کراچی میں خشک موسم کیوجہ سے دمہ اور الرجی جیسی بیماریوں میں اضافہ
اشاعت کی تاریخ: 20th, October 2025 GMT
کراچی میں خشک موسم، رات کے وقت خنکی اور دن میں گرمی کے باعث دمہ، الرجی، بخار اور سانس کی بیماریوں میں مبتلا مریضوں کی تعداد تیزی سے بڑھنے لگی ہے۔
طبی ماہرین کے مطابق گرد آلود ہواؤں، کچرا جلانے اور صفائی ستھرائی کے ناقص انتظامات نے صورتحال کو مزید بگاڑ دیا ہے۔ شہر کے سرکاری و نجی اسپتالوں میں دمہ، بخار، ملیریا اور ڈینگی کے مریضوں میں نمایاں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔
اس حوالے سے سول اسپتال کراچی کے ایڈیشنل ایم ایس(او پی ڈی انچارج) اور ماہر امراضِ اطفال ڈاکٹر لیاقت علی کے مطابق اکتوبر کے مہینے میں دمہ اور الرجی کے شکار بچوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ چھوٹے بچوں میں سانس لیتے وقت سیٹی جیسی آواز آتی ہے جسے ویزی چائلڈ کہا جاتا ہے، جو سانس کی تکلیف کی علامت ہے۔
انہوں نے بتایا کہ اسپتال کی او پی ڈی میں روزانہ مریضوں کی تعداد ایک سو سے بڑھ کر ایک سو چالیس تک پہنچ گئی ہے۔ مون سون کے اختتام کے باوجود ڈینگی اور ملیریا کے کیسز بدستور زیادہ رپورٹ ہو رہے ہیں۔ محکمہ صحت کی ہدایت پر اسپتال میں خصوصی وارڈز قائم کیے گئے ہیں۔ ڈینگی اس وقت سب سے عام بیماری ہے، جبکہ چکن گونیا کے کیسز نسبتاً کم ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ڈینگی اور چکن گونیا دونوں ایک ہی مچھر کے ذریعے پھیلتے ہیں اور ان کی علامات ملتی جلتی ہیں۔ چکن گونیا میں جوڑوں کا شدید درد اور سوجن ہوتی ہے جبکہ ڈینگی میں بخار کے ساتھ کمر درد، سر درد اور قے شامل ہیں۔ اگر مریض کو تیز بخار ہو تو فوراً ڈینگی اور ملیریا کے ٹیسٹ کروانا ضروری ہے، کیونکہ ڈینگی میں پلیٹ لیٹس اچانک کم ہو جاتے ہیں جس سے مریض کی حالت بگڑ سکتی ہے۔
ڈاکٹر لیاقت نے مشورہ دیا کہ ڈینگی کے مریض زیادہ پانی پئیں اور صرف ضرورت کے مطابق درد کم کرنے والی دوا استعمال کریں، جبکہ پلیٹ لیٹس کی مسلسل نگرانی ضروری ہے۔ ان کے مطابق اگر پلیٹ لیٹس ایک لاکھ سے کم ہوں تو احتیاط برتنی چاہیے اور تیس سے چالیس ہزار کی سطح پر ہر چھ گھنٹے بعد ٹیسٹ دہرانا چاہیے۔
انہوں نے مزید کہا کہ چھ ماہ سے کم عمر بچوں میں برونکولائٹس کی پہلی لہر اسی موسم میں آتی ہے، جس میں بظاہر صحت مند اور موٹے بچے بھی اچانک سانس کی تکلیف کے باعث وینٹی لیٹر پر جا سکتے ہیں۔ دمہ اور سی او پی ڈی کے مریضوں کو بھی احتیاط برتنے کی ضرورت ہے۔
