Express News:
2025-10-21@13:00:51 GMT

خامنہ ای نے ٹرمپ کی جوہری مذاکرات کی پیشکش مسترد کر دی

اشاعت کی تاریخ: 21st, October 2025 GMT

ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے جوہری مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کی پیشکش کو سختی سے مسترد کر دیا ہے۔

خامنہ ای نے ٹرمپ کے اس دعوے کو بھی رد کر دیا کہ امریکا نے ایران کی جوہری صلاحیتوں کو تباہ کر دیا ہے، اور کہا کہ “امریکی صدر کہتے ہیں کہ انہوں نے ایران کی جوہری صنعت تباہ کر دی، بہت خوب، خواب دیکھتے رہیے!

ایرانی ریاستی میڈیا کے مطابق خامنہ ای کے یہ بیانات اس وقت سامنے آئے جب تہران اور واشنگٹن کے درمیان بالواسطہ مذاکرات کے پانچ دور مکمل ہو چکے ہیں۔ یہ مذاکرات جون میں 12 روزہ فضائی جنگ کے بعد ختم ہوئے تھے، جس میں امریکی اور اسرائیلی افواج نے ایرانی جوہری تنصیبات کو نشانہ بنایا تھا۔

خامنہ ای نے ٹرمپ کی بطور “ڈیل میکر” شہرت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ “اگر کوئی معاہدہ دباؤ اور زبردستی کے تحت ہو تو وہ ڈیل نہیں بلکہ غنڈہ گردی ہے۔”

گزشتہ ہفتے اسرائیل اور حماس کے درمیان غزہ میں جنگ بندی کے آغاز کے بعد ٹرمپ نے کہا تھا کہ اگر واشنگٹن تہران کے ساتھ امن معاہدہ کر لے تو یہ ایک بڑی کامیابی ہوگی۔ تاہم خامنہ ای نے امریکی دعوؤں کو مسترد کرتے ہوئے واضح کیا کہ ایران کے جوہری معاملات میں امریکا کی مداخلت “غلط، نامناسب اور جابرانہ” ہے۔

ایران کا مؤقف ہے کہ اس کا جوہری پروگرام پرامن توانائی کے حصول کے لیے ہے جبکہ مغربی طاقتیں تہران پر خفیہ طور پر ایٹمی ہتھیار بنانے کا الزام عائد کرتی ہیں، جسے ایران سختی سے رد کرتا ہے۔

کشیدگی میں مزید اضافہ کرتے ہوئے ایران نے اقوام متحدہ کے جوہری نگران ادارے انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی (IAEA) کے ساتھ تعاون کا معاہدہ باضابطہ طور پر ختم کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ ایران کی سپریم نیشنل سیکیورٹی کونسل کے سیکریٹری علی لاریجانی نے ریاستی میڈیا کے ذریعے اعلان کیا کہ یہ فیصلہ تہران پر مسلسل دباؤ کے جواب میں کیا گیا ہے۔

ماہرین کے مطابق ایران کا یہ اقدام عالمی سطح پر جوہری کشیدگی میں اضافے اور امریکا کے ساتھ تعلقات میں مزید تناؤ کا باعث بن سکتا ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: خامنہ ای نے کر دیا

پڑھیں:

ٹرمپ مخالف مظاہروں میں شدت

اسلام ٹائمز: "میں 1960ء کی دہائی سے احتجاج کر رہا ہوں، لیکن اس بار یہ احتجاج مختلف محسوس ہو رہا ہے۔ 1960ء کی دہائی میں ہم حقوق کو بڑھانا چاہتے تھے، لیکن اب ہماری جمہوریت، ہمارے بنیادی اصول، ہماری پریس، ہماری عدلیہ سب خطرے میں ہے۔" مظاہرین میں شریک اور شخص نے CNN کو بتایا: "ہم احتجاج کر رہے ہیں، کیونکہ ہم امریکہ سے محبت کرتے ہیں اور ہم اسے واپس لینا چاہتے ہیں،" انہوں نے امید ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ "ہم مل کر جمہوریت کو بچا سکتے ہیں۔" ڈیموکریٹک سینیٹر کرس مرفی نے واشنگٹن ڈی سی کی ریلی میں ٹرمپ کو "امریکی تاریخ کا سب سے کرپٹ صدر" قرار دیا۔ تحریر: رضا دھقانی

امریکہ کے درجنوں شہروں میں ہفتے کی شام اور آج صبح (ہفتہ کے امریکی وقت کے مطابق) "نو کنگز" کے عنوان سے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف بڑے پیمانے پر  مظاہرے ہوئے ہیں۔ ان عوامی اور مربوط مظاہروں کی دوسری لہر نے ٹرمپ کے حامیوں کو ششدر کردیا ہے۔ Axios ویب سائٹ نے امریکہ بھر میں ان مظاہروں میں حصہ لینے والوں کی تعداد 7 ملین بتائی ہے۔ یہ مظاہرے، جو واشنگٹن، ڈی سی سے لے کر نیویارک، لاس اینجلس اور چھوٹے شہروں تک پھیلے ہوئے تھے، منتظمین کے مطابق، ٹرمپ انتظامیہ کے "بڑھتے ہوئے آمریت" اور "آمرانہ اقدامات" کے خلاف سخت مخالفت کا اظہار کرنے کے لیے منعقد کیے گئے۔

