بدلے کی آگ میں جلتا مودی خطے کے امن کے لیے خطرہ
اشاعت کی تاریخ: 20th, October 2025 GMT
پروفیسر شاداب احمد صدیقی
آپریشن سندور کی ناکامی کے بعد مودی حواس باختہ ہو گیا ہے ۔الیکش مہم میں اپنی بیوقوف جنتا کو سنہری خواب دکھاتا ہے اور بڑے بڑے بلند بانگ دعویٰ کرتا ہے جس سے شیخ چلی کی آتما کو بھی تکلیف ہوتی ہوگی۔گزشتہ دنوں الیکش مہم میں مودی کا یہ بیان کہ ”میں بدلے کی آگ میں جل رہا ہوں، پاکستانی آرمی چیف میرا اصل ٹارگٹ ہے ”۔مودی مرنے سے پہلے ہی آگ میں جل رہا ہے۔ اُس کے ذہنی انتشار، نفرت اور شکست خوردگی کی واضح علامت ہے ۔ یہ جملہ صرف سیاسی غصے کا اظہار نہیں بلکہ اْس احساسِ ہزیمت کی جھلک ہے جو پاکستان کی عسکری کامیابیوں نے بھارت کے دل میں پیدا کی ہے ۔ بھارت کے حکمرانوں کے لیے سب سے بڑا صدمہ یہ ہے کہ وہ ہر سازش، ہر پروپیگنڈا اور ہر دباؤ کے باوجود پاکستان کو کمزور نہیں کر سکے ۔ رافیل کا غرور خاک میں ملنا مودی کے تکبر کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوا۔جب طاقت اقتدار کے زعم میں اندھی ہو جائے تو انسان صرف دشمنوں سے نہیں، اپنی عقل سے بھی لڑنے لگتا ہے ۔ بھارت کے وزیرِاعظم نریندر مودی کا حالیہ بیان، جس میں انہوں نے کہا کہ ”میں بدلے کی آگ میں جل رہا ہوں” اور اشارہ پاکستان کی عسکری قیادت کی جانب تھا، اسی ذہنی انتشار، شکست خوردگی اور نفرت کے اس سفر کی تازہ قسط ہے ۔ اگرچہ بھارتی حکومت کے سرکاری ذرائع اس جملے کی براہِ راست تصدیق نہیں کرتے ، مگر مودی کی تقاریر اور بیانات میں حالیہ دنوں جو لب و لہجہ اختیار کیا گیا ہے وہ اس جذبہ انتقام اور شدت پسندی کا کھلا مظہر ہے ۔ اس طرح کے بیانات محض سیاسی اشتعال نہیں بلکہ ایک خطرناک نظریے کی علامت ہیں جو بھارت کو امن کے راستے سے مزید دور لے جا رہے ہیں۔
مودی کے سیاسی نظریے کی بنیاد ہندوتوا پر ہے ، جہاں طاقت، تشدد اور مذہبی برتری کو قومی سلامتی سے جوڑ دیا گیا ہے ۔ یہی سوچ انہیں ہر اس قوت کے خلاف بھڑکاتی ہے جو بھارت کے عظیم اکھنڈ ہندو راشٹر کے خواب میں رکاوٹ بنے ۔ پاکستان ہمیشہ سے اس نظریے کا سب سے بڑا ہدف رہا ہے ، کیونکہ مودی کی سیاست نفرت کے اس ایندھن سے ہی جلتی ہے ۔ مودی کی حکومت نے اپنے اقتدار کے دوران کبھی سرجیکل اسٹرائیک، پہلگام واقعہ اور کبھی پلوامہ کے نام پر عوام کے جذبات بھڑکائے ۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ بھارت کو آج بھی اپنے اندرونی تضادات، غربت، اور گرتی ہوئی معیشت کے مقابلے میں کوئی ٹھوس کامیابی نہیں ملی۔ جب اندرونی محاذ پر ناکامی بڑھتی ہے تو سیاست دان عوام کی توجہ بیرونی دشمن کی طرف موڑنے کی کوشش کرتے ہیں، اور یہی مودی کی نفسیات کی اصل جڑ ہے ۔رافیل طیاروں کے سودے سے لے کر کسانوں کی تحریک تک، مودی حکومت نے عوامی سطح پر کئی بحرانوں کا سامنا کیا۔ ان کی معاشی پالیسیوں نے متوسط طبقے کو مایوسی میں دھکیل دیا۔ مگر ان تمام ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کے لیے مودی نے ہمیشہ پاکستان مخالف بیانات کو ایک نیا رنگ دیا۔ حالیہ بیان بھی اسی تسلسل کا حصہ ہے ، جو ان کے اندرونی دباؤ اور عالمی سطح پر کمزور ہوتے امیج کا نتیجہ ہے ۔ یہ امر بھی قابلِ غور ہے کہ بھارتی میڈیا، جو حکومتی بیانیے کا ترجمان بن چکا ہے ، ایسے بیانات کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتا ہے تاکہ مودی کی سخت گیر شبیہ برقرار رہے ۔ یہی میڈیا وہ پلیٹ فارم بن چکا ہے جہاں حقائق کے بجائے اشتعال انگیزی فروغ پاتی ہے ۔