ڈاکٹر لیاقت نے شہریوں کو ہدایت کی کہ وہ ماسک کا استعمال کریں، بچوں کو غیر ضروری طور پر باہر نہ لے جائیں، کمروں میں مچھر بھگانے والی بتی استعمال نہ کریں اور پرندے جیسے کبوتر و طوطے بچوں سے علیحدہ رکھیں۔ انہوں نے بتایا کہ پچھلے سال کے مقابلے میں اس سال مریضوں میں شدت ضرور دیکھی جا رہی ہے لیکن خوش قسمتی سے اب تک اموات رپورٹ نہیں ہوئیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کہ ڈینگی کے مطابق انہوں نے
پڑھیں:
بلوچستان: ایڈز کے مریضوں کی تعداد 3,303 تک جا پہنچی، وجوہات کیا ہیں؟
بلوچستان میں ایچ آئی وی ایڈز کے رجسٹرڈ مریضوں کی تعداد میں ایک سال کے دوران تشویشناک اضافہ سامنے آیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: خیبر میں ایچ آئی وی تیزی سے پھیلنے لگا، ماہرین صحت نے خطرے کی گھنٹی بجادی
سنہ 2024 میں مریضوں کی تعداد 2,851 تھی جو 2025 کے اختتام تک بڑھ کر 3,303 تک پہنچ گئی۔ یعنی صرف 12 ماہ کے دوران 452 نئے مریض رجسٹر ہوئے اور اسی عرصے میں 452 اموات بھی رپورٹ ہوئیں۔
سید کنٹرول پروگرام کے اعداد و شمار کے مطابق مرد مریضوں کی تعداد 2,075 سے بڑھ کر 2,362 ہوگئی جبکہ خواتین کی تعداد 600 سے بڑھ کر 707 تک پہنچ گئی۔
صوبے میں خواجہ سرا کمیونٹی کے 90 افراد بھی رجسٹرڈ مریضوں میں شامل ہیں۔ بلوچستان میں ایڈز کے سب سے زیادہ کیسز کوئٹہ میں ریکارڈ ہوئے جہاں مریضوں کی تعداد 2,164 تک جا پہنچی۔
مزید پڑھیے: ایڈز سے پاک پاکستان کے لیے متحد ہونا ہوگا، ایڈز کے عالمی دن پر وزیراعظم شہباز شریف کا پیغام
تربت میں 368، حب میں 158، نصیرآباد میں 66 اور لورالائی میں 96 کیسز رپورٹ ہوئے جو اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ بیماری صرف شہری علاقوں تک محدود نہیں رہی بلکہ اب اضلاع میں بھی تیزی سے پھیل رہی ہے۔
سرنج کا دوبارہ استعمال ایڈز کے پھیلاؤ کی بڑی وجہ ہے، ڈاکٹر ہاشم مینگلڈائریکٹر ہیلتھ سروسز بلوچستان ڈاکٹر ہاشم مینگل کا کہنا ہے کہ ایڈز کے پھیلاؤ کی سب سے بڑی وجہ منشیات کا انجیکشن کے ذریعے استعمال ہے کیونکہ لوگ اکثر آلودہ سرنجیں شیئر کرتے ہیں۔
ڈاکٹر ہاشم مینگل نے کہا کہ انجیکشن استعمال کرنے والے افراد میں وائرس کی شرح سب سے زیادہ پائی گئی ہے۔
مزید پڑھیں: آپ ڈینگی، ہیپاٹائٹس سی، چیچک اور ایڈز وائرس کو مانتے ہیں، تو پھر۔۔۔
انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ غیر محفوظ جنسی تعلقات، ماں سے بچے کو وائرس کی منتقلی اور آلودہ آلات کا استعمال بھی بیماری کے پھیلاؤ کی بنیادی وجوہات میں شامل ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں ایک بڑا حصہ اب بھی اس بات سے ناواقف ہے کہ بیماری کیسے منتقل ہوتی ہے، کس طرح اس سے بچا جا سکتا ہے اور کن علامات کے ظاہر ہونے پر فوری ٹیسٹ ضروری ہے۔
