Express News:
2025-10-19@23:51:58 GMT

اقوام عالم کی نئی ’’ ٹیک‘‘ سرد جنگ

اشاعت کی تاریخ: 19th, October 2025 GMT

دنیا بھر کی حکومتوں نے یوکرین، مشرق وسطیٰ کے تنازعات اور جنوبی ایشیا میں ہوئی پاک بھارت جنگ پر بھرپور توجہ دے رکھی ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ ان کے ذریعے ہمیں اس عمل کی پہلی جھلک نظر آتی ہے کہ مستقبل کی جنگ کیسی ہوگی، نہ صرف ہتھیاروں بلکہ نئی ٹیکنالوجی اور حکمت عملی کے لحاظ سے بھی۔

حال ہی میں ایران پر امریکہ-اسرائیلی حملوں نے نہ صرف ڈرون کی تعیناتی اور دراندازی کی نئی حکمت عملیوں کا مظاہرہ کیا بلکہ نئے خطرات کا بھی اظہار کر دیا۔ بارہ روزہ تنازع کے دوران خلیج فارس کے پانیوں میں ایران کے جنگی وسول بحری جہازوں کو بار بار جی پی ایس ( GPS )سگنل میں خلل کا سامنا کرنا پڑا۔اس سے ایرانی حکام کو واضح طور پر تشویش ہوئی ۔اسی لیے انھوں نے جنگ کے خاتمے پر جی پی ایس کا متبادل تلاش کرنا شروع کر دیا۔

 ایک بڑی عالمی تنظیم نو

"بعض اوقات اندرونی و بیرونی مداخلت کے باعث جی پی ایس سسٹم میں رکاوٹیں پیدا ہوتی ہیں اور اسی مسئلے نے ہمیں چین کے نیوی گیشن سسٹم، بیدو( BeiDou )جیسے متبادل اختیارات کی طرف دھکیل دیا ہے۔" ایران کے نائب وزیر مواصلات ، احسان چتساز نے جولائی کے وسط میں ایرانی میڈیا کو بتایا۔ انہوں نے مزید کہا کہ حکومت نقل و حمل، زراعت اور انٹرنیٹ کو جی پی ایس سے چین کے ’’بیدو ‘‘میں تبدیل کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہے۔

ایران کا چین کے نیویگیشن سیٹلائٹ سسٹم کو اپنانے کا فیصلہ پہلی نظر میں محض ایک حکمت عملی کے طور پر نظر آتا ہے۔ پھر بھی اس کے اثرات کہیں زیادہ گہرے ہیں۔ یہ اقدام ایک بڑی عالمی تنظیم نو جنم لینے کا ایک اور اشارہ ہے۔کئی دہائیوں سے مغرب خاص طور پر امریکہ نے کمپیوٹر آپریٹنگ سسٹم اور انٹرنیٹ سے لے کر ٹیلی کمیونیکیشن اور سیٹلائٹ نیٹ ورکس تک دنیا کے تکنیکی ڈھانچے پر غلبہ حاصل کر رکھا ہے۔

اس امر نے سبھی ممالک کا زیادہ تر انحصار ایسے مغربی انفراسٹرکچر پر چھوڑ دیا جس کا کوئی عمدہ متبادل نہیں اور اسی لیے کوئی اسے چیلنج نہیں کر سکتا۔ مگر امریکی ٹیکنالوجی پر انحصار آسانی سے کمزوری بن سکتا ہے۔ 2013ء سے وسل بلوئرز اور میڈیا کی تحقیقات نے انکشاف کیا ہے کہ کس طرح مختلف مغربی ٹیکنالوجیز اور اسکیموں نے عالمی سطح پر امریکہ اور اس کے حواریوں کو حکومتوں سے لے کر عام افراد تک کی غیر قانونی نگرانی اور ڈیٹا اکٹھا کرنے کے قابل بنادیا ہے۔اس انکشاف نے دنیا بھر کی حکومتوں کو پریشان کر رکھا ہے۔

سیکورٹی و ترقی کی ضمانت

ایران کی بیدو میں ممکنہ تبدیلی دیگر اقوام کو ایک واضح پیغام بھیجتی ہے جو تکنیکی سہولت اور اپنے سٹریٹجک دفاع کے درمیان نازک توازن سے دوچار ہیں…یہ کہ امریکہ کے زیر کنٹرول انفراسٹرکچر پر اندھادھند، سادہ لوح انحصار کا دور تیزی سے ختم ہو رہا ہے۔ قومیں اب اپنی فوجی صلاحیتوں اور اہم ڈیجیٹل خودمختاری کو ایک ایسی سپر پاور کے سیٹلائٹ گرڈ سے منسلک کرنے کی متحمل نہیں ہوسکتیں جس پر وہ بھروسا بھی نہیں کرتی ہیں۔

