Jasarat News:
2025-12-05@17:55:41 GMT

سیاست! حکمت کا ہنر یا جہالت کا شور؟

اشاعت کی تاریخ: 20th, October 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

سیاست دراصل وہ فن ہے جس میں دشمن کو مسکرا کر زیر کیا جاتا ہے، اور قومی مفاد کی حفاظت بغیر تلوار چلائے کی جاتی ہے، مگر یہ فن سب کے بس کی بات نہیں۔ کچھ رہنما اپنی زبان سے قوموں کا وقار بڑھاتے ہیں، اور کچھ اپنی انا سے اسے مجروح کر دیتے ہیں۔ دنیا آج وزیراعظم پاکستان کی سیاست اور حکمت کو داد دے رہی ہے۔ برطانیہ کے گارڈین نے لکھا کہ: ’’ڈونلڈ ٹرمپ کے مغرورانہ رویّے سے دنیا کے تمام رہنما پریشان تھے، مگر اسے جس شخص نے حکمت کے ساتھ سنبھالا، وہ شہباز شریف تھے‘‘۔

یہ تعریف کسی فردِ واحد کی نہیں بلکہ پاکستان کے وقار کی تھی۔ ایک طرف ہمارا ازلی دشمن بھارت ہے جو اس بات پر تلملا رہا ہے کہ پہلے تو پاکستان نے اسے میدانِ جنگ میں دھول چٹائی، اور اب سفارتی محاذ پر بھی کامیابیاں حاصل کر رہا ہے، ساتھ ہی ہمارے ہاں ایک ایسا طبقہ ہے جسے بھارت کی طرح پاکستان کی ہر کامیابی پر غصہ آتا ہے۔ بھارتی جارحیت کے دوران اس گروہ کے یوٹیوبرز دشمن کے ٹاک شوز میں بیٹھ کر پاکستان کے خلاف مشورے دیتے رہے کہ اے پاکستان دشمنو! تمہارے لیے سنہری موقع ہے، پاکستانی (یعنی پی ٹی آئی کے کارکن) اپنے افواج کے ساتھ نہیں بلکہ ہمارے مجرم لیڈر نمبر 804 کے ساتھ ہے۔ آزاد کشمیر میں بے چینی کی لہر اٹھی تو ان لوگوں نے وہاں بھی جلتی پر تیل کا کام کیا۔ پاک افغان جنگ سے قبل اسد قیصر نے اپنے ’’کپتان‘‘ جیسی زبان استعمال کرتے ہوئے یہ بڑھک ماری کہ: ’’تمہارا باپ بھی افغانستان پر حملہ نہیں کرسکتا!‘‘، پھر ایک ایسے وقت میں جب پاکستان نے اپنی حکمت ِ  سے عالمی فورم پر مرکز ِ نگاہ بننے کا اعزاز حاصل کیا، تو انھی لوگوں نے اپنے لیڈر کے امریکا اور ٹرمپ نواز بیانات کے گٹر میں جھانکنے کے بجائے وزیراعظم ِ پاکستان پر طعن و تشنیع شروع کر دی جس سے صاف ظاہر ہوا کہ شہباز شریف کے شرم الشیخ کانفرنس میں خطاب پر تنقید کسی سیاسی اختلاف نہیں بلکہ ذاتی عناد کا مظہر تھی۔

اگر امیر ِ جماعت ِ اسلامی حافظ نعیم الرحمن شہباز شریف کے اس عمل پر تنقید کریں تو یہ ان کے شایانِ شان بھی ہے اور جماعت ِ اسلامی کی اْس پْرعزم روایت کا تسلسل بھی، جس نے ہمیشہ دنیا کے سب سے بڑے شیطان کے خلاف کلمہ ٔ حق بلند کیا۔ مگر جس سیاسی گروہ کی ساری امیدیں ہی ٹرمپ سے وابستہ ہیں وہ کس منہ سے وزیراعظم پر تنقید کرسکتے ہیں جب کہ اْن کی اپنی حالت یہ ہے کہ اْن کے ’’کپتان‘‘ کے بچے امریکا میں ٹرمپ سے فریاد کر رہے تھے کہ: ڈونلڈ انکل! ہمارے ابّو کو جیل سے نکال دو!

