امریکا میں شٹ ڈاؤن، جوہری ادارے کے 1400 ملازمین کو جبری رخصت پر بھیج دیا گیا
اشاعت کی تاریخ: 21st, October 2025 GMT
امریکا میں جاری حکومتی شٹ ڈاؤن نے جوہری سلامتی کے اہم ادارے کو مفلوج کر دیا ہے۔
امریکی میڈیا کے مطابق نیشنل نیوکلیئر سیکیورٹی ایڈمنسٹریشن (NNSA) کے تقریباً 1400 ملازمین کو بغیر تنخواہ کے جبری رخصت (فرلو) پر بھیج دیا گیا ہے، جبکہ صرف 375 ملازمین اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں۔
یہ اقدام اس وقت سامنے آیا ہے جب امریکا میں شٹ ڈاؤن چوتھے ہفتے میں داخل ہو چکا ہے، جو تاریخ کا طویل ترین حکومتی تعطل بنتا جا رہا ہے۔
امریکی محکمہ توانائی کے ترجمان بین ڈائیٹڈرچ نے تصدیق کی کہ سال 2000 میں ادارے کے قیام کے بعد پہلی بار وفاقی ملازمین کو فنڈنگ کے تعطل کے باعث فرلو پر بھیجا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ “ہم نے فنڈز کو زیادہ سے زیادہ وقت تک بڑھانے کی کوشش کی، لیکن اب یہ ممکن نہیں رہا۔”
بلٹن آف دی اٹامک سائنٹسٹس کے مطابق، امریکا کے پاس 5177 جوہری وار ہیڈز موجود ہیں جن میں سے 1770 تعینات ہیں۔ این این ایس اے جوہری ہتھیاروں کے ڈیزائن، تیاری، مرمت اور تحفظ کی ذمہ دار ہے اور 60 ہزار ٹھیکیداروں کی نگرانی کرتی ہے۔
سی این این کے مطابق، شٹ ڈاؤن کا اثر سب سے پہلے ان جوہری تنصیبات پر پڑا ہے جہاں ہتھیار تیار کیے جاتے ہیں، جن میں ٹیکساس کا پینٹیکس پلانٹ اور ٹینیسی کا Y-12 پلانٹ شامل ہیں، جنہیں اب “سیف شٹ ڈاؤن موڈ” میں ڈال دیا گیا ہے۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ڈیموکریٹس پر دباؤ بڑھاتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ریپبلکنز کے ساتھ مل کر حکومت کی فنڈنگ بحال کرنے میں تعاون کریں۔ ٹرمپ نے خبردار کیا کہ اگر ایسا نہ ہوا تو عوامی خدمات میں کٹوتی اور مزید برطرفیاں کی جائیں گی۔
سینیٹ ریپبلکنز نے ہیلتھ کیئر سبسڈی کی بحالی کے بدلے حکومت دوبارہ کھولنے کی تجویز پیش کی ہے، تاہم ڈیموکریٹس کا کہنا ہے کہ ہاؤس اسپیکر مائیک جانسن اور ٹرمپ کی منظوری کے بغیر کوئی معاہدہ ممکن نہیں۔
مائیک جانسن نے کہا کہ “حکومت جتنے دن بند رہے گی، امریکی عوام اتنے ہی زیادہ خطرے میں ہوں گے۔” انہوں نے خبردار کیا کہ اگر امریکا جوہری ہتھیاروں کی دوڑ میں اپنے حریفوں سے پیچھے رہا تو یہ ملک کی عالمی حیثیت کے لیے خطرناک ثابت ہوگا۔
.
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: شٹ ڈاؤن
پڑھیں:
زبوں حال معیشت، لاکھوں امریکیوں کا ٹرمپ کے خلاف احتجاج
ریپبلکنز اور وائٹ ہاؤس نے احتجاج کو انتہا پسندوں کا اجتماع قرار دیا ہے، لیکن مظاہرین کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے، 2600 سے زیادہ ریلیوں کی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔ اسلام ٹائمز۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی معیشت، امیگریشن اور صحت کی دیکھ بھال سمیت نئی اور ناکام پالیسیوں کے خلاف احتجاج کے لیے ملک بھر میں سڑکوں احتجاج جاری ہے۔ ’نو کنگ‘ احتجاجی تحریک کے منتظمین کو توقع ہے کہ لاکھوں امریکی شہر کی سڑکوں پر نکل کر ٹرمپ انتظامیہ کے خلاف مزید مظاہرے کریں گے۔ 50 ریاستوں میں 2500 سے زیادہ احتجاجی تقریبات کی منصوبہ بندی کی گئی ہے، جن کا اہتمام 200 سے زیادہ ترقی پسند گروپوں کے اتحاد نے کیا ہے، جس کی قیادت "ناقابل تقسیم" نامی تنظیم کرتی ہے۔ ذرائع کے مطابق واشنگٹن، ڈی سی، نیویارک، فلاڈیلفیا، شکاگو اور لاس اینجلس میں بڑے مظاہرے ہو رہے ہیں۔
ٹرمپ کے وائٹ ہاؤس میں دوبارہ واپس آنے کے بعد یہ تیسری عوامی تحریک ہے اور توقع ہے کہ یہ سب سے بڑی ہوگی۔ ایسے وقت میں کہ جب حکومتی شٹ ڈاؤن کیوجہ سے وفاقی پروگرامزاور خدمات بند ہیں۔ کانگریس اور عدالتوں کے ساتھ ٹرمپ انتظامیہ کی بات چیت کے بارے میں مظاہرین کا کہنا ہے کہ یہ ایک ایسا طریقہ ہے جس سے امریکہ آمریت کی طرف بڑھ رہا ہے۔ جیسا کہ MAGA موومنٹ کے لیے 1 ملین ڈالر کے فنڈ ریزر کے لیے روانہ ہونے سے پہلے جمعہ کو نشر ہونے والے فاکس نیوز کے ساتھ ایک انٹرویو میں صدر ٹرمپ نے کہا کہ میں بادشاہ نہیں ہوں، لیکن "وہ مجھے بادشاہ کہتے ہیں"۔
موسم بہار میں ایلون مسک کے بجٹ میں کٹوتیوں، ٹرمپ کی فوجی پریڈ کیخلاف ہونیوالے مظاہروں کے منتظمین کا کہنا ہے کہ یہ مظاہرے مزید متحد تحریک ایجاد کر رہے ہیں۔ سینیٹ کے اقلیتی رہنما چک شومر اور آزاد سینیٹر برنی سینڈرز جیسے سینیئر ڈیموکریٹس اس تحریک میں شامل ہو گئے ہیں۔ ریپبلکنز اور وائٹ ہاؤس نے احتجاج کو انتہا پسندوں کا اجتماع قرار دیا ہے، لیکن مظاہرین کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے، 2500 سے زیادہ ریلیوں کی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔ ریپبلکنز نے مظاہرین پر الزام لگاتے ہوئےامریکی سیاست کے مرکزی دھارے میں بیرونی طاقتوں کی مداخلت اورطویل حکومتی شٹ ڈاؤن کو احتجاج کی بنیادی وجہ قرار دیا ہے۔