یورپ کے’’ گیلیلیو ‘‘سے لے کر روس کے’’ گلونوس‘‘ تک یہ جذبہ قومی یا علاقائی سیٹلائٹ نیویگیشن سسٹم کی تخلیق کرنے کے پیچھے متحرک قوتوں میں سے ایک ہے۔ ہر ملک نشوونما پاتی عالمی پوزیشننگ مارکیٹ میں حصّہ لینے کے لیے کوشاں ہے اور سیٹلائٹ نیویگیشن سسٹم کے کنٹرول کو اپنی سیکورٹی و ترقی کی ضمانت سمجھتا ہے۔

جی پی ایس وہ واحد خطرہ نہیں تھا جس کا ایران کو امریکی-اسرائیلی حملوں کے دوران سامنا کرنا پڑا۔ اسرائیلی فوج ایرانی سیکورٹی اور فوجی دستوں کے متعدد جوہری سائنسدانوں اور سینئر کمانڈروں کو قتل کرنے میں کامیاب رہی۔ حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل ان کی موجودگی کے صحیح مقامات کی نشان دہی کرنے میں کامیاب رہا۔ اس کامیابی نے ایرانی حکومت کو احساس دلا دیا کہ اسرائیل کی خفیہ ایجنسیاں ایران کے ٹیلی کمیونیکیشن میں دراندازی کرنے اور لوگوں کو ان کے فون کے ذریعے ٹریس کرنے کے قابل ہو چکی ہیں۔

17 جون کو جب تنازع اب بھی بڑھ رہا تھا، ایران کے حکام نے ایرانی عوام پر زور دیا کہ وہ میسجنگ ایپ، واٹس ایپ کا استعمال بند کر دیں اور اسے اپنے فون سے حذف کر دیں، یہ کہتے ہوئے کہ یہ اسرائیل کو بھیجنے کے لیے صارف کی معلومات اکٹھا کر رہا ہے۔ یہ معلوم نہیں، آیا اس اپیل کا تعلق اعلیٰ حکام کے قتل سے تھا یا نہیں، لیکن امریکہ میں قائم کارپوریشن، میٹا کے ذریعے چلائی جانے والی ایپ پر ایرانی عدم اعتماد ٹھوس شواہد رکھتا ہے۔

سائبرسیکیوریٹی ماہرین طویل عرصے سے ایپ کی سیکیورٹی کے بارے میں شکوک و شبہات کا شکار ہیں۔ حال ہی میں میڈیا رپورٹس میں انکشاف ہوا ہے کہ اسرائیل غزہ میں فلسطینیوں کو نشانہ بنانے کے لیے مصنوعی ذہانت کا جو سافٹ ویئر استعمال کرتا ہے، وہ مبینہ طور پر سوشل میڈیا سے ڈیٹا فیڈ کرتا ہے۔ مزید برآں ایران پر حملوں کے خاتمے کے فوراً بعد امریکی ایوان نمائندگان نے سرکاری آلات سے واٹس ایپ پر پابندی عائد کردی تھی۔

ایک نیا ہتھیار

ایران اور دنیا بھر کے دیگر ممالک کے لیے مغرب کی کمیونیکیشن ٹیکنالوجی کو استعمال کرتے ہوئے اس سے وابستہ مضمرات واضح ہیں: مغربی پلیٹ فارمز پر اب صرف رابطے کے ذرائع کے طور پر بھروسا نہیں کیا جا سکتا۔ انہیں اب ایک وسیع تر ڈیجیٹل انٹیلی جنس جنگ میں ایک ہتھیار کے طور پر دیکھا جانے لگا ہے۔

ایران پہلے ہی اپنا انٹرنیٹ سسٹم، نیشنل انفارمیشن نیٹ ورک تیار کر رہا ہے جو ریاستی حکام کو انٹرنیٹ کے استعمال پر زیادہ کنٹرول فراہم کرے گا۔ آگے بڑھتے ہوئے ایران ممکنہ طور پر اس عمل کو وسعت دے اور ممکنہ طور پر چین کے عظیم فائر وال کی تقلید کرنے کی کوشش کرے گا۔