مظاہروں کا بے مثال پیمانہ
"نو کنگز" اتحاد، جو 200 سے زیادہ شہری حقوق کے گروپوں اور مزدور یونینوں جیسے امریکن سول لبرٹیز یونین (ACLU) اور امریکن فیڈریشن آف ٹیچرز پر مشتمل ہے، انہوں نے اعلان کیا ہے کہ تمام 50 امریکی ریاستوں میں 2,500 سے 2,700 ریلیوں اور مارچوں کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔ منتظمین کا اندازہ ہے کہ اس دن لاکھوں لوگ سڑکوں پر نکلے، جو امریکی تاریخ میں احتجاج کے سب سے بڑے دنوں میں سے ایک سمجھا جائیگا۔

احتجاج کے مطالبات اور موضوعات
مظاہرین نے ٹرمپ انتظامیہ کی پالیسیوں اور اقدامات کی شدید مذمت کی۔
احتجاج کے اہم موضوعات 
1۔ "اقتدار پر قبضے" اور جمہوریت کیلئے خطرہ کیخلاف احتجاج: مرکزی نعرہ "امریکہ کو بادشاہ نہیں چاہیئے۔" اس سلوگن نے براہ راست ٹرمپ کی آمریت اور عدلیہ کو نظر انداز کرنے، میڈیا پر حملہ کرنے اور مقامی حکومتوں کو کنٹرول کرنے کی کوششوں کو نشانہ بنایا۔
2۔ حکومتی شٹ ڈاؤن بحران: وفاقی حکومت کا جاری شٹ ڈاؤن، جس نے بہت سے ملازمین کو کام سے باہر کر دیا ہے اور عوامی خدمات میں خلل ڈالا ہے، عدم اطمینان کی ایک بڑی وجہ تھی، جو عوامی احتجاج کا بڑا محرک ہے۔
3۔ امیگریشن پالیسیاں اور شہروں کی عسکریت پسندی: امیگریشن اور کسٹمز انفورسمنٹ (ICE) کی کارروائیوں میں توسیع اور ڈیموکریٹک آبادی والے شہروں (جیسے شکاگو اور پورٹ لینڈ) میں وفاقی فوجیوں اور نیشنل گارڈ کو تعینات کرنے کے انتظامیہ کے فیصلے نے بھی مظاہرین کو ناراض کیا ہے۔

بڑے شہر، مظاہروں کا مرکز
نیویارک سٹی میں ٹائمز اسکوائر ہزاروں لوگوں کے احتجاج کا منظر پیش کر رہا تھا۔ مظاہرین نے "بادشاہت کو نہیں" اور "ارب پتیوں سے نجات دلاو" جیسے نعروں پر مشتمل بینرز اور کتبے اٹھائے ہوئے تھے۔ معروف نعروں میں "جمہوریت کی حمایت"، "کوئی نفرت نہیں، کوئی خوف نہیں، تارکین وطن خوش آمدید!" وغیرہ شامل تھے۔ واشنگٹن ڈی سی میں، ریلیوں کا مرکز کیپٹل کے سامنے نیشنل مال پر تھا۔ بہت سے مظاہرین نے پیلے رنگ کے لباس پہن رکھے تھے، جسے  معترض منتظمین نے "عوامی طاقت اور اتحاد" کی علامت کے طور پر تجویز کیا تھا۔ شکاگو میں، گرانٹ پارک میں، میئر برینڈن جانسن نے فوجی دستوں کی تعیناتی کا تذکرہ کرتے ہوئے ہجوم سے خطاب کرتے ہوئے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا: "انہوں نے خانہ جنگی کو دہرانے کا فیصلہ کیا ہے۔ لیکن ہم یہاں ثابت قدم رہنے اور عہد کرنے کے لیے ہیں کہ ہم نہیں جھکیں گے، ہم نہیں جھکیں گے، ہم خوفزدہ نہیں ہوں گے، ہم ہتھیار نہیں ڈالیں گے۔ ہمیں اپنے شہر میں فوجی نہیں چاہیئے۔" لاس اینجلس کے علاوہ سان ڈیاگو اور سان فرانسسکو میں بھی احتجاج کیا گیا۔ کیلیفورنیا میں، مظاہروں نے مقامی مسائل پر بھی توجہ مرکوز کی، جیسے کہ انتخابی اضلاع کو تبدیل کرنے کا منصوبہ۔

