تنخواہ دار طبقے سے کتنا ٹیکس لیا گیا؟ اہم تفصیلات سامنے آگئیں
اشاعت کی تاریخ: 21st, October 2025 GMT
ویب ڈیسک: تنخواہ دار طبقے نے رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی (جولائی تا ستمبر) میں قومی خزانے میں 130 ارب روپے کا ٹیکس جمع کرایا ہے جو کہ تاجروں، تھوک فروشوں اور برآمد کنندگان کی مجموعی ادائیگی سے دگنا ہے۔
رواں سال کی پہلی سہ ماہی میں تنخواہ داروں سے 130 ارب روپے کی وصولی ہوئی، دوسری جانب جائیدادوں کے انتقال 60 ارب، برآمدکنندگان سے 45 ارب ، تھوک فروشوں سے 14.
قتل میں ملوث اشتہاری ملزم سعودی عرب سے گرفتار
اس طرح قومی خزانے میں تنخواہ داروں کی جانب سے ڈالے جانے والا یہ حصہ کہ تاجروں، تھوک فروشوں اور برآمد کنندگان کی مجموعی ادائیگی سے زیادہ ،برآمد کنندگان کے مقابلے میں تین گنا اور ریٹیل و ہول سیل سیکٹر کے مقابلے میں پانچ گنا زیادہ ہے۔تنخواہ دارطبقے نے پچھلے سال 545ارب ٹیکس دیا۔
رواں برس رواں برس ہدف600 ارب روپےہے، برآمد کنندگان، تھوک و پرچون فروش اور پراپرٹی ٹائیکونزکی ٹیکس ادائیگی تنخواہ دار طبقے کے مقابلے میں نہایت کم ہے، جس سے ٹیکس نظام میں انصاف اور مساوات کے سوالات جنم لیتے ہیں۔
علی ظفر کو امریکا میں ’کلچرل آئیکون ایوارڈ‘ سے نواز دیا گیا
جائیداد کی خریداری پر 236K کے تحت ایف بی آر نے 24 ارب روپے جمع کیے، جو پچھلے سال کی اسی مدت میں 18 ارب روپے تھے، ایف بی آر نے تنخواہ دار طبقے سے 130 ارب روپے کا ٹیکس وصول کیا، حالانکہ حکومت نے مالی سال 2025-26 کے بجٹ میں چند درجہ بندیوں میں معمولی کمی کی تھی۔
گزشتہ مالی سال کی اسی مدت میں اس طبقے سے 110 ارب روپے جمع ہوئے تھے۔ پہلی سہ ماہی میں تنخواہ دار طبقے کی ٹیکس ادائیگی برآمد کنندگان کے مقابلے میں تین گنا اور ریٹیل و ہول سیل سیکٹر کے مقابلے میں پانچ گنا زیادہ رہی۔
پریکٹس میں آنکھ پر گیند لگی، ڈاکٹر نے کہا کئی ماہ کرکٹ نہیں کھیل سکوں گا؛ آصف آفریدی
ایف بی آر کے اعداد و شمار کے مطابق جائیداد کی فروخت پر 236C کے تحت 42 ارب روپے حاصل کیے گئے، جو پچھلے سال کے 23 ارب روپے سے نمایاں طور پر زیادہ ہیں۔
بجٹ 2025-26 میں جائیداد کی فروخت پر ٹیکس کی شرح بڑھا کر 4.5 فیصد کر دی گئی تھی، اگر لین دین کی مالیت 50 ملین روپے سے کم ہو۔ جائیداد کی خریداری پر 236K کے تحت ایف بی آر نے 24 ارب روپے جمع کیے، جو پچھلے سال کی اسی مدت میں 18 ارب روپے تھے۔
ملک بھر کے ائیرپورٹس پر آٹومیٹڈ ٹیلر مشینوں کی تنصیب کا فیصلہ
خریداری پر ٹیکس کی شرح 1.5 فیصد مقرر کی گئی ہے جہاں منصفانہ مارکیٹ ویلیو 50 ملین روپے سے کم ہو۔ اگر خریدار ایکٹو ٹیکس دہندگان کی فہرست (ATL) میں شامل نہ ہو تو ٹیکس کی شرح 10.5 فیصد ہوگی، جبکہ اگر وہ مقررہ تاریخ کے بعد ریٹرن فائل کرے تو شرح 4.5 فیصد ہوگی۔
مجموعی طور پر، جائیداد کی خرید و فروخت سے ایف بی آر نے رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں 60 ارب روپے جمع کیے، جو گزشتہ سال کی 45 ارب روپے کی وصولی سے زیادہ ہیں۔
ملک کی صنعتی ترقی گھریلو، چھوٹے اور درمیانے پیمانے کی صنعتوں کی ترقی سے مشروط ہے؛ وزیراعظم
برآمد کنندگان سے انکم ٹیکس سیکشن 154 اور 147 (6C) کے تحت 45 ارب روپے وصول کیے گئے، جو گزشتہ سال 43 ارب روپے تھے۔ برآمدات پر فی الحال 1 فیصد ٹیکس سیکشن 154 کے تحت اور مزید 1 فیصد سیکشن 147 (6C) کے تحت لاگو ہے۔
ذریعہ: City 42
کلیدی لفظ: تنخواہ دار طبقے برا مد کنندگان کے مقابلے میں پہلی سہ ماہی ارب روپے جمع ایف بی ا ر نے جائیداد کی پچھلے سال مالی سال سال کی کے تحت
پڑھیں:
آبادی میں ہر سال نیوزی لینڈ کے برابر اضافہ ہو رہا، چیلنج سے نمٹنے کیلئے ہر طبقے کو کردار ادا کرنا ہو گا: عطا تارڑ