مغربی تسلط والے بنیادی ڈھانچے سے توڑنے کی کوشش کرتے ہوئے ایران یقینی طور پر اپنے آپ کو اثر و رسوخ کے بڑھتے دائرے کے ساتھ جوڑ رہا ہے جو بنیادی طور پر مغربی تسلط کو چیلنج کرتا ہے۔ یہ شراکت داری سادہ لین دین کے تبادلے سے بالاتر ہے کیونکہ چین ایران کو حقیقی ڈیجیٹل اور اسٹریٹجک آزادی کے لیے ضروری ٹولز پیش کرتا ہے۔

اس کا وسیع تر تناظر چین کا زبردست بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو (BRI) منصوبہ ہے۔ اگرچہ اکثر اسے بنیادی ڈھانچے اور تجارتی منصوبے کے طور پرپیش کیا جاتا ہے مگر بی آر آئی ہمیشہ سڑکوں اور بندرگاہوں سے کہیں زیادہ رہا ہے۔ یہ ایک متبادل عالمی آرڈر کی تعمیر کے لیے پُرجوش خاکہ ہے۔ ایران جو اسٹریٹجک طور پر اہم پوزیشن میں ہے اور ایک بڑا توانائی فراہم کنندہ ، اس وسیع وژن میں تیزی سے اہم شراکت دار بن رہا ہے۔

ہم جس چیز کا مشاہدہ کر رہے ہیں وہ دنیا میں ایک نئے طاقتور ٹیک بلاک کا ظہور ہے جو ڈیجیٹل انفراسٹرکچر کو سیاسی عدم تحفظ کے مشترکہ احساس کے ساتھ متحد کرتا ہے۔ مغرب کے دوہرے معیار، یکطرفہ پابندیوں اور زبردست ڈیجیٹل تسلط سے تنگ ممالک چین کے بڑھتے اثر و رسوخ میں تیزی سے آرام دہ اور نمایاں فائدہ حاصل کریں گے۔

کم درجہ حرارت کا تصادم

یہ تیز رفتار تبدیلی ایک نئی’’ٹیک سرد جنگ‘‘ کا آغاز کررہی ہے، ایک کم درجہ حرارت کا تصادم جس میں قومیں تیزی سے نیوی گیشن اور کمیونیکیشن سے لے کر ڈیٹا فلو اور مالیاتی ادائیگی کے نظام تک اپنے اہم بنیادی ڈھانچے کا انتخاب کریں گی۔ یہ شراکت داری بنیادی طور پر تکنیکی برتری یا جامع عالمی کوریج نہیں بلکہ سیاسی دوستیوںاور سیکورٹی پر بڑھتے ہوئے تحفظات پر مبنی ہے۔جب زیادہ سے زیادہ ممالک اس عمل کی پیروی کر یں گے، مغربی تکنیکی فائدہ حقیقی وقت میں سکڑنا شروع ہو جائے گا، جس کے نتیجے میں بین الاقوامی پاور ڈائنامکس کو دوبارہ ڈیزائن کیا جائے گا۔

ایران کی اسٹوڈنٹ نیوز ایجنسی کی 27 جولائی کی ایک رپورٹ کے مطابق ایران کی مقامی ٹیکنالوجی کمپنیاں سافٹ ویئر اپ گریڈز کے ذریعے ملٹی سسٹم ہائبرڈ پوزیشننگ فعال بنانے پر کام کر رہی ہیں۔ جب ایک نظام متاثر ہوتا ہے تو ڈیوائسز درست مقام کی نشاندہی برقرار رکھنے کے لیے دوسرے نظاموں پر منتقل ہو سکتی ہیں۔

چین کا بیدو سیٹلائٹ نیویگیشن سسٹم ہم خیال ممالک کے لیے ایک قابل اعتماد متبادل کے طور پر ابھر رہا ہے اور کئی نئے اسمارٹ فونز، خاص طور پر چینی برانڈز پہلے ہی اس کے ساتھ مکمل طور پر مطابقت رکھتے ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ بیدو جیسے نظاموں کی طرف رجوع کرنا اور ملکی انفراسٹرکچر کو مضبوط بنانا کوئی اختیار نہیں بلکہ پائیدار سلامتی اور شہریوں کی فلاح یقیی بنانے کے لیے ایک ضروری شرط بن گئی ہے۔