اب اْن کے پیروکار شہباز شریف پر طنز کر رہے ہیں اور ان کی اصل پریشانی یہ ہے کہ اْنہوں نے پاکستان کے لیے سفارتی کامیابی کیوں حاصل کی! یہی تو اندھی تقلید ہے کہ جس کی وجہ سے ان کو اپنے راہنما کے دوہرے معیار نظر نہیں آتے، وہ وطن کے مفاد میں کی گئی ہر بات میں سازش ڈھونڈ لیتے ہیں۔ یہ ذہنی غلامی کا ایسا خول ہے جس سے وہ باہر ہی نہیں آنا چاہتے۔ انہیں وہی عمل برا لگتا ہے جو پاکستان کے مفاد میں ہو، اور وہی بات اچھی لگتی ہے جو قوم کے لیے نقصان دہ ہو۔ یہ وہ طبقہ ہے جو آئین کی بالادستی، حق گوئی، سچائی اور حقائق پر نہیں بلکہ اپنے کپتان کے پرفریب نعروں کے جادو پر ایمان رکھتا ہے۔

قرآنِ کریم میں سورہ بنی اسرائیل میں ارشاد ہے: ’’مومنین اہل ایمان کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا رفیق اور دوست ہرگز مت بنائیں جو ایسا کرے گا اس کا اللہ سے کوئی تعلق نہیں ہاں، یہ معاف ہے کہ تم ان کے ظلم سے بچنے کے لیے بظاہر ایسا طرزِ عمل اختیار کرجائو‘‘۔

یہی وہ اصول ہے جو سیاست میں تقویٰ اور تدبر کا توازن قائم کرتا ہے۔ وزیراعظم ِ پاکستان کا عمل اس قرآنی آیت مبارکہ کے منافی معلوم نہیں ہوتا۔ انہوں نے اسی قرآنی حکمت پر عمل کیا، یعنی نہ دشمنی میں حد سے بڑھے، نہ دوستی میں خودداری بیچ ڈالی۔ اس سے قبل اقوامِ متحدہ میں وزیراعظم کا خطاب، چین سے اظہارِ تشکر، کشمیر و غزہ کے مظلوموں کی وکالت، اور جنگ بندی میں امریکا کے کردار سے متعلق تھا۔ یہ سب اس بات کی مثال ہیں کہ حکمت ہی اصل طاقت ہے اور اسی کا نام سیاست ہے، جہاں کبھی تعریف بھی تلوار سے زیادہ مؤثر ہتھیار بن جاتی ہے۔ مگر دوسری طرف کپتان کی ’’غیرت‘‘ ملاحظہ ہو۔ اب دو برس سے زیادہ گزر گئے مگر اس نے آج تک غزہ کے مظالم پر اپنے سسرال کی مذمت نہیں کی۔ پچھتر ہزار فلسطینی شہید ہو گئے، لاکھوں زخمی اور لاکھوں بے گھر ہو گئے، مگر عمران خان کی زبان یا ٹویٹ پر اسرائیل کے خلاف ایک لفظ نہیں آیا۔ ہاں البتہ! امریکا کے صدر کے لیے تو تعریفی جملے آتے رہے، مگر غزہ کے بچوں کے لیے نہ دکھ، نہ احتجاج، نہ دعا۔

تاریخ خاموش نہیں رہتی۔ وہ پوچھے گی، اور بار بار پوچھے گی: اے کپتان! تْو نے اسرائیل کی مذمت کیوں نہ کی؟ امیر ِ جماعت ِ اسلامی کا یہ سوال اب وقت کے ماتھے پر نقش ہو چکا ہے، اور آنے والی نسلیں عمران خان سے جواب طلب کرتی رہیں گی۔ کیونکہ سیاست صرف کھوکھلے نعروں کا نام نہیں، ذمے داری کا نام ہے۔ قوموں کی عزت جذبات سے نہیں بلکہ حکمت سے بچتی ہے۔ وزیراعظم نے دنیا کو بتایا کہ دشمن سے بھی بات کی جا سکتی ہے، وہ بھی خود جھکے بغیر اور اسے جھکائے بغیر۔ یہی سیاست کا اصل کمال ہے۔

عبید مغل.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: شہباز شریف پاکستان کے نہیں بلکہ کے لیے

پڑھیں:

جن لوگوں کا سیاست میں کام نہیں، وہ پھر بھی مداخلت کررہے ہیں، سہیل آفریدی

پولیس فورس اور سول افسران کے مشترکہ دربار کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعلیٰ کے پی کا کہنا تھا کہ موجودہ حالات غیر معمولی ہیں، خیبر پختونخوا چار دہائیوں سے دہشت گردی کی زد میں ہے۔ یہاں پولیس نے کم وسائل کے باوجود 21 سال دہشت گردی کا ڈٹ کر مقابلہ کیا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا سہیل آفریدی نے کہا ہے کہ جن لوگوں کا سیاست میں کام نہیں ہے، وہ پھر بھی مداخلت کررہے ہیں۔ پولیس فورس اور سول افسران کے مشترکہ دربار کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعلیٰ کے پی کے سہیل آفریدی کا کہنا تھا کہ موجودہ حالات غیر معمولی ہیں، خیبر پختونخوا چار دہائیوں سے دہشت گردی کی زد میں ہے۔ یہاں پولیس نے کم وسائل کے باوجود 21 سال دہشت گردی کا ڈٹ کر مقابلہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف قربانیوں پر پوری قوم کو فخر ہے۔ جس جوانمردی سے آپ دہشت گردوں کا مقابلہ کر رہے ہیں وہ قابلِ تحسین ہے۔ اللہ کی رضا اور عوام کے مفاد کے لیے لڑیں گے تو جیت ہماری ہوگی۔ خیبر پختونخوا میں ہر حال میں امن بحال کریں گے۔ بند کمروں کے فیصلے اب مزید قبول نہیں۔

سہیل آفریدی کا کہنا تھا کہ پولیس کے لیے بلٹ پروف گاڑیاں، جدید اسلحہ اور اینٹی ڈرون سسٹم فراہم کیا جا رہا ہے۔ پولیس کو جدید ترین ٹیکنالوجی ہنگامی بنیادوں پر دی جا رہی ہے۔  وسائل کی کمی کو سیکیورٹی کے راستے میں رکاوٹ نہیں بننے دیں گے۔ شہید سول سرونٹس کے اہل خانہ کے لیے خصوصی پالیسی بنائی جائے گی اور افسران کے معاملات میں کوئی سیاسی مداخلت نہیں ہوگی، مگر رزلٹ دینا ہوگا۔ وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا کا مزید کہنا تھا کہ کرپشن کے خلاف زیرو ٹالرنس ہے، کسی کو کوئی رعایت نہیں ہوگی۔ عوام کے لیے اوپن ڈور پالیسی اپنائی گئی ہے۔ سرکاری افسران کی کارکردگی پرفارمنس انڈیکیٹرز سے ناپی جائے گی۔ ایمان، حوصلے اور عزم سے دہشت گردی کو شکست دیں گے۔

تقریب میں چیف سیکرٹری، انسپکٹر جنرل آف پولیس، ایڈیشنل چیف سیکرٹریز، صوبائی محکموں کے انتظامی سیکرٹریز، ڈویژنل و ڈسٹرکٹ انتظامیہ کے افسران، پولیس افسران اور اہلکاروں کی بڑی تعداد بھی شریک تھی۔ اس موقع پر پولیس اور سول انتظامیہ کے شہدا کے لیے فاتحہ خوانی کی گئی۔ وزیراعلیٰ نے تقریب میں مزید کہا کہ بد قسمتی سے کچھ لوگوں کا کام سیاست میں نہیں مگر بھر بھی مداخلت کر رہے ہیں۔ جن لوگوں کا کام انصاف دینا ہوتا ہے وہ نہیں دے پاتے جس سے چیزیں خراب ہوتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے عمران خان کے وژن کے مطابق عوام کو ریلیف دینا ہے، عوام کے لیے ہی فیصلہ سازی کرنی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • عمران خان  کہتے ہیں کہ ملک بھی اُن کا ہے اور فوج بھی، ادارے کا سیاست میں کردار نہیں ہونا چاہیے، علی محمد خان
  • ایک ذہنی مریض کا بیانیہ قومی سلامتی کیلئے خطرہ بن چکا، ترجمان پاک فوج
  • پاکستان میں انڈس ڈولفن کے تحفظ کے لیے نئی حکمتِ عملی کی تیاری
  • آسام میں نیلی کا قتل عام اور کشمیر کی سیاست
  • ملک میں اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ رابطے استوار کیے بغیر سیاست نہیں کی جاسکتی،بیرسٹر سیف
  • ملک میں اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ رابطے استوار کیے بغیر سیاست نہیں کی جا سکتی: بیرسٹر سیف
  • مودی اور پیوٹن ملاقات: عالمی صف بندی میں بھارت کی نئی حکمتِ عملی
  • مودی اور ٹرمپ کی گلے ملنے کی حکمتِ عملی سرد خانے میں ہے، جے رام رمیش
  • جن لوگوں کا سیاست میں کام نہیں، وہ پھر بھی مداخلت کررہے ہیں، سہیل آفریدی
  • ’’ مجھ سے جو ہوسکا‘‘