احتجاج میں شریک ایک شہری کے تاثرات
"میں 1960ء کی دہائی سے احتجاج کر رہا ہوں، لیکن اس بار یہ احتجاج مختلف محسوس ہو رہا ہے۔ 1960ء کی دہائی میں ہم حقوق کو بڑھانا چاہتے تھے، لیکن اب ہماری جمہوریت، ہمارے بنیادی اصول، ہماری پریس، ہماری عدلیہ سب خطرے میں ہے۔" مظاہرین میں شریک اور شخص نے CNN کو بتایا: "ہم احتجاج کر رہے ہیں، کیونکہ ہم امریکہ سے محبت کرتے ہیں اور ہم اسے واپس لینا چاہتے ہیں،" انہوں نے امید ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ "ہم مل کر جمہوریت کو بچا سکتے ہیں۔" ڈیموکریٹک سینیٹر کرس مرفی نے واشنگٹن ڈی سی کی ریلی میں ٹرمپ کو "امریکی تاریخ کا سب سے کرپٹ صدر" قرار دیا۔ "یہ امریکی تاریخ میں احتجاج کا سب سے بڑا دن ہوگا، اس میں کوئی شک نہیں،" لیزا گلبرٹ نے جو تنظیم سازی کرنے والے گروپوں میں سے ایک رہنماء ہیں، انہوں نے کہا ہے "لوگ اس سے کہیں زیادہ باخبر ہیں، جب وہ آخری بار احتجاج کے لیے نکلے تھے۔"

وائٹ ہاؤس اور ریپبلکنز کا ردعمل
ٹرمپ انتظامیہ اور ریپبلکنز نے ریلیوں کی شدید مذمت کی۔ ایوان کے اسپیکر مائیک جانسن جو ایک ریپبلکن ہیں، انہوں نے احتجاج کو "امریکہ کے لیے نفرت انگیز ریلی" قرار دیا اور دعویٰ کیا کہ ان مظاہروں میں "دو بائیں بازو،" "سوشلسٹ" اور "مارکسسٹ" موجود تھے۔ اس کے برعکس، سینیٹر برنی سینڈرز، جو ایک آزاد اور جمہوری حامی ہیں، انہوں نے فیس بک پر لکھا: "یہ امریکہ سے محبت کی ریلی ہے۔ اس ملک کے لاکھوں لوگوں کی ریلی جو ہمارے آئین پر یقین رکھتے ہیں، جو امریکی آزادی پر یقین رکھتے ہیں اور جو آپ کو اور ڈونلڈ ٹرمپ کو اس ملک کے حکمرانوں کو مطلق بننے کی اجازت نہیں دیں گے۔" دریں اثناء، ٹرمپ، جو ہفتے کے آخر میں فلوریڈا میں اپنی ذاتی جائیداد میں وقت گزار رہے ہیں، انہوں نے فاکس نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے "بادشاہ" کے لقب کو مسترد کرتے ہوئے کہا: " وہ مجھے بادشاہ کہتے ہیں، میں بادشاہ نہیں ہوں۔" یہ مظاہرہ، ٹرمپ کے دوبارہ منتخب ہونے کے بعد "No to the Monarchy" اتحاد کی طرف سے ہوا، جو ٹرمپ کے  خلاف دوسرا بڑا احتجاج ہے، یہ مخالفین کے وسیع تر متحرک ہونے کی نمائندگی کرتا ہے، جو یہ سمجھتے ہیں کہ گہرے سیاسی تناؤ اور حکومتی شٹ ڈاؤن کے درمیان امریکی جمہوریت کا مستقبل شدید خطرے میں ہے۔

متعلقہ مضامین

  • ’خواب دیکھتے رہو!‘ ایران کے سپریم لیڈر خامنہ ای کا ٹرمپ کے دعوے پر دلچسپ ردعمل
  • ایرانی سپریم لیڈر نے ٹرمپ کی مذاکرات کی بحالی کی پیشکش مسترد کردی
  • خواب دیکھتے رہو: آیت اللہ علی خامنہ ای کا ڈونلڈ ٹرمپ کے بیان پر ردعمل
  • آیت اللہ خامنہ ای نے امریکی مذاکراتی پیشکش مسترد کر دی
  • اکشے کمار کے ساتھ فلم کی پیشکش کیوں مسترد کی؟ مدیحہ شاہ کا حیران کن انکشاف
  • ٹرمپ نے اے آئی ویڈیو میں خود کو بادشاہ بنا کر امریکی مظاہرین پر ’کچرا‘ برسا دیا
  • جوہری پروگرام کسی عالمی معاہدے کے پابند نہیں ہیں، ایران کا دوٹوک اعلان
  • ٹرمپ مخالف مظاہروں میں شدت
  • JCPOA ختم ہوگیا، 10 سال بعد ایران کو کیا ملا؟