بیدو کی خصوصیات

چین کی سیٹلائٹ نیویگیشن اور پوزیشننگ سروسز انڈسٹری کی ترقی پر 2025 ء کے وائٹ پیپر کی رو سے بیدو نے، جو اقوام متحدہ کی طرف سے تسلیم شدہ ایک مرکزی عالمی سیٹلائٹ نیویگیشن سسٹم ہے،روس، پاکستان، عرب لیگ، سعودی عرب، بیلاروس اور دیگر کے ساتھ تعاون کے معاہدے کر رکھے ہیں۔ یہ مکمل طور پر 11 بین الاقوامی تنظیموں کے معیاری نظاموں میں ضم ہو چکا جن میں شہری ہوابازی، بحری امور اور موبائل کمیونیکیشن جیسے شعبے شامل ہیں۔

وہ اپنے بین الاقوامی شراکت داروں کا نیٹ ورک بتدریج بڑھا رہا ہے۔ بیدو کی مصنوعات 140 سے زیادہ ممالک اور خطوں کو برآمد کی جا چکی اور 30 سے زائد افریقی ممالک بشمول نائجیریا اور تیونس میں سی او آرایس اسٹیشن CORS (Continuously Operating Reference Stations) تعمیر کیے گئے ہیں جو مقامی زمین کی پیمائش، پانی کے انتظام، ٹرانسپورٹ، زراعت، جنگلات، کان کنی، گاڑیوں کے انتظام اور موسمیاتی نگرانی کے سلسلے میں اعلیٰ درستی والی پوزیشننگ خدمات فراہم کرتے ہیں۔

اسی وقت بیدو کا بین الاقوامی تعاون اور تبادلہ مزید گہرا ہوتا جا رہا ہے۔ روس کے ساتھ سیٹلائٹ نیویگیشن کے شعبے میں تعاون مضبوط کرنے کے علاوہ چین نے جنوبی افریقہ اور نائجیریا کے ساتھ بیدو سیٹلائٹ نیویگیشن سسٹم کے اطلاق پر دو طرفہ معاہدوں پر بھی دستخط کیے ہیں۔

سب کا بھلا، سب کی خیر

اس سے پہلے کچھ غیر ملکی میڈیا نے دعویٰ کیا تھا کہ بیدو سسٹم امریکی جی پی ایس کے عالمی غلبے کو چیلنج کر رہا ہے۔ اس پر ردعمل دیتے ہوئے چینی وزارتِ خارجہ کی ترجمان ماؤ نِنگ نے کہا ، چین کی سائنسی و تکنیکی جدت اور صنعتی ترقی کا مقصد کبھی کسی مخصوص ملک کو نشانہ بنانا نہیں ہوتا۔ اْنہوں نے کہا: ’’"چین کا بیدو دنیا کا بیدو بھی ہے۔ ہم کھلے پن اور تعاون، باہمی فائدے اور سبھی کی جیت کی پالیسی پر کاربند رہیں گے اور دیگر ممالک کے ساتھ مل کر کام کریں گے تاکہ زیادہ ترقی یافتہ سائنسی و تکنیکی کامیابیاں عوام کی خدمت کریں اور پوری انسانیت کو فائدہ پہنچائیں۔"

دو اہم جنگیں

دو حالیہ جنگوں میں جنہوں نے دنیا کو ایک مکمل عالمی تنازع کے دہانے پر پہنچا دیا …ایک پاکستان اور بھارت کے درمیان اور دوسری ایران اور اسرائیل کے درمیان ہوئی۔ان جنگوں سے فوجی برتری کا ایک نیا تعین سامنے آیا۔ دونوں صورتوں میں دباؤ میں آنے والے ممالک، پاکستان اور ایران نہ صرف اپنے مؤقف پر قائم رہے بلکہ حیران کن درستی اور تباہ کن اثر کے ساتھ انھوں نے دشمن کی سرزمین کے اندر گہرائی تک حملے کیے۔

پاکستان نے پانچ روزہ جنگ میں ایک بہت بڑے حریف کے خلاف بھارت کی فضائیہ کو مفلوج کر دیا اور اس کے اندرونی اسٹریٹجک تنصیبات کو نشانہ بنایا۔ اسی طرح اسرائیل کے ساتھ بارہ روزہ جنگ میں ایران نے میزائیلوں کی بارش برسا کر اسرائیل کے کئی اعلیٰ درجے کے فوجی، معاشی اور اسٹریٹجک اثاثے تباہ کر دیے اور بالآخر اسرائیل کو جنگ بندی کی درخواست کرنے پر مجبور کر دیا۔

