اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 18 اکتوبر 2025ء) سینما ہال میں خاموشی اور اندھیرا چھایا ہوا ہے۔ پردے پر ایک گینگسٹر پولیس کو للکارتا ہے اور ہال تالیوں سے گونجنے لگتا ہے۔ یہ گینگسٹر دیسی فلموں کا سلطان راہی، بالی وڈ فلم کا سردار یا ہالی وڈ کے گاڈ فادر گینگ کا کوئی بھی کردار ہو سکتا ہے۔ اس کی طاقت کو سراہنے والے تماشائی وہ لوگ ہیں جو روز اپنے دفتر، دکان یا رکشہ چلاتے ہوئے معمولی زندگی گزار رہے ہوتے ہیں۔

سماجی ماہرین اور نفسیات دانوں کے مطابق یہ تضاد حیران کن اور دلچسپ ہے۔ آخر ہم ان لوگوں سے اتنے متاثر کیوں ہوتے ہیں جو قانون توڑتے ہیں، جو طاقت اور خطرے کی سرحد پر جیتے ہیں؟

یہ سوال محض فلموں یا فرضی کرداروں تک محدود نہیں بلکہ حقیقی زندگی میں بہت سے ایسے لوگ ہمارے سامنے ہوتے ہیں۔

(جاری ہے)

حال ہی میں مبینہ پولیس مقابلے میں مارا جانے والا پشاور کا ملک آدم خان ہو یا لاہور کا طیفی بٹ، سوشل میڈیا پر لاکھوں کی فالوئنگ رکھنے والے ایسے افراد کی جرائم پیشہ زندگی لوگوں سے ڈھکی چھپی نہیں ہوتی ، مگر لوگوں کا رویہ نفرت سے زیادہ دلچسپی اور تجسس پر مبنی ہوتا ہے۔

طاقت، خطرہ اور بغاوت: انسانی کشش کی جڑیں کہاں ہیں؟

2011 میں شائع ہونے والی تحقیق ''اٹریکٹڈ ٹو کرائم: یورپ کے تین شہروں میں مجرمانہ رجحان کی جانچ‘‘ جرائم سے دلچسپی کو غربت، محرومی اور غیر مساوی مواقع سے جوڑنے والے روایتی نظریات کو چیلنج کرتی ہے۔

امریکہ کے جسٹس ڈیپارٹمنٹ کی ویب سائٹ پر موجود اس تحقیق کے مطابق سنسنی، بغاوت اور طاقت کے احساس سے جڑی سرگرمیاں عام انسان کے لیے ایک خاص قسم کی کشش اور گرمجوشی رکھتی ہیں، یہ الگ بات کہ وہ حقیقی زندگی میں موقع ملنے پر ایسا قدم نہ اٹھا سکے، مگر عام شخص اپنے اندر اس کی خواہش ضرور رکھتا ہے۔

یہ تحقیق بتاتی ہے کہ، ”جرم اور طاقت کی دنیا کی کشش محض سماجی عوامل کا نتیجہ نہیں بلکہ انسانی فطرت میں موجود خطرے، غلبے اور پابندیوں سے آزادی کی خواہش کا مظہر ہے۔ سماجی اصولوں اور اخلاقی ضابطوں کی حدود پار کرنے سے حاصل ہونے والا یہ لذت گیر احساس ہمیں بار بارجرائم پیشہ افراد یا باغی کرداروں کی طرف کھینچ کر لے جاتا ہے۔

"

اس نفسیاتی احساس کی وضاحت کرتے ہوئے نفسیات دان ڈاکٹر اسامہ بن زبیر ڈی ڈبلیو اردو کو بتاتے ہیں، ”یہ تسکین بقا کی جبلت سے جڑی ہوئی ہے۔ انسانی دماغ کا نظام آج بھی قبائلی طرز زندگی کے زیر اثر ہے جہاں بقا کی ضمانت طاقت تھی۔ جرائم پیشہ افراد یا گینگسٹرز کا خطرہ مول لینا، اصول توڑنا اور دوسروں پر غلبہ حاصل کرنا ہمیں کسی پرانی فطری یاد کی طرح مسحور کرتا ہے۔

" کیا طاقت کی کشش ارتقاء سے جڑی ہے؟

قائد اعظم یونیورسٹی میں کرمنالوجی شعبے کے بانی اور ماہر سماجیات ڈاکٹر محمد زمان اس سوال کا جواب اثبات میں دیتے ہیں۔

ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں، ”انسانی دماغ ہمیشہ سے طاقت کو تحفظ کے ساتھ جوڑتا آیا ہے۔ ارتقائی طور پر وہی زندہ رہا جو زیادہ طاقتور تھا، اسی لیے دوسروں پر غلبہ پانے کی خواہش انسان کی گہری جبلتوں میں رچ بس گئی۔

شاید اسی فطری یادداشت کے باعث آج بھی انسان طاقتور کرداروں سے خوف نہیں بلکہ ایک عجیب سا اطمینان اور اعتماد محسوس کرتا ہے۔"

وہ کہتے ہیں، ”جو معاشرے ابھی تک قدیم رویے اور طاقت کے روایتی تصور سے جڑے ہیں وہاں طاقت کی گلوریفیکشن زیادہ ہے، جہاں ادارے اور سسٹم مضبوط ہیں وہاں ایسا کم ہے۔ ہمارا سماج روایتی طرز زندگی اور موثر سسٹم نہ ہونے کے سبب طاقتور اور باغی کرداروں کو زیادہ اہمیت دیتا ہے۔

" جرم کی ثقافتی فینٹسی: فلم کے پردے سے سوشل میڈیا پوسٹ تک

بہت سے ناقدین کی رائے ہے کہ گاڈ فادر اور سکارفیس جیسی فلموں نے جرم کی دنیا کو خوفناک سے زیادہ دلکش بنا کر پیش کیا اور ان کے اثرات دنیا بھر کے سینما اور سماج پر مرتب ہوئے۔

ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے ثقافتی نقاد زیف سید کہتے ہیں، ”سوٹ، سگریٹ اور فلسفیانہ جملوں سے سجی گینگسٹر فلمیں شاید براہِ راست ذمہ دار نہ ہوں، مگر تشدد کو دلکش بنانے میں ان کا کردار انتہائی اہم اور وسیع ہے۔

سینما نے جرم کو ایک 'ڈرامیٹک رومانس‘ کی شکل دی، جہاں بندوق سے زیادہ کشش کردار کے اعتماد، انداز اور خود مختاری میں ہوتی ہے۔"

وہ مثال دیتے ہوئے کہتے ہیں، ”سکارفیس میں تقریباً چالیس افراد کی موت دکھائی جاتی ہے لیکن فلم دیکھنے کے بعد ہمارے ذہنوں میں بے دردی سے مارے جانے والے مناظر کی بجائے ٹونی مونٹانا (فلم کا مرکزی کردار، ڈان) کی شان و شوکت اور طاقت کا نقش زیادہ گہرا ہوتا ہے۔

"

ڈیجیٹل کلچر کی محقق اور نیشنل یونیورسٹی آف سائنسز اینڈ ٹیکنالوجی سے وابستہ اسکالر زنیرہ چوہدری سمجھتی ہیں کہ سوشل میڈیا نے جرائم کی دنیا کے بارے میں انسانی تجسس کو ایک نئی جہت دی ہے۔

ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا، ”اب جرم صرف کہانی کا موضوع نہیں، وائرل مواد ہے۔ ہر شہر اور گاؤں کی ایک سوشل میڈیا کمیونٹی ہے جہاں ایسے لوگ ہیرو کی طرح راج کرتے ہیں۔

اگر طاقت اور پیسہ زیادہ ہے، جرائم کا دائرہ وسیع ہے تو ایسا ڈان پورے ملک میں جانا پہچانا جاتا ہے۔ اور طیفی بٹ کی لڑائی کے قصے محض لاہور تک محدود نہیں رہے بلکہ یوٹیوب، ٹک ٹاک اور فیس بک کے زریعے پورے ملک میں پھیلے ہیں۔" سوشل میڈیا پر ایسے لوگوں کی مقبولیت عام افراد کو کس طرح متاثر کرتی ہے؟

زنیرہ چودھری کہتی ہیں، ”سوشل میڈیا نے اپنی ایک الگ زبان پیدا کی، جہاں طاقت، خطرہ، جارحیت اور بغاوت اکثر دلچسپ مواد کے طور پر دیکھے جاتے ہیں۔

لوگ بندوق، گاڑی، یا گینگ لائف کی ویڈیوز محض تشدد یا کسی کو اکسانے کے لیے نہیں بلکہ طاقت کی علامت کے طور پر پوسٹ کرتے ہیں۔"

