں میں انسانی معاشرہ تبھی بنتا ہے جب وہاں سب انسان یگانگت کے ساتھ زندگی گزاریں اور اپنے آپسی رشتوں کو ناقدری کی بھینٹ چڑھانے سے گریزکریں۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: تعریف کر مرحوم کی انسان کی ہے کہ وہ جاتا ہے نہیں ہو

پڑھیں:

ایپوا (EPWA) کے یومِ تاسیس پر خراجِ تحسین

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

پوری ٹیم کو خراجِ عقیدت
ای او بی آئی پنشنرز ویلفیئر ایسوسی ایشن (EPWA) پاکستان بھر کے ای او بی آئی پنشنرز کی واحد نمائندہ اور رجسٹرڈ تنظیم ہے، جو ریٹائرڈ بزرگوں، بیوہ پنشنرز اور محنت کش طبقے کے حقوق کے لیے مسلسل جدوجہد کر رہی ہے۔

قیام اور مقاصد
ایپوا کے قیام کا بنیادی مقصد پنشنرز کو ان کے جائز حقوق دلوانا، آگاہی پروگرامز کے ذریعے معلومات فراہم کرنا، اور ان مسائل کو اجاگر کرنا ہے جنہیں عموماً نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ ساتھ ہی پنشنرز کی فی سبیل اللہ خدمت کو اپنا مشن بنایا گیا۔

چھٹا یومِ تاسیس … 8 نومبر 2025
الحمد للہ، ای او بی آئی پنشنرز ویلفیئر ایسوسی ایشن اپنی چھٹی سالگرہ مناتے ہوئے اس عزم کی تجدید کرتی ہے کہ یہ جدوجہد اسی خلوص، محبت اور خدمت کے جذبے کے ساتھ جاری رہے گی۔
تنظیم کا باقاعدہ قیام 2019 میں عمل میں آیا، تاہم اس کی فکری بنیادیں 2017 سے ہی رکھی جا چکی تھیں۔
ایپوا کی جانب سے جاری پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ:
’’یومِ تاسیس کو یومِ عہد کے طور پر منائیں… ان پانچ سالوں میں ہم نے کیا کھویا اور کیا پایا، اس پر غور کریں اور ان تمام بزرگوں کو یاد رکھیں جنہوں نے اس پودے کو لگایا اور آبیاری کی۔‘‘

بانی اراکین کو خراجِ عقیدت
ایپوا کے قیام میں جن شخصیات نے نمایاں کردار ادا کیا ان میں:
مرحوم شکیل احمد خان (سینئر صحافی، حیدرآباد)

مرحوم قاضی سراج (انچارج صفحہ محنت )
مرحوم صلاح الدین صدیقی (پہلے جنرل سیکرٹری)

مرحوم خالدیار خان
مرحوم شفیق غوری (صدر سندھ لیبر فیڈریشن)
اللہ تعالیٰ ان تمام بانی اراکین کی مغفرت فرمائے اور ان کے درجات بلند کرے۔ آمین۔
اسی طرح ہمارے بزرگ ساتھی مشیر احمد، معروف شاعر اوسط جعفری اور دیگر رفقا کی فکری رہنمائی اور مشوروں سے تنظیم کو مضبوط بنیادیں میسر آئیں۔

ایپوا کا کردار اور خدمات
ایپوا نے ای او بی آئی شوشل پنشنرز میں آگاہی پیدا کرنے، مسائل اجاگر کرنے اور پرائیویٹ اداروں کے ملازمین کو ریٹائرمنٹ کے بعد حاصل ہونے والی سہولتوں سے روشناس کرانے میں اہم کردار ادا کیا۔
گزشتہ 5سالوں میں بہت سے مسائل حل ہوئے، تاہم اب بھی پنشن کو کم از کم رائج تنخواہ کے مساوی کروانے کا مطالبہ باقی ہے۔
تنظیم کے قائدین، بالخصوص اسرار ایوبی ، شاہد غزالی اور دیگر ممبران کی رہنمائی اور محنت سے یہ کارواں مزید آگے بڑھا ہے۔
ایپوا کے چیئرمین اظفر شمیم نے تمام اراکین اور معاونین کا شکریہ ادا کیا جنہوں نے اس تنظیم کو اس مقام تک پہنچانے میں کردار ادا کیا۔