ان غیر متوقع فتوحات میں مشترک عنصر کیا تھا؟ دونوں ممالک نے امریکی کنٹرول والے جی پی ایس پر انحصار ترک کر کے چین کے بیدو (BeiDou) سیٹلائٹ نیویگیشن سسٹم کو اختیار کیا۔ یہ صرف ایک تکنیکی تبدیلی نہیں بلکہ ایک اسٹریٹجک موڑ تھا جس نے دونوں جنگوں کے نتائج کو متعین کر دیا۔ اگر پاکستان و ایران امریکی جی پی ایس پر انحصار کرتے جسے واشنگٹن اپنی مرضی سے کمزور یا معطل کر سکتا ہے، تو ان کی کامیابی کا امکان نہایت کم ہوسکتا تھا۔

امریکہ کی چال

یہ قیاس آرائیاں بڑھ رہی ہیں کہ امریکا نے جان بوجھ کر بھارت اور اسرائیل کو جی پی ایس سسٹم کی تمام خصوصیات فراہم نہیں کیں تاکہ خاص طور پر بھارت کو ایک جغرافیائی سیاسی سبق سکھایا جائے جس کی علاقائی خواہشات اور امریکا مخالف رویّہ مسائل پیدا کر رہا تھا۔ اسرائیل کو بھی سبق سکھانا مقصود تھاجس کا امریکی سیاست پر بڑھتا اثر و رسوخ اور مشرقِ وسطیٰ میں غلبہ امریکا کی برتری کے لیے چیلنج بنتا جا رہا ہے۔ دونوں جنگوں میں جس فریق نے بیدو پر انحصار کیا، وہ فاتح قرار پایا۔ امریکا سے چین کی سیٹلائٹ رہنمائی کی یہ خاموش مگر انقلابی منتقلی عالمی جنگی نظام اور ڈیجیٹل خودمختاری میں ایک فیصلہ کن تبدیلی کی علامت ہے۔

 ایران اگر بیدو تک رسائی نہ رکھتا، تو اُس کے لیے اسرائیل کے اہم اہداف اِس قدر تباہ کن انداز میں نشانہ بنانا تقریباً ناممکن ہوجاتا۔ اگر ایران امریکی جی پی ایس پر انحصار کرتا تو وہ جیمنگ، سگنل میں خلل اور لوکیشن کی کمزوری جیسے حربوں کے سامنے بے بس ہو جاتا۔یہ وہ طریقے ہیں جنہیں پینٹاگون عراق سے کوسوو تک تنازعات میں نیویگیشن کی برتری برقرار رکھنے کے لیے استعمال کرتا رہا ہے۔ لیکن بیدو نے یہ مساوات بدل دی اور اس نے ایران کو آزادی سے ٹارگٹوں کو نشانہ بنانے کا تحفہ دے ڈالا۔ اس نے ایران کو درستگی دی اور یہ صلاحیت بھی کہ وہ ایسے زبردست میزائیل حملے کرے جو اسرائیلی دفاع کو حیران کر گئے ۔انھوں نے اس کے مغربی اتحادیوں کے اسٹریٹجک اعتماد کو بھی ہلا کر رکھ دیا۔

جی پی ایس اہم نہیں رہا

 کچھ عرصہ پہلے تک امریکا سیٹلائٹ پر مبنی نیویگیشن پر بلاشرکتِ غیرے غلبہ رکھتا تھا۔ اس کا جی پی ایس سسٹم، جو 1978 ء میں شروع ہوا اور 1995 ء سے عالمی سطح پر فعال ہے، جدید دنیا کی ایک پوشیدہ ریڑھ کی ہڈی تھا۔ فوجی کمانڈ سینٹروں سے لے کر اوبر رائیڈز تک، جی پی ایس عام شہریوں کے لیے تقریباً پانچ میٹر تک درستی اور فوجی استعمال میں چند سینٹی میٹر تک کی خفیہ درستی فراہم کرتا ہے۔ اس کے 31 سیٹلائٹس پوری زمین کو ڈھانپتے ہوئے چلتے ہیں جو جی پی ایس کو نہ صرف جنگ بلکہ تجارت، ٹرانسپورٹ، مواصلات اور مالیات کے لیے بھی ناگزیر بنا ڈالتے ہیں۔ آج بھی 160 سے زائد ممالک اس پر انحصار کرتے ہیں… لیکن یہ انحصار کمزوری بھی پیدا کرتا ہے۔