اسلام آباد (این این آئی+اپنے سٹاف رپورٹر سے)وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطاء اللہ تارڑ نے آبادی میں تیزی سے اضافے کو تشویشناک قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کی آبادی میں ہر سال نیوزی لینڈ کی آبادی کے برابر اضافہ ہو رہا ہے، بڑھتی آبادی کی وجہ سے صحت، تعلیم اور دیگر شعبوں میں چیلنجز سامنے آ رہے ہیں جبکہ معیشت اور بنیادی سہولیات پر بھی اس کا بوجھ بڑھ رہا ہے، آبادی کے چیلنج سے نمٹنے کے لئے معاشرے کے ہر طبقے کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ مقامی ہوٹل میں ’’دی پاکستان پاپولیشن سمٹ‘‘ سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ ہمیں یہ احساس کرنا ہوگا کہ آبادی میں اضافہ ایک بڑا سنگین مسئلہ ہے، پاکستان کی آبادی میں ہر سال نیوزی لینڈ کی آبادی کے برابر اضافہ ہو رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آبادی میں اضافے سے دیگر مسائل بھی جڑے ہیں۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ بچوں میں اموات کی شرح بڑھتی جا رہی ہے، یونیسف کے اعداد و شمار کے مطابق ہزار میں سے پچاس بچے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ نوزائیدہ بچوں، زچہ و بچہ کی دیکھ بھال یا تولیدی صحت کے تناظر میں دیکھا جائے تو ہم متعدد قیمتی جانیں کھو دیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس مسئلے کا ایک اور اہم پہلو یہ ادراک ہے کہ آبادی میں اضافہ خود سنگین چیلنج ہے، وسائل کی بحث اپنی جگہ مگر زندگی کا حق بنیادی انسانی حق ہے جو اس مسئلے سے متاثر ہوتا ہے۔ اگر آبادی کے مسئلے کو تسلیم نہ کیا جائے اور اس کا احساس موجود نہ ہو تو یہ ایک بڑا المیہ ہے۔ ہمارے معاشرے میں اکثر بچوں کی ماؤں کے مسائل ثانوی حیثیت اختیار کرلیتے ہیں اور آگاہی کے فقدان کے باعث انہیں نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ اس حوالے سے آگاہی پیدا کرنا ہر طبقے کی مشترکہ ذمہ داری ہے، علما کرام، میڈیا، حکومت، قانون دان اور صحافی سب کو اس میں اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔حقوق اور ذمہ داریاں دونوں اس مسئلے سے براہ راست جڑے ہوئے ہیں۔ بڑھتی آبادی ترقی کی رفتار سست کر سکتی ہے جبکہ یہ معیشت اور بنیادی سہولیات پر بھی بوجھ ڈال رہی ہے۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ ہمارے خطے میں ورکنگ ویمن کی شرح دیگر خطوں کے مقابلے میں کم ہے، یہ معاشرتی مسئلہ ہے اسے آگاہی کے ذریعے حل کرنا ہوگا۔ آبادی کے مسئلے سے نمٹنے کے لئے ورکنگ گروپ تشکیل دینا ضروری ہے، ویمن کاکس کے پلیٹ فارم کو استعمال کرکے ایوان میں بحث کے ذریعے اس مسئلے کو اجاگر کیا جا سکتا ہے۔ وزیر اطلاعات نے کہا کہ اسلامی نظریاتی کونسل کا اس حوالے سے اقدام قابل ستائش ہے، ترقی برقرار رکھنے کے لئے متوازن آبادی ضروری ہے۔علاوہ ازیں وفاقی وزیر اطلاعات عطاء اللہ تارڑ نے’’ڈسکور پاکستان‘‘ کے زیر اہتمام ٹورزم ایوارڈز 2025ء کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان میں سیاحت کے شعبے میں سرمایہ کاری کے وسیع مواقع ہیں۔ سیاح یہاں کی خوبصورتی سے بہت متاثر ہوتے ہیں۔ پاکستان کے مثبت تشخص کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے پاس نانگا پربت، براڈ پیک جیسے خوبصورت مقامات ہیں۔ پاکستان کے پاس قدیم تہذیب گندھارا ہے۔ چولستان میں جیپ ریلی بھی ایک پرکشش کھیل ہے۔ پاکستان کے شمالی علاقوں کی قدرتی خوبصورتی دنیا کو دکھانے کی ضرورت ہے۔ عطاء اللہ تارڑ نے کہا کہ غیر ملکی سیاح پاکستانیوں کی مہمان نوازی کے مداح ہیں، مہمان نوازی ہماری شاندار روایات کا حصہ ہے، پاکستان نے سفارتی محاذ پر بہت سی کامیابیاں سمیٹی ہیں۔