Jasarat News:
2025-10-21@10:15:43 GMT

سیاست! حکمت کا ہنر یا جہالت کا شور؟

اشاعت کی تاریخ: 20th, October 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

سیاست دراصل وہ فن ہے جس میں دشمن کو مسکرا کر زیر کیا جاتا ہے، اور قومی مفاد کی حفاظت بغیر تلوار چلائے کی جاتی ہے، مگر یہ فن سب کے بس کی بات نہیں۔ کچھ رہنما اپنی زبان سے قوموں کا وقار بڑھاتے ہیں، اور کچھ اپنی انا سے اسے مجروح کر دیتے ہیں۔ دنیا آج وزیراعظم پاکستان کی سیاست اور حکمت کو داد دے رہی ہے۔ برطانیہ کے گارڈین نے لکھا کہ: ’’ڈونلڈ ٹرمپ کے مغرورانہ رویّے سے دنیا کے تمام رہنما پریشان تھے، مگر اسے جس شخص نے حکمت کے ساتھ سنبھالا، وہ شہباز شریف تھے‘‘۔

یہ تعریف کسی فردِ واحد کی نہیں بلکہ پاکستان کے وقار کی تھی۔ ایک طرف ہمارا ازلی دشمن بھارت ہے جو اس بات پر تلملا رہا ہے کہ پہلے تو پاکستان نے اسے میدانِ جنگ میں دھول چٹائی، اور اب سفارتی محاذ پر بھی کامیابیاں حاصل کر رہا ہے، ساتھ ہی ہمارے ہاں ایک ایسا طبقہ ہے جسے بھارت کی طرح پاکستان کی ہر کامیابی پر غصہ آتا ہے۔ بھارتی جارحیت کے دوران اس گروہ کے یوٹیوبرز دشمن کے ٹاک شوز میں بیٹھ کر پاکستان کے خلاف مشورے دیتے رہے کہ اے پاکستان دشمنو! تمہارے لیے سنہری موقع ہے، پاکستانی (یعنی پی ٹی آئی کے کارکن) اپنے افواج کے ساتھ نہیں بلکہ ہمارے مجرم لیڈر نمبر 804 کے ساتھ ہے۔ آزاد کشمیر میں بے چینی کی لہر اٹھی تو ان لوگوں نے وہاں بھی جلتی پر تیل کا کام کیا۔ پاک افغان جنگ سے قبل اسد قیصر نے اپنے ’’کپتان‘‘ جیسی زبان استعمال کرتے ہوئے یہ بڑھک ماری کہ: ’’تمہارا باپ بھی افغانستان پر حملہ نہیں کرسکتا!‘‘، پھر ایک ایسے وقت میں جب پاکستان نے اپنی حکمت ِ  سے عالمی فورم پر مرکز ِ نگاہ بننے کا اعزاز حاصل کیا، تو انھی لوگوں نے اپنے لیڈر کے امریکا اور ٹرمپ نواز بیانات کے گٹر میں جھانکنے کے بجائے وزیراعظم ِ پاکستان پر طعن و تشنیع شروع کر دی جس سے صاف ظاہر ہوا کہ شہباز شریف کے شرم الشیخ کانفرنس میں خطاب پر تنقید کسی سیاسی اختلاف نہیں بلکہ ذاتی عناد کا مظہر تھی۔

اگر امیر ِ جماعت ِ اسلامی حافظ نعیم الرحمن شہباز شریف کے اس عمل پر تنقید کریں تو یہ ان کے شایانِ شان بھی ہے اور جماعت ِ اسلامی کی اْس پْرعزم روایت کا تسلسل بھی، جس نے ہمیشہ دنیا کے سب سے بڑے شیطان کے خلاف کلمہ ٔ حق بلند کیا۔ مگر جس سیاسی گروہ کی ساری امیدیں ہی ٹرمپ سے وابستہ ہیں وہ کس منہ سے وزیراعظم پر تنقید کرسکتے ہیں جب کہ اْن کی اپنی حالت یہ ہے کہ اْن کے ’’کپتان‘‘ کے بچے امریکا میں ٹرمپ سے فریاد کر رہے تھے کہ: ڈونلڈ انکل! ہمارے ابّو کو جیل سے نکال دو!