چین نے یہی کمزوری دیکھتے ہوئے ایک مختلف راستہ اختیار کیا۔ 2000 ء کی دہائی کے اوائل میں جب کئی مواقع پر چینی فوجی مشقیں امریکی جی پی ایس کے ذریعے ممکنہ رکاوٹ کے خطرے سے دوچار ہوئیں، بیجنگ نے تیزی سے اپنا متبادل نظام تعمیر کرنا شروع کر دیا۔یوں بیدو نیویگیشن سیٹلائٹ سسٹم وجود میں آیا۔ 2020 ء تک بیدو نے مکمل عالمی آپریشنل صلاحیت حاصل کر لی۔ آج وہ 45 سے زائد فعال سیٹلائٹس پر مشتمل ہے جو دنیا بھر میں جی پی ایس کے مساوی کوریج فراہم کرتے ہیں۔جبکہ ایشیا اور مشرقِ وسطیٰ میں، جہاں پاکستان و ایران واقع ہیں، یہ جی پی ایس سے زیادہ درستی مہیا کرتا ہے۔

لیکن بیدو محض جی پی ایس کی نقل نہیں بلکہ کئی پہلوؤں میں اس سے بہتر ہے۔ اس کی شہری درستی 2.

5 سے 5 میٹر کے درمیان ہے اور اس کی ڈوئل فریکوئنسی صلاحیت جو اب اس کے ریسیورز میں بڑی معیاری ہو چکی، جیمنگ کے خلاف زیادہ مزاحمت کو یقینی بناتی ہے۔ جی پی ایس کی اعلیٰ ترین سروسز صرف GPS-III سیٹلائٹس اور امریکی فوجی صارفین کے لیے مخصوص ہیں، وہاں بیدو اپنی صلاحیتیں اتحادیوں اور کمرشل صارفین تک زیادہ وسیع پیمانے پر تقسیم کرتا ہے۔ یہ تبدیلی صرف تکنیکی نہیں بلکہ جغرافیائی و سیاسی بھی ہے۔

اسرائیل کے ساتھ تنازع میں ایران کا بیدو استعمال کرنا بالکل اسی مقصد کو ظاہر کرتا ہے جس کے لیے چین نے یہ نظام بنایا تھا: امریکا کی ڈیجیٹل پوزیشننگ پر اجارہ داری توڑنا اور اپنے شراکت داروں کو ایک آزاد متبادل فراہم کرنا۔ ایران کی فوج طویل عرصے سے خوفزدہ تھی کہ کسی بھی جنگی صورتحال میں امریکی جی پی ایس پر انحصار ایک مہلک کمزوری بن سکتا ہے۔بیدو نے یہ خوف دور کر دیا۔

نئے خزانے کی چابی

ایران کی کامیابی نے ایک گہری حقیقت کو بھی بے نقاب کیا: عالمی طاقت کا ڈھانچہ اب صرف مادی اثاثوں یا معاشی قوت پر مبنی نہیں رہا، بلکہ ڈیجیٹل کنٹرول پر بھی منحصر ہو چکا ۔ نیویگیشن سیٹلائٹس جوکبھی سائنسی تجسس کا شعبہ تھے،اب جنگی میدان میں بالادستی اور معاشی مضبوطی کے خاموش ضامن بن گئے ہیں۔ سیٹلائٹ ٹائم ہم آہنگی (synchronization) اسٹاک ایکسچینج اور اے ٹی ایم نیٹ ورکس سے لے کر پروازوں کے راستوں اور بجلی کے گرڈز تک ہر چیز کو کنٹرول کرتی ہے۔ قابلِ اعتماد سیٹلائٹ سگنلز کے بغیر پورے قومی نظام بیٹھ سکتے ہیں۔ کئی دہائیوں تک صرف امریکا کے پاس اس خزانے کی چابیاں تھیں۔ اب چین کے پاس بھی ایک دوسری چابی ہے اور ممالک اس میں سے اپنا حصہ لینے قطار میں کھڑے ہیں۔