سلیم اختر … خدمت کا پیکر
ایپوا کے سرگرم رہنما سلیم اختر نے ہمیشہ فی سبیل اللہ خدمت کو اپنا مقصدِ حیات بنایا۔
انہوں نے کسی مالی مفاد کے بغیر خالص نیت سے بیوہ پنشنرز اور بزرگ محنت کشوں کے حقوق کے لیے جدوجہد کی۔
ان کی کاوشوں سے نہ صرف بے شمار مسائل حل ہوئے بلکہ پورے ملک میں ای او بی آئی نظام میں بہتری کے لیے آواز بلند ہوئی۔
ایپوا کی آگاہی مہمات کے نتیجے میں فارمولا پنشن کے تحت بہت سے پنشنرز کو ان کے بقایا جات ملے۔
اس میں خاص طور پر اسٹیل مل، نیشنل ریفائنری، اور شوگر ملز جیسے اداروں کا ذکر نمایاں ہے، جہاں ایپوا کی کوششوں سے حقیقی نتائج سامنے آئے۔

سلیم اختر کا پیغام
ہم ایپوا کے پلیٹ فارم سے فی سبیل اللہ کام کر رہے ہیں۔
کیونکہ یہ خدمت صرف ایک فرض نہیں بلکہ عبادت ہے۔

متین خان کی شاندار خدمت کو خراجِ تحسین
متین خان کا نعرہ’’ہم ایپوا (EPWA) کے جھنڈے تلے سب ایک ہیں‘‘
پورے ایپوا خاندان کے اتحاد اور یکجہتی کی بہترین مثال بن چکا ہے۔
انہوں نے نہ صرف پنشنرز کے مسائل کو اجاگر کیا بلکہ ان کی حوصلہ افزائی میں بھی بھرپور کردار ادا کیا۔

حال ہی میں ایک پنشنر جو شدید بیماری اور مایوسی کا شکار تھے،
عبدالمتین نے ان سے ملاقات کی، ان کی ہمت بندھائی، اور ایپوا کے جذبے سے انہیں نئی زندگی کا حوصلہ دیا۔
ایسی شخصیات ہی تنظیم کی اصل طاقت ہوتی ہیں ۔
جو دوسروں کے دکھ کو اپنا دکھ سمجھتی ہیں اور خدمتِ خلق کو اپنا مشن بناتی ہیں۔
سلام ہے عبدالمتین کی انسان دوستی، خدمت اور اخلاص کو۔

دعا و خراجِ تحسین
یومِ تاسیس کے موقع پر تمام ارکان، پنشنرز، اور وابستگان
ایپوا ٹیم کی خالص نیت، خدمت، اور قربانیوں کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ اس کارِ خیر کو دوام عطا فرمائے۔
اور تمام اراکین کو صحت، ہمت اور کامیابیاں عطا کرے۔

مختار علی سومرو گلزار

متعلقہ مضامین

  • رسائی کا بحران: معذور افراد کی باعزت زندگی کا سفر مظفرآباد میں ادھورا
  • دھرمندر کی وفات کے بعد سنی دیول اور بوبی دیول کروڑوں کی وراثتی زمین سے محروم
  • افغان طالبان رجیم کے تحت انسانی حقوق کی پامالیاں اور بڑھتی غربت، افغان عوام مشکلات کا شکار
  • امیتابھ ہماری شادی کو زندگی کی سب سے بڑی غلطی کہیں گے، جیا بچن کا اعتراف
  • آبادی میں اضافے کے مسئلے سے نمٹنا ہماری اجتماعی ذمہ داری ہے: مولانا عبدالخبیر آزاد
  • پیپلز پارٹی نے ایک خاندان کی زندگی اجاڑ دی‘ پی ٹی آئی
  • بڑھتی عمر کا چہرہ قبول کرنا مشکل کیوں، اس کو جاذب نظر کیسے بنایا جائے؟
  • ایپوا (EPWA) کے یومِ تاسیس پر خراجِ تحسین
  • اب صحت مند اور طویل عمر ہوگی
  • انسان بھی دھل سکیں گے؛ جاپان میں ہیومن واشنگ مشین تیار