اب اْن کے پیروکار شہباز شریف پر طنز کر رہے ہیں اور ان کی اصل پریشانی یہ ہے کہ اْنہوں نے پاکستان کے لیے سفارتی کامیابی کیوں حاصل کی! یہی تو اندھی تقلید ہے کہ جس کی وجہ سے ان کو اپنے راہنما کے دوہرے معیار نظر نہیں آتے، وہ وطن کے مفاد میں کی گئی ہر بات میں سازش ڈھونڈ لیتے ہیں۔ یہ ذہنی غلامی کا ایسا خول ہے جس سے وہ باہر ہی نہیں آنا چاہتے۔ انہیں وہی عمل برا لگتا ہے جو پاکستان کے مفاد میں ہو، اور وہی بات اچھی لگتی ہے جو قوم کے لیے نقصان دہ ہو۔ یہ وہ طبقہ ہے جو آئین کی بالادستی، حق گوئی، سچائی اور حقائق پر نہیں بلکہ اپنے کپتان کے پرفریب نعروں کے جادو پر ایمان رکھتا ہے۔

قرآنِ کریم میں سورہ بنی اسرائیل میں ارشاد ہے: ’’مومنین اہل ایمان کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا رفیق اور دوست ہرگز مت بنائیں جو ایسا کرے گا اس کا اللہ سے کوئی تعلق نہیں ہاں، یہ معاف ہے کہ تم ان کے ظلم سے بچنے کے لیے بظاہر ایسا طرزِ عمل اختیار کرجائو‘‘۔

یہی وہ اصول ہے جو سیاست میں تقویٰ اور تدبر کا توازن قائم کرتا ہے۔ وزیراعظم ِ پاکستان کا عمل اس قرآنی آیت مبارکہ کے منافی معلوم نہیں ہوتا۔ انہوں نے اسی قرآنی حکمت پر عمل کیا، یعنی نہ دشمنی میں حد سے بڑھے، نہ دوستی میں خودداری بیچ ڈالی۔ اس سے قبل اقوامِ متحدہ میں وزیراعظم کا خطاب، چین سے اظہارِ تشکر، کشمیر و غزہ کے مظلوموں کی وکالت، اور جنگ بندی میں امریکا کے کردار سے متعلق تھا۔ یہ سب اس بات کی مثال ہیں کہ حکمت ہی اصل طاقت ہے اور اسی کا نام سیاست ہے، جہاں کبھی تعریف بھی تلوار سے زیادہ مؤثر ہتھیار بن جاتی ہے۔ مگر دوسری طرف کپتان کی ’’غیرت‘‘ ملاحظہ ہو۔ اب دو برس سے زیادہ گزر گئے مگر اس نے آج تک غزہ کے مظالم پر اپنے سسرال کی مذمت نہیں کی۔ پچھتر ہزار فلسطینی شہید ہو گئے، لاکھوں زخمی اور لاکھوں بے گھر ہو گئے، مگر عمران خان کی زبان یا ٹویٹ پر اسرائیل کے خلاف ایک لفظ نہیں آیا۔ ہاں البتہ! امریکا کے صدر کے لیے تو تعریفی جملے آتے رہے، مگر غزہ کے بچوں کے لیے نہ دکھ، نہ احتجاج، نہ دعا۔

تاریخ خاموش نہیں رہتی۔ وہ پوچھے گی، اور بار بار پوچھے گی: اے کپتان! تْو نے اسرائیل کی مذمت کیوں نہ کی؟ امیر ِ جماعت ِ اسلامی کا یہ سوال اب وقت کے ماتھے پر نقش ہو چکا ہے، اور آنے والی نسلیں عمران خان سے جواب طلب کرتی رہیں گی۔ کیونکہ سیاست صرف کھوکھلے نعروں کا نام نہیں، ذمے داری کا نام ہے۔ قوموں کی عزت جذبات سے نہیں بلکہ حکمت سے بچتی ہے۔ وزیراعظم نے دنیا کو بتایا کہ دشمن سے بھی بات کی جا سکتی ہے، وہ بھی خود جھکے بغیر اور اسے جھکائے بغیر۔ یہی سیاست کا اصل کمال ہے۔