150 سے زیادہ ممالک نے اب اپنے ٹیلی کمیونیکیشن، ٹرانسپورٹیشن، دفاع اور مالیاتی نظاموں میں بیدو کو ضم کر لیا ہے۔ ان میں سے کئی ممالک چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کے رکن یا شراکت دار بھی ہیں۔ ان کی ڈیجیٹل شاہراہیں، بندرگاہیں، ڈرونز، زرعی مشینریاں اور حتیٰ کہ بینک سرورز بھی اب چینی سیٹلائٹس کی ہم آہنگی کے مطابق چلنے لگے ہیں۔ افریقہ میں بیدو سے چلنے والے اسمارٹ ٹریکٹر اب ایک میٹر سے بھی کم غلطی کے ساتھ فصلیں کاٹتے ہیں۔ وسطی ایشیا میں مال بردار ٹرینیں اپنی بین البرعظمی سفری ہم آہنگی چینی اسپیس ٹائم سگنلز سے معین کرتی ہیں۔ جنوب مشرقی ایشیا میں شہری فضائی راستے بڑھتے پیمانے پہ بیدو پر حقیقی وقت میں ٹریکنگ کے لیے انحصار کر رہے ہیں۔ لاطینی امریکا اور مشرقِ وسطیٰ میں افواج امریکی جی پی ایس پر انحصار ختم کرنے کے لیے چینی ریسیورز آزما رہی ہیں۔

ایک بڑی حکمتِ عملی

نیویگیشن طاقت کی یہ تقسیم چین کی ایک بڑی حکمتِ عملی کا حصہ ہے…صرف امریکا کا مقابلہ کرنے نہیں بلکہ ایک متوازی نظام قائم کرنے کے لیے جو امریکی غلبے کو اختیاری بنا دے۔چین کی کثیر قطبی دنیا (multipolarity) کی جانب پیش قدمی صرف تجارتی راستوں یا فوجی مشقوں میں ہی نہیں دکھائی دیتی،یہ ستاروں میں بھی لکھی جا رہی ہے۔ بیدو اس ڈھانچے کا ایک ستون ہے۔ دیگر ستونوں میں 5G انفراسٹرکچر میں چین کی برتری، ڈیجیٹل یوان کا اجرا ، مصنوعی ذہانت اور کوانٹم کمپیوٹنگ میں سرمایہ کاری اور خلا میں زمین جیسے سیارے کی تلاش کا پرعزم پروگرام شامل ہیں۔

بیجنگ نے دراصل وہ حقیقت سمجھ لی ہے جو بہت کم لوگ پوری طرح جانتے ہیں…اکیسویں صدی میں ایک سپر پاور کی تعریف صرف اس کے جی ڈی پی یا میزائلوں کی تعداد سے نہیں بلکہ اْس کی اِس صلاحیت سے بھی ہو گی کہ وہ عالمی نظامِ کنٹرول کرنے کے متبادل خودمختار حل فراہم کر سکے۔ بیدو بالکل وہی ہے…ایک خودمختار متبادل۔ یہ ممالک کو یہ صلاحیت دیتا ہے کہ وہ ڈیجیٹل تخریب کاری یا بیرونی کنٹرول کے خطرے سے آزاد ہو کر اپنا راستہ خود متعین کرلیں۔ اس عمل میں یہ عالمی اتحاد نہ صرف سفارت کاری یا نظریات کے ذریعے بلکہ سرکٹس اور سگنلز کے ذریعے بھی تبدیل کرسکتا ہے۔

پاکستان و بھارت اور ایران و اسرائیل کے درمیان ٹکراؤ نے کئی چیزیں بے نقاب کر دیں …فوجی صلاحیت، سیاسی اتحاد، انٹیلی جنس کی خامیاںلیکن سب سے بڑھ کر اس نے ایک نئے ڈیجیٹل نظام کے ظہور کو آشکار کر دیا۔ اس نے یہ دکھا دیا کہ چین کی ٹیکنالوجی اب صرف فیکٹریوں یا برآمدی فہرستوں تک محدود نہیں رہی۔ یہ اب جنگ میں ، خودمختاری اور ان اہم ترین فیصلوں میں سرایت کر گئی ہے جو ایک قوم کر سکتی ہے۔ بیدو کے ذریعے چین نے محض سیٹلائٹس لانچ نہیں کیے، اس نے اپنا اثر و رسوخ لانچ کیا اور عالمی ممالک کو بھی آزادی و خودمختاری کا تحفہ عطا کر ڈالا…اور ایسا کرتے ہوئے اس نے خاموشی سے نہ صرف جنگ بلکہ اس کے کنٹرول کا مستقبل بھی بدل ڈالا۔

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: امریکی جی پی ایس پر انحصار بین الاقوامی اسرائیل کے اسرائیل کو کہ اسرائیل کے درمیان نہیں بلکہ میں ایران کے طور پر کی برتری کو نشانہ کے ذریعے دنیا بھر سے زیادہ ایران کو ایران کی نے ایران فراہم کر ایران کے سے لے کر سکتا ہے کرنے کے کرتا ہے ایک بڑی تیزی سے کا بیدو میں ایک کے ساتھ چین کے ہے اور کے لیے کر رہا بلکہ ا کو بھی اور اس کو ایک رہا ہے چین کی چین نے کر دیا