مودی کے لیے سب سے بڑا دھچکا وہ عسکری برتری ہے جس کا خواب بھارت نے کئی برسوں سے دیکھا مگر کبھی پورا نہ کر سکا۔ پاکستان کی دفاعی حکمت عملی، خاص طور پر لائن آف کنٹرول پر تحمل اور سفارتی سطح پر مضبوط موقف نے بھارت کی جنگی خواہشات کو بارہا ناکام بنایا۔ بھارت نے 2019میں پلوامہ کے بعد جس طرح سرجیکل اسٹرائیک کا ڈھونگ رچایا، اُس کے بعد بین الاقوامی ذرائع نے خود اس کے جھوٹ کو بے نقاب کیا۔ مودی حکومت اس وقت سے اپنے عسکری وقار کو بحال کرنے کے لیے مسلسل اشتعال انگیزی پر اتر آئی ہے ۔ ان کا بدلے کی آگ والا لہجہ اسی شکست خوردگی کی علامت ہے جو زمینی حقیقتوں کے آگے بے بس ہے ۔
پاکستان کے لیے یہ کوئی نیا تجربہ نہیں کہ بھارت داخلی ناکامیوں کا ملبہ بیرونی دشمن پر ڈالے ۔ مگر مودی کے دور میں یہ رجحان خطرناک حد تک بڑھ چکا ہے ۔ بھارت کا عسکری بجٹ 2025میں 91ارب ڈالر سے تجاوز کر چکا ہے ، مگر اس بھاری سرمایہ کاری کے باوجود بھارت اپنی سرحدی کشیدگیوں کو حل کرنے میں ناکام رہا۔ نہ چین کے ساتھ لداخ کا تنازع ختم ہوا، نہ ہی مقبوضہ کشمیر میں بغاوت دبائی جا سکی۔ اس کے برعکس وہاں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں اور میڈیا پر قدغنیں بڑھتی جا رہی ہیں۔ یہی وہ پس منظر ہے جس میں مودی کی بدلے کی آگ والی سوچ کو سمجھنا چاہیے ایک ایسا سیاسی ہتھیار جو اندرونی کمزوریوں کو چھپانے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے ۔عالمی سطح پر بھی مودی کے بیانات کو تنقید کا سامنا ہے ۔ یورپی یونین اور اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن نے بھارت میں اقلیتوں، خصوصاً مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز رویے پر تشویش ظاہر کی ہے ۔ امریکی تھنک ٹینکس نے مودی کی خارجہ پالیسی کو reactionary nationalism قرار دیا ہے ۔ یہ اصطلاح ایسے حکمرانوں کے لیے استعمال ہوتی ہے جو داخلی مسائل سے توجہ ہٹانے کے لیے بیرونی دشمنی کو ہوا دیتے ہیں۔ مودی کی تقاریر، جن میں وہ بار بار نئے بھارت کی بات کرتے ہیں، دراصل اس قومی تشخص کے کھوکھلے تصور کی نمائندگی کرتی ہیں جو نفرت اور دشمنی پر قائم ہے ۔پاکستان نے ہمیشہ صبر و تحمل کے ساتھ امن کی بات کی ہے ۔ افواجِ پاکستان کے ترجمان ادارے آئی ایس پی آرنے واضح کیا ہے کہ پاکستان کسی اشتعال انگیزی کا حصہ نہیں بنے گا، لیکن اپنی خودمختاری کے دفاع کے لیے مکمل طور پر تیار ہے ۔ پاکستان کی پالیسی ہمیشہ یہی رہی ہے کہ بات چیت کے دروازے بند نہیں کیے جا سکتے ، مگر عزتِ نفس پر سمجھوتہ بھی ممکن نہیں۔ یہی وہ موقف ہے جس نے پاکستان کو دنیا بھر میں ایک ذمہ دار ریاست کے طور پر پیش کیا، جبکہ بھارت کا امیج ایک جارحانہ اور غیر مستحکم قوت کے طور پر اُبھرا ہے ۔