عبید مغل.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: شہباز شریف پاکستان کے نہیں بلکہ کے لیے

پڑھیں:

چالیس سال سے فتنہ پھیلانے والوں کوسبق سکھا دیا گیا‘رانا ثنا

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

فیصل آباد(مانیٹر نگ ڈ یسک ) مشیر وزیراعظم و سینیٹر رانا ثنا اللہ نے کہا ہے کہ جو چالیس سال سے فتنہ پھیلا رہے تھے ان کو سبق سکھادیا ہے۔پنجاب کے شہر فیصل آباد میں کارکنوں سے گفتگو کرتے ہوئے رانا ثنا اللہ کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف دورمیں مخالفین کوجیلوں میں ڈالا گیا،میرے خلاف سزائے موت والا مقدمہ بنایا گیا۔اْنہوں نے پی ٹی آئی پر تنقید کے نشتر چلاتے ہوئے کہا کہا کہ جب اپوزیشن میں تھے تب بھی ٹیبل پربیٹھنے کی بات کرتے تھے، ملک فتنہ،فساد،جارحیت سے نہیں اتفاق سے آگے چلتے ہیں،اس وقت بھی سابق وزیراعظم نے مذاکرات کی بات پرکہا کسی کونہیں چھوڑوں گا۔مشیروزیراعظم کا کہنا تھا کہ اْس وقت یہ کہتے تھے کسی کومعاف نہیں کریں۔ اب اْن کومعافی نہیں مل رہی، وزیراعظم شہبازشریف نے میثاق پاکستان کی دعوت دی، اگر پاکستان مضبوط ہوگا توہم سب خوشحال ہوں گے، جو ملک فتنہ،فساد،انارکی کا شکار ہوئے وہاں حالات خراب ہوئے۔رانا ثنا نے کہا کہ شام کے حالات سب کے سامنے ہے، جو ملک میں بیٹھ کر بات نہیں کر سکتے وہ انارکی، افراتفری چاہتے ہیں، افراتفری، انارکی کی حکومت اورعسکری قیادت کبھی اجازت نہیں دے گی، جو گزشتہ چالیس سال سے فتنہ پھیلا رہے تھے ان کو بھی سبق سکھادیا ہے۔اْن کا کہنا تھا کہ اب پاکستان میں دہشت گردی رکے گی اورملک تیزی سے ترقی کریگا، تحریک انصاف دور میں فیصل آباد میں کوئی ترقیاتی کام نہیں ہوئے، جب تک زندگی ہے خدمت کا سفر جاری رہیگا۔مشیر وزیراعظم نے مزید کہا کہ دو لمحے ایسے آئے جب دنیا کے مسلم ممالک نے پاکستان پرفخرکیا، ایک جب ہم نے ایٹمی دھماکے کیے، دوسرا معرکہ حق میں فتح حاصل کی، افغانستان کو بھی بتا دیا کہ ان کی سرزمین سے ہمارے ملک میں دہشت گردی نہیں ہونی چاہیے۔

مانیٹرنگ ڈیسک سیف اللہ

متعلقہ مضامین

  • نوجوان ووٹرز :سیاست اور جمہوریت کی نئی طاقت
  • سلمان خان کے بیانات: مقبولیت کی سیاست یا حب الوطنی کا دکھاوا؟
  • چالیس سال سے فتنہ پھیلانے والوں کوسبق سکھا دیا گیا‘رانا ثنا
  • نوجوانوں کو علم سے آراستہ کریں گے، جہالت کے اندھیروں میں نہیں چھوڑیں گے، — حافظ نعیم الرحمٰن
  • معروف قانون دان ایس ایم ظفر کو بچھڑے 2 برس بیت گئے
  • مولانا فضل الرحمن کی ’’سخت‘‘ باتیں
  • سہیل آفریدی کسی غلط فہمی کا شکار نہ ہوں، بلیک میلنگ کی سیاست نہیں چلے گی، طلال چوہدری
  • بھارت قیامت تک جنگ میں شکست کو بھلا نہیں سکتا،وزیراعظم
  • چار دن کی جنگ میں پاکستان کو عظیم فتح ملی بھارت قیامت تک اس شکست کو بھلا نہیں سکتا،وزیراعظم