پڑھیں:

قم المقدسہ میں مجلس ایصال ثواب کا انعقاد

مجلس عزاء سے خطاب کرتے ہوئے علامہ ڈاکٹر سید توقیر عباس کاظمی نے علم و عالم کی اہمیت بیان کرتے ہوئے علامہ ظفر عباس مرحوم کی دین مبین کے راستے میں انجام دی گئی خدمات کو سراہا۔ چھوٹی تصاویر تصاویر کی فہرست سلائیڈ شو

قم المقدسہ میں بزرگ عالم دین علامہ ملک ظفر عباس مرحوم کے لئے مجلس ایصال ثواب کا انعقاد

قم المقدسہ میں بزرگ عالم دین علامہ ملک ظفر عباس مرحوم کے لئے مجلس ایصال ثواب کا انعقاد

قم المقدسہ میں بزرگ عالم دین علامہ ملک ظفر عباس مرحوم کے لئے مجلس ایصال ثواب کا انعقاد

قم المقدسہ میں بزرگ عالم دین علامہ ملک ظفر عباس مرحوم کے لئے مجلس ایصال ثواب کا انعقاد

قم المقدسہ میں بزرگ عالم دین علامہ ملک ظفر عباس مرحوم کے لئے مجلس ایصال ثواب کا انعقاد

قم المقدسہ میں بزرگ عالم دین علامہ ملک ظفر عباس مرحوم کے لئے مجلس ایصال ثواب کا انعقاد

قم المقدسہ میں بزرگ عالم دین علامہ ملک ظفر عباس مرحوم کے لئے مجلس ایصال ثواب کا انعقاد

قم المقدسہ میں بزرگ عالم دین علامہ ملک ظفر عباس مرحوم کے لئے مجلس ایصال ثواب کا انعقاد

قم المقدسہ میں بزرگ عالم دین علامہ ملک ظفر عباس مرحوم کے لئے مجلس ایصال ثواب کا انعقاد

اسلام ٹائمز۔ قم المقدسہ حرم حضرت فاطمہ معصومہ سلام علیہا میں بزرگ عالم دین سرمایہ ملت جعفریہ پاکستان، مبلغ مکتب اہل بیت عصمت و طہارت مرحوم و مغفور علامہ ملک ظفر عباس (برطانیہ) اور مرحوم ملک مہروز طفیل کے لئے ایک مجلس ایصال ثواب کا اہتمام کیا گیا۔ مجلس عزاء سے خطاب کرتے ہوئے علامہ ڈاکٹر سید توقیر عباس کاظمی نے علم و عالم کی اہمیت بیان کرتے ہوئے علامہ ظفر عباس مرحوم کی دین مبین کے راستے میں انجام دی گئی خدمات کو سراہا۔ مجلس عزاء کے بعد پاکستان سے تشریف لائے ہوئے بزرگ عالم دین امام خمینی ٹرسٹ کے بانی علامہ سید افتخار حسین نقوی نے مرحومین کے لئے دعائے مغفرت فرمائی، جبکہ پروگرام کے آخر میں مرحومین کے لئے اجتماعی فاتحہ خوانی بھی کی گئی۔

متعلقہ مضامین

  • رفتارِ عالم اکتوبر 2025ء تک: تنائو، معیشت اور نئے توازن
  • ایٹمی پروگرام سے متعلق کیا گیا معاہدہ اپنی مدت مکمل کر چکا، اب ہم کسی کے پابند نہیں، ایران
  • جوہری پروگرام کسی عالمی معاہدے کے پابند نہیں ہیں، ایران کا دوٹوک اعلان
  • سلامتی کونسل کے نام خط
  • قم المقدسہ میں مجلس ایصال ثواب کا انعقاد
  • بھوتوں کی آوازوں سے نفسیاتی جنگ! کمبوڈیا کی تھائی لینڈ کے خلاف اقوام متحدہ میں شکایت
  • ایران پر سلامتی کونسل کی طرف سے عائد پابندیاں اٹھا لی جائیں گی، نائب وزیر خارجہ
  • ایران: جوہری معاہدہ ختم، اب کسی پابندی کے پابند نہیں
  • سعودی عرب ابراہیمی معاہدے میں شامل ہونے کو تیار ،مزید ممالک جلدشامل ہوں گے، ڈونلڈ ٹرمپ کا دعویٰ