مودی کے انتقامی بیانات کے نتیجے میں خطے میں امن کے امکانات کمزور ہو رہے ہیں۔ جنوبی ایشیا پہلے ہی ایٹمی تناؤ، معاشی عدم توازن، اور ماحولیاتی بحران سے دوچار ہے ۔ اگر بھارت اپنے سیاسی فائدے کے لیے جنگی جنون کو ہوا دیتا رہا تو اس کے اثرات صرف پاکستان پر نہیں بلکہ پورے خطے پر مرتب ہوں گے ۔ مودی کو یہ سمجھنا ہوگا کہ طاقت کے مظاہرے سے قومیں بڑی نہیں ہوتیں، بلکہ انصاف، رواداری اور مکالمے سے معاشرے مستحکم ہوتے ہیں۔
اب وقت ہے کہ عالمی برادری بھارت کی جنگی زبان کے بجائے امن کی ضرورت پر زور دے ۔ اقوامِ متحدہ، سارک اور عالمی طاقتوں کو یہ ادراک ہونا چاہیے کہ اگر جنوبی ایشیا میں ایک اور بحران بھڑکا تو اس کے اثرات سرحدوں سے بہت دور تک جائیں گے ۔ مودی کے سیاسی بیانات صرف انتخابی مہم کا حصہ نہیں بلکہ خطے کے مستقبل کے لیے خطرے کی گھنٹی ہیں۔ بھارت کے دانشور، صحافی اور سنجیدہ طبقات بھی اب یہ آواز اٹھا رہے ہیں کہ نفرت اور انتقام کی سیاست نے ملک کو عالمی سطح پر تنہا کر دیا ہے ۔آخر میں ضروری ہے کہ پاکستان اپنی دفاعی تیاریوں کے ساتھ ساتھ سفارتی محاذ پر بھی فعال کردار ادا کرے ۔ عالمی میڈیا میں حقائق کو مؤثر انداز میں پیش کرنا، جنوبی ایشیا میں امن کے بیانیے کو مضبوط بنانا، اور خطے کے ممالک کو بھارت کی جارحانہ پالیسیوں سے آگاہ کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے ۔ پاکستان کو مودی کے اشتعال انگیز بیانات کا جواب حکمت، تدبر اور بین الاقوامی قانون کے دائرے میں رہ کر دینا ہوگا۔ کیونکہ طاقت کا اصل مظاہرہ میدانِ جنگ میں نہیں، بلکہ صبر، عقل اور امن کے تحفظ میں ہوتا ہے ۔
مودی کا یہ خواب فیلڈ مارشل عاصم منیر میرا ٹارگٹ ہیں تو یہ خواب کبھی بھی شرمندہ تعبیر نہیں ہو گا۔مودی کے لیے فیلڈ مارشل عاصم منیر ایک ڈراونا خواب ہیں۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا یہ بیان فیلڈ مارشل عاصم منیر میرے پسندیدہ ہیں اب مودی کو اپنی آنکھیں کھول لینا چاہیں۔ عالمی دنیا فیلڈ مارشل عاصم کی فنی صلاحیتوں اور قابلیت کی معترف ہو گئی ہے ۔عالمی سطح پر فیلڈ مارشل عاصم منیر کو عزت اور احترام کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے ۔معرکہ حق کی کامیابی کا سہرا بھی فیلڈ مارشل عاصم منیر کے سر جاتا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ذریعہ: Juraat
کلیدی لفظ: فیلڈ مارشل عاصم منیر عالمی سطح پر پاکستان کی بدلے کی آگ نہیں بلکہ کہ بھارت بھارت کے بھارت کی مودی کی مودی کے چکا ہے امن کے رہا ہے کے لیے
پڑھیں:
افغان طالبان نے مذاکرات چھوڑ کر جنگ کا راستہ اندرونی کمزوریوں کو چھپانے کے لیے اختیار کیا، سفارتکار مسعود خان
امریکا میں پاکستان کے سابق سفیر اور اقوام متحدہ میں پاکستان کے سابق مستقل مندوب ایمبسیڈر مسعود خان کا کہنا ہے کہ افغان طالبان نے پاکستان کے ساتھ مذاکرات چھوڑ کر جنگ کا راستہ اس لیے اختیار کیا تاکہ وہ اندرونی کمزوریاں چھپا سکیں۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان کا مسئلہ افغان عوام سے نہیں، افغان طالبان رجیم سے ہے، ڈی جی آئی ایس پی آر