ان کے نزدیک سوشل میڈیا نے تشدد کو خوبصورت بنانے کے رجحان کو بے حد فروغ دیا ہے کیونکہ، ”یہاں جارحیت کو لائکس، ویوز اور فالوورز کی شکل میں انعام ملتا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ جہاں پہلے فلموں یا خبروں میں تشدد دکھایا جاتا تھا، اب عام لوگ خود اس کا حصہ بن کر تشدد کو تفریح بنا رہے ہیں۔ طاقت کا اظہار ثقافتی فینٹسی ہے جسے نوجوان بسر کرتے ہیں۔"

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے ڈی ڈبلیو اردو سوشل میڈیا نہیں بلکہ کرتے ہوئے اور طاقت کہتے ہیں کی دنیا طاقت کی

پڑھیں:

سجل علی اور احد رضا میر سے متعلق سوشل میڈیا پر نئی قیاس آرائیاں شروع

پاکستان کی صف اول کی اداکارہ سجل علی کا اپنے سابق شوہر احد رضا میر کو ایکس پر دوبارہ فالو کرنے کا معاملہ سوشل میڈیا پر وائرل ہو گیا ہے، جس سے مداحوں میں چہ مگوئیوں اور قیاس آرائیوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔

سوشل میڈیا پر یہ خبریں گردش کر رہی ہیں کہ سجل نے احد کو ایکس پر فالو کیا ہے، جو طلاق کے بعد ایک غیر متوقع اقدام ہے اور اس نے سوشل میڈیا صارفین کو حیران کر دیا ہے۔احد اور سجل کے کچھ مداح اسے پھر سے ’دوستی‘ قرار دے رہے ہیں، جبکہ دیگر ماضی کی رومانوی جوڑی کی واپسی کی امید باندھ رہے ہیں تاہم بظاہر یہ ایکس اکاؤنٹ جعلی لگ رہا ہے۔

یاد رہے کہ سجل اور احد کی جوڑی نے 2017 کے مقبول ڈرامے 'یقین کا سفر' سے شہرت حاصل کی تھی، جہاں ان کی آن اسکرین کیمسٹری کو ناظرین کی جانب سے بےحد پسند کیا گیا تھا۔

اس کیمسٹری نے حقیقی زندگی میں بھی محبت کا روپ دھارا اور جون 2019 میں اس جوڑے نے منگنی اور 14 مارچ 2020 کو ابوظہبی میں شادی کرلی۔ تاہم یہ رشتہ زیادہ وقت نہیں چل سکا  اور دو سال بعد تعلقات میں کشیدگی بڑھنے کے بعد دونوں میں علیحدگی ہوگئی جس پر کبھی دونوں اداکاروں کی جانب سے کوئی بیان سامنے نہیں آیا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ سجل کی احد سے علیحدگی کے باوجود بھی ان کے خاندان سے پیشہ ورانہ تعلقات برقرار ہیں۔ سجل ان دنوں احد کے والد، سینئر اداکار آصف رضا میر کے ساتھ ڈرامہ 'میں منٹو نہیں ہوں' میں کام کرتی دکھائی دے رہی ہیں۔

 

متعلقہ مضامین

  • سجل علی احد رضا میر کی ٹوئٹر فولوور ، سوشل میڈیا پر نئی بحث چھڑ گئی
  • سجل علی کا احد رضا میر کو ایکس پر فالو کیے جانا، سوشل میڈیا پر چہ مگوئیوں کا سبب بن گیا
  • انسداد دہشتگردی عدالت کا  علیمہ خان کو گرفتار کرکے پیش کرنے کا حکم
  • برکت علی نے اب تک شادی کیوں نہیں کی؟
  • ایرانی صدر کی سائیکل سواری کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل
  • شوہر یا بیوی؟ سوشل میڈیا پر جوڑا سب کو چکر میں ڈال گیا
  • سجل علی اور احد رضا میر سے متعلق سوشل میڈیا پر نئی قیاس آرائیاں شروع
  • خوراک تک مساوی، محفوظ اور سستی رسائی ہر انسان کا حق ہے: صدر آصف زرداری
  • سوشل میڈیا کا زیادہ استعمال بچوں کی دماغی صلاحیتوں کے لئے نقصان دہ