ڈاکٹر ہاشم مینگل کے مطابق اگرچہ مریضوں کی تعداد میں اضافہ باعثِ تشویش ہے لیکن یہ اضافہ محض بیماری کے پھیلاؤ کی نشاندہی نہیں کرتا بلکہ اس بات کا بھی ثبوت ہے کہ صوبے میں نگرانی بہتر ہوئی ہے اور زیادہ لوگ ٹیسٹنگ اور رجسٹریشن کے لیے سامنے آرہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے: پنجاب کی جیلوں میں ایڈز کے مریضوں میں اضافہ کیوں؟ محکمہ داخلہ نے بتادیا
ان کے مطابق بلوچستان میں لوگوں کا ایڈز ٹیسٹ کروانے کے لیے رضامندی ظاہر کرنا ایک حوصلہ افزا پیش رفت ہے، کیونکہ ماضی میں لوگ سماجی دباؤ کے باعث تشخیص سے گریز کرتے تھے۔
باقاعدگی سے ادویات لیتے رہنے سے صحت مند زندگی گزاری جاسکتی ہے، ڈاکٹر سحرین نوشیروانی
ایڈز کنٹرول پروگرام بلوچستان کی صوبائی کوآرڈی نیٹر ڈاکٹر سحرین نوشیروانی کے مطابق ایڈز ایک قابل کنٹرول مرض ہے لیکن بدقسمتی سے بلوچستان میں اس کے بارے میں لوگوں میں شدید غلط فہمیاں موجود ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس بیماری کے ساتھ سب سے بڑا مسئلہ سماجی بدنامی کا خوف ہے جو لوگوں کو ٹیسٹ کروانے، علاج کروانے یا دوسروں کو اپنی صورتحال بتانے سے روکتا ہے۔
ڈاکٹر نوشیروانی نے اس بات پر زور دیا کہ اگر معاشرہ ایڈز کے مریضوں کو قبول کرے اور انہیں ہمدردی اور تعاون فراہم کرے تو نہ صرف مریضوں کی زندگی بہتر ہو سکتی ہے بلکہ بیماری کے پھیلاؤ میں بھی کمی آسکتی ہے۔
ڈاکٹر سحرین نوشیروانی نے بتایا کہ ایڈز کی تشخیص کے بعد اگر مریض باقاعدگی سے ادویات لیتے رہیں تو وہ صحت مند زندگی گزار سکتے ہیں اور وائرس کے پھیلاؤ کے امکانات بھی انتہائی کم ہوجاتے ہیں۔
مزید پڑھیں: نشتر اسپتال ایڈز کیس، ایم ایس سمیت ذمہ دار عملہ معطل، ڈاکٹرز متاثرہ مریضوں کو جیب سے ہرجانہ ادا کرینگے
ان کے مطابق بلوچستان میں ایچ آئی وی تھراپی مراکز کوئٹہ، تربت اور دیگر 4 اضلاع میں فعال ہیں جہاں مریضوں کو مفت ادویات، ٹیسٹنگ، مشاورت اور آگاہی فراہم کی جاتی ہے۔
ایسی بیماری سے نپٹنے کے لیے سب کو مل کر کردار ادا کرنا ہوگاماہرین کا کہنا ہے کہ اگر صوبے میں ایڈز پر قابو پانا ہے تو آگاہی مہم کو زیادہ منظم اور زمینی سطح پر مؤثر بنانے کی ضرورت ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ گاؤں، دیہات اور کمیونٹی سطح پر ایسی سرگرمیاں ضروری ہیں جو لوگوں کو محفوظ رویوں، تشخیص کی اہمیت اور علاج کی دستیابی کے بارے میں آگاہ کریں۔
مزید پڑھیے: کیا پاکستان میں ایچ آئی وی ایڈز کا مرض وبائی صورت اختیار کر گیا ہے؟
ماہرین نے مزید کہا کہ بلوچستان جیسے معاشرے میں جہاں تعلیم اور شعور کی کمی پہلے ہی ایک چیلنج ہے وہیں ایڈز جیسی بیماری سے نمٹنے کے لیے حکومت، سول سوسائٹی، مذہبی رہنماؤں اور مقامی برادریوں کو مشترکہ کردار ادا کرنا ہوگا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
بلوچستان بلوچستان میں ایچ آئی وی کیسز بلوچستان میں ایڈز کیسز