منجھے ہوئے سفارتکار مسعود خان نے وی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاک افغان تعلقات ایک تو دوطرفہ مذاکرات سے حل ہو سکتے تھے نہیں ہوئے، سہ فریقی یا ثالثی مذاکرات سے حل ہو سکتے تھے، نہیں ہوئے کیونکہ افغان طالبان نے جنگ کا راستہ اختیار کیا ہوا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایسا نہیں ہو سکتا کہ وہ ہمارے معصوم شہریوں کو مارتے رہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ حال ہی میں آئی ایس پی آر نے دہشتگردی کے نتیجے میں ہونے والے جانی نقصان کی جو تفصیلات جاری کی ہیں وہ خاصی تشویشناک ہیں
مسعود خان نے کہا کہ ہمارے اتنے لوگ بھارت کے ساتھ ایک بڑی اور خطرناک جنگ میں شہید نہیں ہوئے جتنے دہشتگردی کی نذر ہو چکے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ بھارت کے ساتھ جنگ میں سینکڑوں جب کہ 2021 سے اب تک ہزاروں لوگ شہید ہو چُکے ہیں جبکہ 2025 کا سال پاکستان میں دہشتگردی کے واقعات کے لحاظ سے قیامت خیز سال تھا۔ تو یہ ایک بہت بڑی جنگ ہے۔
تاہم ان کا کہنا تھا کہ سفارتی لحاظ سے 2025 پاکستان کے لیے کامیابیوں کا سال رہا اور ساری دنیا پاکستان کے مؤقف کے ساتھ کھڑی ہے جبکہ افغانستان اِس معاملے میں بالکل تنہا ہے۔
افغان طالبان اندرونی کمزوریوں کی پردہ پوشی کے لیے جنگ کر رہے ہیںایمبیسیڈر مسعود خان نے کہا کہ پاکستان سے جنگ چھیڑ کر اپنی اندرونی کمزوریوں پر پردہ ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں افغانستان کو حالتِ جنگ میں مبتلا کر کے وہ پورے افغان عوام کو پاکستان کی دشمنی پر مائل کرنا چاہتے ہیں کہ جو آوازیں ان کے خلاف اٹھ رہی تھیں وہ پاکستان کے خلاف ہو جائیں کیونکہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان کوئی بنیادی دشمنی نہیں ہے۔
پاک افغان مسئلے کے حل کے لیے چوتھا راستہ کیا ہے؟اس بارے میں بات کرتے ہوئے ایمبیسیڈر مسعود خان نے کہا کہ دوطرفہ، سہ فریقی اور ثالثی مذاکرات کی ناکامی کے بعد چوتھا راستہ جس کے بارے میں آج کل گفتگو ہو رہی ہے وہ یہ ہے کہ افغانستان کے اندر وہ قوتیں جو طالبان رجیم کے خلاف ہیں وہ کوشش کریں لیکن پاکستان نے اب تک بڑھ کر اُن قوتوں کی کوئی حوصلہ افزائی نہیں کی۔
شکست خوردہ اور حواس باختہ بھارت شرپسندی کے پیچھے ہےایمبیسیڈر مسعود خان نے کہا کہ انہوں نے کہا کہ جنگ میں ہارا ہوا حواس باختہ بھارت کھل کر شرپسندی کی حمایت کر رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کے خلاف اس شرانگیزی کا حمایت کار بھارت ہے جو پاکستان کی ابھرتی ہوئی معیشت اور بڑھتے ہوئے عالمی قدکاٹھ کو کم کرنا چاہتا ہے۔
دہشتگردی کے حوالے سے بھارت کے کردار کو بے نقاب کرنے کے حوالے سے پاکستان کو کامیابی ملی ہے۔
انہوں نے کہا کہ افغانستان میں بھارت کے نیٹ ورک کے بارے میں تمام دنیا کی خفیہ ایجنسیاں اور تمام ممالک اچھی طرح سے جانتے ہیں کیونکہ اب تو بھارت یہ سب کچھ علی الاعلان کر رہا ہے ان کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت دوول کھلم کھلا کہتے ہیں کہ پاکستان کے خلاف دہشت گردی کو بطور ہتھیار استعمال کریں گے۔ پاکستان نے اس حوالے سے اقوام متحدہ کو ڈوزئیر جمع کرا رکھے ہیں۔
