اسلام آباد ہائی کورٹ کی این سی سی آئی اے افسر کی بازیابی کیلیے پولیس کو 3 دن کی مہلت
اشاعت کی تاریخ: 20th, October 2025 GMT
اسلام آباد: ہائی کورٹ نے این سی سی آئی اے (نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی) کے ڈپٹی ڈائریکٹر محمد عثمان کے اغوا سے متعلق درخواست پر پولیس کو 3 دن کی مہلت دیتے ہوئے حکم دیا ہے کہ مغوی افسر کو ہر صورت بازیاب کرایا جائے ورنہ سینٹرل ڈائریکٹر این سی سی آئی اے اور آئی جی اسلام آباد خود عدالت میں پیش ہوں۔
کیس کی سماعت اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس محمد اعظم خان نے کی جبکہ درخواست گزار کی جانب سے وکیل راجا رضوان عباسی ایڈوکیٹ پیش ہوئے۔ دورانِ سماعت مغوی افسر کی اہلیہ روزینہ عثمان کے بھی لاپتا ہونے کا انکشاف ہوا۔
وکیل نے عدالت کو بتایا کہ پٹیشنر اہلیہ نے انہیں فون پر بتایا تھا کہ ان پر کیس واپس لینے کے لیے دباؤ ڈالا جا رہا ہے اور اب ان کا فون بند ہے، جس سے خدشہ ہے کہ وہ بھی اغوا ہو چکی ہیں۔ محمد عثمان اہم کیسز پر کام کر رہے تھے جنہیں چند روز قبل ایک وائٹ کرولا گاڑی میں نامعلوم افراد نے اغوا کیا، جس کی نمبر پلیٹ جعلی نکلی۔
جسٹس محمد اعظم خان نے پولیس حکام سے استفسار کیا کہ اگر گاڑی کی نمبر پلیٹ جعلی تھی تو وہ اسلام آباد میں بغیر روک ٹوک کیسے چل رہی تھی؟ انہوں نے کہا کہ یہ بہت سنگین معاملہ ہے، شہر میں ہر جگہ ناکے اور سی سی ٹی وی کیمرے نصب ہیں، پھر بھی اگر کوئی شخص سرِ عام اٹھا لیا جائے تو یہ تشویشناک بات ہے۔
پولیس نے عدالت سے استدعا کی کہ کم از کم 7 دن کی مہلت دی جائے، تاہم عدالت نے 3 دن سے زیادہ کی مہلت دینے سے انکار کرتے ہوئے واضح کیا کہ اگر مغوی افسر بازیاب نہ کرایا گیا تو اعلیٰ افسران کو عدالت میں طلب کیا جائے گا۔
جسٹس اعظم خان نے مزید ہدایت دی کہ پٹیشنر کو دباؤ ڈالنے کے لیے کی گئی کالز کا سی ڈی آر ریکارڈ حاصل کیا جائے تاکہ پتا چل سکے کہ ان کے پیچھے کون لوگ ہیں۔
اس موقع پر اسسٹنٹ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ واقعے کا مقدمہ تھانہ شمس کالونی میں درج کر لیا گیا ہے اور پولیس تفتیش میں مصروف ہے۔
بعد ازاں عدالت نے سماعت ملتوی کرتے ہوئے کہا کہ ریاست کی ذمے داری ہے کہ اپنے شہریوں کو تحفظ فراہم کرے، اگر عدالتوں کی دہلیز پر آنے والے لوگ بھی لاپتا ہونے لگیں تو قانون پر عوام کا اعتماد ختم ہو جائے گا۔
.ذریعہ: Al Qamar Online
کلیدی لفظ: اسلام آباد کی مہلت
پڑھیں:
سپریم جوڈیشل کونسل کی اکثریت کا اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج کیخلاف شکایت پر کارروائی کا فیصلہ
اسلام آباد ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 18 اکتوبر2025ء ) سپریم جوڈیشل کونسل کی اکثریت کا اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج کیخلاف شکایت پر کارروائی کا فیصلہ کرلیا۔ تفصیلات کے مطابق چیئرمین سپریم جوڈیشل کونسل و چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس یحییٰ آفریدی نے آج سپریم کورٹ آف پاکستان میں کونسل کے اجلاس کی صدارت کی، سپریم کورٹ کے ججز جسٹس سید منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر نے ویڈیو لنک کے ذریعے اجلاس میں شرکت کی، چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس عالیہ نیلم اور چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس سردار محمد سرفراز ڈوگر اجلاس میں شریک ہوئے۔ بتایا گیا ہے کہ اجلاس میں 12 جولائی 2025ء کو ہوئے کونسل کے فیصلے کے تحت سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے ججوں کے لیے ضابطہ اخلاق میں کچھ ترامیم کی تجویز پیش کی گئی، مجوزہ ترامیم پر غور کیا گیا اور کونسل کے اکثریتی فیصلے سے منظور شدہ کچھ ترامیم کے ساتھ ان کو سرکاری گزٹ میں مطلع کرنے، اعلیٰ عدالتوں کے تمام ججوں کو بھیجنے اور سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر پوسٹ کرنے کی ہدایت کی گئی۔(جاری ہے)
معلوم ہوا ہے کہ اجلاس میں کونسل نے مختلف افراد کی طرف سے دائر آئین کے آرٹیکل 209 کے تحت 67 شکایات کا جائزہ لیا، متفقہ طور پر 65 شکایات نمٹا دی گئیں، ایک شکایت کو مؤخر کرنے کا فیصلہ ہوا، اجلاس میں اکثریتی فیصلے سے ایک شکایت پر مزید کارروائی کا فیصلہ کیا گیا، بعد ازاں چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ اجلاس میں شریک نہ ہوئے تو کونسل کو آئین کے آرٹیکل 209 (3) (b) کے مطابق دوبارہ تشکیل دیا گیا۔ بتایا جارہا ہے کہ چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کی جگہ پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عتیق شاہ نے اجلاس میں شرکت کی، دوبارہ تشکیل دی گئی کونسل نے مختلف افراد کی طرف سے دائر آئین کے آرٹیکل 209 کے تحت سات شکایات کا جائزہ لیا، جن میں سے متفقہ طور پر پانچ شکایات نمٹادی گئیں اور دو شکایات پر اکثریتی فیصلے سے مزید کارروائی کا فیصلہ کیا گیا۔