بھارت کی امریکا کے ساتھ تزویراتی چھتری چھلنی ہوچکیمسعود خان کا کہنا تھا کیہ بھارت کو صرف امریکا کے ساتھ تزویراتی اتحاد کی چھتری حاصل تھی لیکن اب اس چھتری میں بہت سارے سوراخ ہو چکے ہیں اور اب بھارت بچتا پھر رہا ہے، مئی کی جنگ میں شکست کے بعد بھارت پر پاگل پن سوار ہو چکا ہے۔
انہوں نے کہا کہ بہت جارحانہ بیانات دے رہا ہے، پاکستان کی مشرقی اور مغربی دونوں سرحدوں پر دباؤ بڑھا رہا ہے۔
فی الحال سفارتی کوششیں ناکام نظر آتی ہیںایمبیسیڈر مسعود خان نے کہا کہ مسئلے کے حل کے لیے سفارتی کوششیں جاری رہیں گی لیکن فی الحال اس کا کوئی سفارتی حل نظر نہیں آتا۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان افغانستان کے ساتھ کسی قسم کی کوئی جنگ نہیں چاہتا بلکہ پاکستان افغانستان کے ساتھ برادرانہ تعلقات چاہتا ہے۔ پاکستان چاہتا ہے کہ دونوں ملک اقتصادی ترقی پر توجہ دیں ایک دوسرے کے ساتھ اقتصادی تعاون کریں لیکن اس معاملے کے اندر افغانستان نہیں بلکہ افغان طالبان رجیم حائل ہو گئی ہے۔ کیونکہ افغان عوام بھی تو ظلم کی چکی میں پِس رہے ہیں۔
افغانستان کے ساتھ کشیدگی پوشیدہ جنگ نہیں رہیایمبیسیڈر مسعود خان نے کہا کہ پہلے یہ کہا جاتا تھا کہ دہشتگرد ہیں تو ایک درپردہ جنگ تھی لیکن اب بالکل واضح ہو چکا ہے کہ یہ کوئی درپردہ جنگ نہیں بلکہ ایک ایسی جنگ ہے جس کی پشت پناہی افغان طالبان کر رہے ہیں اور افغان طالبان کے حیلے بہانے کہ دہشتگردی پاکستان کا اندرونی مسئلہ ہے یا تحریک طالبان پاکستان پر ان کا اختیار نہیں ہے، یہ باتیں اب کوئی بھی ماننے کو تیار نہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان جب افغانستان پر جوابی حملہ کرتا ہے تو افغان طالبان پاک افغان دشمنی کو ہوا دینے لگتے ہیں۔ جب اصل میں ہماری دونوں قوموں کے درمیان بہت گہرے مراسم ہیں۔
افغان صورتحال سے وسط ایشیائی اور مسلمان ممالک سب متاثر ہو رہے ہیںایمبیسیڈر مسعود خان نے کہا افغان صورتحال سے وسط ایشیائی ممالک ہوں یا بردار مسلمان ممالک سب کے مفادات کو خطرہ ہے۔ جبکہ افغان طالبان کی پشت پناہی بھارت کر رہا ہے۔ اس جنگ میں امریکا کو بھی شامل کیا جانا چاہیئے کیونکہ دہشت گردی کے خلاف امریکا کی جنگ ہم نے لڑی ہے جس کا یہ شاخسانہ ہے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹس کے مطابق افغان سرزمین پورے خطے اور عالمی امن کے لیے نقصان دہ ہے۔
تجارت کی معطلی افغان عوام کے ساتھ ظلم ہےایمبیسیڈر مسعود خان نے کہا کہ تجارت کی معطلی افغان عوام کے ساتھ ظلم ہے لیکن افغان طالبان اس پر شادیانے بجا رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان اس تجارتی بندش کو برداشت کر سکتا ہے افغان حکمران بھی برداشت کر سکتے ہیں لیکن یہ افغان عوام کے لیے ناقابلِ برداشت ہے اور پاکستان نے ہمیشہ اس معاملے میں فیاضی سے کام لیا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
افغان طالبان رجیم افغانستان پاک افغان طالبان مذاکرات پاکستان پاکستان افغان طالبان رجیم مذاکرات سفارتکار مسعود خان طالبان کی کمزوریاں